Tuesday, 23 June 2015

نبی کریم ﷺ سے مدد طلب کرنے صحیح اسلام تصور قرآن و حدیث پاک کی روشنی میں وقت نکال کر ضرور پڑھئیے جزاکم اللہ خیرا


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق اِستعانت و اِستمداد، اِستغاثہ و سوال اور طلب و نداء میں اللہ ربّ العزّت ہی کی ذات مُعین و مُغیث اور حقیقی مددگار ہے جیسا کہ اﷲ تعالی نے بارہا اِرشاد فرمایا کہ مجھ سے طلب کرو میں تمہیں دوں گا۔ پس اگر کوئی شخص قرآنِ مجید کی اِس بنیادی تعلیم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھے کہ اِستغاثہ و اِستعانت اور نداء و طلب میں کوئی مخلوق اللہ ربّ العزت کے اِذن کے بغیر مستقل بنفسہ نفع و ضرر کی مالک ہے تو یہ یقیناًشرک ہے۔ خواہ وہ مدد طلب کرنا عالمِ اَسباب کے تحت ہو یا مافوق الاسباب، دونوں صورتوں میں ایسا شخص مشرک قرار پائے گا۔ جبکہ اِس کے برعکس دُوسری صورت میں اگر مُستعان و مجیبِ حقیقی اللہ تعالی کو مان کر بندہ مجازاً کسی کام کے لئے دوسرے بندے سے رُجوع کرے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر سے علاج کروائے یا دَم، درُود اور دُعا کے لئے اﷲ تعالیٰ کے کسی نیک اور صالح بندے کے پاس جائے تو یہ ہرگز شِرک نہیں بلکہ اِس کا یہ فعل معاہدۂ عمرانی کے تحت اِختیارِ اَسباب کے ضمن میں آئے گا۔ اللہ تعالی نے اپنے کلامِ مجید میں بارہا مؤمنین کو آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اِرشادِ خداوندی ہے :

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاثْمِ وَ الْعُدْوَانِ.

(المائده، 5 : 2)

اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

مذکورہ آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ جمیع مسلمانوں کو ایک دُوسرے کی مدد اور تعاونِ باہمی کا حکم فرما رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کی مدد تبھی ممکن ہے جب بعض پس ماندہ حال مؤمنین خوشحال مؤمنین سے مدد مانگیں۔ واضح رہے کہ یہ اِستمداد و اِستغاثہ مادّی معاملات میں بھی زیرحکمِ خداوندی ہے اور رُوحانی معاملات میں بھی، اِسی طرح ماتحت الاسباب معاملات بھی اِس میں شامل ہیں اور مافوق الاسباب بھی، کیونکہ اللہ ربّ العزت نے تعاون (باہمی اِمداد کے نظام) کا حکم علیٰ الاطلاق دیا ہے اور قاعدہ ہے کہ قرانِ مجید کے مطلق کو کسی خبرِ واحد یا قیاس کے ذریعے سے مقیّد نہیں کیا جا سکتا۔ اِس موقع پر اگر کوئی شخص اِس ’’تعاون‘‘ (Mutual Cooperation) کو اَسباب کی شرط سے مقید کرنا چاہے تو وہ یقیناً خلافِ منشائے ربانی فعل میں مصروف متصوّر ہو گا۔ اِسلامی اَحکام و تعلیمات میں تعاونِ باہمی اور ایک دُوسرے کی مدد کو پہنچنے کا حکم آیاتِ طیبات اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت ملتا ہے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص سے مدد طلب کی جائے اُسے چاہیئے کہ وہ مدد کرے اور جس سے اِستغاثہ کیا جائے وہ مدد کو پہنچے اور جسے نداء دی جائے وہ اُس نداء کو قبول کرے اور دُکھی اِنسانیت کے کام آئے۔

اِستغاثہ کے جواز میں بے شمار مواقع پر احکامِ قرآنی موجود ہیں۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ اُسی طرح جائز ہے جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ایک قبطی نے کسی ظالم کے خلاف اِستغاثہ کیا توآپ نے اُس کی مدد فرمائی۔ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون مؤحد ہو سکتا ہے جن کی زِندگی کا مقصد ہی پیغامِ توحید کو سارے عالم میں پھیلانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قبطی اور نبی علیہ السلام دونوں میں سے کسی ایک کو بھی فعلِ اِستغاثہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے مشرک قرار نہیں دیا۔ اِرشادِ باری تعالی ہے :

فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِه عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه.

تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اُس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا، موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی۔

(القصص‘ 28 : 15)

قرآنِ مجید میں اِس کے علاوہ بھی بہت سے مقامات پر گزشتہ اُمتوں کے مؤمنین کا اپنے انبیاء اور صالحینِ اُمت سے اِستغاثہ کرنے کا بیان آیا ہے۔ اُمتِ مصطفوی میں بھی یہ حکم اور صحابۂ کرام کا اِس پر عمل جاری و ساری رہا۔ بے شمار احادیثِ مبارکہ اِعانتِ محتاج اور آپس میں ایک دوسرے کی پریشانیاں اور غم دُور کرنے کے باب میں وارِد ہوئی ہیں۔
اِستغاثہ۔ ۔ ۔ احادیثِ مبارکہ اور عملِ صحابہ کی روشنی میں

لمحاتِ شکستہ میں کسی کا سہارا بننا اور ساعتِ کرب میں کسی کا شریکِ غم ہونا مراسمِ محبت کی اُستواری سے عبارت ہے۔ اِسلام کا پیغام اَمن و سلامتی کا پیغام ہے اور تاجدارِ انبیائ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ محبت کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ طائف کے اَوباش لڑکوں کی سنگ باری میں بھی لبِ اَطہر پر دُعا کے پھول کھلتے ہیں۔ خون کے پیاسوں میں وفائیں تقسیم کرنے اور عفو و درگزر کے موتی لُٹانے والے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِین دراصل محبت ہی کی تفسیر کا نام ہے۔ دُکھ درد کے زائل کرانے اور حاجات کی تکمیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر زیادہ بڑا وسیلہ و ذریعہ اور کون ہو سکتا ہے! قیامت کے دن جب زمانے کی سب سے بڑی سختی لوگوں پر مسلط ہو گی، ہر کوئی نفسا نفسی پکار رہا ہو گا، لوگ اَنبیاء و صلحاء کے پاس اِستغاثہ اور طلبِ شفاعت کی غرض سے حاضر ہوں گے، مگر اُس دِن سب انبیاء علیہم السلام اِنکار کرتے چلے جائیں گے۔ تآنکہ لوگ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر اِستغاثہ کریں گے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اُس وقت کی سختی کو زائل فرمائے گا۔ حدیثِ مبارکہ میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ سیدنا آدم علیہ السلام سے ’’اِستغاثہ‘‘ کریں گے پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اور پھر خاتم المرسلین سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔ حدیث کے الفاظ یوں ہیں :

اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَ، ثُمَّ بِموسیٰ، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم.

لوگ آدم علیہ السلام سے اِستغاثہ کریں گے پھر موسیٰ علیہ السلام سے اور آخر میں (تاجدارِ انبیاء) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔

(صحيح البخاری، کتاب الزکوة، 1 : 199)

صحیح بخاری میں لفظِ اِستغاثہ کے ساتھ اِس حدیث مبارکہ کی رِوایت سے لفظ اِستغاثہ کے اِس معنی میں اِستعمال اور عامۃ الناس کے صلحاء و انبیاء سے اِستغاثہ کرنے کا جواز مہیا ہو رہا ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ جس اِستغاثہ کی اُخروی زندگی میں اِجازت ہے اور جو اِستغاثہ و اِستعانت موجودہ دُنیوی زندگی میں زِندہ اَفراد سے جائز ہے، برزخی حیات میں اُسی اِستغاثہ کے جواز پر شِرک کا بُہتان چہ معنی دارد۔ ۔ ۔ ؟

اَحادیثِ مبارکہ میں جا بجا مذکور ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کرتے تھے اور اپنے اَحوالِ فقر، مرض، مصیبت، حاجت، قرض اور عجز وغیرہ کو بیان کر کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ مان کر اُن مسائلِ حیات کا اِزالہ چاہتے تھے۔ اِس عمل میں اُن کا پنہاں عقیدہ یہی تھا کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض ایک واسطہ اور نفع وضرر میں سبب ہیں اور حقیقی فاعل تو صرف اللہ ربّ العزت ہی کی ذات ہے۔

No comments:

Post a Comment

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی...