يا حمزةُ! يا عمَّ رسولِ اﷲ! و أسدَ اﷲ! و أسدَ رسوله! ياحمزةُ!
يا فاعلَ الخيراتِ!
ياحمزةُ! ياکاشفَ الکُرُباتِ! ياذابّ عن وجه رسولِ اﷲ!
(المواهب اللدنية، 1 : 212)
اے حمزہ رضی اللہ عنہ ! اے رسول اللہ کے چچا! اے اللہ کے شیر! اے اﷲ کے رسول کے شیر! اے حمزہ!
اے بھلائی کے کام کرنے والے! اے تکالیف کو دور کرنے والے! اے رسول اللہ کے چہرۂ اَنور
کی حفاظت و حمایت کرنے والے!
اِس حدیثِ مبارکہ میں ایک فوت شدہ شخص کے لئے حرفِ ’’يَا‘‘ کے ساتھ نداء کے جواز
کے ساتھ ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ’’يَا کَاشِفَ الْکُرُبَاتِ‘‘ بھی خاص طور پر قابلِ
غور ہیں۔ اِن الفاظ کی ادائیگی میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صالحین سے اِستغاثہ کو نہ صرف
جائز قرار دیا ہے بلکہ جس سے اِستغاثہ کیا جائے اُس کا مدد کو پہنچنا بھی جائز گردانا
ہے، تبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو ’’غم کو دُور کرنے والے‘‘ کے پسندیدہ الفاظ
سے پکارا۔ یہاں سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا مُستغاث ہونا مجازی معنی میں ہے کیونکہ حقیقی مُستغاث
و مُستعان تو محض اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے۔ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیدنا امیر حمزہ
رضی اللہ عنہ کو مُستغاث
قرار دینا اور بعد از وفات اُنہیں حرفِ ’’يَا‘‘ کے ساتھ بلانا ظاہر کرتا ہے کہ اِستغاثہ
کے سلسلے میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم عین شرعی ہے ورنہ فعلِ رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اِس سے قطعاً مطابقت
نہ رکھتا۔
No comments:
Post a Comment