Tuesday, 23 June 2015

فتحِ مکہ اور قرآن کریم کی پیشین گوئی


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
6 ہجری میں جب مسلمان صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو ان میں قدرے مایوسی پائی جاتی تھی۔ وہ اس صلح اور اس کی شرائط کو اپنے لئے شکست کا اعتراف سمجھ رہے تھے یہاں تک کہ بعض نے صاف لفظوں میں اس خیال کا اظہار بھی کر دیا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اطمینانِ قلب کے لئے قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کا اعلان فرمایا :

اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِيْناًo

الفتح، 48 : 1

‘‘(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّ و جہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے)۔’’

اس آیت میں یہ اشارہ تھا کہ حدیبیہ کی صلح کو شکست نہ سمجھو بلکہ یہ درحقیقت پیش خیمہ ہے ایک عظیم الشان فتح کا، جو فتح مکہ کی صورت میں اہلِ ایمان کو حاصل ہونے والی ہے چنانچہ اسی سورت میں فرمایا گیا :

لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ .

الفتح، 48 : 27

‘‘بیشک اﷲ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو حقیقت کے عین مطابق سچا خواب دکھایا تھا کہ تم لوگ، اگر اﷲ نے چاہا تو ضرور بالضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، (کچھ) اپنے سر منڈوائے ہوئے اور (کچھ) بال کتروائے ہوئے (اس حال میں کہ) تم خوفزدہ نہیں ہو گے۔’’

بالآخر اس پیشین گوئی کا ظہور فتحِ مکہ کی صورت میں 8ھ میں ہوا۔ اس طرح وہ جو صلحِ حدیبہ کی بظاہرمایوس کن شرائط سے دل گرفتہ تھے اُنہوں نے اس صلح نامے سے حاصل ہونے والی کامیابی کو بدل و جاں تسلیم کر لیا۔ کفارِ مکہ اس معاہدے سے روگرداں ہو گئے جس کا خمیازہ انہیں کئی صورتوں میں بھگتنا پڑا۔

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...