Tuesday, 23 June 2015

استغاثہ و استعانت پر اعتراض نمبر 1 ۔ اِستغاثہ فی نفسہِ عبادت ہے لہذا یہ شرک ھے


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ اِستغاثہ بالغیر کو شِرک قرار دینے کے لئے سب سے پہلے اِسے داخلِ عبادت کر کے کہا جاتا ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت شِرک ہے لہٰذا اللہ ربّ العزّت کے سوا کسی اور سے اِستعانت و اِستغاثہ بھی شِرک ہے۔ مذکورہ مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے کئی آیات بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاً اِرشادِ ربانی ہے :

1. أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ.

بھلا مضطرب کی التجاء کو جب وہ اسے پکارتا ہے تو کون سنتا ہے اور (کون اس کے )دکھ درد کو دور کرتا ہے!

(النمل، 27 : 62)

2. وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَO أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَO

اور جنہیں یہ (مشرک) لوگ اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیںo (وہ) مردے ہیں زندہ نہیں اور انہیں (اتنا بھی) شعور نہیں کہ (لوگ) کب اٹھائے جائیں گےo

(النحل، 16 : 20، 21)

3. وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍO إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍO

اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گھٹلی کے ایک چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتےo اگر تم اُنہیں پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار نہ سن سکیں گے۔ اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو تمہاری فریاد کو نہ پہنچ سکیں گے اور قیامت کے دن تمہارے شریک ٹھہرانے سے انکار کردیں گے اور باخبر کی طرح تمہیں کوئی خبر نہ دے گاo

(فاطر : 35 : 13، 14)

4. وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَO

اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسے (معبودوں) کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کو نہ پہنچ سکیں بلکہ ان کو انکے پکارنے کی خبر تک نہ ہوo

(احقاف، 46 : 5)

5. يَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ.

وہ (شخص) اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچا سکے اور نہ ہی اسے نفع پہنچا سکے۔

(الحج، 22 : 12)

6. وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُكَ وَلاَ يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَO وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ.

اور نہ اللہ کے سوا ان (بتوں) کی عبادت کریں جو نہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، پھر اگر تم نے ایسا کیا تو بے شک تم اس وقت ظالموں میں سے ہوجاؤگےo اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں۔

(يونس، 10 : 106، 107)

7. يَدْعُواْ لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ.

وہ اسے پوجتا ہے جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔

(الحج، 22 : 13)

مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ میں غیراﷲ کو پکارنے والوں کی مذمّت کی گئی ہے۔ اِسی چیز کو بنیاد بنا کر یہ اِستدلال کیا جاتا ہے کہ مدد چاہنا اور پکارنا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے لہٰذا کسی اور سے کیا گیا اِستغاثہ صفاتِ اُلوہیت میں شِرک تصور ہوگا۔ یہ اِستنباط بذاتِ خود غلط ہے۔ ذیل میں ہم اِس تصوّر کو واضح کریں گے۔

ہر اِستغاثہ عبادت نہیں ہوتا

مذکورہ آیاتِ مبارکہ میں لفظِ ’’دُعا ‘‘ عبادت کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظِ ’’دُعا ‘‘ ہر جگہ عبادت کے معنی میں مستعمل نہیں ورنہ بھٹکے ہوئے اَذہان تو (معاذ اﷲ) انبیاء علیھم السلام اور خود ذاتِ باری تعالیٰ پر بھی بہتان تراشی سے باز نہیں آتے اور دُور کی کوڑی لا کر اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کی سعیء ناکام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مثلاً قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے :

1. فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ.

تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیتے ہیں۔

(آل عمران، 3 : 61)

2. فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا.

چنانچہ ان (لڑکیوں) میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی (اور) کہا میرے باپ آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہماری خاطر (ہماری بکریوں کو) پانی پلایا تھا اس کا بدلہ دیں۔

(القصص، 28 : 25)

3. ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا.

پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو، پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔

(البقره، 2 : 260)

4. يَوْمَ نَدْعُواْ كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ.

جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔

(الاسراء، 17 : 71)

اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنھم اِمامِ زماں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

بِإِمَامِ زَمَانِهِمُ الَّذِیْ دَعَاهُمْ فِیْ الدُّنْيَا إِلَی ضَلَالَةٍ أوْ هُديً.

اِس سے وہ اِمامِ زماں مُراد ہے جس کی دَعوت پر دُنیا میں لوگ چلے ہوں، خواہ وہ (دَعوت) گمراہی کی طرف ہو یا ہدایت کی طرف۔

(تفسير معالم التنزيل، 3 : 126)

مُراد یہ ہے کہ ہرقوم اپنے سردار کے پاس جمع ہوگی جس کے حکم پر دُنیا میں چلتی رہی اور انہیں اﷲ ربّ العزّت خود اُسی کے نام سے پکارے گا کہ ’’اَے فُلاں کے متّبعین! تمہارا اِنجام اس کے ساتھ ہے‘‘۔

اَلغرض مذکورۃُ الصّدر آیاتِ بینات میں لفظِ دُعا کا معنی عبادت کرنے سے بذاتِ خود شِرک کا راستہ کھلتا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر دُعا کی نسبت کافر اور مشرک کی طرف کریں تو اس کا معنی عبادت ہوگا ورنہ سیاق و سباق سے معنی بدلتا رہے گا۔ اِستغاثہ کے عدم جواز میں جو آیات بطور اِستدلال پیش کی جاتی ہیں، اُن میں دُعا کی نسبت کفار و مشرکین کی طرف ہے لہٰذا وہاں معنی عبادت ہی کیا جائے گا لیکن اُن سے اِستغاثہ کا عدم جواز بالکل ثابت نہیں ہوتا، اِس لئے کہ جن مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے اِستغاثہ کیا جاتا ہے اُنہیں قطعاً قابلِ عبادت نہیں سمجھا جاتا۔

No comments:

Post a Comment

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی...