Tuesday, 23 June 2015

استغاثہ و استعانت پر اعتراض نمبر 3 اِستغاثہ بالغیر میں سلطۂ غیبیہ کا شائبہ ہے لہٰذا یہ شرک ھے ۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ اِستغاثہ بالغیر کو شِرک قرار دینے کی تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ دُور سے مدد مانگنا مافوق الاسباب ہے، اور جس غیراﷲ سے مدد مانگی جارہی ہے اِس عمل سے اُس کے لئے سلطۂ غیبیہ۔۔۔ یعنی غیبی قوّت و اِقتدار۔۔۔ کا اِقرار لازِم آتا ہے۔ جب آپ نے اُسے دُور سے پکارا تو گویا آپ کا یہ عقیدہ و نظریہ ہے کہ اُس کے پاس غیبی اقتدارِ اعلیٰ اور تصرّفِ کاملہ حاصل ہے اور اس طرح کا اِعتقاد رکھنا شِرک ہے۔
خودساختہ اِعتقادی فتنے کا ردّ

خودساختہ علمی مغالطے اِس مسئلہ کو مزید اُلجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ خیال کرنا سراسر غلط ہے کیونکہ جس چیز کو یہاں سلطۂ غیبیہ کا نام دیا جا رہا ہے دراصل وہ رُوحانی اِستعداد ہے جو اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب و مکرّم بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اللہ ربّ العزّت کی عطا کردہ اِس رُوحانی قوت و تصرّف کو سلطۂ غیبیہ (مطلق قوّتِ مقتدرہ) کا نام دے کر بہت بڑا اِعتقادی فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ سلطۂ غیبیہ کی حقیقت وہ ہرگز نہیں جو عام طور پر ردِّاِستغاثہ کے ضمن میں بیان کی جاتی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اِس سطح کا سلطہ تو آج ہر عام اِنسان حتی کہ غیرمسلموں کو بھی بخوبی حاصل ہے۔ سلطۂ غیبیہ کے ضمن میں ہم دورِحاضر کی سائنسی ترقی سے اِنٹرنیٹ کی مِثال دینا مناسب خیال کریں گے۔ مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل وِیلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ کمپیوٹرز کے نیٹ ورک پر مُشتمل اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی بند کمرے میں بیٹھ کر اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِنٹرنیٹ اور اُس سے منسلک بے شمار کمپیوٹرز کے بے حِس مشینی آلات سلطۂ غیبیہ کے حامل ہیں؟؟؟ مسئلہ فقط یہ ہے کہ خلطِ مبحث کے عادی اَذہان اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ آلات کے اِستعمال سے حاصل ہونے والے نتائج کو تو سلطۂ غیبیہ اور شِرک قرار نہیں دیتے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ رُوحانی قوت کا اِنکار کرنے کیلئے بے بنیاد طریقے سے اُسے سلطۂ غیبیہ قرار دے کر شِرک ثابت کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ سائنسی ترقی کی بدولت حاصل ہونے والے نتائج کی صورت میں ناممکن اشیاء کا ممکن ہوجانا اور اِنٹرنیٹ کی مدد سے دُنیا کے کسی بھی کونے میں رُونما ہونے والے واقعے سے اُسی لمحے میں پوری دُنیا کا آگاہ ہو سکنا، اگر توحید کے منافی نہیں تو رُوحانی اَسباب کے اِمکان کا اِظہار بھی شِرک کو ہرگز ہرگز دعوت نہیں دیتا۔ کفار و مُشرکین کی اِیجادات کی بدولت حاصل ہونے والا سلطہ اگر مُوجبِ شِرک نہیں تو اﷲ ربّ العزّت کی عطا سے حاصل ہونے والے رُوحانی تصرّفات کی اَنبیائے کرام اور صلحائے عِظام کی طرف نسبت کرنا کیونکر شِرک کہلا سکتا ہے؟ آج کی مادّی ترقی کے تصرّفات اپنی جگہ بجا مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات اُن کی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل سے بدرجہا آگے ہیں۔ اسی رُوحانی ترقی کی بدولت سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ

ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔
ایک وہم کا اِزالہ

یہاں کچھ لوگ اِس وہم میں بھی پائے جاتے ہیں کہ جب دُور سے کسی کو کام کہا جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ پُکارے جانے والے کو دُور سے معلوم ہے کہ فلاں پکارنے والا ہے اور وہ پکارنے والے کو جانتا ہے۔ اِس بناء پر اس میں علمِ غیب بھی پایا گیا اور چونکہ علمِ غیب میں اِقتدار اعلیٰ بھی ہے تو اِن دو چیزوں کی وجہ سے یہ شِرک اور ناجائز ہے۔ اِس خلطِ مبحث کا جواب بالکل سادہ ہے کہ جہاں ہم آج کی سائنسی ترقی سے حاصل ہونے والے فوائد میں ایسا علم اِنسانیت کو عطا ہوتا دیکھ رہے ہیں وہاں کلامِ مجید فرقانِ حمید میں بھی یہ دونوں پہلو غیراﷲ کے لئے ثابت ہیں، مگر اِس کے باوجود وہ شِرک سے آلودہ ہونے کی بجائے ربّ کا کلام ہے، یعنی اس میں دُور سے جاننا اور کام کرنے پر قدرت دونوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورۂ نمل میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں کے ساتھ ہونے والے مکالمے میں اِرشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَO

اے سردارو! تم میں سے کون ہے کہ اُس کا تخت میرے سامنے لے آئے قبل اِس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے سامنے حاضر ہوo

(النمل، 27 : 38)

ملکۂ بلقیس کا تخت سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار سے 900میل کی مسافت پر پڑا تھا جسے درباریوں میں سے کسی نے دیکھا تک نہ تھا۔ اِس کے باوجود کسی نے آپ علیہ السلام سے یہ نہیں پوچھا کہ اے سلیمان علیک السلام! تخت تو سینکڑوں میل کی مسافت پر پردۂ غیب میں پڑا ہے اور آپ ہیں کہ اُس کی حاضریء دربار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ ہماری نسبت یہ اِعتقاد رکھتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھے دُور کی شے کے بارے میں علم رکھتے ہیں؟ اور ہمیں علمِ غیب حاصل ہے؟
کیا مخلوق کو دُور کا علم ہوسکتا ہے؟

اگر سلیمان علیہ السلام یہ عقیدہ رکھتے کہ 900میل کی مسافت پر پڑے ہوئے تخت کے بارے میں اُن کے درباریوں میں سے کسی کو بھی یہ علم نہیں کہ وہ کہاں پڑا ہے، اور اُسے کس طرح اِتنی دُور پہنچ کر لایا جا سکتا ہے؟ تو آپ اُن سے کبھی یہ نہ پوچھتے کہ کون لائے گا؟ بلکہ باری تعالیٰ سے عرض کرتے کہ اے اﷲ! ملکۂ بلقیس کا تخت میرے پاس پہنچا دے کیونکہ تو ہی قادرِ مطلق ہے۔

مختصر یہ کہ ہمیں قرآنِ مجید سے یہ سبق ملتا ہے کہ دُور کی شے کے علم کا پایا جانا شِرک کے ضمن میں نہیں آتا۔ پس اگر سلیمان علیہ السلام یہ خیال کرلیں اور اِس بنیاد پر درباریوں کو تخت حاضر کرنے کا حکم فرما دیں اور اس کے باوجود مُشرک نہ ہوں اور اگر دورِ حاضر کے مسلمان یہ اِعتقاد رکھ لیں کہ داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنھم، غوثِ اعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنھم، حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ، اور دیگر اولیائے کاملین اور صلحائے عِظام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہمیں جانتے ہیں اور ہمارے بگڑے حالات سنوارنے پر منجانب اللہ قدرت رکھتے ہیں، تو یہ کیسے شِرک ہوگا؟۔۔۔۔۔۔ جن وُجوہ کی بناء پرسیدنا سلیمان علیہ السلام کے معاملہ میں شِرک ثابت نہ ہو سکا، اسی سبب سے یہاں بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اَولیائے کرام کو بھی کشف اُسی ذاتِ حق نے عطا فرمایا ہے جس نے سلیمان علیہ السلام کے درباریوں اور بالخصوص آصف برخیا کو عطا فرمایا تھا۔ قادرِ مطلق جب آج بھی وہی ہستی ہے جو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے عہدِ مبارک میں تھی تو آج بھی اَحکام اُسی طرح مرتب ہوں گے۔ دِین میں نئے نئے تصوّرات و اِعتقادات پیدا کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟

کشفِ فاروقی

اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے محبوب و مکرّم بندوں کو عطا ہونے والی رُوحانی قوت و اِستعداد کی بدولت اُن کے لئے نامعلوم اشیاء و مقامات پرپڑے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ یہ اﷲ ربّ العزّت کی خصوصی عطا پر مشتمل رُوحانی فیوضات ہی کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو براہِ راست ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنھم کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ عین اُس وقت خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھم مدینہ منوّرہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنھم کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے :

يَا سَارِيَ الْجَبَل.

اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔

(مشکوٰة المصابيح : 546)
(دلائل النبوّه لأبی نعيم : 507)
(کنزالعمال، 12 : 35788)

یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس ریڈار سسٹم تھا، نہ موبائل فون۔۔۔ کہ جس کے ذرِیعے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ فقط اﷲ ربّ العزّت کی عطا کردہ رُوحانی قوّت و اِستعداد تھی جس کی بدولت اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنھم نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنھم کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔
کشف اور علمِ غیب میں فرق

یہاں ہم ایک مغالطے کا اِزالہ بھی کرتے چلیں کہ کشف اور علمِ غیب دو جدا چیزیں ہیں۔ علمِ غیب کے برعکس کشف میں فقط کسی نامعلوم چیز سے پردہ اُٹھانے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ صرف مخلوق کے لئے ہی ممکن ہے۔ اللہ ربّ العزّت کی ذات گرامی کے لئے کشف نام کی کوئی چیز نہیں کیونکہ وہ عالم الغیب و الشھادۃ ہے۔ چونکہ اُس کے لئے کسی شے سے بھی پردہ ہے ہی نہیں لہٰذا کشف کی صورت میں پردہ اُٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشف کی نسبت اَولیاء اﷲ کی طرف ہونے سے اﷲ کے نیک اور پارسا اَفراد کے لئے وُہی شے ثابت ہو رہی ہے جو اللہ کے لئے ثابت کرنا بذاتِ خود شِرک ہے، لہٰذا ایسی شے جو اﷲ کے لئے ثابت ہونا ناممکن ہو اُس کی نسبت غیراﷲ کی طرف کر دینے میں اِحتمالِ شِرک کیسا؟؟؟ اولیاء کے لئے غیب کی اَشیاء سے پردہ ہوتا ہے اور اللہ اُن کے حجابات اُٹھا دیتا ہے۔ یہی تو عینِ توحید ہے۔ شِرک کا اِلزام تو صرف اِس صورت میں درست قرار پا سکتا ہے جب اللہ ربّ العزت کی صفات اور شانِ اُلوہیت غیراﷲ کے لئے ثابت کی جاتیں۔ زمین و آسمان اور سماوی کائنات کی تمام تر وُسعتوں میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو باری تعالیٰ سے پوشیدہ ہو۔ ہر وہ شے جو اُس کے بندوں کے لئے غیب ہے، وہ اُسے بھی بخوبی جانتا ہے اور جو عیاں ہے، وہ بھی اُس کے علم میں ہے۔ اِرشادِ ربّانی ہے :

إِنَّ اللّهَ لاَ يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِO

یقیناً اللہ پر زمین اور آسمان کی کوئی بھی چیز مخفی نہیںo

(آل عمران، 3 : 5)

اِس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں اللہ ربّ العزّت کے لئے کشف کا اِعتقاد رکھنا قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور علمِ غیب کو محدود و مقیّد کر کے رکھ دینے کے مُترادف ہے، جو یقیناً مدعائے توحید نہیں ہوسکتا، کیونکہ کشف میں ایک نہاں حقیقت کو عیاں کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے کچھ بھی نہاں نہیں۔ انبیاء و اولیاء کے لئے پردہ کا اِعتقاد تھا پس اللہ نے انہیں کشف عطا کر دیا اور حجابات کے مرتفع ہونے سے وہ دُور و نزدیک کی اَشیاء کو جاننے لگ گئے۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال مسؤل کی قدرت پر دلیل ہے

قرآنِ مجید میں بیان کئے گئے واقعۂ مذکورہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ ملکۂ بلقیس کا تخت لاؤ اور ساتھ میں شرط لگائی تھی کہ قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِين (اِس سے قبل کہ وہ میرے مطیع ہوکر میرے حضور حاضر ہوں)۔ ملکہ سبا اور اُس کے ساتھ دِیگر بہت سے لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری کے اِرادے سے چل پڑے ہیں اور مسلمان ہونے کے لئے آ رہے ہیں اور آپ تقاضا کر رہے ہیں کہ اُن کے پہنچنے سے پہلے تخت یہاں موجود ہونا چاہیئے۔

اگر حضرت سلیمان علیہ السلام غیراﷲ کے لئے دُور کی شے کو جاننے اور لا سکنے کی طاقت اور قدرت کا اِعتقاد نہ رکھتے تو وہ ہرگز ایسا سوال نہ کرتے، بلکہ درباری بھی بول پڑتے کہ اَے حضرت سلیمان علیک السلام ! مخلوق کے لئے ایسا کام سراِنجام دینا کیسے ممکن ہے؟ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں، صرف وُہی اِس ما فوق الفطرت اَمر پر قدرت رکھتا ہے۔ مگر درباریوں میں سے کسی ایک کو بھی ایسے گستاخانہ کلام کی جرات نہ ہوئی بلکہ جواب میں ایک جن اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا :

أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌO

میں اُسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بے شک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) اَمانتدار ہوںo (النمل، 27 : 39)

یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جو چیز جنوں کے لئے جائز ہو، وہ اللہ کے پیارے اور اُس کی بارگاہ میں جھکنے والے برگزیدہ اِنسانوں کے لئے کیونکر شِرک ہوسکتی ہے؟ شِرک تواُن صفات و اَوصافِ الٰہیہ کی غیر اﷲ کی طرف نسبت سے جنم لیتا ہے جو اللہ ربّ العزّت ہی کے ساتھ خاص ہوں اور اُس کے سوا کسی دُوسرے کو میسر نہ آسکیں۔

سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اُس جن کی پیشکش قبول نہ فرمائی۔ پھر اِنسانوں میں سے ایک ایسا بندہ اُٹھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ وہ صاحبانِ علم و رُوحانییّن میں سے تھا۔ اُس نے کھڑے ہوکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور یوں عرض کی :

أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي.

میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے) پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اُس (تخت) کو اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔ (النمل، 27 : 40)

مذکورہ بالا آیات میں ایک طرف ایسی مخلوق (جن) کا ذکر ہے جس کو اپنی طاقت اور قدرت پر ناز ہے، جس کے بل بوتے پر وہ کوسوں میل دُور پڑے تخت کو مجلس برخاست ہونے سے پہلے لا کر حاضرِ خدمت کرنے کا عزم ظاہر کرتا ہے اور دُوسری طرف ایک اللہ والے (اِنسان) کی شان بیان کی جارہی ہے کہ وہ اس کام کو آنکھ جھپکنے سے پہلے اِنجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے میں سیدنا سلیمان علیہ السلام پکار اُٹھتے ہیں :

لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌO

تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر اَدا کرتا ہوں یا ناشکری اور جس نے (اللہ کا) شکر اَدا کیا سو وہ اپنی ہی ذات کے فائدہ کیلئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بے شک میرا ربّ بے نیاز کرم فرمانے والا ہےo (النمل، 27 : 40)

سلطۂ غیبیہ کے وہم پر مبنی اِس اِعتراض کو بعض دفعہ یوں بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بندے سے غیر مقدور العبد شے کا طلب کرنا درست نہیں بلکہ اِستغاثہ کا عدم جواز ثابت کرنے کے لئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اَنبیاء، صلحاء اور اَولیاء سے غیر مقدورالعبد شے (ایسی چیز جو بندے کی قدرت میں نہ ہو بلکہ صرف اللہ تعالی ہی کے قبضۂ قدرت میں ہو) کا طلب کرنا شِرک ہے۔ اِس کا جواب کسی حد تک تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔ دراصل یہ خیال اُسلوبِ اِستغاثہ کو سمجھ نہ سکنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ کوئی بھی مسلمان اِستغاثہ کرتے وقت کبھی یہ عقیدہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ مُستعان و مُستغاثِ مجازی (یعنی انبیاء و اولیاء) ازخود ہماری مدد کریں گے، بلکہ ہمارے مقصودِ نظر یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری حاجت رَوائی کا سبب اور وسیلہ بنیں، جیسا کہ نابینا صحابی رضی اللہ عنھم کے واقعہ میں اور طلبِ بارش کے اِستغاثہ کے ذکر میں واضح ہو چکا ہے۔ مذکورہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے اللہ تعالی کو مختارِ کل اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات کو وسیلہ مان کر اپنی حاجت براری کے لئے اِلتجاء کی تھی اور اُس کے نتیجے میں موحّدِ اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو توحید کے رُموز سے ہم سب سے بڑھ کر آگاہ ہیں، نے اُن صحابہ کو منع کرنے اور کلماتِ شِرک کی اَدائیگی سے روکنے کی بجائے اُن کے حق میں دُعا کی جس کے صلہ میں اللہ تعالی نے اُن کا مسئلہ حل فرما دیا۔ اگر غیر مقدور العبد معاملات کا غیر اللہ سے مدد طلب کرنا شِرک ہوتا تو :

اولاً : صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی گزارش ہی نہ کرتے۔

ثانیاً : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنہیں شِرک سے آگاہ کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اِس قسم کی اِلتجاؤں سے منع فرما دیتے۔

ثالثاً : اللہ تعالی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کی مدد سے منع فرماتا اور شِرک میں آلودہ ہونے سے بچاتا۔

صحابہ کا اِستغاثہ، جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اور اللہ تعالی کا اِس عمل پر منع نہ فرمانا۔۔۔ یہ تینوں چیزیں مل کر یہ ثابت کرتی ہیں کہ اِستغاثہ نہ صرف جائز بلکہ سنتِ صحابہ ہے اور عنداللہ مقبول ہے۔ طلبِ معجزات بھی اِسی ضمن میں آ جاتا ہے۔ جب کفار و مشرکین نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خرقِ عادت اَفعال بطور معجزہ طلب کئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن اَفعال کو شِرک قرار دینے کی بجائے اپنے دستِ اَقدس سے مطلوبہ معجزات (شقِ قمر وغیرہ) صادِر فرما دیئے۔ اگر یہ غیرمقدورالعبد اَفعال شِرک ہوتے تو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِن کا صدور کیونکر ممکن تھا؟ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل شِرک نہیں (اور ایسا تصوّر بھی دائرۂ اِسلام سے خارج کر دیتا ہے) تو اُمت کا۔۔۔ سنتِ صحابہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے۔۔۔ اَیسے اَفعال کو طلب کرنا کیونکر شِرک ہو سکتا ہے؟

مسلمان ہمیشہ اَنبیاء علیہم السّلام و اَولیاءاللہ علیہم الرّحمہ سے اِستغاثہ کے دَوران یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور سفارش اور دُعا کر کے ہماری حاجت پوری کر دیں، یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی جمیع اُمتِ مسلمہ کا۔ اگر کوئی بالفرض یوں اِستغاثہ کرتا ہے کہ اَے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے شفا دیجئے اور میرا قرض اَدا فرما دیجئے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شفائے مرض اور اَدائیگیءِ قرض کے سلسلہ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں سفارش کر دیں۔ اور دُعا اور سفارش پر اﷲتعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو قُدرت دے رکھی ہے۔ اِس قسم کے اَقوال کے بارے میں یہ نسبتِ فعل بطور مجازِ عقلی کے ہے اور اِس میں کوئی ممانعت نہیں۔ جیسا کہ اللہ ربّ العزّت نے خود قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا :

سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ.

پاک ہے وہ ذات جس نے ہر اُس شے کو جوڑا جوڑا تخلیق کیا جو زمین اگاتی ہے۔ (يٰسين، 36 : 36)

قرآنِ مجید میں خود باری تعالی نے سبزے کی رُوئیدگی کی نسبت زمین کی طرف کی ہے، حالانکہ سبزہ اگانا زمین کی قُدرت میں نہیں، وہ اِس عمل میں محض وسیلہ اور ذرِیعہ بنتی ہے۔ اِس آیتِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ اور ذرِیعہ بننے والی چیز کو فاعل کے طور پر ذِکر کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اِس مقام پر مجازِ عقلی کا قرینہ صحیح مفہوم کے اَخذ کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث اِس مفہوم میں جا بجا بھرے پڑے ہیں اور اِس میں کوئی ناجائز بات نہیں۔ مسلمانوں کے اِس مفہوم میں اَدا کئے گئے جملے بالکل اُسی طرح شِرک سے خالی ہیں جیسے اللہ ربّ العزت کا کلامِ مجید اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَحادیثِ مبارکہ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...