أَللّٰهُمَّ انِّيْ أَسْئَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ الَيْکَ بِنَبِيِّکَ مُحَمَّدٍ
نَبِیِّ الرَّحْمَة، يَامُحَمَّدُ! انِّيْ قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ الَی رَبِّيْ فِيْ
حَاجَتِيْ هٰذِهِ فَتَقْضِيْ لِيْ، أَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْه فِيَ.
(جامع الترمذی، اَبواب الدّعوات، 2 : 197)
(مسند اَحمد بن حنبل، 4 : 138)
(المستدرک، 1 : 313، 519، 526)
اے میرے اللہ! میں نبیء رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا اور تیری
طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اپنی اِس حاجت میں آپ کے واسطے سے اپنے ربّ کی
طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ اے میرے اللہ! میرے معاملے میں حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارِش
و شفاعت کو قبول کر لے۔
(مسند اَحمد بن حنبل، 4 : 138)
(المستدرک، 1 : 313، 519، 526)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حدیثِ مبارکہ میں مذکور دُعا کا اِبتدائی جملہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کر رہا ہے، جبکہ اِسی دُعا کا دوسرا جملہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا جا رہا ہے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے اِستغاثہ کا نہ صرف جواز بلکہ حکم مہیا کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالی کے سِوا کسی مخلوق سے اِستغاثہ جائز اور درست نہ ہوتا تو نبیء کریم رؤفٌ رّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس عمل کے کرنے کا حکم اِرشاد نہ فرماتے۔ کائنات کے سب سے بڑے موحّد نے جب خود اپنی ذات سے اِستغاثہ کا حکم اِرشاد فرمایا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ توحید کو خالص کرنے کے زعم میں اِسلام کے حقیقی عقائد و نظریات اور تعلیمات کا چہرہ مسخ کرتے ہوئے جمیع مسلمانانِ عالم کو کافر و مشرک قرار دینے لگیں۔
No comments:
Post a Comment