شیعوں کی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں
محترم قارئینِ کرام : شیعہ وہ ناپاک مخلوق ہیں جو عام مسلمانوں کو دھوکا دینے کےلیے ہر وقت علی علی اور دیگر اہلبیت رضی اللہ عنہم کا دم بھرتے ہیں مگر درحقیقت ان کا سینہ بغضِ اہلبیت رضی اللہ عنہم سے بھرا ہوا ہے ۔ ایک طرف تو یہ شیعہ مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اتنا غلو کرجاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بلکہ اللہ عزوجل سے بھی بڑھا دیتے ہیں جبکہ خود اہلبیت پاک رضی اللہ عنہم کی گستاخیوں سے ان کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ ہم شیعوں کی معتبر تفاسیر و دیگر کتب سے ان کی ان گستاخیوں کو پیش کر رہے ہیں پڑھیں اور فیصلہ خود کریں : ⬇
پہلے یہ پڑھیں کہ کس طرح شیعہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی بڑا درجہ دے رہے ہیں ۔
شیعوں کا مشہور عالم ملا باقر مجلسی لکھتا ہے " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی سے کہا اے علی! تم کچھ ایسی فضیلتوں کے مالک ہو جن سے میں محروم ہوں۔ مثلا فاطمہ تمہاری بیوی ہے جبکہ میں ایسی بیوی سے محروم ہوں، تمہارے دو بیٹے حسن اور حسین ہیں جبکہ میں ایسے مقام و مرتبے والے بیٹوں سے محروم ہوں، خدیجہ تمہاری ساس ہے جبکہ میری ایسی کوئ ساس نہیں اور میں تمہارا سسر ہوں جبکہ میرا ایسا کوئ سسر نہیں، جعفر تمہارا بھائ ہے جبکہ میرا ایسا کوئ بھائ نہیں، فاطمہ ہاشمیہ تمہاری ماں ہے جبکہ میری ماں کا مقام انکے مثل نہیں ۔ (بحار الانوار جلد 39، ص 89، طبع ایران)
دیکھا آپ نے کس طرح اس شیعہ عالم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک پر بہتان باندھ کر مولا علی کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے افضل دکھانے کی ناپاک کوشش کی ہے ۔ معاذ اللہ
آئیے اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ شیعہ حضرات کس طرح مولا علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا بغض اپنے سینوں میں سموۓ ہوۓ ہیں ۔ شیعوں کی ایک معتبر تفسیر "تفسیر القمی" میں درج ہے کہ : شیعوں کا کہنا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مولا علی رضی اللہ عنہ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں اور انہوں نے اس رشتے سے انکار کر دیا تھا اور وجہ یوں بتائ تھی کہ : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ کی شادی علی سے کرنے کا ارادہ کیا تو فاطمہ کو بتایا تو فاطمہ کہنے لگیں : آپ کو اپنی مرضی کا زیادہ حق ہے لیکن قریش کی عورتوں نے مجھے ان کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ توند (بڑے پیٹ) والے ، لمبی لمبی کہنیوں والے ، کنپٹی پر سے گنجے ہیں ۔ بدن پر چربی چڑھی ہوئی ہے ، آنکھیں ابھری ہوئی ہیں ، اونٹ کی طرح ان کے مونڈھے لٹکے ہوۓ ہیں ، دانت باہر نکلے ہوۓ ہیں اور دار و درم سے بالکل خالی ہیں ۔ (تفسیر القمی، جلد 2، صفحہ نمبر 336)
دیکھا آپ نے ان ناپاک لوگوں نے کیسے جنابِ خاتونِ جنت پر بہتان باندھا ہے کہ وہ مولا علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما میں عیب نکالتی تھیں ۔ فیصلہ آپ کا کہ کیا وہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں پرورش پائی ہو ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پسند میں عیب نکال سکتی ہے ؟ ۔ معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے تو مولا علی رضی اللہ عنہ میں کوئی عیب نہ نکالا بلکہ یہ خود شیعوں کا بغض ہے جو جناب حیدر کرار رضی اللہ عنہ میں عیب و نقائص تلاش کر رہے ہیں ۔
اب ذرا یہ ملاحظہ کیجۓ کہ شیعہ علماء نے کس طرح مولا علی رضی اللہ عنہ کو بزدل ثابت کیا ہے چنانچہ مجلسی کی روایت ہے کہ : جب حضرت فاطمہ نے صدیق و فاروق سے فدک کا مطالبہ کیا اور اس سلسلے میں ان سے سخت گفتگو کی تو حضرت علی نے اس سلسلے میں انکی کوئ مدد نہیں کی ۔ اس پر حضرت فاطمہ نے کہا : اے ابنِ ابی طالب ! تو نے یوں اپنے آپ کو چھپا لیا جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ ، پیٹ کے بچے کی طرح تو بیٹھا رہا ، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا ۔ (حق الیقین، صفحہ 403،چشتی)(الامالی ص 295)
کلینی لکھتا ہے کہ : علی اپنی بیٹی ام کلثوم کی شادی عمر سے نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن آپ سے ڈرتے تھے اس لیے اپنے چچا عباس کو وکیل بنایا کہ وہ ام کلثوم کی شادی عمر سے کردیں ۔ (حدیقة الشیعة از المقدس اردبیلی، صفحہ نمبر 277)
قارئین کرام ذرا توجہ فرمائیں کہ وہ علی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کا شیر کہیں، وہ علی جو ایک ہاتھ سے خیبر کا دروازہ اکھاڑ دیں، وہ علی جس کے نام سے آج بھی خیبر کے قلعوں میں زلزلہ آجاتا ہے۔ اس علی کے بارے میں شیعہ کہتے ہیں کہ وہ بزدل تھے ۔
اب ذرا ملاحظہ ہو کہ خود مولا علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ شیعوں کے بارے میں کیا راۓ رکھتے تھے ۔ ⬇
ایک موقع پر حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اہلِ عراق (شیعوں) کو مخاطب کرکے کہا : میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ یہ دشمن قوم تم پر غالب آجاۓ گی، اسلۓ نہیں کہ وہ تم سے زیادہ حق پرست ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اپنے باطل پر تم سے زیادہ تیز گام ہے اور تم میرے حق میں سست گام اور کوتاہ خرام ہو۔ قومیں اپنے حکام کے ظلم سے ڈرتی ہیں اور میرا حال یہ ہے کہ اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں، میں نے جہاد پر تم کو ابھارا مگر تم اپنی جگہ سے ہلے نہیں، تمہیں رازدارانہ انداز میں بلایا، اعلانیہ دعوت دی مگر تم میں ذرا حرکت نہیں ہوئ، نصیحتیں کیں مگر تمہارے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔ (مسند علی ابن ابی طالب)
یہ تھی شیعہ قوم جو مولا علی سے محبت کا دعوی تو کرتے، جنگ و جدل میں جینے مرنے کی باتیں کرتے مگر جب جنگ کا موقع آتا تو حیلے بہانے تراش کر مولا علی کا ساتھ چھوڑ دیتے ۔ مزید مکمل عبارات کےساتھ پڑھیں : ⬇
وعنه، عن ابن علوان، عن جعفر، عن أبيه، عن علي عليه السلام: إنه كان إذا أراد أن يبتاع الجارية يكشف عن ساقيها فينظر إليها ۔
ترجمہ : امام باقر عليه السلام سے مروی ہے کہ حضرت علی عليه السلام جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرتے تھے تو وہ کنیز کی ٹانگوں کو ظاہر کرتے اور اس کا معائنہ کرتے ۔ (شیعہ کتاب قرب الاسناد الحميري القمي الصفحة ١٠٣،چشتی)
محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، عن محمد بن سنان، عن عمار بن مروان، عن المنخل ابن جميل، عن جابر بن يزيد، عن أبي جعفر عليه السلام قال: يا جابر ألك حمار يسير بك فيبلغ بك من المشرق إلى المغرب في يوم واحد؟ فقلت: جعلت فداك يا أبا جعفر وأني لي هذا ؟ فقال أبو جعفر عليه السلام: ذاك أمير المؤمنين ۔
ترجمہ : امام باقر عليه السلام سے روایت ہے کہا اے جابر کیا تمہارے پاس ایسا گدھا ہے جو تمہین مشرق سے مغرب تک صرف ایک دن میں لے جائے؟ جابر نے کہا نہیں ابو جعفر عليه السلام آپ پر قربان جاؤں ایسا گدھا کہاں سے ملے گا؟ امام باقر عليه السلام نے کہا وہ امیر المومنین علی عليه السلام ہیں ۔ (شیعہ کتاب الاختصاص الشيخ المفيد الصفحة ٣٠٣) ۔ یہی روایت علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں بھی بیان کی ہے : الاختصاص : ابن أبي الخطاب عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن المنخل بن جميل عن جابر بن يزيد عن أبي جعفر عليه السلام قال: قال: يا جابر ألك حمار يسير بك فيبلغ بك من المشرق إلى المغرب في يوم واحد؟ فقلت: جعلت فداك يا با جعفر وأنى لي هذا؟ فقال أبو جعفر: ذاك أمير المؤمنين عليه السلام ۔ (شیعہ کتاب بحار الأنوار العلامة المجلسي ج ٢٥ الصفحة ٢٣٠،٢٢٩)
ان الله لا يستحيي ان يضرب مثلا ما بعوضة فما فوقها” کی آیت کے تحت علامہ قمی اپنی تفسیر قمی میں لکھتے ہیں : قال وحدثني أبي عن النضر بن سويد عن القسم بن سليمان عن المعلى بن خنيس عن أبي عبد الله عليه السلام ان هذا المثل ضربه الله لأمير المؤمنين عليه السلام فالبعوضة أمير المؤمنين عليه السلام وما فوقها رسول الله صلى الله عليه وآله ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمایا اس مثال میں الله نے امیر المومنین علی عليه السلام کی مثال بیان کی ہے پس بعوضة یعنی مچھر سے مراد امیر المومنین علی عليه السلام ہیں اور مافوقھا یعنی حقارت میں مچھر سے زیادہ سے مراد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ (شیعہ کتاب تفسير القمي علي بن إبراهيم القمي ج ١ الصفحة ٦٢،چشتی)
علامہ سید الخوئی کے نزدیک علی بن ابراہیم قمی کی نقل کی ہوئی سند کے سارے راوی ثقہ ہیں اور تفسیر قمی کی تمام روایات صحیح ہیں ۔ ولذا نحكم بوثاقة جميع مشايخ علي بن إبراهيم الذين روى عنهم في تفسيره مع انتهاء السند إلى أحد المعصومين عليهم السلام. فقد قال في مقدمة تفسيره ۔ (ونحن ذاكرون ومخبرون بما ينتهي إلينا، ورواه مشايخنا وثقاتنا عن الذين فرض الله طاعتهم..) فإن في هذا الكلام دلالة ظاهرة على أنه لا يروي في كتابه هذا إلا عن ثقة، بل استفاد صاحب الوسائل في الفائدة السادسة في كتابه في ذكر شهادة جمع كثير من علماءنا بصحة الكتب المذكورة وأمثالها وتواترها وثبوتها عن مؤلفيها وثبوت أحاديثها عن أهل بيت العصمة عليهم السلام أن كل من وقع في إسناد روايات تفسير علي بن إبراهيم المنتهية إلى المعصومين عليهم السلام، قد شهد علي بن إبراهيم بوثاقته، حيث قال: (وشهد علي بن إبراهيم أيضا بثبوت أحاديث تفسيره وأنها مروية عن الثقات عن الأئمة عليهم السلام ۔ (شیعہ کتاب معجم رجال الحديث العلامة الخوئي جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٤٩،چشتی)
علي بن إبراهيم، عن هارون بن مسلم، عن مسعدة بن صدقة قال: قيل لأبي عبد الله (عليه السلام): إن الناس يروون أن عليا (عليه السلام) قال على منبر الكوفة: أيها الناس إنكم ستدعون إلى سبي فسبوني، ثم تدعون إلى البراءة مني فلا تبرؤوا مني، فقال: ما أكثر ما يكذب الناس على علي (عليه السلام)، ثم قال: إنما قال: إنكم ستدعون إلى سبي فسبوني، ثم ستدعون إلى البراءة مني وإني لعلى دين محمد، ولم يقل: لا تبرؤوا مني ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق عليه السلام سے کہا گیا کہ لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام نے منبر کوفہ پر کہا لوگوں عنقریب تم سے کہا جائے گا کہ مجھے گالی دو تو تم مجھے گالی دے دینا اور اگر مجھ سے براءت ظاہر کرنے کو کہیں تو نہ کرنا امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمایا لوگوں نے حضرت علی عليه السلام پر کیسا جھوٹ بولا ہے پھر فرمایا حضرت علی عليه السلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ تم سے مجھے گالی دینے کو کہا جائے تو تم مجھے گالی دے دینا اور اگر مجھ سے برءات کو کہا جائے تو میں دین محمد پر ہوں یہ نہیں فرمایا کہ تم مجھ سے اظہار برءات نہ کرنا ۔ (کتاب الكافي الشيخ الكليني ج ٢ الصفحة ١٣٤)
علة الصلع في رأس أمير المؤمنين ” ع “، والعلة التي من أجلها سمى الأنزع البطين ۔
حدثنا أبي ومحمد بن الحسن رضي الله عنهما قالا: حدثنا أحمد بن إدريس ومحمد بن يحيى العطار جميعا عن محمد بن أحمد بن يحيى بن عمران الأشعري باسناد متصل لم احفظه، ان أمير المؤمنين ” ع ” قال: إذ أراد الله بعبد خيرا رماه بالصلع فتحات الشعر عن رأسه وها أنا ذا ۔
حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق الطالقاني رضي الله عنه قال: حدثنا الحسن بن علي العدوي، عن عباد بن صهيب، عن أبيه، عن جده، عن جعفر بن محمد ” ع ” قال: سأل رجل أمير المؤمنين ” ع ” فقال: أسألك عن ثلاث هن فيك أسألك عن قصر خلقك، وكبر بطنك، وعن صلع رأسك؟ فقال أمير المؤمنين ” ع ” ان الله تبارك وتعالى لم يخلقني طويلا ولم يخلقني قصيرا ولكن خلقني معتدلا أضرب القصير فأقده وأضرب الطويل فأقطه، وأما كبر بطني فان رسول الله صلى الله عليه وآله علمني بابا من العلم ففتح ذلك الباب الف باب فازدحم في بطني فنفخت عن ضلوعي ۔
ترجمہ : کیا وجہ ہے کہ امیر المومنین علی عليه السلام کے سر کے اگلے حصہ پر بال نہ تھے اور کیا وجہ ہے کہ ان کو الانزع البطین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔
امیر المومنین علی عليه السلام نے ارشاد فرمایا کہ جب الله کسی بندے کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے سر کے بال اڑا دیتا ہے اور یہ دیکھو میں ایسا ہی ہوں ۔
ایک شخص نے حضرت علی عليه السلام سے کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جو آپ میں موجود ہیں یہ بتایے آپ کا قد کیوں چھوٹا ہے؟ اور پیٹ کیوں بڑا ہے؟ اور سر کے سامنے کے بال کیوں نہیں ہیں؟ حضرت علی عليه السلام نے جواب دیا الله نے نہ مجھے بہت طویل بنایا اور نہ بہت فقیر بلکہ میرے قد کو مستدل بنایا تاکہ میں اپنے سے پستہ قد کے دو ٹکڑے لمبائی میں کر دوں اور اپنے سے دراز قد کی ٹانگوں پر قطا لگا دوں اب سوال یہ ہے کہ میرا پیٹ کیوں بڑا ہے تو سن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علم کے بہت سے باب تعلیم کیے اور ہر باب سے مجھ پر علم کے ہزار باب کھل گئے اور سینے میں گنجائش نہ پا کر پیٹ میں اتر آئے ۔ (شیعہ کتاب علل الشرائع الشيخ الصدوق ج ١ الصفحة ١٥٩،چشتی)
اسی طرح کی بات علامہ مجلسی شیعہ نے اپنی کتاب بحار الالنوار میں بھی لکھی ہے : جناب فاطمہ زہرا عليه السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی رائے سب سے اولی ہے لیکن قریش کی عورتیں تو علی عليه السلام کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کا پیٹ نکلا ہوا ہے ہاتھ لمبے ہیں ان کے جوڑوں کی ہڈیاں بہت چوڑی ہیں سر کے اگلے حصہ کے بال بھی نہیں ہیں آنکھیں بڑی بڑی ہیں شیروں اور درندوں جیسے ہاتھ پاؤں ہیں ہر وقت ہنستے رہتے ہیں پھر ان کے پاس نہ مال ہے نہ دولت و حشمت بالکل مفلس اور فقیر ہیں ۔ (کتاب بحار الأنوار العلامة المجلسي ج ٣ الصفحة ١٣١)
اللہ تعالیٰ مسلک حق اہلِسنت پر رہتے ہوۓ تمام صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی غلامی میں ہمیں موت عطا کرے آمین ۔
No comments:
Post a Comment