فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حصہ دوم
محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ جلد 8 لکھتے ہیں :
بخاری و مسلم و نسائی و ابن ماجہ بطُرُقِ عدیدہ سیدنا ابو ہریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے راوی وھذا لفظ مؤلَّف منھا دخل حدیث بعضھم فی بعض (آئندہ الفاظ ان متعدد روایات کا مجموعہ ہے، بعض کی احادیث بعض میں داخل ہیں۔ ت)
قال خرج النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فجلس بفناء بیت فاطمۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہا فقال اُدعی الحسن بن علی فحبستہ شیئا فظننت انھا تلبسہ سخابا او تغسلہ فجاء یشتد وفی عنقہ السخاب فقال النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم بیدہ ھکذا فقال الحسن بیدہ ھکذا حتی اعتنق کل منھما صاحبہ فقال صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اللھم اِنیّ اُحبُّہ، فَاَحِبَّہ، وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ ۔ (الصحیح للمسلم باب فضل الحسن والحسین مطبوعہ راولپنڈی ۲/ ۲۸۲)
یعنی ایک بارسید عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت بتول زہرا رضی ﷲ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور سید نا امام حسن رضی ﷲ تعالٰی عنہ کو بلایا، حضرتِ زہرا نے بھیجنے میں کچھ دیر کی، میں سمجھا انھیں ہار پہناتی ہوں گی یا نہلا ررہی ہوں گی، اتنے میں دوڑتے ہوئے حاضر آئے ، گلے میں ہار پڑا تھا، سید عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دست مبارک بڑھائے حضور کو دیکھ کر امام حسن نے بھی ہاتھ پھیلائے ، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو لپٹ گئے ، حضور نے گلے لگا کر دعا کی : الہٰی ! میں اسے دوست رکھتا ہوں تو اسے دوست رکھ اور جو اسے دوست رکھے اسے دوست رکھ۔ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی حِبِّہٖ و بارک وسلم ۔
صحیح بخاری میں امام حسن رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے مروی : کان النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا خُذ بیدی فیُقعدنی علی فخِذِہٖ ویقعد الحسین علٰی فخِذِہ الاُخرٰی ویَضُمُّناَ ثم یقول رب انی ارحمھما فار حمھما ۔ (الصحیح البخاری باب وضع الصبی فی الحجر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۸،چشتی)
نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ران پر مجھے بٹھا لیتے اور دوسری ران پر امام حسین کو ، اور ہمیں لپٹا لیتے پھر دعا فرماتے : الہٰی ! میں ان پر رحم کرتا ہوں تو ان پر رحم فرما ۔
اسی میں حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے : ضَمَّنیِ النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم الٰی صدرہ ۔ فقال اللھم علمہ الحکمۃ ۔ (الصیح البخاری مناقب ابن عباس مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۵۳۱)
سید عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے سینے سے لپٹایا پھر دُعا فرمائی : الہٰی ! اسے حکمت سکھا دے ۔
امام احمد اپنی مُسْنَد میں یعلٰی رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے راوی : ان حسناً وحُسینا رضی ﷲ تعالٰی عنہما یستبقا الٰی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فضمّھما الیہ ۔ (مسند احمد بن حنبل مناقب ابن عباس مطبوعہ دارالفکر بیروت ۴/ ۱۷۲)
ایک بار دونوں صاحبزادے حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آپس میں دوڑ کرتے ہوئے آئے حضور نے دونوں کو لپٹا لیا ۔
جامع ترمذی میں انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث ہے : سُئِلَ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ای اھل بیتک احبّ الیک قال الحسن والحسین وکان یقول لفاطمۃ ادعی لی ابنی فیشمھما ویضمھما ۔ (جامع ترمذی مناقب الحسن والحسین مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۴۰ ۔ ۵۳۹،چشتی)
سید عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھا گیا حضور کو اپنے اہل بیت میں زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا : حسن اور حسین ۔ اور حضور دونوں صاحبزادوں کو حضرت زہرا رضی اللہ عنہا سے بلوا کر سینے سے لگالیتے اور ان کی خوشبوُ سُونگھتے ، صلی ﷲ تعالٰی علیہ و علیہم و بارک وسلم ۔
ابن سعد نے طبقات الکبریٰ میں بیان کیا ہے کہ امام محمد (الباقر) بن علی (زین العابدین) بن حسین بن علی(رضی اللہ عنہم) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہم) کو بیعت فرمایا اس حال کہ وہ صِغر سنی میں ( یعنی عمر میں چھوٹے) تھے اور ابھی باریش نہیں ہوئے تھے اورنہ سن بلوغ کو پہنچے تھے- مزیدفرماتے ہیں کہ حضور نبی رحمت (ﷺ) نے صرف ہمیں ہی چھوٹی عمرمیں بیعت فرمایا تھا-( طبقات الکبریٰ)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ کھجور کے درختوں سے کھجوریں اتارتے وقت رسول اللہ (ﷺ) کے پاس کھجوریں لائی جاتیں،سویہ شخص کھجوریں لاتا اور وہ شخص کھجوریں لاتاحتی کہ آپ (ﷺ) پاس کھجوروں کا ڈھیر لگ جاتا پس حضرت حسن اورحضرت حسین (رضی اللہ عنہما)ان کھجوروں کے ساتھ کھیل رہے تھے،توان میں ایک نے کھجور اپنے منہ میں ڈال لی-پس رسول اللہ (ﷺ)نے ان کی طرف دیکھااورآپ (ﷺ)نے وہ کھجور ان کے منہ سے نکال لی اور ارشادفرمایا:’’أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ آلَ مُحَمَّدٍ (ﷺ) لَا يَأْكُلُونَ الصَّدَقَةَ‘‘’’کیاتم کو معلوم نہیں کہ (سیدنا)محمد (ﷺ)کی آل صدقہ نہیں کھاتی ‘‘-
( صحیح البخاری ،کتاب الزکوٰۃ،چشتی)
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) اپنے بچپن کی زندگی بسرکررہے تھے ،اگر کھجور تناول بھی فرما لیتے تو کوئی ذی شعور اس بات پہ اعتراض نہ کرتا،کیونکہ بچپن کا عالم تھالیکن قربان جائیں،حضور خاتم الانبیاء (ﷺ)کے اندازِ تربیت پہ کہ آپ (ﷺ)نے اس عمرمیں ان کےحلقوم مبارکہ سے خلاف شرع چیز داخل ہونے کو ناپسند فرمایا- اس سے ہر صاحبِ اولاد اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کئی اسباق اخذ کر سکتا ہے -
اِنصاف کی بات یہ ہے کہ جن کے والدِ ماجد ’’شہرِ علم کا دروازہ‘‘ اور ’’ امام المتقین‘‘ ہوں اُن کا علم و تقویٰ اپنی رفعت و بلندی اور وسعت و جلالت میں ہمارے فہم و ادراک سے ماوریٰ ہے ، مگر صرف بنیادی سی معلومات کیلئے چند روایات نقل کی جاتی ہیں-آپ (رضی اللہ عنہ) نے حضورنبی کریم (ﷺ) اورحضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے روایات لیں اور آپ (رضی اللہ عنہ) سے آپ (رضی اللہ عنہ) کے صاحبزادے علی بن حسین،آپ (رضی اللہ عنہ) کی شہزادی فاطمہ اور آپ (رضی اللہ عنہ) کے بھتیجے زید بن حسن اور شعیب بن خالد، طلحہ بن عبید اللہ العقیلی، یوسف الصباغ، عبید بن حنین، ھمام بن غالب الفرزدق اور ابوہشام (رضی اللہ عنہم)نے روایات نقل کیں-( تاریخ دمشق لابن عساکر،باب:الحسين بن علی بن أبی طالب)
جنگ کے دوران حالانکہ ایک ایک فرد قیمتی ہوتا ہے اور کئی لوگ جنگ میں سب تمام اصولوں کوبالائے طاق رکھ دیتے ہیں جبکہ آپ (رضی اللہ عنہ) اس نازک موقع پہ بھی نہ صرف شریعت کا معاشی و معاشرتی اصول قائم رکھا بلکہ حقو ق العباد کا بھی خاص خیال رکھا-جیسا کہ روایت میں ہے :
’’حضرت ابو جحاف (رضی اللہ عنہ) اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)سے عرض کی کہ مجھ پرقرض ہے تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا:’’ لَا يُقَاتِلْ مَعِيَ مَنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ‘‘
’’ وہ شخص میرے ساتھ شریک ِ جنگ نہ ہو جس پر قرض ہو‘‘ ۔ (الطبقات الکبرٰی کتاب الحسين بن علی)
وَ قَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ : حجَّ الحُسَيْنُ خَمْساً وَ عِشْرِيْنَ حَجَّةً ماشيًا‘‘
حضرت مصعب الزبیری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)نے پچیس حج پیدل ادا فرمائے ‘‘-(تہذيب الكمال فی أسماء الرجال،الحسين بن عَلِی بن الحسين بْن علی بْن أَبی طَالِب)
صوفیاء کرام ہمیشہ استقامت کو کرامت پہ ترجیح دیتے ہیں بلاشبہ میدان استقامت میں بھی آپ(رضی اللہ عنہ)اپنی مثال آپ ہیں اور جہاں تک کرامت کاتعلق ہے آپ (رضی اللہ عنہ)کی پوری حیات مبارکہ کرامت ہے- ہم صرف دو کرامات کو زیب قرطاس کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں- ایک کا تعلق بچپن سے ہے (اِسے امام طبرانی نے روایت فرمایا) اور دوسری کا تعلق جوانی کی عمر مبارک سے ہے جسے علامہ ابن سعد (رحمۃ اللہ علیہ) نے طبقات الکبریٰ میں نقل کیا ہے -
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام حسین (رضی اللہ عنہ) حضورنبی کریم (ﷺ) کے پاس تھے اور رسول اللہ (ﷺ) امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے-حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی: مَیں اپنی والدہ ماجدہ کے پاس جانا چاہتا ہوں-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) عرض کرتے ہیں کہ (یا رسول اللہ (ﷺ)! کیامیں ان کے ساتھ چلاجاؤں؟
’’فجاءت برقة من السماء فمشى في ضوئها حتى بلغ‘‘
’’پس (اسی اثناء میں)آسمان سے ایک نور آیا اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) اس کی روشنی میں چلتے رہے،یہاں تک کہ (اپنی والدہ ماجدہ کے پاس) پہنچ گئے -(المعجم الكبير للطبرانی، باب الحاء،چشتی)
حضرت ابوعون (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ (رضی اللہ عنہ) مکہ مکرمہ تشریف لے جارہے تھے اور راستے میں ابن مطیع کے پاس سے گزرے جو اس وقت کنواں کھود رہے تھے-اور اس دن کنویں سے کوئی پانی نہ نکلا انہوں نے عرض کی (میرے والدین آپ پہ قربان) اگر آپؓ دعا فرمائیں توآپؓ نے فرمایا کہ ا س کاپانی لے آؤ،تومیں پانی لے آیا،
’’فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ مَضْمَضَ ثُمَّ رَدَّهُ فِي الْبِئْرِ فَأَعْذَبَ وَأَمْهَى‘‘
’’آپ (رضی اللہ عنہ)نے پانی نوش فرمایا،پھرکلی فرمائی اور اس کا پانی کنویں میں ڈال دیا تو وہ کنواں میٹھابھی ہو گیا اور اس کا پانی بھی بڑھ گیا‘‘-(الطبقات الکبرٰی لابن سعد(المتوفی:230،باب: عَبْدُ حوالہ:الله بْنُ مُطِيعِؓ)
حضرت ابو ایوب انصاری ( ) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اس حال میں کہ امام حسن وحسین (رضی اللہ عنہما) آپ (ﷺ)کے سینہ مبارک پہ کھیل رہے تھے،تو مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!
’’أَتُحِبُّهُمَا؟قَالَ:كَيْفَ لَا أُحِبُّهُمَا وَهُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا‘‘
’’کیا آپ (ﷺ)ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ توآپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :میں ان سے محبت کیسے نہ کروں، یہ دونوں دنیاکے میرے دوپھول ہیں‘‘- (سیراعلام النبلاء ،الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبّ هَذَيْنِ‘‘
’’جو مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ ان دونوں (شہزادوں سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہما) سے محبت کرے‘‘-(مسند أبی يعلى،باب :مسند عبداللہ بن مسعود،چشتی)
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللهِ (ﷺ) بِالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَهُوَ حَامِلُهُمَا عَلَى مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ نِعْمَتِ الْمَطِيَّةُ قَالَ: «وَنِعْمَ الرَّاكِبَانِ‘‘
’’حضرت ابوجعفر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ (ﷺ) انصار کی مجلس سے گزرے اس حال میں کہ آپ (ﷺ) دونوں شہزادوں کو (اپنے کندھوں پہ) اٹھائے ہوئے تھے،تو لوگوں نے عرض کی:کتنی اتنی اچھی سواری ہے! تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: دونوں سوار بھی کتنے اچھے ہیں-(مصنف ابن ابی شیبہ،باب: مَا جَاءَ فِي الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا)
حضرت یعلیٰ عامری (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ ایک دعوت میں شرکت کے لیے نکلے راستے میں حضرت امام حسین( ) بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،پس آپ (ﷺ)باقی لوگوں سے آگے تشریف لے گئے اور (حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو پکڑنے کے لیے) آپ (ﷺ)نے اپنا دستِ اقدس بڑھایا، لیکن آپ (رضی اللہ عنہ)کبھی اِدھر بھاگ جاتے کبھی اُدھر اور حضور نبی کریم (ﷺ) خوش ہو رہے تھے یہاں تک حضور نبی کریم (ﷺ) نے آپؓ کو پکڑ لیا اور آپ (ﷺ) نے اپنا ایک ہاتھ مبارک آپؓ کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا گردن پہ رکھا پھر آپ (ﷺ) نے اپنا سرمبارک جھکاکر اپنا دہن مبارک حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے دہن پہ رکھا اور انہیں بوسہ دیا اور پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:’’حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ‘‘
’’حسین مجھ سے ہیں اورمیں حسین سے ہوں یااللہ تواُس سے محبت فرما جوحسین سے محبت کرے،حسین (میرے) نواسوں میں ایک نواسہ ہے‘‘ ‘‘-(مسند أبی يعلى،باب :مسند عبداللہ بن مسعود)
حضرت سلمان (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ابْنَايَ، مَنْ أَحَبَّهُمَا أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَحَبَّهُ اللهُ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضَنِي، وَمَنْ أَبْغَضَنِي أَبْغَضَهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ أَدْخَلَهُ النَّارَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ‘‘
’’(حضرت)حسن و حسین (رضی اللہ عنہما)میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اللہ اس سے محبت فرمائے گا اور جس سے اللہ فرمائے گا اس کو جنت میں داخل کرے گا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اللہ اس سے ناراض ہوگا اور جس سے اللہ ناراض ہوگا اسے جہنم میں داخل کرےگا‘‘۔(المستدرك حاکم ،وَمِنْ مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنِي بِنْتِ رَسُولِ اللہِ (ﷺ))
امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے-
امام ترمذی نے روایت کیا ہے کہ ’’حضرت علی المرتضیٰرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہما) کے ہاتھ کو پکڑا اور ارشاد فرمایا:’’مَنْ أَحَبَّنِي وَ أَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ‘‘
’’جس نے مجھ سے، ان دونوں سے،ان دونوں کے والد سے اور ان کی والدہ (محترمہ) سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا‘‘-
(سنن الترمذی، کتاب المناقب)
حضرت مدرک بن عمارہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کو دیکھا وہ حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہما)کی سواری کی لگام پکڑئے ہوئے ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ) سے عرض کئی گئی :کیا آپؓ حسنین کریمین (رضی اللہ عنہما) کی سواری کی لگامیں تھامے ہوئے ہیں حالانکہ آپ (رضی اللہ عنہ) ان سے بڑے ہیں ؟توآپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:
’’ان هذين ابنا رسول الله (ﷺ) أو ليس من سعادتي أن آخذ بركابهما ‘‘
’’بے شک یہ دونوں رسول اللہ (ﷺ)کے نواسے ہیں تو کیا یہ میرے لیے سعادت نہیں کہ میں ان کے سواری کی لگام کو تھاموں‘‘-( تاریخ دمشق لابن عساکر،باب: الحسين بن علی بن أبی طالب)
حضرت عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے جب آپ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) کو آتے ہوئے دیکھاتو آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:
’’هذا أحب أهل الأرض إلى أهل السماء اليوم‘‘
’’یہ ہستی آج مجھے زمین و آسمان میں سب سے زیادہ محبوب ہے‘‘- ( تہذیب التہذیب للعسقلانیؒ،باب:الحاء)
حضرت ابوالمہزم (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) اپنے کپڑے کے کنارے سے سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے قدمین شریفین سے مٹی جھاڑ رہے تھے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اے ابوھریرہ! آپ یہ کیاکررہے ہیں؟ تو حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:’’دعني فو الله لو يعلم الناس منك ما أعلم لحملوك على رقابهم‘‘
’’مجھے چھوڑدو، اللہ کی قسم !اگر لوگوں کو تمہارے بارے میں وہ علم ہوجائے جو میں جانتاہوں تو وہ تم کو اپنے کندھوں پہ اٹھا لیں‘‘-(الطبقات الکبرٰی کتاب:الحسين بن علی)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشت)
No comments:
Post a Comment