عبداللہ بن سبا یہودی اور شیعہ مذھب (دوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : شیعہ محقق لکھتا ہے کہ : اہل علم کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ : عبد اللہ بن سبا یہودی تھا، پھر یہ اسلا م لے آیا اور علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ اختیار کر لیا، ان کا معتقد ہو گیا ۔ یہ شخص اسلام لانے سے قبل یہودیت میں موسیٰ علیہ السلام کے وصی یوشع بن نون علیہ السلام کے متعلق جو عقائد رکھتا تھا ، اسلام لانے کے بعد اسی قسم کے عقائد کا اظہار علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا ۔ یہی پہلا شخص ہے جس نے علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کی بات کی اور ان کے دشمنوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ۔ اسی بنا پر شیعوں کے مخالفین نے یہ کہا کہ : شیعیت کی اصل یہودیت سے ماخوذ ہے ، یعنی شیعت کی بنیاد یہودیت پر رکھی گئی ہے ۔ (فِرق الشیعۃ خلاصہ صفحہ 32 تا 44 )
ایک اور شیعہ محقق لکھتا ہے کہ : عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضی اللہ عنہ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا ۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا ۔ (شیعہ کتاب بحار النوار ص 287 جلد 25 حاشیہ)
ابن ابی الحدید بیان کرتے ہیں کہ : عبداللہ بن سباء علی رضی اللہ عنہ کے سامنے کھڑا ہو کر تقریر کرنے لگا اور تو ہی تو کی تکرار شروع کردی تو علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ : اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے ! میں کون ہوں؟ تو کہنے لگا کہ : تو اللہ ہے۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے اور اس کے ساتھ اس کے پیروکاروں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ۔ (شرح نہج البلاغہ جلد 5 صفحہ 5)
سید نعمت اللہ الجزائری شیعہ لکھتا ہے : عبد اللہ بن سباء علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا کہب: تو ہی الٰہ برحق ہے ۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے مدائن میں جلا وطن کر دیا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دراصل یہودی تھا، پھر اسلام لے آیا ، یہودیت میں یہ یہی بات یوشع بن نون علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتا تھا جو بعد میں علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہی ۔ (الانوار النعمانیہ جلد 2 صفحہ 234،چشتی)
انوارالنعانیہ میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ابن سبا یہودی تھا اور محض مقصد آری کے لیے اوپر سے مسلمان ہوا اور یہ بات شیعہ کی کتب میں موجود ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جس نے سب سے پہلے خدا کہا وہ کوئی اور نہیں خود عبد اللہ بن سبا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے جلا دیا تھا یا دیگر روایت میں ہے اسے جلا وطن کر دیا تھا اور امام جعفر صادق رضی اللہ نے بھی ابن سبا پر لعنت اس کے کفریہ عقائد کی بنا پر کی تھی اس کے ساتھ ساتھ جلاءالعیون کی عبارت سے صاف صاف پتا چلتا ہے جو عقائد ابن سبا کے تھے وہ ہی عقائد آج کے شیعہ کے ہیں ۔
دوسری بات رجال کشی کے مصنف نے جو اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے ابن سبا اور اس کے عقائد سے بیزاری کو اس انداز سے پیش کیا جس سے معلوم ہو جائے گا کہ اہل تشیع بھت معصوم ہے ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ مذہب شیعہ عبد اللہ بن سبا کے پیروکار ہے اور مذہب دراصل یہودیت کی ایک شاخ ہے یہ غلط ہے ہمارا راستہ اور ہے اور ابن سبا کا راستہ اور جب کے جلاءالعیون کی عبارت سے صاف پتا چلتا ہے کہ شیعہ کہ عقائد اور ابن سبا کے عقائد ایک کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابن سبا خدا مناتا تھا اور آج کے شیعہ کا بھی وہ ہی عقیدہ ہے اور رجال کشی کی عبارت دراصل اس امر کی تائید کرتی ہے کہ ہمارے مخالفین نے جو کچھ ہمارے متعلق کہا کہ شیعہ عبد اللہ بن سبا کے پیروکار ہے اور مذہب شیعہ دراصل یہودیت کا دوسرا نام ہے یہ بات درست ہے لہذا بانی مذہب شیعہ عبد اللہ بن سبا ہے ۔
جو شیعہ یہ بات مانتے ہیں کہ ابن سبا کا وجود ہے تو وہ یہ نہیں مانتے کہ شیعت کا موجد یہ ہے ہم سنی جب یہ کہتے ہیں کہ ابن سبا شیعت کا بانی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ایسی جماعت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو کہ اہل بیت سے محبت کرتی ہے بلکہ ہم اس کی نشاندہی کر رہے ہیں جو رافضی ہیں اور منافقانہ عقائد رکھتے ہیں ینعی ابو بکر و عمر رضوان اللہ کو کافر کہنا ، قیامت سے پہلے امام کا واپس آنا اور ولایت تقوینیہ پر ایمان رکھنا وغیرہ ۔
شیعوں کا یہ ٹولہ کم سے کم اس حد تک اپنے بڑوں کی عزت کرتا ہے کہ وہ اپنی کتب میں موجود ابن سبا یہودی کا انکارنہیں کرتا پر وہ اس بات کو رد کرتے ہیں کہ شیعت کا ابن سبا یا سبائی گروہ سے کوئی تعلق ہے وہ اس کے ثبوت میں آپ کو محمد بن حسن طوسی (رافضیوں کا مشہور عالم متوفی 460) کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ خود ابن سبا یہودی کو کافر مانتے ہیں ۔ (رجال طوسی ص 75 نمبر 718،چشتی)
طوسی کہتا ہے ابن سبا کافر ہوگیا تھا اور وہ غلت میں پڑ گیا تھا
یہ رافضی الکاشی کی صحیح روایات بھی پیش کرتے ہیں حوالہ کے طور پر جس میں اماموں نے ابن سبا یہودی پر لعنت کی ہے وہ اسی بنا پر ہی مانتے ہیں کہ ابن سبا یہودی کا وجود تھا لیکن شیعہ مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ابن سبا یہودی ایسا آدمی ہے جس کو لعنت کی گئی ہے اماموں کی طرف سے کیونکہ اس نے امیر المومنین علی رضہ کی امامت کے بجائے ان کے رب ہونے کی پرچار شروع کردی ۔
یہ لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ حقیقت کو مسخ کیا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ شیعہ علماء اس بات کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں کہ ابن سبا نے علی رضہ کے رب ہونے کا پرچار کیا اس کے ساتھ یہ پہلا شخص ہے جس نے شیعوں کے دو بنیادی عقائد کی پرچار بھی کی جو کہ صرف شیعوں کے ٹولہ میں پائی جاتی ہیں ۔
ابن سبا یہودی وہ پہلا شخص ہے جس نے اعلانیہ حضرت ابو بکر و عمر ، عثمان اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کھلا تبرا کیا بلکہ ان سے بیزاری کا اعلان کیا اور یہ بکواس بھی کی اسے ایسا کرنے کو سیدنا علی رضہ نے کہا ہے (جیسے آج کے رافضی بھی دعوی کرتے ہیں) سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو اسے قتل کرنے والے تھے لیکن لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے اسے جلاوطن کردیا اس بات کو نوبختی ، الکشی ، سعد بن عبداللہ القمی نے قبول کیا ہے ۔
ابن سبا وہ پہلا شخص ہے جس نے شہادت دی کہ امامت علی رضی اللہ عنہ کا ماننا فرض ہے اوراس نے اعلانیہ ان کے دشمنوں سے بیزاری کی اور انہیں کافر قرار دیا (جو آج کے رافضیوں کے ایمان کا بھی حصہ ہے) یہ شیعہ علماء کی طرف سے ایک اور اقرار ہے جسے آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا ۔
اسی کی بنیاد پر شیعوں کی مخالفت کی گئی اور بلاجھجک کہا گیا کہ رفض کی بنیاد یہود کے عقائد پر ہے اور یہی بات ہے جو کہ سب مسلمان مانتے ہیں اور اہل سنت کہتے ہیں شیعہ عقائد کی بنیاد ابن سبا یہودی کے عقائد پرہے اور پھر رافضیوں کے بے تکے سوالوں کے جواب میں یہی کہتے ہیں ۔
مثال کے طور پر رافضی کہتے ہیں : شیعہ کا کون سا اصول ابن سبا سے لیا گیا ہے ، شیعوں نے کس فقہی مسئلے کو اس سے لیا ہے ،کیا ہمارے امام ابن سبا کی تعریف کرتے تھے ، ہم نے ابن سبا سے کتنی احادیث لیں ہیں ۔ کیا شیعہ پاگل یا جاہل ہیں کہ 1400 سالوں میں یہ نہیں جان سکے کہ ان کے عقائد کی بنیاد جھوٹی روایات پر ہے جو عبداللہ بن سبا کی طرف سے آئی ہیں ۔
اگر ابن سبا یہودی شیعوں کےلیے اتنا اہم ہے تو شیعوں نے اماموں کی طرح اس کی روایات کو کیوں نہیں نقل کیا یقینن اگر ابن سبا شیعوں کا آقا ہوتا تو وہ ضرور اس کی روایات نقل کرتے اور اس پر فخر کرتے ۔ اس قسم کے سوالات کرنے والے العسکری ، یاسر الخبیث ،عمار نخوانی ، الوائیلی وغیرہ ہیں اور ان کا سادہ سا جواب یہ ہے ۔ کسی بھی مسلم سنی عالم نے کبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ابن سبا کی تقلید کی جاتی ہے یا اس کی تقلید رافضیوں کے لئے ضروری ہے ہم صرف یہ لکھتے آئے ہیں کہ رافضی صرف ابن سبا کے یہودی خیالات کی پیروی کر رہے ہیں ۔
مثال کے طور پر آج کے عیسائی کبھی یہ نہیں مانتے کہ وہ ان کی مذہب کی بنیاد سیدنا مسیح علیہ السلام کی عقائد پر نہیں ہے بلکہ پال یہودی جاہل کے عقائد پر ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے شیعہ (پیروکار) ہیں اسی طرح شیعت ایک ایسی جماعت ہے جس کی بنیاد رکھنے والا ایک یہودی عبداللہ ابن سبا ہے خاص طور پر صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر اور امامت علی رضی اللہ عنہ کے فرض ہونے کے عقائد اہل بیت رضی اللہ عنہم کے نہیں ہیں بلکہ یہ عقائد ابن سبا یہودی کے ہیں جس نے ان عقائد کی بنیاد رکھی اور وہی بقول شیعہ علماء کے پہلا شخص ہے جس نے ان عقائد کی لوگوں میں پرچار کی، اسی لئے ابن سبا کو روافض کا بانی کہا جاتا ہے اور تا قیامت کہا جائے گا ۔
ابن سبا رافضیوں کا روحانی باپ ہے اور ایسی عقائد کی بنیاد رکھنے ولا ہے جو کسی بھی فرقے میں نہیں ملتے سواء رافضیون کے (خاص اثنا عشریوں میں)
جو بھی کہتے ہیں کہ ابن سبا نے شیعت کی بنیاد رکھی اس کی وجہ اس کے عقائد ہیں خاص کر صحابہ کی تکفیر ، تبرہ ،علی رضہ کے بارے میں غلت اور وہ ان عقائد کی وجہ سے ہی مشہور ہے ۔ شاید کوئی کوشش کرے کہ ایسے عقائد ابن سبا سے پہلے بھی تھے لیکن وہ اس کے لئے کوئی بھی چیز نہیں ڈھونڈ سکتا ۔
اگر کوئی کہے کہ ابن سبا نے شیعت کی بنیاد رکھی جس میں شیعیت کے سب کے سب عقائد بشمول امامت کے آتے ہیں تو اس بات کا کسی نے بھی دعوی نہیں کیا اور نہ ہی ایسی چیز لکھی ہے مقصد کی بات یہ ہے ابن سبا یہودی نے رفض کی بنیاد رکھی جو کہ اہل بیت کے نام پر کی گئی اور آج تک اثنا عشری فرقہ اس کی تقلید میں صحابہ کرام خاص کر حضرت ابو بکر و عمر رضوان اللہ علیہم کی تکفیر کرتا آرہا ہے ۔
قال عبد الله بن سبأ لعلي عليه السلام: أنت الإله حقاً، فنفاه علي عليه السلام إلى المدائن، وقيل أنه كان يهودياً فأسلم، وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وفي موسى مثل ما قال في علي ۔
عبداللہ بن سبا نے علی علیہ السلام کو کہا کہ آپ رب ہیں تب علی رضی اللہ عنہ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کردیا کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اسلام لے آیا جب یہودی تھا تو یوشع بن نون کے بارے میں وہی کہتا تھا جو علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتا تھا ۔
سعد بن عبد اللہ اشعری القمی شیعہ سبائیت کے بارے میں لکھتا ہے کہ : سبائی عبد اللہ بن سباء جو کہ عبداللہ بن وہب الراسبی الہمدانی ہے ، کے پیروکار ہیں۔ اس کے ساتھ (اس کے نظریات کی) تائید عبد اللہ بن خرسی اور ابن اسود نے کی تھی اور یہی دونوں اس کے بڑے ساتھی تھے۔ اور ابن سباء ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے ابو بکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم پر طعن کی اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر تبرا کیا ۔ (المقالات والفرق صفحہ نمبر 30،چشتی)
ابن ابی الحدید شیعہ لکھتا ہے کہ : عبداللہ بن سباء علی رضی اللہ عنہ کے سامنے کھڑا ہو کر تقریر کرنے لگا اور تو ہی تو کی تکرار شروع کردی تو علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ : اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے ! میں کون ہوں؟ تو کہنے لگا کہ : تو اللہ ہے ۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے اور اس کے ساتھ اس کے پیروکاروں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ (شرح نہج البلاغہ جلد 5 صفحہ 5)
ابو عبداللہ (امام ابو جعفر) سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ : اللہ ! عبد اللہ بن سباء پر لعنت کرے ، اس نے امیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ربوبیت کا دعویٰ کیا، جبکہ اللہ کی قسم! امیر المؤمین تو اللہ کے مطیع اور فرماں بردار بندے تھے۔ ہلاکت ہو اس کے لئے جس نے ہم پر جھوٹ باندھا۔ ایک قوم ہے جو ہمارے بارے میں وہ باتیں کہتی ہے جو ہم نے اپنے بارے میں نہیں کہیں ہیں، ہم اللہ کے سامنے ان باتوں سے برأت کا اعلان کرتے ہیں، ہم اللہ کے سامنے ان باتوں سے برأت کا اعلان کرتے ہیں ۔ (شیعہ کتاب معرفۃ اخبار الرجال للکشی صفحہ نمبر 70, 71،چشتی)
سب شیعہ علماء نے ابن سبا اس کے عقائد اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں ذکر کیا ہے سید قمی جو کہ 301 ہجری میں وفات پاگئے ، شیخ طائفہ الطوسی ، تستری نے قاموس رجال میں ، عباس قمی نے تحفہ الاحباب ، انصاری نے روضات الجنات ، ناسخ التواریخ اور روضات الصفا کے مصنفین نے بھی اس کا ذکر کیا اس ساری بحث سے ہم نے یہ ثابت کردیا کہ عبداللہ بن سبا کا وجود ہے جو کہ یہودی تھا اور اس کی جس نے مدد کی یا اس کے عقائد اپنائے ان کو سبائی کہا جاتا ہے علماء شیعہ اس حقیقت سے بلکل واقف ہیں کہ وہ ہر ثبوت کو رد نہیں کر سکتے جو کہ ہم نے یہاں نقل کی ہیں اس کی وجہ یہ ہےکہ الکاشی مین امام ابن سبا کو لعنت کرتے دکہائی دیتے ہیں کیا امام ایک فرضی شخص پر لعنت کر سکتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جو ابن سبا کے وجود کا انکار کرتے ہیں جن میں یاسر الخبیس ، العسکری ،الوائلی اور دوسرے رافضی ہین لیکن آپ نے دیکھا کہ ہم نے ان کے خیال کا رد پیش کیا اب ان کے پاس اس پر کھڑے رہنے کےلیے ٹانگ نہیں ہے کیونکہ ان کے اماموں نے ابن سبا کو لعنت کر کے وہ ٹانگیں ہی کھنچ لی ہیں ۔ (مزید حصہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment