عبداللہ بن سبا یہودی اور شیعہ مذھب (سوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : بعض شیعہ یہ بات مانتے ہیں کہ ابن سبا کا وجود ہے تو وہ یہ نہیں مانتے کہ شیعت کا موجد یہ ہے ۔ مسلمانانِ اہلسنت جب یہ کہتے ہیں کہ ابنِ سبا شیعت کا بانی ہے تو اس سے مراد وہ رافضی شیعہ ہیں جو منافقانہ و گستاخانہ عقائد رکھتے ہیں یعنی ابو بکر و عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر کہتے ہیں ، قیامت سے پہلے امامِ غیب کا واپس آنا اور حضرت علی رضی عنہ کو اللہ ماننا اور مام انبیاۓ علہم السلام سے افضل ماننا ۔ آٸمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کو معصوم ماننا ۔
شیعہ ملا مجلسی بحار الانوار میں لکھتا ہے کہ : وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم ۔
ترجمہ : بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا ۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی ۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا ۔ اور مخالفوں کو کافر کہا ۔ (بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25،چشتی)
عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضی اللہ عنہ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا ۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔ (بحار الانوار ص 287 جلد 25 حاشیہ)
رجال الكشي : محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين ۔
ترجمہ : عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا ۔ (بحارالانوار جلد 25 ص 287)
جاء في (طوق الحمامة) ليحيى بن حمزة الزبيدي عن سويد بن غفلة الجعفي الكوفي المتوفى عام (80هـ/699م) أنه دخل على علي رضي الله عنه في إمارته، فقال: إني مررت بنفر يذكرون أبا بكر و عمر بسوء، ويروون أنك تضمر لهما مثل ذلك، منهم عبد الله بن سبأ، فقال علي: مالي ولهذا الخبيث الأسود، ثم قال : معاذ الله أن أضمر لهما إلا الحسن الجميل، ثم أرسل إلى ابن سبأ فسيره إلى المدائن، ونهض إلى المنبر، حتى اجتمع الناس أثنى عليهما خيرا، ثم قال : إذا بلغني عن أحد أنه يفضلني عليهما جلدته حد المفتري ۔
ترجمہ : یحی بن حمزہ زبیدی سوید بن غفلہ ال جعفی سے روایت کرتا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس داخل ہوا اورا نہیں کہا کہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا جس میں عبداللہ بن سبا بھی تھا وہ ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منفی باتیں کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں ان کے خلاف احساس پایا جاتا ہے تو آپ نے کہا کہ یہ خبیث کالا آدمی مجھ سے کیا چاہتا ہے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ان کے خلاف دل میں بات رکہنے سے اور دونوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کےلیے ادب رکھتا ہوں اور آپ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کر دیا اور منبر پر تشریف لائے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوگئے آپ نے ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تعریف کی اور کہا کہ اگر یہ بات مجھے پہنچی کہ مجھے ان دونوں پر فضلیت دی جاتی ہے تو میں اس کو کوڑے لگائوں گا جیسے وہ جھوٹوں کو لگاتے تھے ۔
حقیقت میں یہ روایت مختلف سندوں سے بیان کی گئی ہے جو کہ صحیح ہیں جیسے
ابو اسحاق الفرازی سیرہ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں شعبہ سے وہ سلمہ بن کھیل سے وہ ابو الزراہ سے وہ زید بن ھباب سے ۔ خطیب نے اس روایت کی تخریج الکفایہ ص 376 پر کی ہے اور کہا ہے کہ ابو عبداللہ البوشانجی نے اسے صحیح کہا ہے ، ابو نصر محمد بن عبداللہ الامام نے اپنی شرح میں کہا ہے یہ روایت دوسری سندوں سے بھی ثبت ہے اور اس کا اخری حصہ ابو بکر رضہ اور عمر رضہ امت کے میں سب سے بہترین ہیں جو کہ خود علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہے یہ متواتر ہے ۔ أخرج ابن عساكر عن زيد بن وهب الجهني الكوفي المتوفى عام (90هـ/709م) قال: (قال علي بن أبي طالب: مالي ولهذا الخبيث الأسود ۔ يعني عبد الله بن سبأ) ۔ و كان يقع في أبي بكر و عمر ابن عساكر ، مختصر تاريخ دمشق ، م 12، ص 222،چشتی)
زید بن وہب کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس کالے خبیث کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ان کا مطلب عبداللہ بن سبا تھا جو کہ ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی برائی کرتا تھا ۔ یہ روایت تاریخ ابن ابی خثیمہ میں بھی پائی جاتی ہے صحیح سند کے ساتھ ۔
عبدﷲ بن سبا علماء یہود میں سے ایک سربر آوردہ عالم تھا اور جب سے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے 2 یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال کر فلسطین کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس وقت سے اس کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی آگ سلگ رہی تھی اور وہ اندر ہی اندر ایسی تراکیب سوچتا رہتا تھا جس کے ذریعے مسلمانوں سے بغض و عداوت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرسکے۔ انہی تراکیب میں سے ایک ترکیب اسے یہ سوجھی کہ مسلمان ہوکر پھر ان کے رازونیاز سے واقفیت حاصل کی جائے اور کچھ ساتھی ڈھونڈے جائیں تاکہ مستقل گروہ بن جانے پر اسلام کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ چنانچہ وہ یمن سے مدینہ آیا اور مدینہ آکر اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ امیر المومنین تھے۔ آپ رضی ﷲ عنہ کی نرم دلی اور خوش خلقی سے اس نے یہ ناجائز فائدہ اٹھایا کہ مختلف حیلوں بہانوں سے حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کا اعتماد حاصل کرلیا اور اس اعتماد سے اب وہ اپنی مخفی دشمنی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے درپے رہنے لگا اور اپنے ہم خیال لوگوں کی تلاش میں مصروف ہوا۔
’’جویندہ یابندہ‘‘ کے مطابق اسے ایسے ہمنوا مل گئے جو بظاہر مسلمان تھے لیکن دل سے سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دشمن تھے۔ ان سے میل جول صلاح و مشورہ شروع ہوا اور خفیہ خفیہ ایک منظم گروہ تیار کرلیا۔ اسی منظم کے ذریعے اس نے اولین کامیابی یہ حاصل کی کہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کو شہید کرادیا۔ اس یہودی عالم (عبدﷲ ابن سبا) کی ان خفیہ سرگرمیوں اور اسلام و مسلمانوں کے ساتھ بغض و عداوت کی تفصیلات شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر کے مورخین کے ہاں صراحتاً ملتی ہیں۔
وکان ذلک ان عبدﷲ بن سبا کان یہودیا و اسلم ایام عثمان ثم تنقل فی الحجاز ثم بالبصرۃ ثم بالکوفۃ ثم بالشام یرید اضلال الناس فلم یقدر منہم علی ذلک فاخرجہ اہل الشام فاتیٰ مصراً فاقام فیہم وقال لہم العجب ممن یصدق ان عیسٰی یرجع و یکذب ان محمدا یرجع فوضع لہم الرجعۃ فقبلت منہ ثم قال لہم بعد ذلک انہ کان لکل نبی وصی وعلی وصی محمد فمن اظلم ممن لم یجزو صییۃ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فوثب علی وصییتہ وان عثمان اخذہا بغیر حق فانہفوا فی ہذا الامر وابداوا بالطعن علی امرائکم ۔ (الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد سوم ص 154، دخلت سنۃ خمس وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید،چشتی)
ترجمہ : بات یہ تھی کہ عبدﷲ بن سبا اصل یہودی تھا اور سیدنا حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کے دور خلافت میں اسلام قبول کرکے حجاز آگیا۔ پھر بصرہ پھر کوفہ اور اس کے بعد شام گیا اور ہر مقام پراس نے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی اور شامیوں نے اسے شام سے باہر نکال دیا۔ وہاں سے یہ مصر پہنچا اور وہاں آکر قیام پذیر ہوا۔ وہاں اس نے مصریوں کو کہا کہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسٰی دوبارہ آئیں گے تو لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انتقال کے بعد واپسی کا کہا جائے تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس طرح ’’رجعت‘‘ کاعقیدہ اس نے گھڑا۔ کچھ لوگوں نے اس کی یہ بات قبول کرلی۔ اس کے بعد دوسرے عقیدہ کوپھیلایا اور کہا کہ ہر پیغمبر کا کوئی نہ کوئی ’’وصی‘‘ ہوا ہے اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ’’وصی‘‘ حضرت علی رضی ﷲ عنہ ہیں تو جو شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کو جاری نہیں کرتا، اس سے بڑھ کر اور ظالم کون ہوگا۔ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ نے ناحق خلافت پر قبضہ کررکھا ہے۔ اس کی ان باتوں کو سن کر لوگ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے حاکموں پر لعن طعن کا آغاز کردیا۔
وذکر سیف بن عمر ان سبب تالف الاحزاب علی عثمان ان رجلا یقال لہ عبدﷲ بن سبا کان یہودیاً فاظہر الاسلام وصار الیٰ مصر فاوحیٰ الیٰ طآئفۃ من الناس کلا ما اخترعہ من عند نفسہ مضمونہ انہ یقول للرجل الیس قد ثبت ان عیسٰی ابن مریم سیعود الیٰ ہذہ الدنیا فیقول الرجل نعم فیقول لہ فرسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم افضل منہ فما تنکر ان یعود الیٰ ہٰذہ الدنیا وہوا اشرف من عیسٰی ابن مریم علیہما السلام ثم یقول وقد کان اوصیٰ الیٰ علی ابن ابی طالب فمحمد خاتم انبیآء و علی خاتم الاوصیاء ثم یقول فہوا حق بالامر من عثمان وعثمان معتدفی ولایتہ ما لیس لہ فانکروا علیہ واظہر والامر بالمعروف والنہی عن المنکر فافتتن بہ بشر کثیر من اہل مصر و کتبوا الی جماعات من عوام اہل الکوفۃ والبصرۃ فتما لوا علی ذلک وتکاتبوا فیہ وتواعدوا ان یجتمعوا فی الانکار علی عثمان وارسلوا الیہ من یناظر ویذکرلہ ماینقمون علیہ من تو لییتہ اقرباۂ وذویٰ رحمہ وعزلہ کبار الصحابۃ فرخل ہذا فی قلوب کثیر من الناس ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ہفتم ص 167 تا 168 فی تذکرہ سنۃ اربع وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید،چشتی)
ترجمہ : سیف بن عمر نے کہا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کے خلاف لشکر کشی کا سبب یہ تھا کہ ایک شخص عبدﷲ بن سبا نامی یہودی تھا۔ اس نے اسلام لانا ظاہر کیا اور مصر جاکر لوگوں کو ایک من گھڑت ’’وحی‘‘ سنائی جس کا مضمون یہ تھا کہ ایک آدمی کو وہ کہتا ہے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے؟ وہ آدمی جواباً کہتا ہے یہ درست ہے پھر اسی شخص کو وہ کہتا ہے کہ اگر یہی بات کوئی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق کہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی دوبارہ تشریف لائیں گے) تو تم اس بات کا انکار کرتے ہو حالانکہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عیسٰی بن مریم علیہ السلام سے افضل ہیں ۔ (لہذا انہیں ضرور دوبارہ آنا ہے) ۔ پھر وہ کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو اپنا ’’وصی‘‘ مقرر فرمایا ہے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ خاتم الوصیاء ہوئے ۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اس وجہ سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ امر خلافت کے حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ سے زیادہ حقدار ہیں ۔ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ نے امر خلافت میں زیادتی کی اور خود امیر بن بیٹھے یہ سن کر لوگوں نے حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ پر بہت سے اعتراضات کرنے شروع کردیئے اور اپنے مذموم عزائم کو ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کے رنگ میں پھیلانا شروع کیا۔ اس سے اہل مصر کی ایک کثیر تعداد فتنہ کی زد میں آگئی۔ انہوں نے کوفہ اور بصرہ کے عوام کو رقعہ جات لکھے جس کے بعد کوفی اور بصری لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کی خلافت کے انکار پر سب متفق ہوگئے ۔ انہوں نے کئی ایک آدمی حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے ساتھ مناظرہ کے لئے بھیجے اور کچھ ایسے پیغامات بھیجے کہ ہم آپ کے اس رویہ پر احتجاج کرتے ہیں آپ نے اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کو مختلف عہدے پر کیوں فائز کیا ؟ اور بڑے بڑے صحابہ کرام کو کوئی اہمیت نہ دی تو یہ باتیں بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئیں ۔
بانی مذہب شیعہ عبدﷲ بن سبا یہودی کے عقائد کے بیان میں اہل سنت کی مذکورہ کتب کی تائید شیعہ تواریخ سے بھی ہوتی ہے۔ یہاں چند ایک شیعہ کتب کی عبارات پیش کی جاتی ہیں ۔ (مزید حصہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment