عبداللہ بن سبا یہودی اور شیعہ مذھب (اول)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : عبداللہ بن سبا کے بارے میں شیعہ و سنی تواریخ میں بہت کچھ پایا جاتا ہے جو کہ ایک تواتر کی حد سے بھی زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ شخص واقعی میں حقیقت ہے نہ کہ افسانہ جیسے آج کل کے شیعہ تقیہ کر کے اسے افسانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس شخص کو ہی آخر شیعہ عقائد کا موجد کیوں کہا جاتا ہے ۔ فرقہ رافضہ یعنی شیعہ مذھب کا ظہور اس وقت ہوا جب ایک یہودی شخص عبداللہ بن سبا نے اسلام لانے کا دعوٰی کیا اور ساتھ میں آل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت کا بھی دعوٰی کر ڈالا ، حقیقت یہ ہے کہ محتب کا دعویٰ دعوی کر کے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں انتہائی غلو کا شکار ہوا یہاں تک کہ ان کی خلافت کی وصیت کا دعوی کر بیٹھا اور پھر انہیں رتبہ الوہیت تک پہنچا دیا ـ یہ وہ حقائق ہیں جن کی شیعہ مذھب کی کتابیں خود اعتراف کر رہی ہیں ـ
شیعہ عالم القمی اپنی کتاب المقالات والفرق (دیکھئے المقالات و الفرق للقمی ص / 10-21) میں عبداللہ بن سبا کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ وہ (عبداللہ بن سبا) پہلا شخص ہے جس نے علی رضی اللہ عنہ کی امامت و رجعت کا دعوی کیا اور ابوبکرو عمر و عثمان اور بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن و تشنیع کی '' جیسا کہ نو بختی نے اپنی کتاب '' فرق الشیعہ ''(فرق الشیعہ للنوبختی ص/ 19-30) میں اور الکشی نے اپنی کتاب '' رجال الکشی ''(دیکھئے ما اوردہ الکشی عن ابن رباء و عقائدہ ـ روایت نمبر ـ 120 ، 124 صفحہ 106 سے 108،چشتی) میں اس کا ذکر کیا ہے اور اعتراف تمام دلائل و براہین کی اساس ہے اور یہ تمام اشخاص رافضہ کے بڑے علماء اور مشائخ میں سے ہیں ـ
ملا باقر مجلسی شیعہ عالم بحار الانوار میں لکهتا ہے : وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم ۔
ترجمہ : بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔ اور مخالفوں کو کافر کہا - (بحار الانوار صفحہ 287 جلد 25)
ملا باقر مجلسی شیعہ عالم بحار الانوار میں لکهتا ہے : عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضی اللہ عنہ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا ۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا - (بحار الانوار صفحہ نمبر 287 جلد نمبر 25 حاشیہ،چشتی)
ملا باقر مجلسی شیعہ عالم بحار الانوار میں لکهتا ہے : حضرت صادق رح اس کے بارے میں فرماتے ہیں : رجال الكشي : محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،"عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا - (بحارالانوار جلد 25 صفحہ 287)
بغداری کا بیان ہے کہ سبائی فرقہ کا تعلق عبداللہ بن سبا کے اتباع سے ہے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو کر کے انکے نبی ہونے کا دعوی کیا ، پھر مزید غلو کا ارتکاب کرتے ہوئے انکے اللہ ہونے کا دعوی کیا ـ اور بغداری کہتے ہیں کہ ابن سوداء یعنی ابن سبا دراصل اہل حیرہ میں ایک یہودی تھا جس نے بظاہراسلام قبول کر لیا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ اہل کوفہ کا قائد اور سردار بن جائے یہی وجہ تھی کہ اس نے لوگوں کو بتایا کہ تورات میں ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں ـ
شیعہ عالم شہرستانی کا بیان ابن سبا کے بارے میں یہ ہے کہ '' وہ پہلا شخص ہے جس نے علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے صراحت اور تعیین و تحدید کی '' اور وہ سبئیہ فرقہ کے بارے میں رقمطراز ہے کہ وہ پہلا فرق ہے جس نے غیبوبیت اور رجعت کا مسئہ کھڑا کیا پھر یہ چیز شیعہ کو اس کے بعد انکے اختلافات اور متعدد گروپوں میں منقسم ہونے کے باوجود وراثت میں مل گئی '' یعنی تمام شیعہ نص ووصیت دونوں طور پر علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے قائل ہیں جو کہ ابن سباء کا بقیہ ترکہ ہے ـ بعدازاں شیعہ دسیوں فرقوں میں منقسم ہو گئے اور ان کے دسیوں مختلف اقوا ور آراء بھی ہو گئے اس طرح شیعہ نے وصیت اور رجعت و غیبوبیت کی بدعت کو ایجاد کیا بلکہ ابن سباء کی اتباع کرتے ہوئے وہ آئمہ کی الوہیت کے بھی قائل ہو گئے (اصول اعتقاد اھل السنہ والجماعہ / الکلینی جلد 1 صفحہ23،22،چشتی)
شیعہ کا نام رافضہ کیوں کر ہوا ، رافضہ '' انکار کرنے والی جماعت ''اس کی وجہ تسمیہ شیعوں کے شیخ مجلسی نے اپنی کتاب '' البحار'' میں ذکر کی ہے ، ساتھ ان کی چار حدیثوں کا بھی ذکر ہے (دیکھئے کتاب '' البحار للمجلسی ص 68-96-92 یہ انکی موجودہ مراجع و مصادر میں سے ایک ہے )
کہا جاتا ہے کہ انکا نام رافضہ اس لئے ہوا کہ وہ سب زید بن علی بن حسین کے پاس آئے اور کہا کہ ابوبکر و عمر سے براءت کرو تو ہم تمہارے ساتھ رہیں گئے ، انہوں نے جوابا کہا کہ وہ دونوں ہمارے نانا کے ساتھی ہیں ہم ان سے برات نہیں محبت کرتے ہیں ـ شیعوں نے کہ '' اذا نرفضک '' تب ہم تمہارا انکار کرتے ہیں ، اس لئے ان کا نام رافضہ ہو گیا اور جن لوگوں نے زید کی موافقت و بیعت کی انکا نام زیدیہ قرار پایا ۔ (التعلیقات علی متن لمعتہ الاعتقاد / للشخ عبدالرحمن جبرین رحمہ اللہ / ص-108)
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی امامت کے انکار کیوجہ سے انکام نام رافضہ پڑا (دیکھئے ـ حاشیہ مقالات الاسلامیین /محی الدین عبدالحمید / صفحہ نمبر 108،چشتی)
ایک اور قول یہ بھی ہے کہ وہ دین کا انکار کرنے کی وجہ سے رافضہ سے موسوم ہوئے ـ (مقالات الاسلامیین / محی الدین عبدالحمید / جلد 1 صفحہ 89)
فرق رافضہ کے بارے میں کتاب دائرہ المعارف میں مذکور ہے کہ شیعی فرقہ اپنے فروغ کے اعتبار سے تہتر 73 مشہور فرقوں میں منقسم ہو چکے ہیں ـ (دائرتہ المعارف / 4/62)
بلکہ میرباقر الداماد (یہ محمد باقر بن محمد الاسد شیعہ کے مشائخ میں سے ہیں ) رافضی سے منقول ہے کہ حدیث میں مذکور تمام کے تمام فرقہ شیعہ ہیں اور ان میں فرقہ ناجیہ وہ فرقہ امامیہ ہے ـ المقریزی کا بیان ہے کہ شیعہ کے فرقے تین سو تک پہنچ چکے ہیں ۔ (المقریزی فی الخطط/2/351)
شہرستانی کا کہنا ہے کہ رافضہ پانچ قسموں میں منقسم ہو چکے ہیں ـ کیسانیہ ـ زیدیہ ـ امامیہ ،ـ غالبہ ـ اسماعیلیہ ۔ (الملل والنحل للشہرستانی ص 142)
اور بغدادی کہتے ہیں علی کے زمانہ کے بعد رافضہ کے چار فرقے ہو گئے ـ زیدیہ ، امامیہ ، کیسانیہ اور غلاتہ ـ (الفرق بین الفرق للبغدادی ص /41 ) ۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ جارودیہ چھوڑ کر باقی زیدیہ روافض میں سے نہیں ہیں ۔ ان روایات کتب شیعہ سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شیعوں کے تینوں ہی فرقوں کی بنیاد اسی ایک شخص کے عقائد پر ہے تفضلیوں نے اس کی افضلیت علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ اپنایا، امامی شیعوں نے افضلیت علی رضی اللہ عنہ ، امامت، تبرہ بازی کے عقائد کو مل کر اپنایا پھر غالیوں نے اس کے الہویت علی کے عقیدہ کو اپنایا چناچہ مجموعی طرح سب شیعہ عقائد کا موجد یہی ہے. اور ہہاں یہ بهی ثابت ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن سبا کوئی دیو مالائی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment