Thursday 26 August 2021

مروجہ قوالی مع مزامیر کا شرعی حکم

0 comments

 مروجہ قوالی مع مزامیر کا شرعی حکم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : الحَمْدُ ِلله فقیر چشتی ہے اور محفلِ سماع جو شرعی حدود کے اندر مکمل شرائطِ سماع کے ساتھ ہو اسے جائز سمجھتا ہے ۔ یعنی کہ محفل میں مزامیر ، طبلے باجے گانے بجانے والے آلات نہ ہوں ، افراد با وضو ہوں ، توحید و رسالت اور دین کے بارے میں اشعار ہوں ، خواتین اور مرد آپس میں خلط ملط نہ ہوں یعنی کہ ملے ہوئے نہ ہوں ، توجہ الفاظ اور اشعار پر ہو ۔ اگر خلاف شرع کوئی کام نہ ہو تو جائز ہے ۔ مگر آج کل بزگانِ دین کے مزار ات پر ان کے عرس کا نام لے کر خوب موج مستیاں ہو رہی ہیں ۔ بد معاش ، بد کردار لوگ اپنی رنگیلیوں ، باجوں تماشوں ، عورتوں کی چھیڑ چھاڑ کے مزے اٹھانے کےلیے اللہ والوں کے مزاروں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ کاش !یہ لوگ موج مستیاں ، ڈھول باجے ، مزامیر کے ساتھ قوالیاں مزارات سے الگ کرتے اور عرس کا نام نہ لیتے تو کم از کم اسلام اور اسلام کے بزرگانِ دین بدنام نہ ہوتے ۔ آج کفار مشرکین یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ناچ گانوں ، تماشوں ، باجوں اور بے پردہ عورتوں کو اسٹیجوں پر لا کر بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والا مذہب ہے ۔ افسوس انہوں نے غلط سمجھا ۔ اسلام ہرگز ہرگز ایسا دین نہیں ہے اسلام کا حکم تو یہ ہے  کہ ڈھول ، باجے ، سارنگی ، مزامیر وغیرہ آلاتِ موسیقی ، تالیاں ، رقص ، سب حرام ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں : قوالی مع مزامیر چشتیہ سلسلے میں رائج اور جائز ہے ۔ یہ بزرگانِ چشتیہعلیہم الرّحمہ پر ان کا صریح بہتان ہے بلکہ ان لوگوں نے بھی مزامیر کے ساتھ قوالی سننے کو حرام فرمایا ہے ۔ حضرت خواجہ محبوب الٰہی نظام  الدین اولیاءدہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے خاص خلیفہ حضرتِ فخر الدین زرّادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مسئلہ سماع کے متعلق ایک رسالہ لکھوایا جس کا نام ہے : کشف  القناع عن اصول السماع ۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ ہمار بزرگوں کا سماع مزامیر کے بہتان سے بری ہیں ۔ (ان کا سماع تو یہ ہے کہ) صرف قوال کی آواز ان اشعار کے ساتھ ہو جو کمال صنعت الہٰی کی خبر دیتے ہیں قطب الاقتاب حضرت بابا فرید الدین شکر گنج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید اور حضرتِ خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ حضرتِ محمد بن مبارک علوی کرمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب ،، سیر الاولیاء ،، میں تحریر فرماتے ہیں حضرت خواجہ محبوب الٰہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  نےچند شرائط کے ساتھ سماع جائز فرمایا : (1) سنانے والا مرد کامل ہو چھوٹا لڑکا یا عورت نہ ہو ۔ (2) سننے والا یاد خدا سے غافل نہ ہو ۔ (3) جو کلام پڑھا  جائے ، فحش ، بے حیا اور مزاحیہ نہ ہو ۔ (4) آلہ سماع یعنی سارنگی ، مزامیر و رباب سے پاک ہو ، ان باتوں کے ہوتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ خاندانِ چشتیہ میں مزامیر کے ساتھ قوالی جائز ہے ۔ ہاں یہ بات وہی لوگ کہیں گے جو نہ چشتی ہیں ، نہ قادری انہیں تو مزے داریا ں اور لطف اندوزیاں چاہئیں ۔ اور اب جب  کہ سارے کے سارے قوال بے نمازی اور فاسق و فاجر ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض شرابی تک سننے میں آئے ہیں نیز  عورتیں اور امرد لڑکے بھی چل پڑے ہیں ایسے ماحول میں ان قوالیوں کو صرف وہی جائز کہے گا جس کو اسلام و قرآن ، دین و ایمان سے کوئی محبت نہیں ۔ بے حیائی اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئ ہے اور قرآن و حدیث کے فرامین کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے کیا اسی کا نام اسلام پسندی ہےکہ مسلمان عورتوں کو لاکھوں کے مجمع میں لا کر ان سے ڈانس کروائے جائیں ، پھر ان تماشوں کا نام عرس رکھا جائے یہ صرف اور صرف کافروں کے سامنے مسلمانوں اور مذہب کو ذلیل  و بدنام کرنے کی سازش ہے  کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قوالی اہل کےلیے جائز  ہے اور نا اہل کےلیے نا جائز ہے ۔ ایسا کہنے والوں سے فقیر چشتی پوچھتا ہے کہ آج کل قوالیوں کے سینکڑوں ، ہزاروں کے مجمع میں کیا سب کے سب اہل اللہ اور اصحابِ استغراق ہیں ، جنہیں دنیا اور متاعِ دنیا کا قطعا ہوش نہیں ؟ جنہیں یادِ الہٰی اور ذکر الہٰی سے ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں ؟ خزانے کی نیندوں اور گپوں میں نمازوں کو گنوا دینے والے ، رات دن ننگی فلموں ، گندے گانوں میں مست رہنے والے ، ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور ان کو ستانے والے  ، چور چکور ، جھوٹے ، فریبی ، گرہ کاٹ وغیرہ ؛ کیا یہ سب کے سب تھوڑی دیر کےلیے قوالیوں کی مجلس میں شریک ہو کر اللہ والے ہو جاتے ہیں یا پیر صاحب نے اہل کا بہانہ تلاش کر کے اپنی موج مستیوں کا سامان کر رکھا ہے ؟ کہ پیری بھی ہاتھ سے نہ جائے اور دنیا کی موج مستیوں میں بھی کوئی کمی نہ آئے ۔


صحیح بخاری شریف میں ہے : سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول : لیکونن من أمتی أقوام یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف ۔ ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا : ضرور میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے ، جو آزاد شخص (کی خرید و فروخت) کو ، ریشم کو ، شراب کو اور گانے بجانے کے آلات کوحلال سمجھیں گے ۔ (صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 106دارطوق النجاۃ)


سماع کی شرائط


سیدی مولانا محمد بن مبارک بن محمد علوی کرمانی مرید حضور پرنورشیخ فرید الحق والدین گنج شکر و حضور سیدنا محبوب الٰہی رحمہم اللہ علیہم کتاب مستطاب سید الاولیاء میں فرماتے ہیں : حضرت سلطان المشائخ قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز فرماتے تھے کہ چند شرائط ہوں تو سماع مباح ہو گا ، کچھ شرطیں سنانے والے میں کچھ سننے والے میں ، کچھ اس کلام میں جو سنائی جائے ، کچھ آلہ سماع میں یعنی :

(1) سنانے والا کامل مرد ہو

(2) چھوٹا لڑکا نہ ہو

(3) عورت نہ ہو

(4) سننے والا یاد خدا ء سے غافل نہ ہو

(5) جو کلام پڑھی جائے فحش نہ ہو

(6) تمسخرانہ انداز کی نہ ہو

(7) آلات سمع یعنی مز امیر جیسے سارنگی اور باب وغیرہ .... چاہیے کہ ان چیزوں سے کوئی موجود نہ اس طرح کا سماع حلال ہو گا ۔

مسلمانو! یہ فتویٰ ہے مرور سردار سلسلہ عالیہ چشت حضرت سلطان اولیاء رحمة اللہ علیہ کا ، کیا اس کےبعد بھی مفتریوں کو منہ دکھانے کی گنجائش ہے ؟


اسی سید الاولیاء شریف میں ہے ۔ ترجمہ فارسی : ایک آدمی نے حضرت شیخ المشائخ کی خدمت میں عرض کی کہ ان ایام میں بعض آستانہ دار درویشوں نے ایسے مجمع میں جہاں چنگ و رباب اور دیگر مزامیر تھے ، رقص کیا ( دھمال ڈالا) فرمایا انہوں نےاچھا کام نہیں کیا جو چیز شرع میں ناجائز ہے ، ناپسندیدہ ہے ، اس کے بعد ایک نے کہا : جب یہ جماعت اس مقام سے باہر آئی ،لوگوں نے ان سے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا وہاں تو مزامیر (آلات موسیقی) تھے ، تم نے سماع کس طرح سنا اوررقص کیا ( دھمال ڈالا) انہوں نے جواب دیا ہم اس طرح سماع میں مستغرق تھے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوا کہ یہاں مزامیر ہیں یا نہیں ، سلطان المشائخ نےفرمایا : یہ جواب کچھ نہیں ، اس طرح تو تمام گناہوں کے متعلق کہ سکتے ہیں ۔


مسلمانوں کیسا صاف ارشاد ہے کہ مزامیر (آلات موسیقی) ناجائز ہیں اور اس کاعذر کا کہ ہیمں استغراق کے باعث مزامیر کی خبر نہ ہوئی ، کیا مسکت جواب عطاء فرمایا کہ ایسا حیلہ ہرگناہ میں چل سکتا ہے شراب پینے اور کہ دے کہ شدت استغراق کے باعث ہمیں خبر نہ ہوئی کہ شراب ہے یاپانی ، زنا کرے اور کہ دے کہ غلبہ حال کے سبب ہمیں تمیز نہ ہوئی کہ جورو ہے یا بیگانہ ۔ اس میں ہے ۔


اسی سید الاولیاء شریف میں ہے ۔ ترجمہ فارسی : حضرت شیخ المشائخ نے فرمایا میں نے منع کر رکھا ہے کہ مزامیر اور دیگر محرمات درمیان میں نہ ہوں اور اس بات میں آپ نے بہت مبالغہ کیا ، یہاں تک فرمایا کہ اگر امام نمازمیں بھول جائے مرد تو سبحان اللہ کہہ کر امام کو مطلع کرے اور عورت سبحان اللہ نہ کہے کیونکہ اس کواپنی آواز سنانا نہ چاہیے پس ایک ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر نہ مارے کہ اس طرح یہ کھیل ہو گا بلکہ ہاتھ کی پشت دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارے جب یہ یہاں تک لہو و لعب کی چیزوں اور ان جیسی چیزوں سے پرہیز آئی ہے تو سماع بطریق اولیٰ منع ہیں ۔


مسلمانو! جو ائمہ طریقت علیہم الرّحمہ اس درجہ احتیاط فرمائیں کہ تالی کی صورت کو ممنوع بتائیں وہ اور معاذاللہ مزامیر کی تہمت ، للہ انصاف ! کیسا ضبط بے ربط ہے ، اللہ تعالیٰ اتباع شیطان سے بچائے اور ان سچے محبوبان خدا کا سچا اتباع عطاء فرمائے آمین ۔


مروجہ قوالی مع مزامیر کے بارے میں  امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ فرما تے ہیں : مزامیر جائز نہیں حضور سیدناسلطان المشائخ نظام الحق والدین سردار سلسلہ عالیہ  چشتیہ نظامیہ فوائدالفوائد شریف میں ارشاد فرما تے ہیں ۔ مزامیر حرام است یعنی مزامیر حرام ہے ۔ ( فتاوی رضویہ  جلد نمبر ۲۱ صفحہ نمبر ۱۱۶ مترجم جدید،چشتی)


امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ احکام شریعت صفحہ 176 میں ایک مسئلہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے مزامیر کیساتھ قوالی ۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : خالی قوالی جائز ہے اور مزامیر حرام زیادہ غلو اب منتسبان سلسلہ چشتیہ کو ہےحضرت سلطان المشائخ محبوب الہی رضی اللہ تعالی عنہ (مراد حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ہیں) فوائد الفواد شریف میں فر ماتے ہیں مزامیر حرام است ( باجے ساز گانے کے آلات) حضرت یحیی منیری رحمۃ اللہ علیہ نے مزامیر کو زنا کیساتھ شمار کیا ہے ۔ (احکام شریعت کےصفحہ نمبر 81 پر کافی تفصیلی گفتگو کی ہے)


فتاوی رضویہ میں امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ سے سوال ہوا : ’زیدکہتا ہے کہ قوالی مع آلات مزامیر کے جائزہے ۔۔۔ اور کہتا ہے کہ مزامیر اُن باجوں کو کہتے ہیں ، جو منہ سے بجائے جاتے ہیں ۔  ڈھلک ، ستار ، طبلہ ، مجیرے ، ہارمونیم ، سارنگی مزامیر میں داخل نہیں بلکہ ان کا اوردف کاایک حکم ہے ۔ (اس کے جواب میں امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : زیدکاقول باطل و مردود ہے ، حدیث صحیح بخاری شریف میں مزامیر کا لفظ نہیں بلکہ معازف کہ سب باجوں کوشامل ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 140 رضافاؤنڈیشن لاهور،چشتی)


امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ سے سوال ہوا : میلاد شریف میں قوالی کی طرح پڑھنا کیساہے ؟

اس کے جواب میں فرمایا : قوالی کی طرح پڑھنے سے اگر یہ مرا د کہ ڈھول ستار کے ساتھ ، جب تو حرام اور سخت حرام ہے اور اگر صرف خوش الحانی مراد ہے ، تو کوئی امر مورث فتنہ نہ ہو ، تو جائز بلکہ محمود ہے اور اگر بے مزامیر گانے کے طور پر راگنی کی رعایت سے ہو ، تو ناپسند ہے کہ یہ امر ذکر شریف کے مناسب نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 664 رضافاؤنڈیشن لاهور)


اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا ، ناچ کرانا حرام ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 98 رضافاؤنڈیشن لاهور،چشتی)


مروجہ ڈھول کوجائزکہنے والے شریعت پرجھوٹ باندھنے والے ہیں ، ان سے کہا جائے کہ اگرتم سچے ہو ، تو دکھاؤ شریعت میں اسے کہاں جائز بتایا گیاہے ؟ان سب پراس افتراء سے توبہ کرنافرض ہے ۔


ناک کان ہاتھوں پیروں میں کسی قسم کا  زیور جائز نہیں ہے اگر چہ پلاسٹیک کا ہو کہ یہ عورتوں سے مشابہت ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا من تشبہ بقوم فھو منھم 

مرد کےلیے صرف چاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ والی وہ بھی ساڑھے چار ماشے کم ہو جائز ہے اس کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا زیور جائز نہیں ۔ (کتبِ فقہ)


 مذکورہ بالا افعال کا حامل خص فاسق معلن ہے اس سے اذان پڑھوانا ، قوالی یعنی محفلِ سماع میں کلام پڑھوانا یا نعت وغیرہ سننا ناجائز ہے کہ فاسق کی تعظیم نا جائز ہے اور منبر پر بٹھانے نعت پڑھوانے پر اس کی تعظیم ہے ۔ توبہ کرکے پھر گناہ کرنا بہت برا ہے اور یہ اللہ کے ساتھ استہزا کرنا ہے اس لیے جب تک وہ امور قبیحہ وشنیعہ سے سچے دل سے توبہ نہ کرلے اور قبیحہ افعال سے باز نہ آجائے اس کا بائیکاٹ کر دیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ  فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ۔ (سورہ انعام ۶۸)

 ترجمہ : اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ۔


جب استغفار کرلے اور افعال قبیحہ سے باز آجائے تو اذان دینے اور میلاد وغیرہ میں بلانے میں کوئی حرج نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔