حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والدین مومن تھے
محترم قارئینِ کرام قرآنِ پاک میں ارشاد ہے : رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (41) ۔
ترجمہ : (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی) اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب ہوگا ۔ (سورہ ابراہیم آیت نمبر 41)
اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تا رخ مومن ، مؤحد اور جنّتی تھے آزر بُت پرست آپ کا چچا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کی مغفرت کےلیے دعا کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مسلمان تھے کیونکہ کافر کےلیے مغفرت کی دعا نہیں کی جاتی ۔
علماء فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ماں باپ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والدین مراد ہیں اور وہ دونوں مومن تھے اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لئے دعا فرمائی ، جبکہ سورہ توبہ کی اس آیت ’’وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوعِدَةٍ ۔ (سورہ توبہ آیت ۱۱۴)
ترجمہ : اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا ۔
میں باپ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چچا آزر مراد ہے ، سگے والد مراد نہیں ۔ (تفسیر روح البیان ابراہیم الآیۃ ۴۱، ۴ / ۴۳۰،چشتی)
امام ابن ابی حاتم رحمة اللہ علیہ متوفی 327 ھجری حضرت بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں : حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آزر کی زندگی میں اس کے ایمان لانے کی امید تھی اس وجہ سے وہ اس کےلیے استغفار کرتے تھے جب آزر مرگیا تو انہوں نے اس کے لیے استغفار نہیں کیا اس بے زار ہوگئے وہ مرگیا اور ایمان نہیں لایا ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث 10060، مکتبہ نزار المصطفی الباز مکہ مکرمہ 1417 ھ)
آزر نے 205 سال کی عمر پائی اور اس کی وفات شام کے مشہور و قدیم شہر حرا میں ہوئی ۔ (عہد نامہ قدیم التکوین باب : 11 آیت :30 دائرلمعارف الا سلامیہ ج 1 ص 115)
امام ابو سعد رحمة اللہ علیہ متوفی 230 ھ لکھتے ہیں : ہشام بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے بابل سے شام کی طرف ہجرت کی وہاں سارہ نے اپنے آپ کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کے لیے ہبہ کردیا حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ان سے نکاح کرلیا وہ ان کے ساتھ گئیں اس وقت حضرت ابراھیم علیہ السلام کی عمر سینتیس سال تھی وہ ان کے ساتھ حران گئے اور ایک طویل عرصہ تک وہاں رہے ، پھر وہاں سے اردن چلے گئے اور وہاں بھی ایک طویل عرصہ رہے پھر مصر چلے گئے اور وہاں بھی ایک طویل عرصہ تک رہے پھر شام لوٹ ائے اور وہاں ایلیا اور فلسطین کے درمیان السبح کے علاقہ میں رہے وہاں ایک کنواں کھودا اور مسجد بنائی وہاں کچھ لوگوں نے آپ کو ستایا تو آپ فلسطین اور ایلیا کے درمیان ایک مقام پر چلے گئے وہاں بھی ایک کنوں کھودا اور اقامت کی اللہ نے آپ کو بہت مال اور بہت علام عطا کیے تھے ، آپ وہ پہلے شخص ہیں جس نے مہمان نوازی کی اور پہلے شخص ہیں جس نے ثرید (سالن میں روٹی کے ٹکڑے) بنایا اور پہلے شخص ہیں جس نے سفید بال دیکھے ۔ (الطبقات الکبری ج 1 ص 39، 40، مطبوعہ دارال کتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)
امام محمد بن سعد رحمة اللہ علیہ محمد بن عمر اسلمی سے روایت کرتے ہیں جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کی عمر نوے سال ہوگئی تو حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اور اس کے تیس سال بعد حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابراھیم علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال تھی ۔ (الطبقات الکبری ج 1 ص 40، 41، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ،چشتی)
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمة اللہ علیہ متوفی 256 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابراھیم علیہ السلام سارہ کے ساتھ ایک جابر بادشاہ کے ملک میں پہنچے ۔ (حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے لکھا ہے وہ مصر کا بادشاہ تھا اور اس کا نام عمروبن امرء القیس بن سبا تھا ۔ (فتح لباری ج 6 ص 392)
آذر شام کے قدیم شہر حران میں مرگیا تھا اور حضرت ابراھیم علیہ السلام ایک طویل عرصہ حران میں رہنے کے بعد اردن گئے اور اردن میں ایک طویل عرصہ رہنے کے بعد حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے اور مصر میں حضرت ہاجرہ دی گئیں جیسا کہ صحیح بخاری کی اس حدیث کی شرح فرح الباری کے حوالے سے ہم بیان کر چکے ہیں اور امام ابن سعد نے بھی یہ روایت کیا ہے کہ حضرت ہاجرہ قبطیہ تھیں اور مصر کے ایک شہر کی رہنے والی تھیں وہ مصر کے ایک ظالم اور سرکش فرعون کے پاس تھیں جس نے جس نے حضرت سارہ کی عزت پر ہاتھ ڈالنا چاہا تھا ۔ اللہ نے اس کو نامراد کیا پھر اس نے حضرت ہاجرہ کو بلایا اور حضرت سارہ کو بخش دیا ۔ (الطبقفات الکبری ج 1 ص 41، مطبوعہ دارلکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
علامہ ابوالفرج عبدالرحمان بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی ٥٩٧ ھ نے آزر کے متعلق چار قول لکھے ہیں : (1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘ حسن ‘ سدی اور ابن اسحاق نے کہا کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ہے ۔ (2) مجاہد نے کہا آزر بت کا نام ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ ہے ۔ (3) زجاج نے کہا کہ آزر نام نہیں ہے ‘ بلکہ مذمت کا کلمہ ‘ گویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اے خطا کار ! تو بتوں کو معبود قرار دے رہا ہے ۔ (4) مقاتل بن حیان نے کہا کہ آزر حضرت ابراہیم کے باپ کا نام نہیں ہے ‘ یہ ان کا لقب ہے : (تفسیر زادالمیسر ج ٣‘ ص ٧٦۔ ٧٥‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ،چشتی)
اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر ہے یا تارخ ہے ۔ دراصل یہ اختلاف ایک اور اختلاف پر مبنی ہے اور وہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے والدین کا کافر ہونا جائز ہے یا نہیں ۔ امام ابن جریر ‘ امام رازی ‘ علامہ قرطبی ‘ اور علامہ ابو الحیان وغیرہم کی رائے ہے کہ ان کے والدین کا کافر ہونا جائز ہے ‘ اور متاخرین میں سے علامہ نیشاپوری ‘ علامہ سیوطی اور علامہ آلوسی ‘ علیہم الرّحمہ کی تحقیق یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے آباء کرام مومن تھے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں تمام آباء اور امہات مومن تھے ۔ اب ہم وہ روایات ذکر کریں گے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا اور آزر آپ کا چچا تھا ‘ اور عرب محاورات میں چچا پر باپ کا اطلاق ہوتا رہتا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ تارخ تھا نہ کہ آزر
امام ابو اسحاق زجاج رحمة اللہ علیہ متوفی ٣١١ ھ لکھتے ہیں : نسب بیان کرنے والوں کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا ‘ اور قرآن اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا نام آزر تھا ۔ (تفسیر معانی القرآن واعرابہ للزجاج ‘ ج ٢‘ ص ٢٦٥،چشتی)
امام ابن جریر رحمة اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ مجاہد نے کہا کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام نہیں ہے ‘ وہ بت کا نام ہے ۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ٣١٦‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ)
امام ابو عبدالرحمن بن ادریس رازی بن حاتم رحمة اللہ علیہ متوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ضحاک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا نام آزر نہیں تھا ‘ ان کے باپ کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد بیان کرتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نہیں تھا ۔ ضحاک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آزر سے کہا کیا تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں سے مدد مانگتے ہو ایسا نہ کرو اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر نہیں تھا ‘ ان کے باپ کا نام تارخ تھا ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ‘ ج ٤‘ ص ١٣٢٥‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ،چشتی)
خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : امام ابن ابی حاتم اور امام ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ آزر بت ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نہیں ہے ‘ وہ ابراہیم بن تارخ بن ناحور بن شاروغ بن عابر بن فالع ہیں ۔ قرآن مجید میں آزر کے اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اب (باپ) کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ اس کی یہ توجیہ کی گئی ہے کہ عرب میں ” اب “ کا اطلاق عم پر بہ کثرت کیا جاتا ہے ‘ اگرچہ یہ مجاز ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ام کنتم شھدآء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبینہ ماتعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ ابائک ابرھیم واسمعیل واسحق ۔ (البقرہ : ١٣٣)
ترجمہ : کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب کو موت آئی جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ‘ انہوں نے کہا ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم ‘ اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے ۔
اس آیت میں حضرت اسماعیل پر باپ کا اطلاق کیا گیا ہے ‘ حالانکہ وہ حضرت یعقوب کے باپ نہیں ‘ بلکہ چچا ہیں اور امام ابو العالیہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ اس آیت میں چچا پر باپ کا اطلاق کیا گیا ہے اور انہوں نے محمد بن کعب قرظی سے روایت کیا ہے کہ ماموں والد ہے اور چچا والد ہے اور اس آیت کی تلاوت کی ۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ٢‘ ص ٢١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد پاکستان،چشتی)
امام ابن المنذر رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں سند صحیح کے ساتھ حضرت سلیمان بن صرد سے روایت کیا ہے کہ جب کفار نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا وہ لکڑیاں جمع کرنے لگے ‘ حتی کہ ایک بوڑھی عورت بھی لکڑیاں جمع کرنے لگی ۔ جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے کہا ۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل “۔ اور جب انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔
ینار کونی برداوسلاما علی ابراھیم “۔ (الانبیاء : ٦٩)
ترجمہ : اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا نے کہا میری وجہ سے ان سے عذاب دور کیا گیا ہے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے آگ کی ایک چنگاری بھیجی جو اس کے پیر پر لگی اور اس کو جلا دیا ۔
اس اثر میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چچا تھا اور اس اثر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آزر اس وقت میں ہلاک کیا گیا تھا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں یہ خبر دی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ معلوم ہوگیا کہ آزر اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس کےلیے استغفار کرنا ترک کر گیا ‘ اور احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ حالت شرک میں مرگیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دشمن خدا ہونا معلوم ہوگیا اور انہوں نے پھر اس کے لیے استغفار نہیں کیا ۔
امام ابن ابی حاتم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے (عرفی) باپ کے لیے مسلسل استغفار کرتے رہے اور جب وہ مرگیا تو ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے۔ پھر انہوں نے اسکے لیے استغفار نہیں کیا اور انہوں نے محمد بن کعب ‘ قتادہ ‘ مجاہد اور حسن وغیرہم سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کی حیات میں اس کے ایمان کی امید رکھتے تھے اور جب وہ شرک پر مرگیا تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ پھر آگ میں ڈالے جانے کے واقعہ کے بعدحضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شام کی طرف ہجرت کی ‘ جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی تصریح کی ہے ‘ پھر ہجرت کے کافی عرصہ بعد وہ مصر میں داخل ہوئے اور وہاں حضرت سارہ کے سبب سے ظالم بادشاہ کے ساتھ ان کا واقعہ پیش آیا اور انجام کار حضرت ہاجرہ آپ کی باندی بنادی گئیں اس کے بعد پھر شام کی طرف لوٹ گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ حضرت ہاجرہ اور اس کے بیٹے حضرت اسماعیل کو مکہ میں منتقل کردیں اور وہاں آپ نے یہ دعا کی : ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون، ربنا انک تعلم مانخفی وما نعلن وما یخفی علی اللہ من شیء فی الارض ولا فی السماء، الحمد للہ الذی وھب لی علی الکبر اسمعیل واسحق ان ربی لسمیع الدعآء، رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء، ربنا اغفرلی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب ۔ (سورہ ابراہیم : ٤١۔ ٣٧)
ترجمہ : اے ہمارے رب ‘ بیشک میں نے اپنی بعض اولاد کو بےآب وگیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ‘ اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں ‘ سو تم کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انکو بعض پھل عطا فرماتا کہ وہ شکر ادا کریں ‘ اے ہمارے رب ! بیشک تو جانتا ہے جس کو ہم چھپاتے ہیں اور جس کو ہم ظاہر کرتے ہیں اور آسمان اور زمین میں سے کوئی چیز اللہ پر مخفی نہیں ہے سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ‘ بیشک میرا رب ضرور میری دعا سننے والا ہے ‘ اے میرے رب ! مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور میری اولاد (سے) بھی ‘ اے ہمارے رب ! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور سب ایمان والوں کو جس دن حساب قائم ہوگا ۔
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے چچا آزر کے فوت ہونے کے طویل عرصہ بعد اپنے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کی۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ قرآن مجید میں جس شخص کے کفر اور اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیزار ہونے کا ذکر ہے وہ ان کے چچا تھے نہ کہ ان کے حقیقی والد ۔
امام محمد بن سعد نے الطبقات میں کلبی سے روایت کیا ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بابل سے شام کی طرف ہجرت کی تو ان کی عمر سینتیس (٣٧) سال تھی ‘ پھر انہوں نے کچھ عرصہ حران میں قیام کیا ‘ پھر کچھ عرصہ اردن میں قیام کیا پھر وہاں سے مصر چلے گئے اور کچھ عرصہ وہاں قیام کیا ‘ پھر وہاں سے شام کی طرف لوٹ گئے اور ایلیا اور فلسطین کے درمیان قیام کیا۔ پھر وہاں کے لوگوں نے آپ کو ستایا تو آپ رملہ اور ایلیا کے درمیان چلے گئے اور امام ابن سعد نے واقدی سے روایت کیا ہے کہ نوے سال کی عمر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اور ان دونوں اثروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگ میں ڈالے جانے والے واقعہ کے بعد جب آپ نے بابل سے ہجرت کی تھی اور مکہ مکرمہ میں جو آپ نے دعا کی تھی انکے درمیان پچاس اور کچھ سال کا عرصہ ہے ۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ١‘ ص ٢١٥۔ ٢١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ،چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ آزر کے مرنے کے پچاس سے زیادہ سال کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والدین کی مغفرت کےلیے دعا کی ہے اور جب کہ آزر سے وہ بیزار ہوچکے تھے اور اس کےلیے دعا کو ترک کر چکے تھے تو اس سے یہ ظاہر ہوا کہ آزر اور شخص تھا اور ان کے والد اور شخص تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ان کے چچا آزر کو اب (عرفی باپ) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور ان کے حقیقی باپ کو والد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ‘ تاکہ تغییر عنوان تغییر معنون پر دلالت کرے۔ ہم نے علامہ سیوطی کے جس استدلال کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے ‘ علامہ آلوسی نے بھی اس کا خلاصہ ذکر کیا ہے ۔ (تفسیر روح المعانی ‘ جز ٧‘ ص ١٩٥‘ طبع بیروت،چشتی)
اس سلسلہ میں اس حدیث سے بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے (عرفی) باپ آزر سے قیامت کے دن ملاقات ہوگی اور آزر کے چہرے پر دھواں اور گرد و غبار ہوگا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سے فرمائیں گے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میری نافرمانی نہ کرنا ؟ ان کے (عرفی) باپ کہیں گے ‘ آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے ‘ اے میرے رب تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ تو قیامت کے دن مجھ کو شرمندہ نہیں کرے گا اور اس سے بڑی اور کیا شرمندگی ہوگی کہ میرا (عرفی) باپ رحمت سے دور ہو ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے ‘ پھر کہا جائے گا اے ابراہیم ! تمہارے پیروں کے نیچے کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام دیکھیں گے تو وہ گندگی میں لتھڑا ہوا ایک بجو ہوگا۔ اور اس کو ٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٥٠‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٧٥‘چشتی)(المستدرک ‘ ج ٢‘ ص ٣٣٨‘ کنزالعمال ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢٢٩٢‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥٣٨)
حافظ عماد الدین ابن کثیر شافعی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں : یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا نام آزر ہے اور جمہور اہل نسب ‘ بہ شمول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سب اس پر متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تارخ ہے اور اہل کتاب تارح کہتے ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ ‘ ج ١‘ ص ١٤٢‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٩٧٤ ء)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ متوفی ١٠٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : بعض علماء رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام شرک اور کفر کی آلودگی سے پاک اور منزہ ہیں ۔ ان کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا ہیں ‘ ان کو مجازا باپ کہا گیا ہے اور ان کے باپ کا نام تارخ ہے اسی وجہ سے مطلقا نہیں فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے باپ سے ملاقات ہوگی ‘ تاکہ ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن متوجہ نہ ہو ‘ اور ان کے والد کے ساتھ آزر کا ذکر کیا ‘ تاکہ معلوم ہو کہ یہاں مجازی باپ مراد ہے ۔ (اشعۃ اللمعات ‘ ج ٤‘ ص ٣٦٨‘ مطبوعہ مطبع تیج کمار ‘ لکھنؤ،چشتی)
شیخ محمد ادریس کا ندھلوی دیوبندی متوفی ١٣٩٤ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : تحقیق یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چچا تھا ‘ اس کو مجاز متعارف کے طور پر باپ کہا گیا ہے اور آپ کے باپ کا نام تارخ ہے ۔ بعض محققین علماء جنہوں نے آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء سے کفر کی نفی کی ہے ان کی یہی تحقیق ہے ۔ اس بناء پر اس حدیث میں آزر کا ذکر اس لیے ہے کہ اگر یوں کہا جاتا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے باپ سے ملاقات ہوگی ‘ تو اس سے ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن چلا جاتا ‘ اور جب آزر کی قید لگائی تو ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن نہیں جائے گا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس چچا پر باپ کا اطلاق اس لیے کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اختلاط اور ان کی الفت اپنے اس چچا کے ساتھ بہت زیادہ تھی اور مشرکین کا رئیس تھا اور اسی کے ساتھ ان کا مناظرہ ہوا تھا ۔ (التعلیق الصبیح ‘ ج ٦‘ ص ٣٠١‘ مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ ‘ لاہور)
اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام زندگی میں آزر کے دشمن خدا ہونے کی وجہ سے اس سے بیزار ہوگئے تھے ‘ تو پھر قیامت کے دن اس کی سفارش کیوں کی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آزر کے لیے نجات کی دعا کرنے سے بیزار ہوگئے تھے اور قیامت کے دن انہوں نے اس کی نجات کے لیے سفارش نہیں کی ‘ بلکہ اس کے عذاب میں تخفیف کے لیے سفارش کی تھی اور بعض خصوصیات کی بنا پر کفار کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ آزر کے مرنے کے بعد حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اس سے بیزار ہونے کے بہت عرصہ گزرنے کے بعد اور کم و پیش پچاس سال گزرنے کے بعد حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے والدین کےلیے مغفرت کی ددا کی ہے اور کافروں کےلیے دعا کرنے سے خصوصا آزر کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے آپ کو منع کردیا گیا تھا اور آپ نے اپنے والدین کے لیے مغفرت کی دعا کی ہے تو روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ آپ کے والدین مومن تھے اور آزر آپ کا باپ نہ تھا کیونکہ وہ تو بہت سال پہلے مرچکا تھا اور آپ سے بیزار ہو چکے تھے تو جن والدین کےلیے مغفرت کی یہ دعا کی ہے وہ مومن تھے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment