Thursday 26 August 2021

حقیقتِ غدیرِ خم رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

0 comments

 حقیقتِ غدیرِ خم رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : غدیرِ خم کے واقعے کا پسِ منظر جو روایات میں آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حج سے قبل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف خمس وغیرہ جمع کرنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت پر امیر بنا کر بھیجا تھا ۔ واپسی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خمس کے مال میں سے ایک بہترین لونڈی اپنے لیے رکھ لی ۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پہ اعتراض کیا ۔ جب یہ لوگ مکہ پہنچے تو ان میں سے ایک صحابی رضی اللہ نہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت لگا دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ علی رضی اللہ عنہ سے (اس معاملے کی وجہ سے) رنجش رکھتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ، تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کریں کہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے خمس میں اس سے بھی زیادہ حصہ ہے جو انہوں نے رکھ لیا ہے ۔ (صحیح البخاری)


علامہ ابن کثیر اپنی تصنیف السیرۃ النبویۃ میں اس کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : ذی الحجہ کا مہینہ تھا اس ماہ کی اٹھارہ تاریخ تھی ، اتوار کا دن تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس موقع پر ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے فضل و کمال ، امانت و دیانت ، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی اس شہادت کے بعد اگر کسی غلط فہمی کے باعث کسی کے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں کوئی وسوسہ تھا تو وہ ہمیشہ کےلیے محو ہو گیا ـ حضرت بریدہ بن حصیب کہتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کے دلوں میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی ذات والا صفات کے بارے میں طر ح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پاک کو سن کر میرے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی اتنی محبت پیدا ہو گئی کہ آپ میرے سب سے زیادہ محبوب بن گئے ـ  (ابن کثیر السیرۃ النبویۃ جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 333،چشتی)


اب جن صاحب نے شکایت لگائی تھی وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وضاحت سے مطمئن اور راضی ہو گئے البتہ لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل گئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات کے متعلق عام الناس کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شبہات کو ختم کرنے کے لیے خطاب کرنا مناسب سمجھا اور اس کے لیے غدیرِ خم کے مقام کو چنا گیا ۔


غدیرِ خم مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے ۔ چونکہ یہ مقام عہدِ نبوی میں ایک چوراہے کی حیثیت رکھتا تھا ، یہاں سے جزیرہ نما عرب کے اطراف و اکناف کے لیے راستے نکلتے تھے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس مقام کو نہایت مناسب سمجھا ۔ چنانچہ حج سے واپسی پر جب حجاج کرام کا قافلہ غدیرِ خم کے مقام پر پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہاں مختصر قیام فرمایا اور بعد نمازِ ظہر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ کہ جس میں رسول اللہ نے فرمایا کہ "جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کا مولا ہے ۔ جس کی مکمل تفصیل ہم بعنوان ،، مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم ،، لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ مزید مختصراً چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں ۔


 یہ تو آ گیا غدیرِ خم کا واقعہ اور اس کا پسِ منظر ۔ اب سوال ہے کہ مولا کے معنے کیا ہیں ؟ تو عرض ہے کہ مولا ایک کثیر المعانی لفظ ہے ۔ اور بنیادی اصولِ لغت ہے کہ کسی بھی کثیر المعانی لفظ کا کوئی ایک مطلب نہیں لیا جا سکتا۔ الا یہ کہ اس کے سیاق و سباق میں کوئی واضح قرینہ موجود ہو یا پھر اس کثیر المعانی لفظ کے کہنے والی کی کوئی وضاحت موجود ہو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لفظِ مولا کی کوئی وضاحت تو قطعی وارد نہیں ۔ البتہ اگر اس واقعے کے پسِ منظر پہ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق لوگوں کے ذہنوں سے شبہات رفع کرنا اور ان کے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پیدا کرنا تھا ۔ سو ایسے میں لفظِ مولا کے معنے دوست یا عزیز کے بنتے ہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد ”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“ کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص مجھے دوست یا عزیز رکھتا ہے وہ علی کو بھی دوست و عزیز رکھے ۔


حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب ‘‘غدیر خُم’’(کے مقام) پر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے ، کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین کی جانوں سے زیادہ ان کا محبوب ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس کو محبوب ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے اللہ ! جس کا میں محبوب (مولیٰ) ہوں تو علی بھی اس کے محبوب (مولیٰ) ہیں ، اے اللہ ! جو علی سے محبت (موالات) کرے تو اس سے محبت (موالات)کر ، اور جو علی رضی اللہ عنہ سے نفرت (معادات) کرے تو اس سے نفرت (معادات) کر ۔ (مشکوٰۃ مع المرقاۃ:10/475 بحوالہ احمد،چشتی)


مذکورۃالصدر حدیث اور اس کے پسِ منظر کی تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بعض معاملات میں رفقاءِ سفر کے ذہنوں میں پیدا ہوئے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی براءت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا ہوتا تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس کا اظہار فرمادیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ، ایسے الفاظ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جن سے معاملہ مبہم اور مخفی رہے ۔


لغت کے مشہور امام ابن اثیر علیہ الرحمہ لفظ ‘‘مولیٰ’’ کے تحت لکھتے ہیں : اور یہ لفظ ‘‘مولیٰ’’ ایک ایسا لفظ جو کئی معانی پر بولا جاتا ہے ، پس مولیٰ کے معنیٰ پروردگار ، مالک ، سردار ، محسن ، آزاد کرنے والا ، مددگار ، محبت کرنے والا ، فرمانبردار ، پڑوسی ، چچازاد بھائی ، عہد و پیمان کرنے والا ، عقد کرنے والا ، داماد ، غلام ، آزاد کردہ غلام ، اور احسان مند کے آتے ہیں اور ہر حدیث کے مقتضیٰ کے مطابق معنیٰ مراد لیا جاتا ہے ۔ (النہایۃ : 5/228)


مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں ولایت کے عداوت کے ساتھ تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ‘‘مولیٰ’’اور ‘‘اولیٰ’’ وغیرہ الفاظ سے محبت کا معنیٰ ہی مراد ہے جو عداوت کی ضد ہے ، اگر محبت کا معنیٰ مراد نہ ہوتا تو ولایت کے تقابل میں عداوت کا لفظ ذکر نہ کیا جاتا ۔


نیز’’مولیٰ‘‘ سے امامت اور خلافت کا معنیٰ مراد لینے کی صورت میں لازم آئیگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور خلیفہ ہوں ، کیونکہ حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد مولیٰ ہوں گے ، بلکہ حدیث میں صرف اس قدر ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی رضی اللہ عنہ مولیٰ ہیں ۔ اگر یہاں محبت والا معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا تو یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونے پر نہیں بلکہ امامت اور خلافت کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مساوات اور اشتراک پر دال ہوگی جو شیعہ و نیم شیعہ حضرات کو بھی تسلیم نہیں ۔ لہٰذا اس حدیث سے وہی معنیٰ متعین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔


ایک دوسری حدیث میں یہی لفظ ‘‘مولیٰ’’ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ، چنانچہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان سے فرمایا ‘‘أنت مولای و منی’’ (آپ میرے مولیٰ ہیں اور مجھ سے ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد:3/44)

اور دوسری روایت میں ہے ‘‘أنت مولای و أحب القوم الیّ’’ ۔ (آپ میرے مولیٰ ہیں اور مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ (مصنف عبد الرزاق:11/227،چشتی)

اور ایک روایت میں ہے ‘‘أنت اخونا و مولانا’’ ۔ (آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ ہیں) ۔(طبقات ابن سعد:3/43)


اگر مولیٰ سے امام اور خلیفہ کے معنیٰ ہی متعین ہوں تو پھر چاہئے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد امام اور خلیفہ بلافصل ہوں ۔ لیکن جب یہاں یہ معنیٰ مراد نہیں تو حدیث ‘‘من کنت مولاہ الخ’’میں بھی اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔ ،،جس کا میں مولیٰ اس کا علی مولیٰ،، یہ مکمل حدیث نہیں بلکہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ، شیعہ حضرات اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے اور اپنے خودساختہ نظریۂ امامت پر استدلال کرتے ہیں ، لیکن اس حدیث کی مکمل تفصیل اور اس کے پسِ منظر کی مذکورہ وضاحت سے شیعہ حضرات کے جھوٹے استدلال کی حقیقت واضح ہو گٸی ۔


شیعہ و نیم شیعہ حضرات کے خود ساختہ نظریۂ امامت و خلافت کے اس حدیث کے ساتھ عدمِ تعلق کی ایک بہت بڑی شہادت یہ بھی ہے کہ سیدنا حضرت امام حسن کی اولاد میں سے حضرت امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہم سے کہا گیا کہ کیا ‘‘من کنت مولاہ’’کی حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ نہ کی امامت (خلافت) کی صراحت نہیں ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ خبردار ! اللہ کی قسم اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس سے امارت یا حکومت کا ارادہ فرماتے تو یہ بات صاف صاف بیان فرما دیتے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بڑھ کر مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صاف فرما دیتے کہ اے لوگو ! یہ (حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ) میرے بعد تمہارے حاکم اور تمہارے نگران ہوں گے ، ان کی بات سنو اور اطاعت کرو ، مگر ایسی کوئی بات نہیں ، اللہ کی قسم اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  کے حکم کو ترک فرما دیتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر خطاکار ہوتے ۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ 48)(تحفۂ اثنا عشریۃ صفحہ 209)(تفسیر روح المعانی:6/195،چشتی)(التاریخ الکبیر لابن عساکر: 4/166)


ملاحظہ فرمائیں کہ خانوادۂ نبوت نے کس وضاحت کے ساتھ ہر قسم کے شبہ کا جواب دیدیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد مبارک کی تشریح کرتے ہوئے ہر طرح کے باطل احتمالات کی بیخ کنی کر کے مرادِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو متعین فرمادیا ، اس کے بعد کسی قسم کا شبہ نہیں رہنا چاہئے ۔


اب جہاں تک تعلق ہے اس سوال کا کہ شیعہ حضرات اس دن کی مناسبت سے عید کیوں مناتے ہیں تو عرض ہے کہ یہ شیعہ مذھب کے دجل و فریب میں سے ایک ہے ۔ اوپر غدیرِ خم کے پسِ منظر کی تفصیل لکھی ہے کہ یہ واقعہ دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس لونڈی والے واقعہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالنے کی وجہ سے پیش آیا ۔ لیکن شیعہ حضرات نے اسے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان قرار دے کر اس بنیاد پر اپنا پورا مذھب گھڑ ڈالا ۔ اور سونے پہ سہاگا یہ کہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے غدیرِ خم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی "خلافت" کا اعلان کیا تو اللہ نے تکمیلِ دین کی آیت نازل فرمائی ۔ جبکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مذکورہ آیت نو (9) ذی الحجہ کو میدانِ عرفات میں نازل ہوئی تھی ۔ جبکہ غدیرِ خم کا واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ کا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر شیعہ و نیم شیعہ حضرات کی یہ دونوں باتیں مان لی جائیں یعنی یہ کہ غدیرِ خم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و ولایتِ باطنی کا اعلان ہوا اور اس پر تکمیلِ دین کی آیت نازل ہوئی تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ظاہری وصال مبارک کے فوراً بعد خلافت کے معاملے میں انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم میں اختلاف پیدا ہوا تھا کہ جسے رفع دفع کرنے کے لیے حضرے عمر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی ، تو اس وقت کیوں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پہ اعتراض نہ کیا ؟ کہ جی خلافت کا اعلان تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ہو چکا لہٰذا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں بن سکتے ۔ کیا حق کی گواہی دینے والا کوئی بمشول حظرت علی ایک شخص (رضی اللہ عنہم) بھی وہاں موجود نہیں تھا ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تربیت معاذ اللہ اتنی ناقص تھی کہ آپ کے فوت ہوتے ہی آپ کے ساتھی سب کچھ بھول بیٹھے ؟ غدیرِ خم کے واقعے کے کوئی دو چار گواہ تو تھے نہیں ۔ کم و بیش ایک لاکھ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس واقعے کے عینی شاہد تھے ۔ حتیٰ کہ خود ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وہاں موجود تھے ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ "خلافت کے اعلان" کے باوجود عمر بیعتِ ابوبکر رضی اللہ عنہما کر لیں اور لوگ بھی اسے تسلیم کر لیں ۔ کسی بھی شخص ، حتیٰ کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو غدیرِ خم کے "اعلان" کی یاد نہ دلائی کیوں ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔