ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَار ۔ شانِ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے :اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ۭوَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْيَا ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ۔ (سورہ توبۃ آیت نمبر 40)
ترجمہ : اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔
(1) نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یارِ غار ہیں ۔ لفظ یارِ غار اس آیت سے حاصل ہوا ۔ آج بھی دلی دوست اور باوفا یار کو یارِ غار کہا جاتا ہے ۔
(2) اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی صحابیت قطعی ایمانِ قرآنی ہے لہٰذا اس کا انکار کفر ہے۔دوسرا یہ کہ صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا درجہ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بڑا ہے کہ انہیں رب عَزَّ وَجَلَّ نے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی فرمایا ۔ اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اپنے مصلیٰ پر امام بنایا ۔ آپ چار پشت کے صحابی ہیں ۔ والدین بھی ، خود بھی ، ساری اولاد بھی، اولاد کی اولاد بھی صحابی۔ جیسے یوسف علیہ السلام چار پشت کے نبی ۔ یہ آپ کی خصوصیت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد خلافت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے ہے ۔ رب تَعَالٰی انہیں دوسرا بنا چکا پھر انہیں تیسرا یا چوتھا کرنے والا کون ہے ۔ وہ تو قبر میں بھی دوسرے ہیں حشر میں بھی دوسرے ہوں گے ۔
(3) مجھ پر غم نہ کھاؤ کیونکہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کواس وقت اپنا غم نہ تھا خود تو سانپ سے کٹوا چکے تھے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فدا ہو چکے تھے اگر اپنا غم ہوتا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کندھے پر اٹھا کر گیارہ میل پہاڑ کی بلندی پر نہ چڑھتے اکیلے غار میں اندھیرے میں داخل نہ ہوتے، سانپ سے نہ کٹواتے ۔ان کا یہ غم بھی عبادت تھا اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ تسکین دینا بھی عبادت ۔چنانچہ رب تَعَالٰی نے ان دونوں ہستیوں کو مکڑی کے جالے اور کبوتری کے انڈوں کے ذریعے بچایا ۔
(4) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا : اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ ۔ (پ۱۹، الشعرآء : ۶۲)
ترجمہ : میرے ساتھ میرا رب ہے یعنی تمہارے ساتھ رب نہیں میرے ساتھ ہے ۔
مگر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے ساتھ ہے یعنی میرے ساتھ بھی ہے اور تمہارے ساتھ بھی ۔ جس کے ساتھ رب ہو وہ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیشہ ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ تھا اور رہا جیسے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ۔
(5) معلوم ہوا کہ سکینہ کا نزول صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر ہوا کیونکہ اس وقت بے چینی انہی کو تھی ۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلبِ مبارک تو پہلے ہی سے چین میں تھا ۔ نیز اس سے قریب میں صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہی ذکر ہوا لصاحبہ اور ضمیر حتی الامکان قریب کی طرف رجوع ہوتی ہے ۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا خیال تھا کہ کافر غار کے منہ پر آگئے ۔ اگر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر مطلع ہو گئے تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دُکھ دیں گے ۔ (تفسیر نورالعرفان)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی اس وقت بھی مدد فرمائی جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کے وقت ان کے ساتھ صرف ایک شخص تھا تو یہاں بدرجہ اَولیٰ مدد فرمائے گا ۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶/۴۹،چشتی)
اس آیتِ مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیتِ مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے ۔
(1) تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غارِ ثور میں اس لئے تشریف لے گئے کہ انہیں کفار کی طرف سے قتل کا اندیشہ تھا لہٰذا اگر رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے ، پکے اور صدیق مومن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکسی طور پربھی انہیں اپنے ساتھ ہم رِکابی کا شرف عطا نہ فرماتے کیونکہ اس طرح جو اندیشہ کفار سے تھا وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی ہو سکتا تھا ۔ یہ کلام اُن جاہلوں کا جواب ہے جو اِس سفر کے حوالے سے بھی سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر اعتراض کرتے ہیں ۔
(2) یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھی ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے ۔
(3) دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حالات کی ناسازی کی وجہ سے ہجرت کر گئے جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شدید خوف اور انتہائی خطرناک صورتِ حال کے باوجود بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا قرب نہ چھوڑا بلکہ صبر و اِستقامت کے ساتھ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہے او ر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مصروف رہے ۔
(4) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سفر و حضر میں رسولِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہتے بلکہ اس کا اِلتزام فرماتے تھے، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے عشقِ رسول کی دلیل ہے ۔
(5) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غارِ ثور میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُنسِیّت کا شرف پایا اور اپنی جان قربان کرنے کی سعادت پائی ۔
(6) اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ثانی فرمایا یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ثانی (یعنی دوسرے نمبر پر) ہونے کا شرف پایا جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پہلو میں تدفین کی وجہ سے قیامت تک ثانِیّت سے مشرف ہیں ۔
(7) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا صحابی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ، یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا ۔
(8) اللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو یہ اس کے دوسروں سے افضل ہونے کی دلیل ہے ۔
(9) اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ (تفسیر کبیر التوبۃ : ۴۰، ۶/۵۰،چشتی)(تفسیر خازن التوبۃ : ۴۰، ۲/۲۴۴)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تمنا
ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ کاش ! میرے سارے اعمال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دنوں میں سے ایک دن اور راتوں میں سے ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ان کی رات تو وہ کہ جس میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ غار کی طرف سفر کیا اور جب وہ دونوں غار تک پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ سے پہلے میں غار میں جاؤں گا تاکہ اس میں کوئی تکلیف دِہ چیز ہو تو اس کی اَذِیَّت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بجائے مجھے پہنچے ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں سوراخ دیکھے ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر کے ٹکڑے کر کے ان سوراخوں کو بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، اس کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی’’یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اب تشریف لے آئیے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غار میں تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سرِ انور رکھ دیا اور آرام فرمانے لگے ۔ اتنے میں سوراخ سے کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ڈس لیا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس خوف سے حرکت نہ کی کہ کہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نیند سے بیدار نہ ہو جائیں لیکن تکلیف کی شدت سے نکلنے والے چند آنسو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے رُوئے اقدس پر گر گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے ابو بکر! کیا ہوا ؟ عرض کی ! میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پہ فدا ہوں ، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے ۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنا لعابِ دہن اس جگہ پر لگا دیا تو اسی وقت ساری تکلیف ختم ہو گئی، بعد میں یہی ڈنگ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ کی وفات کا سبب بنا۔ اور ان کا دن وہ کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اگر انہوں نے زکوٰۃ کے مال کی ایک رسی بھی روکی تومیں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ میں نے عرض کی ’’اے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ اُلفت اور نرمی کا برتاؤکیجئے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا اور اب دین مکمل ہو گیا ہے کیا وہ دین میں کمی کریں گے ؟ حالانکہ میں ابھی زندہ ہوں ۔ (تفسیر خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲/۲۴۰،چشتی)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے
وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمْ تَرَوْہَا : اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی کہ فرشتوں نے کفار کے چہروں اور نگاہوں کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھنے سے پھیر دیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں رُعب ڈال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ گئے ۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غار میں تھے اور شدید خوف کا عالَم تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے دشمنوں کا مکر پھیر کر ان کی مدد فرمائی اور پھر میدانِ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲/۲۴۴)
وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی : اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا ۔
کافروں کی بات سے مراد شرک یا دعوت ِکفر ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد توحید یا دعوتِ اسلام ہے ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ کافروں کی بات سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی وہ سازش ہے جس میں کفار کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مددفرمائے گا ۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳/۱۴۶،چشتی)(بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲/۲۵۰)
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے ، اور یہ بتایا ہے کہ اگر مسلمانوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ غزوہ تبوک میں جا کر ان کی مدد نہیں کی تو اس سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کوئی کمی نہیں ہوئی ، اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی تھی جب قریش مکہ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بےوطن کردیا تھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور غار ثور میں تین راتیں گزاریں ، اس سفر میں اور غار میں حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے رفیق تھے، ان کا ذکر بھی اس آیت میں ہے اور غار ثور میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رفاقت کی تفصیل اس طرح ہے : غار ثور میں حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ رفاقت :
امام عبدالملک بن ہشام رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢١٨ ھ لکھتے ہیں : امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو کسی کو اس کا علم نہیں تھا ، ماسوا حضرت علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور آلِ ابوبکر کے ، حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مکہ میں چھوڑ دیا تھا اور ان کو یہ حکم دیا تھا کہ لوگوں کی جو امانتیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس ہیں وہ ان کو ادا کردیں ، اس کے بعد مدینہ آجائیں اور مکہ میں جس شخص کے پاس بھی کوئی اہم چیز ہوتی تھی وہ اس کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس رکھوا دیتا تھا کیونکہ سب لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صداقت اور امانت پر یقین رکھتے تھے ۔ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس گئے اور ان کے مکان کے پیچھے سے غارثور کی طرف نکلے جو مکہ کے نشیب میں ایک پہاڑ ہے، وہ دونوں اس پہاڑ میں داخل ہوگئے ، حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ وہ بغور سنیں کہ لوگ ان کے متعلق کیا باتیں کرتے ہیں پھر شام کو آ کر ہمیں خبر دیں اور اپنے غلام عامر بن فہیرہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ دن میں بکریاں چرائیں اور شام کو ان کے پاس آجائیں اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شام کو ان کے پاس کھانا لے کر آتی تھیں۔ امام ابن ہشام فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رات کو غار میں پہنچے تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے پہلے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے اور غار کو ٹٹول کر دیکھا کہ اس میں کہیں سانپ یا بچھو تو نہیں ہے ، تاکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے اثر سے محفوظ رکھیں ۔ (سیرت ابن ہشام ج ٢ ص ٩٩، دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اللہ کی قسم حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ایک رات اور ایک دن، عمر کی تمام عمر سے افضل اور بہتر ہے، کیا میں تمہیں ان کی ایک رات اور ایک دن کے متعلق بتاؤں ؟ راوی نے کہا ہاں ! اے امیرالمومنین ! حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : رات تو وہ ہے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ہجرت فرمائی، حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کبھی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے چلتے، کبھی آگے چلتے ، کبھی دائیں چلتے، کبھی بائیں چلتے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا : اے ابوبکر ! ایسا کیوں کر رہے ہو ؟ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چاروں طرف اس لیے چل رہا ہوں کہ اگر کوئی اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہو تو اس کا پہلا نشانہ میں بنوں ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس رات چلتے رہے حتیٰ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک پائوں گھس گئے ، یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھا کر دوڑنا شروع کیا حتیٰ کہ غار ثور کے دہانہ پر پہنچ گئے ، وہاں انہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اتارا اور کہا : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس ذات کی قسم جس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق دے کر بھیجا ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں پہلے داخل نہ ہوں، پہلے میں داخل ہوں گا، تاکہ اگر اس میں کوئی مضر چیز ہے تو پہلے مجھے اس کا ضرر پہنچے ۔ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں گئے اور کوئی مضر چیز نہیں پائی، غار میں بہت سوراخ تھے جن میں مختلف اقسام کے سانپ تھے ۔ ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ خوف ہوا کہ کہیں ان سوراخوں سے کوئی سانپ نکل کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذاء نہ پہنچائے ، انہوں نے سوراخ میں اپنا قدم رکھ دیا، سانپ ان کے پیر پر ڈنک مارنے لگے اور ڈسنے لگے اور تکلیف کی شدت سے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے ابوبکر غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : یہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رات ہے ، الحدیث ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٤٧٧، البدایہ والنہایہ ج ٢ ص ٥٦٣، طبع جدید، الریاض النضرۃ للمحب الطبری ج ١ ص ١٠٦، الدرالمنثور ج ٤ ص ١٩٨، مختصر تاریخ دمشق ج ١٣ ص ٥٥،چشتی)
امام ابو الفرج عبدالرحمن بن علی جوزی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ ہم غار میں ہیں، اگر کسی نے اپنے قدموں کے نشان کو دیکھا تو وہ ہمارے قدموں کے نشانوں کو بھی دیکھ لے گا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے ابوبکر تمہارا ان دونوں کے متعلق کیا گمان ہے جن کا تیسرا اللہ ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٥٣،ڈاکٹر فیض احمد چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٨١، مسند احمد ج ١ ص ٤)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ غار کی شب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! مجھے پہلے غار میں داخل ہونے دیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تم داخل ہو، حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ داخل ہو کر اپنے ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر غار کے سوراخوں کو دیکھتے رہے، پھر انہوں نے اپنے کپڑے کو پھاڑ کر غار کے تمام سوراخ بند کر دئیے، ایک سوراخ باقی رہ گیا تو اس میں اپنی ایڑی رکھ دی۔ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ داخل ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھآ اے ابوبکر تمہارا کپڑا (قمیص) کہاں ہے ، تو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ واقعہ بیان کیا، تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا فرمائی : اے اللہ ! ابوبکر کو جنت میں میرے ساتھ میرے درجہ میں رکھنا ۔ (المنتظم ج ٢ ص ١٧٦، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ، سبل الہدیٰ والرشاد، ج ٣ ص ٢٤٠، دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ،چشتی)
امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے الوفاء میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سوراخ پر اپنی ایڑی رکھ دی تو سانپ ان کی ایڑی میں ڈنک مارنے لگے، اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما رہے تھے : اے ابوبکر غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دل میں سکون نازل فرمایا ۔ (الوفا ج ١ ص ٢٣٨، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائل پور) ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٥٠٢ ھ نے بھی اتنا ہی لکھا ہے ۔ (مدارج النبوت ج ٢ ص ٥٨، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر، ١٣٩٧ ھ)
امام ابو جعفر احمد محب طبری رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٦٩٤ ھ لکھتے ہیں : ابن السمان نے کتاب الموافقہ میں بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے اور اس میں جو سوراخ بھی دیکھا اس میں اپنی انگلی داخل کردی حتیٰ کہ ایک بڑا سوراخ دیکھا اس میں ران تک اپنی ٹانگ داخل کردی پھر کہا یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! اب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں آجائیے ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے جگہ تیار کردی ہے ۔ (الی ان قال) رات بھر سانپ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ٹانگ میں ڈنک مارتے رہے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بڑی تکلیف میں رات گزاری ، صبح کو انہیں دیکھ کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے ابوبکر ! کیا ہوا ؟ ان کی پوری ٹانگ سوجی ہوئی تھی ، حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! یہ سانپ کے ڈنک مارنے کا اثر ہے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا ؟ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیند کو خراب کرنا ناپسند کیا ، پھر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر اپنا ہاتھ پھیرا تو ان کے جسم کا سارا درد جاتا رہا اور وہ بالکل ٹھیک ہوگئے ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج ١ ص ١٠٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی) ۔ اس سلسلہ میں دوسری روایت محب طبری نے اس طرح بیان کی ہے : حضرت عمر بن الخطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ایک رات کی عظمت اور خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غار ثور میں پہنچے تو انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پہلے غار میں داخل نہ ہوں ۔ پہلے میں داخل ہوتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی مضر چیز ہو تو اس کا ضرر مجھے لاحق ہو، نہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ۔ جب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے تو اس میں بہت سوراخ تھے ، انہوں نے اپنی چادر پھاڑ کر وہ تمام سوراخ بھر دئیے ۔ دو سوراخ باقی رہ گئے تو انہوں نے ان پر اپنا پیر رکھ دیا۔ پھر انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلایا ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آئے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سر رکھ کر سو گئے ، سانپ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پیر میں ڈنک مارنے شروع کر دئیے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی جگہ سے جنبش بھی نہیں کی کہ کہیں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار نہ ہوجائیں ۔ ان کے آنسو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے پر گرے تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہوگئے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا : اے ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ! کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے سانپ نے ڈس لیا، پھر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے پیر پر لعاب دہن لگایا تو ان کی تمام تکلیف دور ہوگئی ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج ١ ص ١٠٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام احمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : نیز روایت کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے غار میں داخل ہوئے تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ضرر سے محفوظ رکھیں ، انہوں نے ایک سوراخ دیکھا تو اس میں اپنی ایذی رکھ دی تاکہ اس میں سے کوئی سانپ نکل کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ضرر نہ پہنچائے ، پھر سانپ حضرت ابوبکر (رض) کی ایڑی پر ڈنک مارنے لگے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں تھا، جب سانپ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ایڑی پر دنک مارا تو حضرت ابوبکر (رض) کے آنسو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے پر گرے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا : اے ابوبکر ! کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے سانپ نے کاٹ لیا تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس جگہ اپنا لعاب دہن لگا دیا اس سے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تکلیف جاتی رہی۔ اس حدیث کو زین بن معاویہ متوفی ٥٣٠ ھ نے روایت کیا ہے ۔ (المواہب اللدنیہ ج ١ ص ١٤٩، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٦ ھ، شرح الزرقانی علی المواہب ج ١ ص ١٣٥، دارالمعرفہ بیروت،ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ، امام علی بن برہان الدین حلبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٠٤٤ ھ نے بھی اس روایت کو درج کیا ہے ۔ (انسان العیون ج ٢ ص ٢٠٥، مطبوعہ مصر، ١٣٨٤ ھ)
امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ تین دن غار میں رہے اور قریش نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو واپس لانے والے کے لیے ایک سو اونٹ کا انعام مقرر کردیا تھا اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے عبد اللہ بن ابی بکرون میں قریش کی باتیں سنتے جو وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق کرتے تھے اور شام کو آ کر ان کی خبر پہنچاتے تھے ۔ عبد اللہ بن ابی بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے جانے کے بعد حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام عامر بن فہیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس جگہ بکریوں کو لے جاتے اور بکریوں کے چلنے کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے غار کے پاس چلنے کے نشان مٹ جاتے اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما تین دن تک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے کھانا پہنچاتی رہیں ، پھر تین دن کے بعد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ (سیرت ابن ہشام ج ٢ ص ١٠٠۔ ٩٩، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)
قریش جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئے تو وہ کھوجی کو لائے جو قدموں کے نشان سے اپنے ہدف تک پہنچتا تھا ۔ حتیٰ کہ وہ شخص غار پر جا کر ٹھہر گیا ۔ اس نے کہا یہاں آ کر نشانات ختم ہوگئے ہیں ۔ مکڑی نے اسی وقت غار کے منہ پر جالا تن دیا تھا ، اسی لیے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مکڑی کو مارنے سے منع فرمایا ہے ، جب انہوں نے مکڑی کے جالے کو دیکھا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اس غار میں کوئی نہیں ہے اور وہ واپس چلے گئے ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٨ ص ٧٥،چشتی)
حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی افضلیت کی وجوہ
(1) کفار نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قتل کرنے کے در پے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سے چھپ کر غار ثور میں داخل ہوئے تھے ۔ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایمان اور ان کی جانثاری پر مکمل اعتماد نہ ہوتا تو ان کو اپنے ساتھ لے کر کبھی غار میں داخل نہ ہوتے ۔
(٢) نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہجرت کرنا اللہ کے حکم سے تھا ، اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نسبی قرابت دار بہت تھے ، لیکن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سفر میں رفاقت کے لیے صرف حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ساتھ لیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر ہجرت میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ساتھ لینا اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رفاقت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر (رض) کو چن لیا ۔
(3) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ثانی اثنین (دو میں سے دوسرا) اور دین کے اکثر مناصب میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ثانی تھے ۔ پہلے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے ، پھر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے ۔ اس طرح اسلام کی دعوت دینے میں اوّل سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ثانی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے ۔ اسی طرح ہر غزوہ میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر رہے ، اس طرح وہ غزوات میں بھی ثانی اثنین ہیں اور جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیمار ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو امام مقرر فرمایا ، پس امامت میں بھی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ثانی اثنین ہیں ، اور جب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فوت ہوئے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں دفن ہوئے اس طرح وہ قبر میں بھی ثانی اثنین ہیں ، اور حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے قبر سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھیں گے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اٹھیں گے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٩٢) ، اور جنت میں سب سے پہلے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ داخل ہوں گے اور امت میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر داخل ہوں گے ۔ (سنن ابودائود : ٤٦٥٢،ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ تبلیغ دین میں ہجرت کرنے میں ، مغازی میں ، امامت میں ، امارت میں ، قبر میں ، حشر میں ، دخول جنت میں ، تمام اہم دینی مناصب میں اوّل سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ثانی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔
(4) اس آیت میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غمگین ہوئے تو ان کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تسلی دی اور فرمایا : غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے اور یہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کو تسلی دینے والے ہوں ۔
(5) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ تصریح کی ہے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صاحب ہیں اور یہ نص قطعی ہے جس کا انکار کفر ہے اور تمام صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں صرف ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی صحابیت منصوص ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابی ہونے کا انکار کفر ہے ۔
(6) اس آیت میں فرمایا ہے : اللہ ہمارے مع (ساتھ) ہے ، اور اس معیت سے حفاظت اور نصرت کی معیت مراد ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جو حفاظت اور نصرت فرمائے گا ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی شامل فرما لیا اور یہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہت بڑی فضیلت ہے ، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ متقین اور محسنین کے مع (ساتھ) ہوتا ہے ۔ اس سے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا متقی اور محسن ہونا بھی منصوص ہوا ۔
(7) احادیث اور کتب سیر سے ثابت ہے کہ غار ثور میں قیام کے دوران حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے ، عبد اللہ بن ابی بکر اور ان کی بیٹی حضرت اسماء ، ان کا غلام عامر بن فہیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم آپ تک مکہ کی خبریں پہنچانے اور آپ کے لیے طعام پیش کرنے میں لگے رہے اور یہ بھی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت ہے کہ ان کی اولاد اور ان کے خدام اس خطرے کے موقع پر جان کی بازی لگا کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مشغول رہے ۔
(8) حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ مدینے پہنچے تو سب لوگوں نے جان لیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس شخص کو سفر و حضر میں ساتھ رکھتے ہیں وہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔
(9) اس آیت میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ حاکمیت میں اوّل رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ثانی حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ سالم بن عبید بیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات ہوئی تو انصار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے کہا : ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے ہوگا ، تو حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : ایسا کون شخص ہے جس کے متعلق یہ تین آیتیں ہوں : اذھما فی الغار (جب وہ دونوں غار میں تھے) وہ دونوں کون تھے ؟ اذ یقول لصاحبہ (جب وہ اپنے صاحب سے کہہ رہے تھے) وہ صاحب کون ہیں ؟ لا تحزن ان اللہ (غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے) یہ دونوں کون ہیں ؟ پھر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہاتھ بڑھایا اور سب لوگوں نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیعت کرنی شروع کردی ۔ اور یہ بہت عمدہ بیعت تھی ۔ (السنن الکبریٰ ج ٦ ص ٣٥٥، رقم الحدیث : ١١٢١٩، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١١ ھ) (١٠،چشتی)
غار ثور کی ان تین راتوں میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیں انوار رسالت اس طرح جذب ہوگئے تھے کہ جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینہ پہنچے تو استقبال کے لیے آئے ہوئے مسلمانوں نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سمجھا کہ یہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور وہ سب آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملنے لگے ، تب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سر پر چادر کا سایہ کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ، میں تو ان کا ایک غلام اور امتی ہوں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث ہجرت کے اخیر میں عروہ بن الزبیر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسلمانوں کی ایک جماعت میں حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات ہوئی جو شام سے تجارت کرکے لوٹ رہے تھے، پھر حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سفید کپڑے پہنائے اور مدینہ کے مسلمانوں نے سن لیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ سے تشریف لا رہے ہیں ، وہ ہر روز صبح مدینہ کی پتھریلی زمین پر جاتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انتظار کرتے اور دوپہر کو لوٹ آتے ، حتیٰ کہ ایک روز جب ان کا انتظار بہت طویل ہوگیا اور وہ اپنے گھروں کو لوٹ گئے ، ایک یہودی کسی ٹیلہ پر کھڑا ہوا کسی کا انتظار کر رہا تھا تو اس نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب کو سفید لباس میں آتے ہوئے دیکھ لیا ۔ وہ یہودی بےاختیار بلندآواز سے چلا کر بولا : اے معاشرالعرب ! یہ ہیں وہ تمہارے بزرگ جن کا تم انتظار کر رہے تھے ۔ مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف دوڑے اور انہوں نے اس پتھریلی زمین پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملاقات کی ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دائیں جانب مڑ گئے اور بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں ٹھہرے ۔ یہ ماہ ربیع الاوّل کا پہلا دن تھا ۔ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لوگوں کے سامنے کھڑے رہے اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش بیٹھے رہے ۔ پھر انصار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے جن لوگوں نے پہلے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہیں دیکھا تھا وہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تعظیم دینے لگے ۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دھوپ آگئی ۔ تب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سایہ کیا، اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانا …… الحدیث ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩٠٥، مطبوعہ دار ارقم، بیروت)
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے پہلے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہیں دیکھا تھا انہوں نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گمان کیا اسی لیے انہوں نے ابتدائً حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سلام کیا اور جب دھوپ آگئی اور حضرت ابوبکر نے چادر سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سایہ کیا تب انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانا ۔ (فتح الباری ج ٧ ص ٢٤٤، طبع لاہور) ۔
حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں انوار رسالت اس طرح جذب ہوگئے تھے کہ دیکھنے والے حضرت ابوبکر پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا گمان کرتے تھے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment