Saturday, 7 August 2021

واقعہ کربلا کے بعض من گھڑت واقعات حقائق و دلائل کی روشنی میں

واقعہ کربلا کے بعض من گھڑت واقعات حقائق و دلائل کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : واقعہ کربلا کو بیان کرنے میں سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ قافلہ حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بچ جانے والے افراد رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی اپنی پوری زندگی میں اس واقعہ کی تفصیلات کو بیان نہیں کیا تھا اگر ان افراد سے کچھ جزوی معلومات ملیں بھی تو وہ ایسی نہ تھیں جو سبائی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلیے معاون ثابت ہوتیں چنانچہ اس سانحہ کو غیر معمولی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کےلیے کذب وافتراء پر مبنی ایسے ایسے افسانے مشہور کیے گئے کہ اگر سبائی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے سر سری نگاہ سے بھی ان کا مطالعہ کیا جائے تو اس جھوٹ کا سارا پول کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔


(1) ابراھیم و محمد ابنان مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہم کی شھادت ۔


ابراھیم و محمد رضی اللہ عنہما کی کوفہ جاتے ہوئے راستے میں شھادت کا واقعہ بالکل من گھڑت ہے تاریخ کی کسی بھی معتبر کتاب میں یہ واقعہ مذکور نہیں ہے امام مسلم کے بچوں کا افسانہ سب سے پہلے اعثم الکوفی نے اپنی کتاب الفتوح میں لکھا مگر اس نے بھی صرف ان کے قیدی ہونے کو بیان کیا ہے البتہ ملاحسین کاشفی نے روضةالشھداء میں ان کی شھادت کا شوشہ چھوڑا یہی اولین ماخذ ہے جس میں ابراھیم و محمد کی شھادت کا بیان ہے جس افسانےکو خود معتبر شیعہ مصنفین نے بھی بے بنیاد قرار دے کر رد کر دیا ہے ۔


مرزا تقی شیعہ اپنی کتاب ناسخ التواریخ میں لکھتا ہے : مکشوف باد کہ شھادت محمد و ابراھیم پسرہائے مسلم کمتر درکتاب پیشینیاں دیدہ ام الا آنکہ عاصم (اعثم) کوفی می گوید کہ بعدازقتل حسین چوں اھل بیت را اسیر کردند پسرہائے مسلم صغیر درمیان اسرای بودند ابن زیاد ایشاں را بگرفت ومحبوس نمود نخستیں در بارہ شھادت ایشاں درکتاب روضةالشھداء مسطوراست ومن ایں قصہ را از روضةالشھداء منتخب می دارم و قصہ ایشاں معتبر نیست ۔ (ناسخ التواریخ ص110ج2)

ترجمہ : امام مسلم رضی اللہ عنہ کے صاحبزادگان کی شھادت کا واقعہ پہلی کتابوں میں نہیں ہے سب سے پہلے اعثم الکوفی نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے مگر اس نے صاف لکھا ہے کہ امام مسلم رضی اللہ عنہ کے دونوں صاحبزادے محمد و ابراھیم کربلا میں بھی تھے لیکن دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ساتھ ابن زیاد کے ہاتھوں گرفتار ہوئے شھادت کی بات سب سے پہلے ملا حسین کاشفی نے روضةالشھداء میں نقل فرمائی اور میں نے بھی اسی سے نقل کرکے یہ واقعہ لکھا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ نہایت غیر معتبر واقعہ ہے ۔ (مزید تفصیل کیلئے میزان الکتب صفحہ 707تا 710 پڑھیں)


(2) ذوالجناح کا قصہ بھی باطل ہے جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر کربلا میں خود گھوڑا ثابت نہیں ہے تو ذوالجناح کیسے ثابت ہوسکتا ہے ؟


مرزا تقی شیعہ لکھتا ہے : و ذوالجناح کہ نام داشتہ باشد درھیچ کتب احادیث،اخبار،وتواریخ معتبرہ ندیدہ ام وذوالجناح درحقیقت لقب شمر پسر لھیعہ است واسپ ھیچ کس را بدیں نام نشنیدہ ام ۔ (ناسخ التواریخ)

ترجمہ : یہ جو لوگوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذوالجناح نامی گھوڑا مشہور کر رکھا ہے مجھے تو یہ نام حدیث ، تاریخ ، اور اخباری کتب میں کہیں بھی نہیں ملا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ شمر بن لہیعہ نامی شخص کا لقب ذوالجناح تھا ۔


جب حضرے امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے روانہ ہوئے تو گھوڑے کا کہیں بھی نام و نشان نہیں ہے بلکہ آپ اونٹنی پر سوار تھے اور ذوالجناح تو شمر نامی ایک شخص کا لقب تھا ۔ فاخذ محمدبن الحنفیة زمام ناقتہ ۔ یعنی امام حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے اونٹنی کا مہار پکڑ کر آپ کو روکناچاہا ۔ (ذبح عظیم صفحہ 165 ڈاکٹر طاہر القادری بحوالہ مقتل ابومخنف)


کوفہ جاتے ہوئے راستے میں جب فرزدق نامی شاعر سے ملاقات ہوئی تو آپ اونٹنی پر ہی سوار تھے ۔ ثم حرک الحسین راحلتہ (ای ناقتہ) فقال السلام علیک ثم افترقا ۔ امام حسین نےکوفہ جاتے ہوئے راستے میں چند لمحے فرزدق سے ملاقات کی اور کوفیوں کاحال پوچھا اورپھراپنی اونٹنی کوحرکت دی اور السلام علیک کہہ کر چل دئے ۔ (تاریخ طبری،ص218ج6)


امام حسین رضی اللہ عنہ جب کربلا پہنچ گئے تو بھی اونٹنی ہی پر سوار تھے ۔ فقال علیہ السلام ھذا کربلا موضع کرب وبلاء ھذا مناخ رکابنا ومحط رحالنا ومقتل رجالنا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ کربلا ہے جو دکھوں کی جگہ ہے یہ ہماری اونٹنیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہ ہمارے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ہمارے مردوں کی شھادت گاہ ہے ۔ (کشف الغمہ،ص347)


دوران جنگ امام حسین رضی اللہ عنہ نے جو خطبہ دیا دیا اس وقت بھی آپ اونٹنی پر سوار تھے ۔ ثم رکب الحسین راحلتہ وتقدم الی الناس ونادی بصوت عال یسمعہ کل الناس ۔ یعنی جب امام حسین رضی اللہ عنہ آخرمیں تنھا رہ گئے تو اونٹنی پر سوار ہوکر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اوربلند آواز سے لوگوں کو خطبہ دیا جسے سب لوگ سن رھے تھے ۔ (الکامل،لابن اثیرالجذری،ص61ج4)


جب امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے چلے تو مسنات نامی اونٹنی پر سوار تھے ، راستے میں فرزدق سے ملے تو بھی اونٹنی پر سوارتھے اور کربلا پہنچے تو بھی اونٹنی پر سوار تھے اور آخر میں خطبہ دیا تو بھی اونٹنی پر سوارتھے تو پھر جانے بعد میں ذوالجناح نامی گھوڑا کہاں سے آگیا ؟


(3) کربلا میں اہل بیت رضی اللہ عنہم پیاسے تھے پانی پینے کے لئے بھی ترس رہے تھے حالانکہ حافظ ابن کثیر نے صاف لکھا ہے کہ کربلا میں اس قدر وافر پانی موجود تھا کہ امام حسین اور آپ کے رفقاء رضی اللہ عنہم نے دسویں محرم کو بعد ازنمازفجر اس پانی سے غسل فرمایا : فعدل الحسین الٰی خمیۃ قد نصبت فاغتسل فیھا وتطیب بمسک کثیر ودخل بعدہ بعض الامراء فعلوا کما فعل ۔ پس حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ خیمے کی طرف آئے جو نصب کیا گیا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور بہت سی مشک کی خوشبو لگائی اور ان کے بعد بہت سے امراء داخل ہوئے جنہوں نے آپ کی طرح کیا یعنی غسل کیا اور خوشبو لگائی ۔ (البدایة والنھایة،ص164ج8)


ملا باقر مجلسی شیعہ نے مجمع البحار میں اور اعثم الکوفی نے الفتوح میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکرکیا ہے :

ثم قال لا صحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلیٰ بھم الفجر ۔ پھر امام رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو ، پانی پیو ، شاید تمھارے لیے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو ، نہاؤ اور اپنے لباس کو دھو لو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں ، اس کے بعدامام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی ۔ (بحارالانوار،ص217ج44)


اگر واقعہ کربلا کے بارے میں چند ایک ہی کُتب کا مطالعہ کر لیا جائے تو مختلف مصنفین کے بیان کردہ واقعات میں اس قدر تضاد اور تغائر نظر آتا ہے کہ قاری انگشت بدنداں ہوجاتا ہے دورِ حاضر کے مصنفین کی کتُب و رسائل سے قطع نظر تاریخ کی معتبر سمجھی جانے والی کُتب بھی اس واقعہ کے بارے مین اس قدر مختلف البیان ہیں کہ ایک کتاب کے بیان کا دوسری کتاب سے اختلاف تو رہا ایک طرف ان کتابوں کی اپنی روایتیں بھی اس واقعہ کے بارے میں اول تا آخر کسی بات پر متفق نظر نہیں آتیں ایک راوی میدان کربلا کو بے آب وگیارہ ریگستان ثابت کرتا نظر آتا ہے تو دوسرا اس کو بانس اور نرکل کا گھنا جنگل قرار دیتا ہے کبھی قاتلانِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو شہداء کی لاشوں کا مثلہ اور انتہائی درجہ کی توہین ، حتی کہ شہداء کی لاشوں پر گھوڑے دوڑاے ہوئے پیش کیا جاتا ہے اور کبھی انہی قاتلوں کو اپنے جرم پر نادم و شرمندہ اور مصرف نوحہ و گریاں دکھایا جاتا ہے ان من گھڑت داستانوں کے ایک منظر میں تو خاندانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچوں کو کربلا کی جھلسائی ہوئی گرمی میں شدت پیاس سے تڑپتے نظر آتے ہیں کہ بندش آپ کی وجہ سے ان کو پینے کےلیے پانی کا ایک گھونٹ نہ ملتا تھا جبکہ دوسری طرف افراد اس پانی سے نہ صرف یہ کہ غسل کرتے ہیں بلکہ مشک کی خوشبو سے بدن کو معطر کرتے ہین آج حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی پیاس کا واسطہ دے دے کر منتیں اور مرادیں مانگنے والی اس قوم نے یہ بھی احساس نہ کیا کہ اس طرح حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کی حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ تو پیاس سے تڑپتے رہے اور دوسری جانب پانی کا ایسا بے دریغ استعمال کہ نہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی افراد نے پانی سے غسل کیا ؟ ملاحظہ کیجیے دونوں روایات اور ان میں تضاد پہلی روایت میں حضرت حر بن یزید رضی اللہ عنہ کا خطبہ نقل کیا گیا ہے جو اس نے میدان کربلا میں کوفیوں کے سامنے بیان کیا واضع رہے کہ حضرت حر بن یزید رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ مخالف لشکر سے جدا ہو کر حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہوگیا تھا واقعہ کربلا کے مشہور کرداروں میں سے ایک حر رضی اللہ عنہ بھی ہیں آئیے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت حر رضی اللہ عنہ کی طرف کیا بیان منسوب کیا گیا ہے : ⬇


یا اھل الکوفہ ادعوتم الحسین الیکم حتٰی اذا اتٰکم وحلتم بینہ وبین الماء الفرات الذی یشرب منہ الکلب والخنزیر وقد صرعنھم العطش ۔

تجمہ : اے اہل کوفہ تم نے حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا یہاں تک کہ وہ تمہارے پاس آگئے تو تم ان کو اورماء فرات کے درمیان حائل ہوگئے جس پانی میں سے کُتے اور خنزیر بھی پیتے ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ١٦٦) 


اس روایت سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ پر فرات کا پانی بند کر دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پانی کی بندش کا یہ ظالمانہ اقدام کرنے والے کوفی تھے جنہوں نے پہلے تو حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ کو خطوط لکھ کر بلایا اور بعد میں اُن کو بے گناہ شہید کر دیا ؟ ۔ اب سوال پیدا ہوتا کہ کوفی کون تھے ؟ ۔ اور کس طرح حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے کے بعد ان کے قتل میں شریک ہوگئے ؟ ۔ یہ ایک مستقل بحث ہے مندرجہ بالا روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کربلا کےمیدان میں خاندانِ امامِ حسین رضی اللہ عنہم پر پانی بند کر دیا گیا تھا اور ان کے پاس پیاس بجھانے کےلیے پانی موجود نہ تھا اس کے برعکس تصویر کے دوسرے رُخ میں ہمیں کیا دکھایا جاتا ہے مثلا ملاحظہ ہو : ⬇


فعدل الحسین الٰی خمیۃ قد نصیت فاغتسل فیھا وتطیب بمسک کثیر ودخل بعدہ بعض الامراء فعلوا کما فعل ۔ 

ترجمہ : پس امامِ حسین رضی اللہ عنہ خیمے کی طرف آئے جو نصب کیا گیا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور بہت سی مشک کی خوشبو لگائی اور ان کے بعد بہت سے امراء داخل ہوئے جنہوں نے آپ کی طرح کیا (یعنی غسل کیا اور خوشبو لگائی) ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ١٦٤،چشتی)


اگر واقعہ کربلا کے بارے میں گھڑے گئے دیگر افسانوں کو مدنظر رکھا جائے تو ان دونوں روایات میں سے کسی ایک کے بھی سچے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس دوسری روایت کی موجودگی میں پانی کی بندش اور قافلہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس کے افسانے کم از کم مشکوک ضرور ہو جاتے ہیں یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ سانحہ کربلا کے ضمن میں کُتب تاریخ میں اس قسم کی متضاد روایات عام پائی جاتی ہیں ۔


(4) مشہور ہے کہ کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا ، یہ غلط ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا ۔ یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نھر کا کنارہ تھا ۔ طبری کی روایت میں ہے کہ اصحاب امام حسین رضی اللہ عنہ کو تجربہ ہوا تھا کہ ذرا سا کھودنے پر پانی نکل آیا ۔ یہ بے پر کی اڑائی گئی کہ کربلا ریتلا علاقہ یے ۔

فقد بلغنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الٓا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فامنعھم من حفرالٓا بار مااستطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوامن ماء الفرات قطرۃ واحدة ۔

ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد و اصحاب رضی اللہ عنہم نےپانی پینے کیلئے کنویں کھود رکھے ہیں اور میدان میں مختلف جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبردار جب تمھیں میرا یہ خط مل جائے تو انہیں مزید کھدائی سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیاجائے کہ وہ فرات کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں ۔ (الفتوح صفحہ 91 جلد 5،چشتی)


(5) چھ ماہ کے حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ اور ان کے پیاس کا افسانوی قصہ بھی باطل ہے حقیقت تویہ ہے کہ جناب علی اصغر رضی اللہ عنہ شہداء کربلا میں شامل نہیں ہیں ، یار مبالغہ آرائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کربلا میں باقی تمام حسینی رضی اللہ عنہم تو تلواروں اور خنجروں کے ساتھ شہید ہوئے صرف حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کو تیروں کے ساتھ شہید کیاگیا ؟ ۔ یہ سب افسانوی قصے ہیں عموما واعظین کہتے ہیں کہ شہزادہ علی اصغر رضی اللہ عنہ کو امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزیدیوں کے سامنے لے جا کر پانی مانگا یہ پانی مانگنے کا بھی فرضی قصہ "خاک کربلا" جیسی کتب میں بغیر حوالے کے درج ہے بلا تحقیق اور غور و خوض کے عوام الناس میں بیان کیا جاتا ہے جب کہ یہ واقعہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان عزیمت کے بالکل خلاف ہے اور ان کے شایان شاں قطعا نہیں ہے ۔


(6) کمسن حضرت بی بی صغری کو امام حسین رضی اللہ عنہما کا مدینہ میں چھوڑ کر کوفہ روانہ ہوۓ اور کمسن صغریٰ رضی اللہ عنہا کا گھوڑے کے پاؤں سے چمٹنا ، آنے جانے والوں کو اندوہناک پیغامات دینا یہ سب افسانے ہیں حالانکہ حضرت بی بی فاطمہ (یعنی صغری) رضی اللہ عنہا میدانِ کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھیں اور دیگر مستورات مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ قید ہوئیں ۔ الکامل میں ابن الاثیر لکھتے ہیں : ثم ادخل نساء الحسین والراس بین یدیہ فجعلت فاطمة وسکینة ابنتاالحسین تتطاولان لتنظرالی الراس ۔ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان کی عورتیں اندر لائی گئیں تو امام حسین کاسر مبارک ان کے سامنے رکھا گیا تو سیدہ فاطمہ (صغری) اور سیدہ سکینہ رضی اللہ عنہما آگے بڑھنے لگیں تاکہ سرمبارک کو دیکھ سکیں ۔ (الکامل لابن الاثیر،ص85ج4)


(7) کربلا کے میدان میں امام قاسم رضی اللہ عنہ کی شادی کا قصہ بھی باطل ہے یہ گھڑنتو طومار بھی ملا حسین کاشفی نے سب سے پہلے روضة الشھداء میں بیان کیا ہے اور خود شیعہ اکابر نے بھی اس واقعہ کو غلط قرار دے کر رد کردیاھے ۔


(8) کربلا کی بہت سی جھوٹی کہانیوں میں سے ایک اور مبالغہ آمیز کہانی یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  نے دشمن فوج کے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور یہی دعوی ان کے بعض رفقاء کے متعلق بھی کیا گیا ہے کہ ان میں سے بعض نے سینکڑوں دشمن قتل کیے اور کشتوں کے پشتے لگا دیے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق تو بعض روایتوں میں یہ تعداد دو ہزار اور بعض شیعی روایات میں تین لاکھ تک بھی آئی ہے ۔ ان روایات کے مبالغے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہر آدمی کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اسے پچھاڑ کر قتل کرنے کےلیے اگر ایک منٹ بھی درکار ہو تو دو ہزار افراد کو قتل کرنے کےلیے دو ہزار منٹ تو چاہیے ہوں گے ، یہ تقریبا تینتیس گھنٹے بنتے ہیں ۔ جبکہ ابو مخنف کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سانحہ کربلا محض ایک آدھ پہر میں ہو کر ختم ہو گیا تھا ۔


خود شیعہ محققین میں سے شہر بن آشوب نے یزیدی مقتولین کی کل تعداد چارسو چھتیس بتائی ہے ۔ (المناقب،لابن شھرآشوب،ص99ج4)


ملا حسین واعظ کاشفی سنی نہیں ہے اور اس کی کتاب روضۃ الشھداء جھوٹے قصے کہانیوں پر مشتمل ہے ۔ امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا واقعہ ، حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام زین العابدین رضی اللہ عنہم کا قصہ وغیرہ سب جھوٹ ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ ان واقعات کو ہضم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ ساتھ ہی ساتھ اس قصے کو بھی ہضم کریں جسے فقیر یہاں نقل کر رہا ہے :


ملا حسین واعظ کاشفی لکھتا ہے کہ : حضرت قاسم نے امام حسن کا وصیت نامہ امام حسین کو دیا ۔ امام حسین دیکھ کر رونے لگے پھر فرمایا کہ اے قاسم یہ تیرے لیے تیرے ابا جان کی وصیت ہے اور میں اسے پورا کرنا چاہتا ہوں ۔ امام حسین خیمے کے اندر گئے اور اپنے بھائیوں حضرت عباس اور حضرت عون کو بلا کر جناب قاسم کی والدہ سے فرمایا کہ وہ قاسم کو نئے کپڑے پہنائیں اور اپنی بہن حضرت زینب کو فرمایا کہ میرے بھائی حسن کے کپڑوں کا صندوق لاؤ ۔ صندوق پیش کیا گیا تو آپ نے اسے کھولا اور اس میں سے امام حسن کی زرہ نکالی اور اپنا ایک قیمتی لباس نکال کر امام قاسم کو پہنایا اور خوب صورت دستار نکال کر اپنے ہاتھ سے ان کے سر پر باندھی اور اپنی صاحب زادی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے قاسم ! یہ تیرے باپ کی امانت ہے جس نے تیرے لیے وصیت کی ہے ۔ امام حسین نے اپنی صاحب زادی کا نکاح حضرت قاسم سے کر دیا ۔ (رضی اللہ عنہم)

اس کتاب کا ترجمہ کرنے والے صائم چشتی صاحب نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر یہ نکاح ہوا تھا تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کی وصیت پر عمل کیا ہوگا ورنہ ان حالات میں نکاح وغیرہ کا معاملہ انتہائی نامناسب اور غیر موزوں ہے ۔ (روضۃ الشھداء مترجم اردو ج2، ص297،چشتی)


اسی قصے کے بارے میں امام اہل سنت، اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کی شادی کا میدان کربلا میں ہونا جس بنا پر مہندی نکالی جاتی ہے، اہل سنت کے نزدیک ثابت ہے یا نہیں ؟


امام اہل سنت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہ یہ شادی ثابت ہے نہ یہ مہندی سوا اختراع اختراعی کے کوئی چیز (یعنی یہ بنائی ہوئی باتیں ہیں) ۔ (فتاوی رضویہ، ج24، ص502)


شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد علی نقشبندی رحمة اللہ عیہ لکھتے ہیں کہ : یہ تمام باتیں من گھڑت اور اہل بیت رضی اللہ عنہم پر بہتان عظیم ہے ۔ امام حسین کی دو صاحب زادیاں رضی اللہ عنہم تھیں اور واقعۂ کربلا سے پہلے دونوں کی شادی ہو چکی تھی ۔ (میزان الکتب، ص246)


ان واقعات کے علاوہ مستوراتِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے بے پردہ ہونے کی ہولناک کہانیاں ، خیمے جلائے جانے کا ذکر ، امام حسین رضی اللہ عنہ کے زخموں کا ذکر ، شہداء کی تعداد کا بہتر (72) ہونا بھی غیر تحقیقی ہے عند التحقیق یہ تعداد ایک سو انتالیس تک ہے اور بعض نے زیادہ بھی بتائی ۔ نیز شہداء رضی اللہ عنہم کی لاشوں کا روندا جانا ، مثلہ کیا جانا وغیرھم یہ سب  غیر معتبرکہانیاں ہیں ۔


نوٹ : امام حسین رضی اللہ عنہ کا ایک نام شبیر (بروزن زبیر بھی ہے) اور آپ کی ایک بیٹی کا نام سیدہ سکینہ (بروزن ثویبہ) ہے جن کے نام سے کربلا و دیگر مواقع پر بہت سی فرضی وغیر معتبر کہانیاں منسوب ہیں ۔ سیدنا علی الاصغر کا اصل نام عبداللہ بن حسین ہے رضی اللہ عنہم ۔


حضرت سکینہ رضی اللہ عنہا اور گھوڑا


یہ واقعہ بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے کسی بھی مستند کتاب سے یہ واقعہ ثابت نہیں ہے ، ہاں یہ واقعہ شہید ابن شہید نامی کتاب میں مذکور ضرور ہے لیکن یہ کتاب کوئی معتبر و مستند کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے شخص کی لکھی ہوئی کتاب ہے جو متازعہ شخص ہے یہ ہیں جناب علامہ صائم چشتی مصنف شھید ابن شھید فقیر کی معلومات کے مطابق یہ تفضیلی گروہ سے تعلق رکھتے تھے تفصیل کےلیے شیخ الحدیث علامہ محمد علی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ،،میزان الکتب،، کا مطالعہ فرمائیں ۔ صرف تفضیلی نہیں ،  غالی قسم کا تفضیلی تھا (دشمنان امیرمعاویہ کا علمی محاسبہ) کتاب مصنف شیخ الحدیث علامہ محمد علی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی ایسی باتیں نقل کی ہیں جو کہ صریح کفر ہیں ۔ جیسا افضليت ائمہ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم علی الانبیاء علیہم السلام ۔ انہوں نے اپنی کتب (ایمان ابوطالب) نامی کتاب میں اور (مشکل کشا) نامی کتاب میں اس نے امام اہلسنت امام احمد رضا خاں قادری رحمۃ اللہ علیہ کی عبارات میں کمال درجہ کی بد دیانتی کی ہے ۔ فقیر نے ان کا مطالعہ خود کیا ہے ۔ بلکہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرھندی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی جھوٹی عبارات منسوب کی ہیں ۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذاتِ مبارکہ پر شدید تنقید کی ۔ اور یہ کیوں نہ کرتا اس کا پیر محمود شاہ محدث ہزاروی بھی انتہائی خبیث الباطن آدمی تھا ۔ یہ اس کا خلیفہ جو ہوا ،  ثبوت کےلیے کتاب (خلفاے محدث ہزاروی) دیکھی جا سکتی ہے ۔ یہ سنیوں میں سنی بنکر گھسا ہوا تھا یہ جھوٹے حوالے اور درجنوں من گھڑت بے اصل واقعات کا موجود بھی ہے ۔ اس کی ایک کتاب نہیں بلکہ کئی کتابیں ہیں جو من گھڑت واقعات سے بھرے ہوئے ہیں انہیں کتابوں میں سے ایک کتاب ہے شہید ابن شہید جس میں موصوف نے بیان کیا ہے  اور کئی مقررین سے یہ واقعہ سنا بھی گیا کہ : جب یزیدی ھل من مبارز پکار رہے تھے سارے محبانِ حسین یکے بعد دیگرے شہید ہو چکے تھے اب امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی باری تھی آپ جب گھوڑے پر سوار ہوئے تو گھوڑا ہلنے کا نام نہیں لے رہا تھا ایسا لگتا تھا کہ گھوڑے کا پاؤں کو زمین نے پکڑ لیا ہے مختصر یہ کہ امام رضی اللہ عنہ نے نیچے دیکھا تو معصوم سکینہ گھوڑے کے پیروں سے لپیٹی ہوئیں تھیں - - - - الخ ۔


تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ سیدنا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو چھ اولاد تھیں جن میں دو بیٹیاں تھیں اور سنی شیعہ کتب کی روشنی میں سیدہ سکینہ رضی اللہ عنہا اس وقت بچی نہیں  تھیں ، سوانح کربلا میں ہے کہ آپ سات سال کی تھیں خیر کتاب شہید ابن شہید میں کہنا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سکینہ رضی اللہ عنہا کو گود میں اٹھا لیا بوسہ لیا اور فرمایا بیٹی ان معصومانہ کوششوں سے ہمارے دل کو چھلنی نہ کرو یہ ساری باتیں صائم چشتی تفضیلی کی اختراع یے ۔


ذرا سوچیے : حضرت سکینہ رضی اللہ عنہا جو کہ سات سال کی تھیں ، ان کے بارے میں کہنا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں گود میں لیا اور  وہ گھوڑے کے پاؤں سے لپٹ گئیں ، یہ کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے ؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم نے اس طرح سے بے صبری کا مظاہرہ کیا ہو ۔ یہ سب باتیں بالکل جھوٹ ہیں اور کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے ۔ کچھ لوگ بجائے اپنی اصلاح کرنے کے ، اپنی تقریر میں چار چاند لگانے اور اپنے بازار کو چمکانے کےلیے ایسے قصوں کو خوب رو رو کر بیان کرتے ہیں اور لوگوں کی عقیدت اور محبت کے ساتھ کھلواڑ کیا کرتے ہیں ۔ اتنی چیزیں جاننے کے بعد بھی اگر کوئی اس واقعہ کو بیان کرتا ہے تو اب اس کے بارے میں ہم کیا کہیں ۔ اللہ تعالٰی ہمیں اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی طرف ایسے جھوٹے قصوں کو منسوب کرنے سے بچائے اور ان کی شانوں کے لائق ان کی تعظیم و تکریم کرنے اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...