Friday 6 August 2021

امام مہدی رضی اللہ عنہ اور کالے جھنڈے (2)

0 comments

 امام مہدی رضی اللہ عنہ اور کالے جھنڈے (2)

محترم قارئینِ کرام : حصہ اول میں اور کچھ احادیثِ مبارکہ اس حصہ میں آپ نے پڑھیں اور پڑھینگے ان کے تعلق سے چار باتوں کی وضاحت ضرور پڑھ کر ذھن نشین فرما لیں :


اول : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور خاص کر حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور سے ماقبل  ظہور پذیر ہونے والے واقعات کے بارے میں احادیث و روایات کثیر تعداد میں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں سے بعض احادیث تو وہ ہیں جوکہ صحیح احادیث  ہیں اور بعض وہ ہیں  جوکہ ضعیف اور بعض انتہائی ضعیف ہیں ۔ چناچہ ہم ذیل میں وہ احادیث و روایات نقل کریں گے جوکہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ماقبل ظہور پذیر ہونے والےواقعات سے ہیں۔گوکہ ذیل میں نقل ہونے والی کئی روایات ضعیف ہیں ، لیکن یہ بات سب جانتے ہیں وہ امور جن کا تعلق عقائد ، عبادات اور مسائل شرعیہ سے نہ ہوبلکہ ان کا خالصتاً تعلق اخبار (مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات) سے ہو،تو اس باب میں محدثین نے ضعیف احادیث کو بھی نقل کیا ہے ۔ یہاں تک وہ اسرائیلیات جوکہ قرآن وحدیث سے نہ ٹکراتی ہوں ،اور ان کا تعلق بھی اخبار سے ہو تو ان کو بھی نقل کیا ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ ۔ (سنن ابی داود،ج۱۰،ص۷۹،رقم:۳۱۷۷،چشتی)(مسند احمد ج ۲۰ ص ۲۸۹،رقم:۹۷۴۶)

ترجمہ : حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :بنی اسرائیل سے روایت کرو ، اس میں کوئی حرج نہیں ۔


دوم : ذیل میں ہم نے حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ماقبل ظہور پذیر ہونے والےواقعات سے متعلق صرف وہ احادیث نقل نہیں کی جوکہ ضعیف ہیں بلکہ وہ صحیح احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ان واقعات کا بالکل واضح ذکر موجود ہےیا ان میں حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ماقبل ظہور پذیر ہونے والےواقعات سے متعلق ایسے واضح اشارے موجود ہیں جوکہ ضعیف احادیث کے ضعف کو کم کرتے ہیں ۔ چناچہ یہ بات بھی سب اہل علم جانتے ہیں کہ وہ ضعیف حدیث جس کے متن سے متعلق کسی امرکا واضح اور صریح اشارہ صحیح احادیث سے ملتا ہوا تو پھر اس حدیث کے ضعف کا وہ درجہ نہیں رہتا جوکہ اس کے راویوں کے ضعف کی بناء پر ہوتا ہے ۔


سوم : پہلی بات یہ ہے کہ ذیل میں ہم نے احادیث کو اسی واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے نقل کرنے کی کوشش کی ہے ، جوکہ بظاہر احادیث کے مطالعہ سے سامنے آتا ہے ،لیکن یہ ترتیب کوئی حتمی نہیں ہے ۔ اس میں معاملات آگے پیچھے بھی ہوسکتےہیں اور دوسری سب سے اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ماقبل ہونے والے واقعات کی حتمی تطبیق انتہائی دقیق اورمشکل کام ہے جوکہ صرف اہل علم ہی اپنےعلم اور نور بصیرت اور فراست سے اس کو پہچان سکتے ہیں ، جس کو پھر بھی حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے متعلق ماہ وسال کا تعین کسی نہ اختیار میں ہے اور نہ ہی اس کو متعین کرنا جائز ہے ۔بس اس ضمن میں یہ بات واضح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہدی جب مکہ میں پناہ لیں گے تو ان کو پکڑنے کے لئے آنے والا  لشکرجب زمین میں دھنسا یا جائے گا تو لوگ پہچان لیں گے کہ یہی وہ مہدی ہیں جن کی خوشخبری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی ۔ بس شام سے اولیاء اور عراق کے قبائل آکر حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے بیعت کریں گے : فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ ۔ (سنن ابی داود جلد نمبر ۱۱ صفحہ ۳۵۷ رقم:۳۷۳۷،چشتی)

ترجمہ : وہ لشکر ، بیداء ، کے مقام پر زمین میں دھنس جائے گا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے، جب لوگ مہدی کے بارے میں سنیں گے  تو اہل شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں ان کے پاس آئیں گی اور  ان سے بیعت کریں گی ۔


چہارم : بہت سے لوگ جن میں بعض وقت کچھ اہل علم حضرات ، ان کے  سامنےجب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور خاص کر حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور سے ماقبل  ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے متعلق بات کی جاتی ہے تو اس سے انتہائی بے اعتنائی برتتے  ہیں اور اس کے متعلق یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے اس کے ظہور ہونے میں ابھی  صدیاں باقی ہیں ۔مگر ہم جب اس معاملے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اور اسلاف کا طرز عمل دیکھیں تو وہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔وہاں تو یہ معاملہ تھا کہ اگر کوئی ایسی چیز صحابہ یا اسلاف  دیکھ لیا کرتے تھے جو کہ دجال یا یاحضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور سے متعلق ہوتی تھی تو فوراً فکر مند ہو جاتے تھےاور اس  کی اصلیت جاننے کی کوشش کرتے تھے تاکہ اگر اس چیز سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوئی بشارت دی ہوتو اس سے محروم نہ رہا جا سکے اور اگر کسی چیز سے متعلق متنبہ کیا ہو تو اس کی گمراہی اور ہلاکت سے بچاجاسکے ۔


اس سلسلے میں چند مثالیں درج ذیل ہیں


حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جب آسمان پر دمدار ستارہ دیکھا تو فکر مند ہوگئے کہ کہیں دجال تو نہیں نکل آیا ۔ چناچہ روایات میں آتا ہے : أخبرنا حمزة بن العباس العقبي ، ثنا العباس بن محمد الدوري ، ثنا عثمان بن عمرو ، أنبأ ابن جريج ، عن ابن أبي مليكة ، قال : غدوت على ابن عباس رضي الله عنهما ذات يوم ، فقال : « ما نمت البارحة حتى أصبحت » ، قلت : لم ؟ قال : « قالوا : طلع الكوكب ذو الذنب ، فخشيت أن يكون الدجال قد طرق » « هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه . غير أنه على خلاف عبد الله بن مسعود ، وأن آية الدجال قد مضى ۔ (مستدرک حاکم ،ج ۱۹،ص۳۱۱،رقم:۸۵۵۱)


اسی طرح امام مہدی رضی اللہ عنہ سے قبل کے رمضان میں جو عجیب و غریب علامات آسمان پر ظاہر ہوں گی ان سے متعلق ایک راوی کہتے ہیں کہ : حدثنا ابن وهب عن ابن عياش عن صفوان بن عمرو عن عبد الرحمن بن جبير عن كثير بن مرة قال لانتظر آية الحدثان في رمضان منذ سبعين سنة ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۵،رقم:۶۴۰،اسنادہ :حسن،چشتی)

ترجمہ : حضرت کثیر بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں ستر سال تک رمضان میں (آسمان پر ظاہر ہونے والی )دونشانیوں کا انتظار کرتا رہا ۔


اسی طرح قرب قیامت غزوہ ہند سے متعلق جو بشارتیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں اس سے متعلق حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا طرز عمل کیا تھا ۔ وہ فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَلِكَ وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي مِنْ النَّارِ ۔ (مسندا حمد ج ۱۸ ص ۹ رقم:۸۴۶۷۔البدایۃ والنھایۃالابن کثیر ،الاخبار عن غزوہ الھند:۶/۲۲۳)

ترجمہ : میرے جگری دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ : اس امت میں سندھ اور ہند کی طرف لشکروں کی راونگی ہوگی ۔ (اس پر حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع لگا اور میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ، اگر واپس لوٹا تو ایک آزادابوہریرہ ہوگا،جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم سے آزاد کردیا ہوگا ۔


اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ   نے اس لشکرمیں شرکت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم کے ارشاد کو نقل فرمایا : حدثنا بقية بن الوليد عن صفوان عن بعض المشيخة عن أبي هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر الهند فقال (ليغزون الهند لكم جيش يفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوكهم مغللين بالسلاسل يغفر الله ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام).قال أبو هريرة إن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارف لي وتالد وغزوتها فإذافتح الله علينا وانصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيجد فيها عيسى بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه فأخبره أني قد صحبتك يا رسول الله قال فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وضحك ثم قال (هيهات هيهات) ۔ (الفتن ‘‘از نعیم بن حماد ،باب غزوۃ الہند ،ج۹ص۴۰۹،حدیث:۱۲۳۸،۱۲۳۶واسنادہ ضعیف ومسند اسحق بن راھویہ،قسم اول۔سوم:۱/۴۶۲حدیث:۵۵۳۷)

ترجمہ : ضرور تمہارا ایک لشکر ہند وستان سے جہاد کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ ان (ہندوستان) کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان (مجاہدین) کی مغفرت فرمادے گا ۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شام میں پائیں گے ۔ (اس پر) حضرت ابوہریر ۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو وہ میں ایک آزاد ابو ہریرۃ ہوں گا جو ملک شام میں (اس شان سے) آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو پائے گا ۔ یارسول اللہ اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاٶں کہ میں آپ کا صحابی ہوں ۔(راوی کا بیان ہے )کہ رسول اللہ ایہ بات سن کر مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا:بہت مشکل ،بہت مشکل"۔


بس یہ تھا صحابہ کرام اور اسلاف کا طرز عمل ان نشانیوں کے حوالے سے ۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ صحابہ کرام اور اسلاف امت حضرت مہدی ،دجال اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے زیادہ قریب تھے یاہم اس زمانے کے زیادہ قریب ہیں ؟ظاہر سی بات ہے کہ ان کے مقابلے میں ہم ان نشانیوں کے زیادہ قریب ہے تو پھر ہمیں ان کے بارے میں کس قدر جانناچاہیے اور اگر اس متعلق کسی نشانی کا ظہور ہوتو اس کے متعلق کتنا فکر مند ہونا چاہیے۔لیکن معاملہ اسے بالکل برعکس ہے کہ عام آدمی تو درکنار اکثر اہل علم بھی اس پر بات کرنے یا اس کی طرف توجہ کرنے کو تیار نہیں ۔یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بھی حضرت مہدی کے ظہور اورخروج دجال کی نشانی ہے کہ ان خروج سے پہلے ان کا ذکر محراب و منبر سے اٹھ جائے گا یا پھر لوگ ایسے امر کے ظہور پذیر ہونے سے ہی مایوس ہوجائیں گے۔


عن ابن عباس فایبعث المھدی بعد ایاس حتیٰ یقول الناس لامھدی ۔ (کذا فی الحادی ج ۲ص۷۶)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مہدی اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک لوگ مایوس ہوکر یہ نہ کہنے لگیں کہ اب کوئی مہدی نہیں آنے والا"۔


اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ لَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى يَذْهَلَ النَّاسُ عَنْ ذِكْرِهِ وَحَتَّى تَتْرُكَ الْأَئِمَّةُ ذِكْرَهُ عَلَى الْمَنَابِرِ) ۔ (مسند احمد:ج۳۴ص۳رقم الحدیث:۱۶۰۷۳)

"دجال کا خروج نہ ہوگا یہاں تک کہ لوگ اس کا ذکر بھول جائیں گے(یعنی اس سے بے خوف ہوجائیں گے)اور مساجد کے آئمہ منبروں پر اس کا تذکرہ چھوڑ دیں گے"۔


جبکہ معاملہ یہ ہو کہ ؛ لیس من فتنۃ صغیرۃ ، ولا کبیرۃ لا تضع لفتنۃ الدجال فمن نجا من فتنۃ ما قبلہا نجا منہا ۔ (مسند البزار:ج۷ص۲۳۲رقم الحدیث:۲۸۰۷رجالہ رجال الصحیح،چشتی)

"آج تک دنیا میں کوئی بھی چھوٹا بڑا فتنہ ظاہر نہیں ہوامگر یہ کہ وہ دجال کے فتنے کی وجہ سے ہے، سو جو کوئی اس کے فتنے سے پہلے ،فتنوں سے بچ گیا وہ دجال کے فتنے سے بھی بچ جائے گا ‘‘۔


"فتنہ چھوٹا ہو یا بڑا وہ دجال کے فتنے پر ہی منتج ہوگا۔سو جو اس کے فتنے سے پہلے فتنوں سے بچ گیا وہ دجال کے فتنوں سے بھی بچ جائے گا"۔(احادیث فی الفتن والحوادث ج:۱ص۲۵۶)


لہذا ان فتنوں سے سے بچنے کے لئے ان فتنوں سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے  فرمایا ؛ "یہ فتنے ایسے لمبے ہوجائیں گے جیسے گائے کی زبان لمبی ہوجاتی ہے ۔ان فتنوں میں اکثر لوگ تباہ ہوجائیں گے البتہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو پہلے سے ان فتنوں کو پہچانتے ہوں گے‘‘۔ (احادیث حذیفہ فی الفتن : ج ۱ ص۴۹،چشتی)


کالے جھنڈوںمیں آپس میں اختلاف


کیا کالے جھنڈوں میں اختلاف شروع ہوچکاہے؟

قرب قیامت حضرت مہدی کا ظہور ہونا ہے اور ظہور مہدی سے پہلے قبیلہ قریش کے ایک شخص نے خروج کرنا ہے جس کا نام سفیانی ہوگا،اور سفیانی کا ظہور اس وقت تک نہیں ہوگاجب تک کہ خراسان سے نکلنے والے کالے جھنڈوں میں شدید اختلاف نہ ہوجائے اور ان میں آپس میں جنگ وجدال نہ ہونے لگے،اور جب ان کالے جھنڈوں میں اختلاف ہوجائے گا تو شام میں تین جھنڈے ظاہر ہوں گے جن میں سے ایک جھنڈا سفیانی ملعون کا ہوگا،اور سفیانی کا ظہور حضرت مہدی کی آمد کا دراصل اعلان ہوگا۔اب اس بات کواحادیث مبارکہ سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

 

ظہور مہدی سے قبل کی ایک نشانی جوکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ لوگوں میں کثیر اختلاف پیدا  ہوجائے گا۔جیساکہ حدیث میں آتا ہے کہ:أُبَشِّرُكُمْ بِالْمَهْدِىِّ يُبْعَثُ فِي أُمَّتِي عَلَى اخْتِلَافٍ مِنْ النَّاسِ ۔ (مسند احمد،ج۲۳، ص۱۰۶،رقم:۱۱۰۶۱،رجاله ثقات\مسند احمد،ج۲۲، ص۴۴۳،رقم:۱۰۸۹۸،رجاله ثقات،چشتی)

"تم لوگوں کی بشارت ہے مہدی کی ،ان کا ظہور اس وقت ہوگا جب کہ لوگوں میں اختلاف ہوگا"۔


لیکن یہ اختلاف کن لوگوں کے درمیان ہوگا اس حوالے سے تفاصیل دیگر احادیث میں ملتی ہیں۔جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ کسی بادشاہ کے اختلاف پر لوگوں میں اختلاف ہوگا تو لوگ ایک شخص جوکہ مہدی ہوں گے ان کو خلیفہ بنانے کا قصد کریں گے:يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ۔(سنن ابی داود،ج۱۱،ص۳۵۷،رقم:۳۷۳۷)

" ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں (اگلاخلیفہ منتخب کرنے میں) اختلاف ہوجائے گا اس دوران ایک آدمی مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگے گا لوگ اسے خلافت کے لیے نکالیں گے"۔


اسی طرح یہ اختلاف خراسان سے نکلنے والے کالے جھنڈوں کے درمیان بھی ہوگا : حدثنا الوليد وأخبرني أبو عبد الله عن مسلم بن الأخيل عن عبد الكريم أبي أمية عن محمد بن الحنفية قال لا تزال الرايات السود التي تخرج من خراسان في أسنتها النصر حتى يختلفوا فيما بينهم فإذا اختلفوا فيما بينهم رفعت ثلاث رايات بالشام.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۷۵،رقم:۵۹۶،اسنادہ ضعیف:عبد الکریم بن ابی المخارق ضعیف،تحقیق شیخ ابو عبد اللہ و شیخ أیمن محمدمحمد عرفۃ ،المکتبہ التوفیقیہ ،مصر)

" محمد بن الحنیفۃ سے روایت ہے کہ خراسان سے جو کالے جھنڈوں والا لشکر نکلے گا وہ ہمیشہ غالب رہے گا یہاں تک کہ وہ آپس میں اختلاف کریں گے۔جب وہ آپس میں اختلاف کریں گے تو شام میں تین جھنڈے بلند کئے جائیں گے"۔


کیا کالے جھنڈوں میں آپس میں بڑا کشت وخون ہونے والاہے؟


حدثنا الوليد بن مسلم عن أبي عبدة المشجعي حدثنا أبو أمية الكلبي قال حدثنا شيخ أدرك الجاهلية قد سقط حاجباه على عينيه قال لا تزال أصحاب الرايات السود شديدة رقابهم بعدما يظهروا حتى يختلفوا فيما بينهم.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۷۴،رقم:۵۸۸،اسنادہ ضعیف:الولید بن مسلم :مدلس التسویۃ ولم یصرح۔شیخ لھم ادرک الجاھلیۃ :مجھول)

"ابو امیہ الکلبی فرماتے ہیں کہ ہمیں ایک بوڑھے آدمی نے بتایا (جس نے جاہلیت کا زمانہ پایا تھا )اور بڑھاپے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی پلکیں اس کی آنکھوں کی نیچے پڑی ہوئی تھیں ،اس نے کہا کہ جب کالے جھنڈوں والا لشکر نکلے گا تو وہ ہر وقت کامیاب رہے گا یہاں تک کہ پھر ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے گا"۔


قال الوليد فأخبرني أبو عبدة المشجعي عن أبي أمية الكلبي قال بينما أصحاب الرايات السود يقتتلون فيما بينهم إذ خرج سابع سبعة

 (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۳۶،رقم:۸۷۵۔ابو امیۃ کلبی لم أعرفہ)

ابو امیہ الکلبی فرماتے ہیں کہ اس وقت جب کالے جھنڈوں والے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوں گے تو ایک دم ساتواں نکلے گا۔۔۔۔"۔


حضرت مہدی کے ظہور سے قبل کی دوسری  نشانی


کالے جھنڈوں میں اختلاف کے بعد شام میں نکلنے والے  تین جھنڈے کون کون سے ہوں گے؟


الفتن نعیم بن حماد کی صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آخر زمانے میں دمشق میں ایک بستی زمین میں دھنس جائے گی،ایک مسجد کا مغربی حصہ گر جائے گا  ،روم اور ترک ایک ہوجائیں گےتو شام میں تین جھنڈے نکلیں گے جن میں ایک سفیانی ملعون کا ہوگا!وہ صحیح روایات یہ ہیں : حدثنا الحكم عن جراح عن أرطاة قال إذا خسف بقرية من قرى دمشق وسقطت طائفة من غربي مسجدها فعند ذلك تجتمع الترك والروم يقاتلون جميعا وترفع ثلاث رايات بالشام ثم يقاتلهم السفياني حتى يبلغ بهم قرقيسيا ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۹،رقم:۶۱۱۔اسنادہ حسن،چشتی)

"جب دمشق کے قریب ایک بستی دھنس جائے گی اور مسجد کا مغربی حصہ گر جائے گا ۔پس روم والے اور تر ک جمع ہوجائیں گے اور مل کر لڑیں گے تو شام میں تین جھنڈے بلند ہوں گے۔۔۔۔۔۔"۔


 عن أرطاة قال إذا اجتمع الترك والروم وخسف بقرية بدمشق وسقط طائفة من غربي مسجدها رفع بالشام ثلاث رايات الأبقع والأصهب والسفياني ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۷،رقم:۸۳۹۔اسنادہ حسن)

جب روم اور ترک جمع ہوجائیں گے اور دمشق کے قریب ایک بستی دھنس جائے گی اور مسجد کا مغربی حصہ گر جائے گا تو شام میں تین جھنڈے بلند ہوں گے ،ایک ابقع کا ،دوسرا اصھب کا اور تیسرا سفیانی کا"۔


یہ جھنڈےآخر نکلیں گےکب ؟یہ جھنڈے اس وقت نکلیں گے جب کالے جھنڈوں میں اختلاف ہوجائے گا،اس کا ذکر درج ذیل احادیث میں ملتا ہے جوکہ ضعیف ہیں : حدثنا الوليد ورشدين عن ابن لهيعة عن أبي قبيل عن أبي رومان عن علي قال إذا اختلف أصحاب الرايات السود بينهم كان خسف قرية بإرم يقال لها حرستا وخروج الريات الثلاث بالشام عنها.

 (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۳۶،رقم:۸۷۵۔اسنادہ ضعیف :مدارہ علی ابن لھیعۃ  :مدلس وقد عنعنہ وھو ضعیف)

"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کالے جھنڈوں والے آپس میں اختلاف کریں گے تو اس وقت "وادی ارم "کی ایک بستی جس کو "حرستا"کہاجاتا ہوگا زمین میں دھنس جائے گی اورشام سے  تین جھنڈے نکلیں گے"۔

حرستا شام کی ایک بستی کا نام ہے جوکہ آج بھی دمشق کے قریب واقع ہے۔


حدثنا الوليد عن أبي عبدة المشجعي عن أبي أمية الكلبي قال حدثنا شيخ قد أدرك الجاهلية قد سقط حاجباه على عينيه قال لا تزال أصحاب الرايات السود شديدة رقابهم حتى يختلفوا فيما بينهم يخالف بعضهم بعضا فيفترقون ثلاث فرق فرقة يدعون لبني فاطمة وفرقة يدعو لبني العباس وفرقة تدعو لأنفسهم قلت ومن أنفسهم ؟ قال لا أدري وهكذا سمعت.

 (الفتن نعيم بن حماد،ص۱۷۴،رقم:۵۸۸،اسنادہ ضعیف:الولید بن مسلم :مدلس التسویۃ ولم یصرح۔شیخ لھم ادرک الجاھلیۃ :مجھول)

"ابوامیہ الکلبی فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھے نے ہمیں بتایا کہ جس نے جاہلیت کا زمانہ پایاتھا کہ کالے جھنڈوں والے غالب رہیں گے یہاں تک کہ ان میں اختلاف ہوجائے گا ۔تو وہ ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے تو وہ تین جماعتوں تقسیم ہوجائیں گے ۔ایک جماعت لوگوں کو بنو فاطمہ کی طرف لوگوں کو دعوت دے گی ،دوسری جماعت بنو عباس کی طرف اور تیسری جماعت اپنے لئے بادشاہی کادعویٰ کرے گی ۔میں نے پوچھا کہ وہ کون ہے تو انہوں نے کہا مجھے پتہ نہیں ہے ،میں نے اسی طرح سنا تھا"۔


حدثنا عبد القدوس عن ابن عياش عمن حدثه عن كعب قال إذا رجع السفياني دعا إلى نفسه بجماعة اهل المغرب فيحتمعون لہ مالم یجتمعوا لأحد قط،لما سبق فی علم اللہ تعالیٰ۔۔۔

(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۳۴،رقم:۸۶۹،اسنادہ ضعیف:شیخ ابن عیاش مجہول)

کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب سفیانی واپس آئے گا تو وہ اپنی بادشاہی کی طرف لوگوں کو دعوت دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حدثنا الوليد قال وأخبرني أبو عبد الله عن مسلم بن الأخيل عن عبد الكريم أبي أمية عن محمد بن الحنفية قال إذا اختلفوا بينهم رفع بالشام ثلاث رايات راية الأبقع وراية الأصهب وراية السفياني ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۷، رقم:۸۴۱،اسنادہ ضعیف:عبد الکریم ابو امیہ ضعیف)

"محمد بن حنیفہ فرماتے ہیں کہ جب وہ آپس میں اختلاف کرنے لگیں تو شام میں تین جھنڈے اٹھائے جائیں گے ،ایک ابقع سیاہ وسفید داغ والا ،دوسرا اصہب سرخ وسفید اور تیسرا سفیانی کا جھنڈا"۔


حدثنا الوليد ورشدين عن ابن لهيعة عن أبي قبيل عن أبي رومان عن علي قال إذا إختلفت أصحاب الرايات السود خسف بقرية من قرى إرم ويسقط جانب مسجدها الغربي ثم تخرج بالشام ثلاث رايات الأصهب والأبقع والسفياني فيخرج السفياني من الشام والأبقع من مصر فيظهر السفياني عليهم.(الفتن نعيم بن حماد، ص۲۲۹،رقم:۸۴۷،اسنادہ ضعیف:عبد الکریم ابو امیہ ضعیف)

"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کالے جھنڈوں والے جب آپس میں اختلاف کریں گے تو ارم شہر کی ایک بستی زمین میں دھنس جائے گی اور اسی بستی کے مسجد کا مغربی حصہ بھی گر جائے گا ،پھر شام میں تین جھنڈے نکلیں گے ،ایک ابقع دوسرا اصھب اور تیسرا سفیانی ۔سفیانی شام سے اور ابقع مصر سے نکلے گا اور سفیانی ان پر غالب آئے گا"۔


حضرت مہدی کے ظہور سے قبل کی تیسری   نشانی


کالے جھنڈوں میں اختلاف کےبعدپیلے جھنڈے یا  اہل مغرب کہاں اتریں گے؟


حدثنا عبد الله بن مروان عن سعيد بن يزيد التنوخي عن الزهري قال إذا اختلفت الرايات السود فيما بينهم أتاهم الرايات الصفر فيجتمعون في قنطرة أهل مصر فيقتتل أهل المشرق وأهل المغرب سبعا (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۱۴،رقم:۷۷۸،اسنادہ :جید)

"امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کالے جھنڈوں والے آپس میں اختلاف کریں گے تو پیلے جھنڈوں والے ان کے پاس آئیں گے تو دونوں مصر والوں کے ساتھ جمع ہوں گےتو پھر مشرق مغرب والے سات (دن ،مہینے یا سال )جنگ کریں گے"۔


حدثنا عبد الله بن مروان عن أبيه عن عمرو بن شعيب عن أبيه قال دخلت على عبد الله بن عمر حين نزل الحجاج بالكعبة فسمعته يقول إذا أقبلت الرايات السود من المشرق والرايات الصفر من المغرب حتى يلتقوا في سرة الشام يعني دمشق فهنالك البلاء هنالك البلاء.

(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۱۶،رقم:۷۸۹،اسنادہ :قوی)

"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کالے جھنڈوں والے مشرق سے آگئے اور پیلے جھنڈے والے مغرب سے اور دمشق میں ایک دوسرے کے ساتھ آمنے سامنے آگئے تو اس وقت مصیبت ہی مصیبت ہے"۔


حدثنا عبد الله بن مروان عن أرطاة عن تبيع عن كعب قال إذا رأيت الرايات الصفر نزلت الأسكندرية ثم نزلوا سرة الشام فعند ذلك يخسف بقرية من قرى دمشق يقال لها حرستا.

(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۱۶،رقم:۷۸۷، اسنادہ : جید)

"حضرت کعب فرماتے ہیں کہ جب آپ نے دیکھ لیا کہ پیلے جھنڈے والوں نے اسکندریہ اور پھر دمشق میں پڑاؤ ڈالیا تو اس وقت دمشق کی ایک بستی زمین میں دھنس جائے گی جس کا نام حرستا ہوگا"۔


حضرت مہدی کے ظہور سے قبل کی چوتھی نشانی

(۴)

خروج سفیانی


بہت سے لوگ آج کل جس طرح مہدی کے ظہور پر اعتراضات کرتے ہیں بلکہ بعض لوگ ایسی کسی شخصیت کے قائل ہی نہیں ،بالکل اسی طرح بہت سے لوگ اس شخصیت کے بھی منکر ہیں جوکہ قبیلہ قریش سے تعلق رکھتا ہوگا اور حضرت مہدی کے مقابلے میں شام سے لشکر بھیجے گا اور جس کا لقب روایات میں"سفیانی "مذکور ہے۔بہت سے لوگ اس شخصیت کو رافضیوں کی گڑھی ہوئی شخصیت قرار دیتے ہیں جوکہ ان کے کم علمی کی علامت ہے۔صحیح احادیث سے حضرت مہدی کا بیت اللہ میں پناہ لینا اور ان کے خلاف قبیلہ قریش کے ایک شخص جس کا ننھیال بنو کلب ہوگا ،حضرت مہدی کے خلاف شام سے لشکر بھیجنا اور اس کا زمین میں دھنس جانا ثابت ہے۔


مہدی کے خلاف لشکر کا بھیجا جانا:

(( حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الرَّازِيُّ وَهُوَ خَتَنُ سَلَمَةَ الْأَبْرَشِ قَالَ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ حَفْصَةَ ابْنَةِ عُمَرَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَأْتِي جَيْشٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يُرِيدُونَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ فَرَجَعَ مَنْ كَانَ أَمَامَهُمْ لِيَنْظُرَ مَا فَعَلَ الْقَوْمُ فَيُصِيبَهُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ بِمَنْ كَانَ مِنْهُمْ مُسْتَكْرَهًا قَالَ يُصِيبُهُمْ كُلَّهُمْ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ كُلَّ امْرِئٍ عَلَى نِيَّتِهِ))     (مسند احمد،ج۵۳،ص۴۱۳،رقم:۲۵۲۵۳)

"حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے مشرق سے ایک لشکر ضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکرکا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے رہ جائیں گے اور ان میں سے صرف ایک آدمی بچے کا جو ان کے متعلق لوگوں کو خبردے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس آدمی کا کیا بنے گا جو اس لشکر میں زبردستی شامل کرلیا گیا ہوگا؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا یہ آفت تو سب پر آئے گی البتہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کی نیت پر اٹھائے گا"۔


((حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ جَدِّهِ عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيَؤُمَّنَّ هَذَا الْبَيْتَ جَيْشٌ يَغْزُونَهُ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِأَوْسَطِهِمْ فَيُنَادِي أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمْ فَلَا يَنْجُو إِلَّا الشَّرِيدُ الَّذِي يُخْبِرُ عَنْهُمْ))  (مسند احمد،ج۵۳،ص۳۹۹،رقم:۲۵۲۳۹)

"حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکر ضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے رہ جائیں گے اور ان میں سے صرف ایک آدمی بچے کا جو ان کے متعلق لوگوں کو خبر دے گا ایک آدمی نے کہا کہ یقینا اسی طرح ہوگا"۔


((و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ عَبَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنَامِهِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَنَعْتَ شَيْئًا فِي مَنَامِكَ لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُهُ فَقَالَ الْعَجَبُ إِنَّ نَاسًا مِنْ أُمَّتِي يَؤُمُّونَ بِالْبَيْتِ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ لَجَأَ بِالْبَيْتِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الطَّرِيقَ قَدْ يَجْمَعُ النَّاسَ قَالَ نَعَمْ فِيهِمْ الْمُسْتَبْصِرُ وَالْمَجْبُورُ وَابْنُ السَّبِيلِ يَهْلِكُونَ مَهْلَكًا وَاحِدًا وَيَصْدُرُونَ مَصَادِرَ شَتَّى يَبْعَثُهُمْ اللَّهُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ))         (صحیح مسلم ،ج ۱۴،ص۵۵،رقم :۵۱۳۴)

"، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند میں اپنے ہاتھ پاؤں کو ہلایا تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے اپنی نیند میں وہ عمل کیا جو پہلے نہ فرمایا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا تعجب ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ بیت اللہ کا ارادہ کریں گے قریش کے ایک آدمی کو پکڑنے کے لئے جس نے بیت اللہ میں پناہ لی ہوگا یہاں تکہ کہ جب وہ ایک ہموار میدان میں پہنچیں گے تو انہیں دھنسا دیا جائے گا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول راستے میں تو سب لوگ جمع ہوتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان میں با اختیار مجبور اور مسافر بھی ہوں گے جو ایک ہی دفعہ ہلاک ہو جائیں گے اور مختلف طریقوں سے نکلیں گے اور انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا"۔


((  أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَيَعُوذُ بِهَذَا الْبَيْتِ يَعْنِي الْکَعْبَةَ قَوْمٌ لَيْسَتْ لَهُمْ مَنَعَةٌ وَلَا عَدَدٌ وَلَا عُدَّةٌ يُبْعَثُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِبَيْدَائَ مِنْ الْأَرْضِ خُسِفَ بِهِمْ قَالَ يُوسُفُ وَأَهْلُ الشَّأْمِ يَوْمَئِذٍ يَسِيرُونَ إِلَی مَکَّةَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ أَمَا وَاللَّهِ مَا هُوَ بِهَذَا الْجَيْشِ))

(صحیح مسلم ،ج ۱۴،ص۵۵،رقم :۵۱۳۳)

"عبداللہ بن صفوان، سیدہ ام المومنین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب ایک قوم اس گھر یعنی خانہ کعبہ کی پناہ لے گی جن کے پاس کوئی رکاوٹ نہ ہوگی نہ آدمیوں کی تعداد ہوگی اور نہ ہی سامان ہوگا ان کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ زمین کے ایک ہموار میدان میں ہوں گے تو انہیں دھنسادیا جائے گا۔ یوسف نے کہا شام والے ان دنوں مکہ والوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہو چکے تھے عبداللہ بن صفوان نے کہا اللہ کی قسم وہ لشکر یہ نہیں(بلکہ یہ آخری زمانے میں ہوگا)"۔


حضرت مہدی کے خلاف لشکر بھیجنے والاشخص قبیلہ قریش سے تعلق رکھتا ہوگا جبکہ اس کا ننھیال بنوکلب سے ہوگا!


((حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ صَاحِبٍ لَهُ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ فَيَبْعَثُ إِلَيْهِمْ بَعْثًا فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ فَيَقْسِمُ الْمَالَ وَيَعْمَلُ فِي النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ فِي الْأَرْضِ فَيَلْبَثُ سَبْعَ سِنِينَ ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ))

(سنن ابی داود،ج۱۱،ص۳۵۷،رقم:۳۷۳۷۔مسند احمد،ج۵۴،ص۱۲۹،رقم:۲۵۴۶۷)

"حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں (اگلاخلیفہ منتخب کرنے میں) اختلاف ہوجائے گا اس دوران ایک آدمی مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگے گا لوگ اسے خلافت کے لیے نکالیں گے لیکن وہ اسے ناپسند کرتے ہوں گے پھر لوگ ان کے ہاتھ پر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کریں گے پھر وہ ایک لشکر شام سے بھیجیں گے تو وہ لشکر ، بیداء ، کے مقام پر زمین میں دھنس جائے گا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے، جب لوگ مہدی کے بارے میں سنیں گے  تو اہل شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں ان کے پاس آئیں گی ان سے بیعت کریں گی۔ پھر ایک آدمی اٹھے گا قریش میں سے جس کی ننھیال بنی کلب میں ہوگی وہ ان کی طرف ایک لشکر بھیجے گا تو وہ اس لشکر پر غلبہ حاصل کرلیں گے اور وہ بنوکلب کا لشکر ہوگا اور ناکامی ہو اس شخص کے لیے جو بنوکلب کے اموال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو، مہدی مال غنیمت تقسیم کریں گے اور لوگوں میں انکے نبی کی سنت کو جاری کریں گے اور اسلام پر اپنی گردن زمین پر ڈال دے گا (سارے کرہ ارض پر اسلام پھیل جائے گا) پھر اس کے بعد سات سال تک وہ زندہ رہیں گے پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان انکی نماز جنازہ پڑھیں گے امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ بعض ہشام کے حوالہ سے یہ کہا کہ وہ نوسال تک زندہ رہیں گے جبکہ بعض نے کہا کہ سات سال تک رہیں گے"


مہدی کے خلاف قبیلہ قریش کا جو شخص لشکر بھیجے گا اس کا نام کیا ہوگا؟


یہ بات تو صحیح احادیث سے ثابت ہوچکی ہے کہ مہدی کے خلاف ایک شخص لشکر بھیجے گا جس کا ننھیال بنوکلب ہوگا اوروہ لشکر زمین میں دھنس جائے گا ۔اب آتے ہیں اس با ت کی طرف کہ مہدی کے خلاف لشکر بھیجنے والے کا نام کیا ہوگا ؟کیونکہ بعض احادیث میں اس شخص کے نام کے ساتھ بھی کچھ اس کی صفات کو بیان کیا گیا ہے جوکہ بہت اہم ہے۔اس شخص کا لقب "سفیانی "آیا ہے اور بعض روایات میں "سفیانی دوم "کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔


 حدثنا أبو محمد أحمد بن عبد الله المزني ، ثنا زكريا بن يحيى الساجي ، ثنا محمد بن إسماعيل بن أبي سمينة ، ثنا الوليد بن مسلم ، ثنا الأوزاعي ، عن يحيى بن أبي كثير ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « يخرج رجل يقال له : السفياني في عمق دمشق ، وعامة من يتبعه من كلب ....حتى إذا صار ببيداء من الأرض خسف بهم ، فلا ينجو منهم إلا المخبر عنهم » « هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه »    (مستدرک حاکم،ج۱۹ص۴۱۹،رقم:۸۷۳۲)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایک شخص نکلے گا جس کا نام ہوگا سفیانی جوکہ دمشق کی ایک بستی پر حملہ آور ہوگا اور بنو کلب والے اس کی پیروی کریں گے ۔۔۔(پھر آگے فرمایا)یہاں تک کہ وہ لشکر ایک میدان میں دھنس جائے گا اور ان میں سے کوئی باقی نہیں بچے گا سوائے ایک کے جوان کی خبر دے گا"۔


أخبرني محمد بن المؤمل بن الحسن ، ثنا الفضل بن محمد بن المسيب ، ثنا نعيم بن حماد ، ثنا يحيى بن سعيد ، ثنا الوليد بن عياش ، أخو أبي بكر بن عياش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال : قال ابن مسعود رضي الله عنه : قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم : « أحذركم سبع فتن تكون بعدي :----وفتنة من بطن الشام وهي السفياني » قال : فقال ابن مسعود : « منكم من يدرك أولها ، ومن هذه الأمة من يدرك آخرها » ،----« هذا حديث صحيح الإسناد ، ولم يخرجاه »    (مستدرک حاکم،ج۱۹ص۳۴۰،رقم:۸۵۸۰)

"اور فتنہ شام کی پیٹ سے نکلے گا اور وہ فتنہ سفیانی ہوگا۔۔۔۔۔"


اس کے علاوہ الفتن نعیم بن حماد  میں مہدی کے مقابلے میں آنے والے شخص سفیانی کے باب میں کی بہت ساری  صحیح روایات ایسی ہیں جس میں اس کے متعلق  کافی تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ان ساری احادیث کا یہاں ترجمہ پیش کرنا ممکن نہیں ۔ہم صرف چند صحیح احادیث نقل کریں گے جس  میں اس کا باقاعدہ نام "سفیانی"مذکور ہے:حدثنا عبد القدوس عن أرطاة عن ضمرة قال السفياني رجل أبيض جعد الشعر ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۳،رقم:۸۲۰،اسنادہ جید)

"سفیانی سفید رنگت کا آدمی ہوگا جس کے بال گھگریالے ہوں گے"۔ (مزید حصہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔