Saturday 14 August 2021

واقعہ کربلا کے راوی لکیر کے فقیروں کےلیے

0 comments

 واقعہ کربلا کے راوی لکیر کے فقیروں کےلیے

محترم قارئینِ کرام : فقیر کا واقعہ کربلا کے متعلق یہ نظریہ ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور یزید پلید اور اس کے حواری باطل پر تھے ۔ حق آج بھی حسنیت کے نام پر زندہ ہے ۔ اور باطل یوں مٹا کہ آج یزید پلید ایک گالی بن کر رہ گیا  الحَمْدُ ِلله اس فقیر کی طرح ڈنکے کی چوٹ پر خود کو غلامِ امام حسین رضی اللہ عنہ کہنے والے کروڑوں ہیں مگر خود کو یزید کا غلام کہنے والا کوٸی نہیں اگرچہ یزید پلید کی دلالت و وکالت کرنے والے بہت سے لوگ ہیں مگر یہ سب فتنہ و شر پھیلانے کے ایسا کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ یزید ملعون کو حق سمجھتے ہیں پھر لکھ کر دیں کہ یا اللہ ہمارا حشر یزید ملعون کے ساتھ کر ؟ مگر یہ کبھی لکھ کر نہیں دینگے ۔ اور ہم اہلسنت بابانگ دہل لکھتے اور دعا کرتے ہیں کہ : یا اللہ ہمیں یزید ملعون کے ساتھ حشر سے بچا اور ہمارا حشر حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ فرما آمین ۔


اب آٸیے واقعہ کربلا کے من گڑت واقعات گھڑنے والے راویوں کے متعلق حقاٸق پڑھتے ہیں اورساتھ ہی ساتھ ہی افسوس بھی کرتے ہیں اُن پر نہوں بغیر تحقیق کیے ایسے من گھڑت توہین آمیز واقعات کو لکھا اور بیان کیا اور آج تک لکیر کے فقیر بن کر بغیر تحقیق کیے مکھی پہ مکھی مارتے جا رہے ہیں ۔ کبھی ہم سے بھی کم علمی کی وجہ سے ایسا ہوا یا کوٸی آمیز واقعہ بیان ہوا تو ہم اللہ عز و جل سے معافی مانگتے ہیں وہ ہمیں معاف فرماۓ آمین ۔


واقعہ کربلا پرسب سے پہلی کتاب ابومِخنف لوط بن یحییٰ کوفی (متوفیٰ 157 یا 158 ہجری) کی تصنیف ’مقتل الحسین‘ جو مقتل ابومخنف کے نام سے مشہور ہے‘ اس سلسلے کی اولین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ ابو مخنف ایک شیعہ مصنف تھا اور عبد الله بن سبا کے نظریات کا پیروکار تھا - اس کا دادا سالم بن بن یحییٰ جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی فوج میں شامل تھا اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فوجیوں نے اسے قتل کردیا تھا - اس لیے ابو مخنف بنو امیہ خاندان کا جانی دشمن تھا - اس نے کل 23 کتابیں (صحیفوں کی شکل میں) تحریر کیں جو سب کے سب بنو امیہ خاندان کو بدنام کرنے کے لئے لکھی گئیں تھیں ۔ ابو مخنف کی مشھور زمانہ کتاب "مقتل الحسین" (170) ہجری کی ہے یعنی ممکنہ واقعہ کربلا کے تقریباً 110 سال بعد کی ہے اور اس کتاب کو مشھور مورخ حامد موانی نے بھی واقعہ کربلا پر سب سے پہلی کتاب مانا ہے ۔ لوط بن یحییٰ کے اس افسانے کو شہرت اس وقت ملی جب مورخ علامہ ابن جریر طبری نے اس افسانے کو اپنی تاریخ طبری کا حصہ بنایا ۔ سانحہ کربلا کے موضوع پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں اس واقعے سے متعلق جیسا جھوٹ گھڑا گیا ہے ، شاید ہی کسی اور واقعے سے متعلق گھڑا گیا ہو ۔ ہزاروں مرثیے لکھے گئے اور انتہاء درجے کی مبالغہ آرائی کے ساتھ اس سانحہ کو ایک افسانے کا رنگ دے دیا گیا ۔ محرم میں عجیب و غریب من گھڑت قصوں ، کہانیوں اور اشعار میں سانحہ کربلا کی داستانیں سنائی جاتی ہیں اور ایک ایک بات کی ایسی منظر نگاری کی جاتی ہے جیسےیہ واقعہ ان کے سامنے پیش آیا ہو ۔


تاریخی کتابیں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اولین کتب تاریخ میں اس واقعے کو صرف ایک شخص نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کا نام ہے ابو مخنف لوط بن یحیی ۔ اس سے بالعموم جو صاحب روایت کرتے ہیں، ان کا نام ہشام کلبی ہے ۔ اس واقعے کو صرف ایک شخص نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کا نام ہے ابو مخنف لوط بن یحیی ۔ ان سے بالعموم جو صاحب روایت کرتے ہیں ، ان کا نام ہشام کلبی ہے ۔ ان دونوں راویوں سے ہمارا اس تاریخی سلسلے میں پرانا تعلق ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں نہایت ہی متعصب مورخ ہیں اور مخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں سخت بغض رکھتے ہیں ۔ تاریخ طبری میں سوائے چند ایک کے ، سانحہ کربلا کی تقریباً سبھی روایات انہی دونوں سے مروی ہیں ۔ ان دونوں راویوں کا حضرت معاویہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض اتنا نمایاں ہے کہ انہوں نے ان روایات میں بھی جگہ جگہ اس بغض کو داخل کر دیا ہے ۔


تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی شخص یا واقعے کے بارے میں اس سے متعصب راوی کی روایت کو قبول نہ کیا جائے ۔ اس وجہ سے مناسب یہی رہے گا کہ ہم ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایات سے اجتناب کریں ۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور ناقابل اعتماد مورخ محمد بن عمر الواقدی کی بعض روایتیں سانحہ کربلا سے متعلق ہیں ، جن کے بارے میں بھی ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہر جھوٹی سچی بات کو ملا کر ایک کہانی بناتے ہیں اور پھر بغیر کسی سند کے بیان کر دیتے ہیں ۔ کبھی وہ سند بھی بیان کر دیتے ہیں جو بالعموم مکمل نہیں ہوتی ہے ۔ یہاں ہم تاریخ کی اولین کتب تاریخ میں سانحہ کربلا کی روایات سے متعلق کچھ اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں ۔


واقعہ کربلا کی روایات تاریخ کی کتب میں


تاریخ کی کتاب طبت ابن سعد (168-230 /784 -845،چشتی) میں ٹوٹل ایک روایت ہے کربلا کے بارے اور وہ روایت بھی ناقابل اعتماد راوی

واقدی ، ابو مخنف اور کلبی سے ہے ۔


بلاذری ۔ (279/893) میں ٹوٹل 39 روایات ہیں ، جن میں سے 14 روایات ناقابل اعتماد راوی واقدی ، ابو مخنف ، عباد بن عوام ، حصین بن عبد الرحمن اور ہیثم بن عدی سے ہیں ، بقایا پیچھے 25 روایات رہ جاتی ہیں ۔


طبری ۔ (224-310/838-922) میں ٹوٹل کربلا کے متعلق 129 روایات ہیں،جن میں سے 120 روایات ناقابل اعتبار راویوں کی ہیں، جن میں ابو مخنف اور ہشام کلبی: سے 113 اور واقدی: سے 7 ہیں ، اس کتاب میں بقایا 9 روایات بچتی ییں ۔


تاریخ طبری کے بارے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 129 روایات کا بڑا حصہ ابو مخنف، ہشام کلبی اور واقدی سے مروی ہے۔ طبری سے پہلے کے مورخین میں ابن سعد (230/845) ہیں جو کہ ہیں تو واقدی کے شاگرد ، لیکن بذات خود ایک قابل اعتماد مورخ ہیں۔ ان کے بارے میں محدثین کا یہ اصول ہم بیان کر چکے ہیں کہ ان کی وہ روایات، جو وہ واقدی کےعلاوہ کسی اور سے روایت کرتے ہیں، پر اعتماد کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کے راوی قابل اعتماد ہوں۔ ابن سعد نے سانحہ کربلا کے واقعات سے متعلق 23 روایات اپنی کتاب میں درج کی ہیں،لیکن ان میں سے ایک روایت وہ ہے جو انہوں نے مختلف اسناد کو ملا کر پورے واقعہ کو ایک طویل کہانی کی صورت میں بیان کی ہے۔ بقیہ 22 چھوٹی چھوٹی روایتیں ہیں جن میں ابن سعد نے واقعے کی کچھ جزوی تفصیلات کو نقل کیا ہے اور ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ان میں سے ہر روایت کو نقل کرنے کے بعد وہ رجع الحديث إلى الأول (اب ہم پہلے بیان کی طرف واپس پلٹتے ہیں) کے الفاظ لکھ کر اسی طویل روایت کو بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ روایت 25-26 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جبکہ بقیہ 5-6 صفحات پر بقیہ 22 روایتیں ہیں ۔


طویل روایت کی اسناد کو انہوں نے کچھ اس طرح نقل کیا ہے :


أخبرنا محمد بن عمر (الواقدي)، قال: حدثنا ابن أبي ذئب، قال : حدثني عبدالله بن عمير مولى أم الفضل ۔


أخبرنا عبدالله بن محمد بن عمر بن علي، عن أبيه ۔


أخبرنا يحيي بن سعيد بن دينار السعدي، عن أبيه ۔


وحدثني عبدالرحمن بن أبي الزناد، عن أبي وجزة السعدي، عن علي بن حسين ۔


قال: وغير هؤلاء أيضا قد حدثني. قال محمد بن سعد: وأخبرنا علي بن محمد، عن يحيي بن إسماعيل بن أبي مهاجر، عن أبيه ۔


وعن (أبو مخنف) لوط بن يحيي الغامدي، عن محمد بن نشر الهمداني، وغيره ۔


وعن محمد بن الحجاج، عن عبدالملك بن عمير.


وعن هارون بن عيسى، عن يونس بن أبي إسحاق، عن أبيه ۔


وعن يحيي بن زكريا بن أبي زائدة، عن مجالد، عن الشعبي ۔


قال ابن سعد : وغير هؤلاء أيضا قد حدثني في هذا الحديث بطائفة فكتبف جوامع حديثهم في مقتم الحسين رحمة الله عليه ورضوانه وصلوته وبركاته. قالوا ۔

ابن سعد نے کہا : ان اسناد کے علاوہ بھی اس روایت کو (راویوں کے) ایک گروہ نے مجھ سے بیان کیا ۔ میں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق ان سب کی روایتوں کو اکٹھا کر کے لکھ لیا ہے ۔ ان لوگوں نے بیان کیا ۔ (ابن سعد طبقات الکبری 6/421-422،چشتی)


ابن سعد نے اس طویل روایت میں یہ نہیں بتایا کہ روایت کا کون سا حصہ کس راوی نے بیان کیا ہے بلکہ انہوں نے اسے ایک مسلسل قصے کی صورت میں بیان کر دیا ہے۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکتا ہے کہ تقریباً 25-26 صفحات پر پھیلی ہوئی اس روایت کا کون سا حصہ قابل اعتماد راویوں نے بیان کیا ہے اور کون سا حصہ ناقابل اعتماد راویوں نے۔ اس وجہ سے ان کی پوری روایت کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ ابن سعد کی بیان کردہ تفصیلات کا موازنہ اگر طبری میں بیان کردہ ابو مخنف ، ہشام کلبی اور واقدی کی روایتوں سے کیا جائے تو ان میں مماثلت پائی جاتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن سعد نے بھی زیادہ تر تفصیلات انہی تین راویوں سے اخذ کی ہیں ۔


اب آئیے تیسرے مورخ احمد بن یحیی بلاذری (279/893)کی طرف


انہوں نے سانحہ کربلا کے ضمن میں 39 روایتیں بیان کی ہیں جو کہ مکتبہ دار الفکر والے ورژن کی جلد 3 میں صفحہ 363-426 پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں سے 14ایسی روایتیں ہیں جو نہایت ہی ناقابل اعتماد راویوں سے مروی ہیں۔ ان میں ابو مخنف لوط بن یحیی (راوی نمبر4654)، عباد بن عوام (راوی نمبر2651)، عوانہ بن حکم (راوی نمبر4372)، حصین بن عبد الرحمن (راوی نمبر1795) اور ہیثم بن عدی (راوی نمبر6546)شامل ہیں۔

یہ سب کے سب راوی ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ۔ (سیر الاعلام النبلا می راویوں کے نمبر کے مطابق دیکھا جا سکتا ہے)


ان میں لوط بن یحیی اور عباد بن عوام اسی باغی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جو مسلسل بغاوتیں اٹھاتی رہی۔ عوانہ بن حکم، ہشام کلبی کے استاذ تھے۔ ہیثم بن عدی کو محدثین نے کذاب قرار دیا ہے۔ حصین بن عبد الرحمن اگرچہ قابل اعتماد تھے مگر ان کا حافظہ کمزور تھا اور وہ روایات کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے۔


آپ امام ذہبی علیہ الرحمہ کے مشہور انسائیکلو پیڈیا ’’سیر الاعلام النبلاء‘‘ میں متعلقہ نمبر پر ان سب کے حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اگر ان راویوں کی بیان کردہ روایتوں کو چھوڑ دیا جائے تو اس طرح سے بقیہ 25 روایتیں بچتی ہیں جن سے ہم واقعے کی حقیقت کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں ۔


آٹھویں صدی کے مشہور مورخ ابن کثیر نے بھی ابو مخنف وغیرہ کی ان روایتوں کو اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں درج کیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے : اہل تشیع اور روافض نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بہت سا جھوٹ اور جھوٹی خبریں گھڑی ہیں۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے، اس کا بعض حصہ محل نظر ہے۔ اگر ابن جریر (طبری) وغیرہ حفاظ اور ائمہ نے اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ اس کا اکثر حصہ ابو مخنف لوط بن یحیی کی روایت سے ہے جو کہ شیعہ تھا اور ائمہ کے نزدیک واقعات بیان کرنے میں ضعیف (ناقابل اعتماد) ہے۔ لیکن چونکہ وہ اخباری اور (خبروں کا) محفوظ کرنے والا ہے اور اس کے پاس ایسی چیزیں ہیں جو اس کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہیں، اس وجہ سے اس کے بعد کے کثیر مصنفین نے اس پر کڑی تنقید کی ہے ۔ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ (ابن کثیر 11/577،اردو ترجمہ: 8/259،چشتی)


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان ناقابل اعتماد مورخین کی روایتوں کو چھوڑ دیا جائے تو سانحہ کربلا سے متعلق ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہ ہو سکے گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا کوئی حل نہیں ہے تاہم دو صورتیں ایسی ہیں جن پر احتیاط سے عمل کیا جائے تو ہم کسی حد تک درست معلومات تک پہنچ سکتے ہیں ۔


ایک صورت تو یہ ہے کہ ان دونوں کی روایتوں کو چھوڑ کر دیگر روایات پر غور کیا جائے ۔ اس سے جتنی معلومات حاصل ہوں ، ان پر اکتفا کر کے بقیہ معاملات کو حسن ظن پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمارے نزدیک یہی صحیح طرز عمل ہے ۔


دوسری صورت یہ ہے کہ ان ناقابل اعتماد مورخین کی روایات میں جہاں جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض ظاہر ہوتا ہو ، اسے چھوڑ کر بقیہ معاملات میں ان کی باتوں کو پوری احتیاط سے قبول کیا جائے اور ان کی کسی ایسی بات کو قبول نہ کیا جائے جس میں ان کا تعصب جھلکتا ہو اور انہوں نے واقعات کو جذباتی انداز میں ایسے بیان کیا ہو کہ اس دور کے مسلمانوں کی نہایت ہی بھیانک تصویر سامنے آئے ۔


تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی شخص یا واقعے کے بارے میں متعصب راوی کی روایت کو قبول نہ کیا جائے ۔ اس وجہ سے علمائے اہل سنت نے ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایات سے اجتناب کیا۔ ان راویوں کے علاوہ ایک اور مورخ محمد بن عمر الواقدی کی بعض روایتیں سانحہ کربلا سے متعلق ہیں، اس کے علاوہ ایک راوی عمار الدھنی ہیں ، یہ تاریخی روایات میں قابل اعتبار مانے جاتے ہیں ۔ واقعہ کربلا کے متعلق اہل سنت کے ہاں منقو ل اکثر روایات انہی کی ہیں ۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ۔ صدوق یتشیع “ عمار الدھنی بہت سچا راوی ہے اور شیعہ عقیدہ رکھتا ہے ۔ (تقریب التہذیب صفحہ نمبر 152،چشتی)


صاحب تنقیح المقال بھی لکھتے ہیں : کان شیعا ثقۃ “ عمار الدھنی شیعہ عقیدہ رکھتا ہے لیکن قابل اعتبار تھا ۔ (تنقیح المقال صفحہ نمبر 317 جلد نمبر 2) عمار الدھنی راوی شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک قابل اعتبار ہے ۔ عمار الدھنی کی روایت تاریخ طبری ، تہذیب التہذیب ، الاصابہ میں موجود ہیں ۔


اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کے جتنے بھی من گھڑت واقعات ہیں وہ شیعہ روافضیوں ابن سبا کے پیرکار راویوں سے منقول ہیں وہ سب بے اصل ہیں جن کی اصل حقیقت اللہ عزوجل کو ہی معلوم ہے ۔ اس سے واقعہ سے متعلق تمام روایات بعد کے ادوار میں گھڑی گئیں تا کہ اہل بیعت رضی اللہ عنہم کی جھوٹی بناوٹی محبّت کی آڑ میں سارے خاندانِ بنو امیہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بدنام کیا جا سکے ۔ الله تعالیٰ صحیح و مستند رایات کی روشنی میں مقام حضرت امام رضی اللہ اور واقعہ کربلا بیان کرنے کی توفیق عطا فراماۓ اور نسلِ ابن سبا و ابن سبا یہودی کے پیروکاروں کے پھیلاۓ جھوٹ اور شر و فتنہ سے محفوظ فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔