Wednesday 4 August 2021

افضل الامت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سورہ حدید کی روشنی میں ۔ تفضیلیوں کو جواب

0 comments

 افضل الامت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سورہ حدید کی روشنی میں ۔ تفضیلیوں کو جواب

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‌ؕ لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ ؕ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۔ (سورۃ الحديد

آیت نمبر 10)

ترجمہ : اور تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا وارث اللہ ہی ہے ۔ تم میں فتح سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں ، وہ بعد میں خرچ کرنے والوں اور لڑنے والوں سے مرتبے میں بڑے ہیں اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز کا وعدہ فرمالیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ۔


یعنی تم کس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ نہیں  کر رہے حالانکہ آسمانوں  اور زمین سب کامالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہی ہمیشہ رہنے والا ہے جبکہ تم ہلاک ہوجائو گے اور تمہارے مال اسی کی مِلکِیَّت میں  رہ جائیں  گے اور تمہیں  خرچ نہ کرنے کی صورت میں  ثواب بھی نہ ملے گا ، تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کر دو تاکہ ا س کے بدلے ثواب تو پا سکو ۔ (تفسیر خازن، الحدید ، ۱۰، ۴ / ۲۲۸)


جس عمل میں زیادہ مشقت ہو اس کا زیادہ اجروثواب ہوتا ہے


 اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر مذمت کی گئی ہے ‘ یعنی تمہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کون سی چیز منع کرتی ہی اور کون سی چیز تم کو اللہ کا قرب حاصل کرنے سے روکتی ہے ‘ جب کہ تم اس دنیا میں اس مال کو یوں ہی چھوڑ کر مرجاؤ گے اور یہ مال تمہارے کسی کام نہیں آئے گا اور اگر تم اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کردو تو تمہارے مرنے کے بعد بھی تمہیں اس مال سے نفع پہنچے گا ۔

 اس کے بعد فرمایا : (اے مسلمانو !) تم میں سے کوئی بھی ان کے برابر نہیں ہوسکتا جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے (اللہ کی راہ) میں خرچ کیا اور ( کافروں سے) قتال کیا ۔


 اکثر مفسرین علیہم الرحمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور شعبی اور زہری نے یہ کہا کہ اس سے مراد فتح حدبیہ ہے ۔ قتادہ نے کہا : جن مسلمانوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور کفار سے قتال کیا ‘ وہ ان مسلمانوں سے بہت افضل ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور کفار سے قتال کیا ‘ کیونکہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان بہت کمزور تھے اور بہت ضرورت مند تھے اور اس وقت ان کے لیے مال خرچ کرنے میں اور اسلام کی راہ میں جہاد کرنے میں بہت مشقت تھی اور جس عبادت میں جتنی زیادہ مشقت ہو اس کا اجر وثواب اسی قدر زیادہ ہوتا ہے ‘ حدیث میں ہے : حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا گیا : کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس عمل میں سب سے زیادہ مشقت ہو ۔ (النہایہ ج ١ ص ٢٢٤‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)


ام المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : لیکن عمرہ کا اجر تمہارے خرچ کرنے اور تمہاری مشقت کے اعتبار سے ملے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٨٧١‘ سنن ابوداؤدرقم الحدیث : ١٨٧١‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٤٦٧٢)


 حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کون سا صدقہ افضل ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جو تنگ دست آدمی مشقت برداشت کرکے دے اور دینے کی ابتداء اپنے عیال سے کرو ۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٧٧٦١‘ المستدرک ج ١ ص ٤١٤)


حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اے ابنِ آدم ! اگر تم اپنا ضرورت سے زائد مال خر چ کردو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم اسے رو کے رکھو گے تو یہ تمہارے حق میں  بر اہے اور تمہیں  اتنے مال پر ملا مت نہ کی جائے گی جو تمہیں قناعت کی صورت میں  لوگو ں  کی محتاجی سے محفو ظ رکھے اور اپنے خرچ کی ابتدا اپنے زیرِ کفالت لوگوں  سے کرو اوراوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ (مسلم کتاب الزکاۃ، باب بیان ان الید العلیا خیر من الید السفلی... الخ، ص۵۱۵، الحدیث: ۹۷ (۱۰۳۶))


حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ میں  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگا ہ میں حاضر ہوا ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت کعبہ کے سائے میں  تشریف فرما تھے ۔ جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے دیکھا تو فرمایا،’’ ربِ کعبہ کی قسم ! وہی لوگ خسا رے میں  ہیں ۔ میں آپ کی خدمت میں  حاضر ہوکر بیٹھ گیا لیکن ابھی ٹھیک سے بیٹھ نہ پایاتھا کہ اٹھ کھڑا ہوا او رعر ض کی ’’ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ما ں  باپ آپ پر قربا ن! کو ن سے لوگ خسارے میں  ہیں  ؟ ارشاد فرمایا’’ وہ لوگ جو بڑے سرمایہ دار ہیں البتہ ان میں سے جو اِدھراُدھر، آگے پیچھے ، دائیں بائیں (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں (وہ خسارے میں  نہیں) لیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں ۔ (مسلم کتاب الزکاۃ، باب تغلیظ عقوبۃ من لا یؤدی الزکاۃ، ص۴۹۵، الحدیث : ۳۰(۹۹۰))


اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی فضیلت بیان فرمائی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں  اپنا مال خرچ کرنے میں سبقت کی ،چنانچہ ارشاد فرمایا ’’اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ! مکہ کی فتح سے پہلے جب کہ مسلمان کم اور کمزور تھے ، اس وقت جنہوں نے خرچ کیا اور جہاد کیا وہ فضیلت میں دوسروں کے برابر نہیں اوروہ فتح ِمکہ کے بعد خرچ کرنے والوں اور لڑنے والوں سے درجے کے اعتبار سے بڑے ہیں اور فتح سے پہلے خرچ کرنے والوں سے بھی اور فتح کے بعد خرچ کرنے والوں سے بھی اللہ تعالیٰ نے سب سے اچھی چیز یعنی جنت کا وعدہ فرمالیا ہے البتہ جنت میں ان کے درجات میں فرق ہے کہ فتحِ مکہ سے پہلے خرچ کرنے والوں کا درجہ بعد میں  خرچ کرنے والوں سے اعلیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ۔


مہاجرین اور انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا مقام دیگر صحابہ سے بلند ہے :


آیت کے اس حصے’’اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً‘‘ سے معلوم ہو اکہ مہاجرین اور انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت اور ان کامقام دیگر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بہت بلند ہے۔ انہیں  میں  حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی شامل ہیں  اوران کی عظمت کی گواہی خود اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں  دے رہا ہے۔اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ان کی شان میں  زبانِ طعن دراز کرتے اور انہیں  برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں  ۔


حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بر ابھلا نہ کہو کیونکہ (ان کی شان یہ ہے کہ ) تم میں  سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کر دے تو وہ صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں  سے کسی کے ایک مُد بلکہ ا س کے نصف (خیرات کرنے) تک نہیں پہنچ سکتا ۔ ( بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم... الخ، ۲ / ۵۲۲، الحدیث: ۳۶۷۳)


حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا افضل الامت ہونا


مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس میں حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقدم ہونے اور ان کی فضیلت پر واضح دلیل ہے ۔


یہاں پر پہلے حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان کے بارے میں  ایک انتہائی ایمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :ہم تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر تھے اور ان کے پاس حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی حاضر تھے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک عباء (یعنی پاؤں  تک لمبا کوٹ) پہنے ہوئے تھے اور اسے آگے سے باندھا ہوا تھا ۔اس وقت حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہوئے اورنبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کیا اور عرض کی : یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، یہ کیا بات ہے کہ میں  حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس حال میں  دیکھ رہا ہوں  کہ آپ ایک ایسی عباء (یعنی پاؤں  تک لمبا کوٹ) پہنے ہوئے ہیں جسے سامنے سے کانٹوں  کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام ، (ان کی یہ حالت اس لئے ہے کہ) انہوں  نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر دیا تھا ۔حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی : آپ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو اللہ تعالیٰ کی طرف سلام پیش کیجئے اور ان سے فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے فرما رہا ہے کہ تم اپنے اس فقر پر مجھ سے راضی ہو یا ناراض ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا : اے ابو بکر ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام تمہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کر رہے ہیں  اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے ا س فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض ۔ (یہ سن کر) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں  سے آنسو جا ری ہو گئے اور عرض کرنے لگے : کیا میں  اپنے رب تعالیٰ سے ناراض ہو سکتا ہوں ، میں  اپنے رب سے راضی ہوں ، میں  اپنے رب سے راضی ہوں ۔ (حلیۃ الاولیاء، سفیان الثوری، ۷ / ۱۱۵، الحدیث: ۹۸۴۵)


ام المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ حکم دیا کہ ہم لوگوں کو ان کے درجہ میں رکھیں ۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٤٨٤)(مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٦٢٨٤،چشتی)


 اور سب سے بڑا درجہ نماز کا ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی بیماری کے ایام میں فرمایا : مروا ابابکر فلیصل بالناس ۔ ابوبکر سے کہو : وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢١٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨١٤‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٤٣٨)


اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ امت میں سب سے بڑے درجہ پر فائز ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو نماز کی امامت کے درجہ میں رکھا اور کسی کو اس درجہ میں نہیں رکھا گیا اور نماز کی امامت کا درجہ سب سے بڑا درجہ ہے ۔


امام فخرالدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور اللہ کے دشمنوں سے قتال کیا وہ بعد والوں سے بہت زیادہ افضل ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اسلام کے لیے نمایاں خرچ کرنے والے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھے اور اسلام کےلیے نمایاں قتال کرنے والے حضرت علی تھے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے والے کے ذکر کو قتال کرنے والے کے ذکر پر مقدم کیا ہے ‘ اس میں یہ اشارہ ہے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر مقدم ہیں ‘ نیز خرچ کرنا باب رحمت ہے اور قتال کرنا باب ِ غضب سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : سبقت رحمتی غضبی ۔ میری رحمت میرے غضب پر سابق ہے ۔ (مسند حمیدی رقم الحدیث : ٦٢١١) ۔ لہٰذا خرچ کرنے والا قتال کرنے والے پر سابق ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کی حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی خرچ کرنے والے تھے کیونکہ ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما واسیرا ۔ (سورہ الدھر : ٨) اور جو اللہ کی محبت میں مسکین کو ‘ یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ تو ہم کہتے ہیں کہ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا اسلام کی راہ میں مال خرچ کرنا اسی وقت ثابت ہوگا جب انہوں نے بڑے بڑے مواقع پر بہت زیادہ مال خرچ کیا ہو اور یہ چیز صرف حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کےلیے ثابت ہے نیز امام واحدی نے ” البسیط “ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسلام کےلیے سب سے پہلے قتال کیا ‘ کیونکہ اسلام کے ظہور کی ابتداء میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ چھوٹے بچے تھے اور اس وقت وہ قتال کرنے والے نہ تھے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس وقت شیخ اور مقدم تھے اور اسی وقت وہ اسلام کی مدافعت کرتے تھے ‘ حتیٰ کہ وہ کئی مرتبہ لڑتے لڑتے موت تک پہنچے ۔ علماء نے کہا ہے کہ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص پہلے اسلام لایا اور جس نے پہلے جہاد کیا اور جس نے فتح مکہ سے پہلے اسلام کی راہ میں خرچ کیا ‘ وہ بعد والوں سے افضل ہے ‘ کیونکہ اس کو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد کا عظیم موقع حاصل ہوا اور اس نے اس وقت مال خرچ کیا جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور کفار کی تعداد بہت زیادہ تھی اور اس وقت مسلمانوں کی مدد اور معاونت کی بہت ضرورت تھی ‘ اس کے بر خلاف فتح مکہ کے بعد اسلام قوی ہوچکا تھا اور کفر بہت ضعیف تھا ۔ (تفسیر کبیر ج ٠١ ص ٣٥٤۔ ٢٥٤‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ٥١٤١ ھ،چشتی)


اس مضمون پر یہ آیت دلالت کرتی ہے : والسبقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعو ھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ واعدلہم جنت تجری تحتھا الا نھر خلدین فیھا ابدا ط ذلک الفوزالعظیم ۔ (سورہ التوبہ : ٠٠١) ، جو مہاجرین اور انصار (اسلام میں) سابق اور اوّل ہیں اور جن لوگوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی ‘ اللہ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے دریا بہہ رہے ہیں ‘ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے ۔


 علامہ ابوالحسن علی بن احمد الواحدی النیشاپوری المتوفی ٨٦٤ ھ حمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : محمد بن فضیل نے کہا : یہ آیت حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے اللہ کی راہ میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اپنا مال خرچ کیا اور سب سے پہلے اسلام کے لیے قتال کیا ۔ حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : انہوں نے سب سے پہلے اسلام کے لے تلوار اٹھائی ۔ عطاء نے کہا : جنت کیا مختلف درجات ہیں اور جس نے سب سے پہلے اسلام کےلیے خرچ کیا اور تلوار اٹھائی ‘ وہ لوگ سب سے افضل درجہ میں ہوں گے ۔ الزجاج نے کہا : کیونکہ متقدمین نے بعد والوں کی بہ نسبت اسلام کےلیے بہت زیادہ مشقت اٹھائی ہے ۔ (الوسیط ج ٤ ص ٦٤٣٢۔ ٥٤٢‘ دارالکتب العلیمہ ‘ بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)


حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ اپنی مایہ ناز تصنیف ”تصفیہ مابین سُنی و شیعہ “ میں لکھتے ہیں کہ : سورہ حدید کی دسویں آیت بیان پہلے آچُکا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ تُم اُن کے برابر نہیں جنھوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا ۔ اور ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے نیک بات (یعنی نجات) کا وعدہ دیا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے ۔ اِس مقام پر شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ شیخین کی افضلیت اُس جماعت پر جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوٸے منطوق آیت سے ثابت ہے جماعتِ متقدمہ پر مفہوم موافق یعنی جماعتِ متقدمہ میں سے جس کا انفاق  و قتال مقدم ہوگا وہ سب سے افضل ہوگا اور شیخین کا انفاق اور قتال احادیثِ صحیحہ سے مقدم ثابت ہے ۔ لہٰذا خلافت اُن کی خلافتِ راشدہ و خاصہ ٹھہری جس میں خلیفہ کا افضل ہونا ضروری سمجھا گیا ہے ۔ (تصفیہ مابین سُنی و شیعہ صفحہ نمبر 24،چشتی)


حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ کے اِس دوٹوک موقف کے بعد گولڑہ شریف سے نسبت رکھنے والوں کا افضلیت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے برعکس جو موقف ہے ، اُس کی کوٸی حیثیت نہیں رہ جاتی کیونکہ حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ نے قرآنِ کریم کی آیت مبارکہ سے افضلیتِ سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ثابت کیا ہے ۔


اپنی اِسی کتاب کے اندر حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ لکھتے ہیں کہ : ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں کہ میں نے ابوحفص سے سُنا کہ کہتا تھا : بعد از پیغمبر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوٸی شخص حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے افضل نہیں ۔ (تصفیہ مابین سُنی و شیعہ صفحہ نمبر 19،چشتی) 


حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ فتاوی مہریہ میں لکھتے ہیں : اور بعض نے کہا کہ سیدنا علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے افضل ہیں تو یہ بات کُفر ہے ۔ لیکن  اُن کے وہ اقوال جو بدعت (یعنی گمراہی) ہیں کفر نہیں بنتے وہ یہ ہیں کہ سیدنا علی کو شیخین (ابوبکر و عمر) رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم سے افضل بتاٸے ۔ (فتاویٰ مہریہ صفحہ 245)


حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ نے صاف صاف الفاظ میں یہ فیصلہ فرما دیا کہ سیدنا ابوبکر کے مُقابلے میں مولا علی رضی اللہ عنہما کو افضل  سمجھنے والا سُنی نہیں بلکہ بدعتی ہے اِس لیے گولڑہ شریف سے نسبت رکھنے والوں کا یہ کہنا کہ سُنی ہوتے ہوٸے بھی ہمارا تفضیلِ علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ہے ، یہ بالکل جھوٹ ہے کیونکہ حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ نے  فیصلہ فرما دیا کہ جو سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو افضل نہ سمجھے وہ بدعتی (یعنی گمراہ) ہے نہ کہ سُنی یاد رہے جو رافضیوں والا بدعتی عقیدہ و نظریہ اپناۓ گا وہ بدعتی رافضی ہی کہلاۓ گا فافہم ۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ نے کس قدر واضح الفاظ میں افضلیت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بیان کیا ہے لیکن آج اُن کے نام لینے والے اور اُن کے نام پہ مریدین ست چندہ بٹورنے والے آج اُن کی تعلیمات کو بھُلا چُکے ہیں بلکہ مٹا رہے کتابوں سے بھی نکال رہے ہیں لمحہ فکریہ ۔ بقول اقبالؒ : 


ٗ گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پاٸی تھی


اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ فرماۓ آمین ۔


حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے فضائل میں احادیث


 حسب ذیل احادیث میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے افضل ہونے کی دلیل ہے :


حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس شخص نے اپنی رفاقت اور اپنے مال سے سب سے زیادہ (دنیا میں) مجھ پر احسان کیا وہ ابوبکر ہیں ‘ اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ‘ لیکن ( اس کے ساتھ) اسلام کی اخوت اور محبت ہے اور ابوبکر کے دروازہ کے سوا مسجد کے تمام دروازے بند کر دئیے جائیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٥٦٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٥٦٣‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٠٩١٢‘ مسند احمد ج ١ ص ٠٧٢)


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی بیماری کے ایام میں فرمایا : میرے لیے اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی کو بلاؤ ‘ تاکہ میں ان کے لیے ایک مکتوب لکھ دوں ‘ کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور یہ کہے گا کہ میں ہی خلافت کا مستحق ہوں اور کوئی نہیں ہے ‘ اور اللہ اور مؤمنین غیر ابوبکر کا انکار کردیں گے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٨٣٢‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٠٦٦٤‘ مسند احمد ج ٤ ص ٢٢٣،چشتی)


حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس شخص نے بھی ہم پر کوئی احسان کیا ہم نے اس کا بدلہ اتار دیا ‘ سوا ابوبکر کے ‘ کیونکہ ان کے ہم پر ایسی نیکی ہے جس کی جزاء ان کو اللہ قیامت کے دن دے گا اور کسی کے مال نے مجھے وہ نفع نہیں پہنچایا جو ابوبکر کے مال نے مجھے نفع پہنچایا ہے ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٥٥‘ مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٣)


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ابوبکر کے ہوتے ہوئے کسی اور کو امام بنائیں ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٧٣)


حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میرے پاس جبریل آئے ‘ پس انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ‘ پھر انہوں نے مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہوگی ‘ حضرت ابوبکر نے کہا : یا رسول اللہ ! میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں تاکہ آپ کو دیکھتا رہوں ‘ تب رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے ابوبکر ! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگئے ۔

 

نیز اس آیت میں فرمایا : اللہ نے ان سب سے اچھے انجام کا وعدہ فرمایا ہے ۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے خواہ مقدم ہوں یا موخر ہوں ‘ اللہ تعالیٰ نے ان سب سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ‘ البتہ ان کے درجات اور مراتب مختلف ہوں گے ۔


حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میرے اصحاب کو بُرا نہ کہو ‘ کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا بھی خیرات کردے تو وہ ان کے صدقہ کئے ہوئے ایک کلو یا نصف کلو کے برابر نہیں ہوگا ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٧٣)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤١)(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٦٥٨)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٨١)(مسند احمد ج ٣ ص ١١)


حضرت ابو بردہ اپنے والد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا اور آپ بکثرت آسمان کی طرف سر اٹھاتے تھے ‘ سو آپ نے فرمایا : ستارے آسمان کے لئے امان ہیں ‘ جب ستارے چلے جائیں گے تو آسمان پر اس کی وعید آجائے گی اور میں اپنے اصحاب کے لئے امان ہوں ‘ جب میں چلا جائوں گا تو میرے اصحاب کے پاس وہ چیز آجائے گی جس سے ان کو ڈرایا گیا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٣١)


حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ اس مسلمان کو آگ نہیں جلائے گی جس نے مجھے دیکھا ہو یا اس کو دیکھا ہو جس نے مجھے دیکھا ہو ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥٨)


حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری امت کے بہترین لوگ میرا قرن ہیں ‘ پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں ‘ پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے قریب ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٥٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٣٥‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٦٥٧‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥٩)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔