Thursday 26 August 2021

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنہیں بھاٸی کہا رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

0 comments

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنہیں بھاٸی کہا رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ ۔ (سورہ الحجرات ، آیت 10)

ترجمہ : صرف مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو اور اللہ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو ۔


الحَمْدُ ِلله ہمارے مسلک کی بنیاد بڑے مضبوط اصول و قوانین ، قواعد وضوابط پر رکھی ہوئی ہے ۔ جس کے سبب ہمارا مسلک انتہائی مضبوط و مستحکم ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے جتنے احکام اور مسائل شرعیہ ہیں ۔ وہ سب انہیں اصول وقوانین کی روشنی میں وضع کئے گئے ہیں ۔ شیعہ مسلک کی طرح نہیں ۔ جس کی بنیاد ہی غیر معتبر اور علم و عمل سے کورے ، نفس پرست ، بدزبان ، صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے گستاخ رافضیوں ، نیم رافضیوں ، ذاکرین ، جاہل پیروں ، جاہل نوٹ خوانوں ، نقیبوں ، اجہل خطیبوں اور جاہل شعرا کے فاسد قیاسات پر مبنی ہے ۔ پوری دنیا اس سے بخوبی واقف ہے ۔ تفسیر مـظہری و یگر کتب میں نقل کردہ ایک روایت کے ذریعے اہلِ اسلام کے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بلا فصل ماننے پر اعتراض کرنا ۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت بلا فصل کو ثابت کرنا ۔ سوائے کم علمی کے کچھ نہیں ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ تعالی کے محبوب رسول ہیں ، مخلوقات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ قرآن پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ادب اور احترام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے سورۂ احزاب میں اذیت پہونچانے سے سورۃ الحجرات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے زیادہ اونچی آواز سے بولنے سے سورۂ نور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عام لوگوں کی طرح مخاطبت کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے لہٰذا کسی بھی طرح قولاً و فعلاً و اعتقاداً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین سے بچنا چاہئے ۔


اخوت اور بھائی چارگی مختلف قسم کی ہوتی ہے


(1) نسبی اخوت


(2) ایک اخوت ایمانی ہوتی ہے


(3) اخوت قومی


(4) اور اخوت وطنی


(5) اخوت عملی جیسے کہ حاجی بھائی وغیرہ وغیرہ ۔


ہم آپس میں کسی کو بھائی کہتے ہیں تو اس وقت جو مساوات و برابری کا جذبہ ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے درجہ و بزرگی کے اعتبار سے اس سے بہت بلند ہیں لہٰذا اگر کوئی کہے تو اس کو منع کیا جائے گا ۔


اعتراض کیا جاتا ہے کہ : قرآن کہتا ہے انما المؤمنون اخوۃ مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی مومن ہیں لہٰذا آپ بھی ہم مسلمانوں کے بھائی ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کیوں نہ بھائی کہا جاۓ ۔ 


جواب : پھر تو اللہ عزوجل کو بھی اپنا بھائی کہو کیونکہ وہ بھی مومن ہے قرآن میں ہے الملک القدوس السلام المؤمن اور ہر مومن آپس میں بھائی ۔ لہٰذا خدا بھی مسلمانوں کا بھائی معاذاللہ ۔ نیز بھائی کی بیوی بھابھی ہوتی ہے اور اس سے نکاح حلال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ان سے نکاح حرام ہے ۔ (قرآن کریم) لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے لیئے مثل والد ہوئے والد کی بیوی ماں ہے نہ کہ بھائی کی ۔ جناب ہم تو مومن ہیں ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین ایمان ۔ قصیدہ بردہ شریف میں ہے :


فالصدق فی الغار والصدیق لم یریا ۔

یعنی غار ثور میں صدق بھی تھا صدیق بھی تھے ۔


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عام مومنین میں صرف لفظ مومن کا اشتراک ہے جیسے رب اور عام مومنین میں نہ کہ حقیقت مومن میں ہم اور طرح کے مومن ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے کرم کریمانہ سے بطور تواضع و انکسار فرمایا اخاکم اس فرمانے سے ہمیں بھائی کہنے کی اجازت کیسے ملی ۔ ایک بادشاہ اپنی رعایا سے کہتا ہے کہ میں آپ لوگوں کا خادم ہوں تو رعایا کو حق نہیں کہ بادشاہ کو خادم کہہ کر پکارے ۔ اسی طرح رب نے ارشاد فرمایا کہ حضرت شعیب و صالح و ہود علیہم السلام مدین اور ثمود اور عاد قوموں میں سے تھے ۔ کسی اور قوم کے نہ تھے ۔ یہ بتانے کے لئے اخاھم فرمایا یہ کہاں فرمایا کہ ان کی قوم والوں کو بھائی کہنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اور ہم پہلے باب میں ثابت کر چکے ہیں کہ انبیائے کرام کو برابری کے القاب سے پکارنا حرام ہے اور لفظ بھائی برابری کا لفظ ہے ۔ باپ بھی گوارہ نہیں کرتا کہ اس کا بیٹا اس کو بھائی کہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنا بھائی قرار دیا ہے : ولکن اخی و صاحبی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3656)(صحیح مسلم رقم الحدیث6172)


عَنْ عُرْوَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ  صلی الله علیہ وسلم خَطَبَ عَائِشَۃَ اِلیٰ اَبِیْ بَکْرٍ فَقَالَ لَہُ اَبُوْبَکْرٍ اِنَّمَا اَنَا اَخُوْکَ فَقَالَ اَنْتَ اَخِیْ فِی دِیْنِ اللّٰہِ وَکِتَابِہٖ وَھِیَ لِیْ حَلَالٌ۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب تزوج الصغار من الکبار)

ترجمہ : حضرت عروہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کےلیے نکاح کا پیغام بھیجا تو ابو بکر  رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں تو آپ کا بھائی ہوں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں اللہ کے دین اور اس کی کتاب میں تیرا بھائی ہوں اور وہ میرے لیے حلال ہے ۔


حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت عمر فاروق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی قرار دیا ۔ (الریاض النضرۃ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 318،چشتی)


وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعُمْرَةِ فَأَذِنَ لِي وَقَالَ: «أَشْرِكْنَا يَا أُخَيُّ فِي دُعَائِكَ وَلَا تَنْسَنَا» . فَقَالَ كَلِمَةً مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِيَ بِهَا الدُّنْيَا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَانْتَهَتْ رِوَايَتُهُ عِنْدَ قَوْلِهِ ۔ لَا تنسنا ۔

ترجمہ : روایت ہے حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عمرہ کے لیے جانے کی اجازت مانگی (1) تو مجھے اجازت دی اور فرمایا اے میرے بھائی (2) ہمیں بھی اپنی دعا میں یاد رکھنا ہمیں بھول نہ جانا (3) حضور نے یہ ایسی بات فرمائی کہ مجھے اس کے عوض ساری دنیا مل جانا پسند نہیں (4) ۔ اور ترمذی کی روایت اس قول پر ختم ہوگئی کہ ہمیں بھول نہ جانا ۔ (سنن ابوداؤد ، جامع ترمذی مراة المناجیح شرح مشکواة المصابیح جلد نمبر 3 حدیث نمبر 2248) ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث1498)(جامع ترمزی رقم الحدیث1980)۔(مشکواۃ رقم الحدیث2248)


حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمة اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوۓ فرماتے ہیں :


(1) ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام سے پہلے عمرہ کی نذر مانی تھی جو پوری نہ کرسکے تھے کہ مسلمان ہوگئے ، پھر حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مسئلہ پوچھا تو فرمایا نذر پوری کر و تب آپ عمرہ کے لیے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اجازت سے روانہ ہوئے ۔


(2) ۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جو حضرت عمر کو بھائی فرمایا یہ انتہائی کرم کریمانہ ہے ، جیسے سلطان اپنی رعایا سے کہے میں تمہارا خادم ہوں مگر کسی مسلمان کا حق نہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھائی کہے ، رب تعالٰی فرماتاہے : "لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمۡ بَعْضًا" الآیہ ۔ اسی لیے کبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھائی کہہ کر نہ پکارا ، روایت حدیث میں تمام صحابہ یہ ہی کہتے تھے قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔


(3) ۔ یعنی مکہ معظمہ پہنچ کر ہر مقبول دعا میں اپنے ساتھ میرے لیے بھی دعا کرنا معلوم ہوا کہ حاجی سے دعا کرانا اور وہاں پہنچ کر دعا کرنے کےلیے کہنا سنت ہے ۔ صوفیائے کرام اس جملہ کے معنے یہ کرتے ہیں کہ اے عمر ہر دعا میں ہم پر درود شریف پڑھنا ہمارے درود کو نہ بھولنا تاکہ اس کی برکت سے تمہاری دعائیں قبول ہوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے اعلیٰ درجہ کی دعا آپ پر درود شریف پڑھنا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیاروں کو دعائیں دینا درحقیقت اس سے مانگنے کی تدبیر ہے ہمارا بھکاری ہمارے دروازہ پر آکر ہمارے جان و مال اولاد کو دعائیں دیتا ہے ہم سے بھیک پاتا ہے ۔ ہم بھی رب تعالٰی کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دعائیں دیں رب تعالٰی سے بھیک لیں ۔


(4) ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان فخریہ نہیں بلکہ شکریہ کے طور پر ہے یعنی حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے بھائی کے خطاب سے نوازا ۔ معلوم ہوا کہ میں دنیا و آخرت میں صحیح مؤمن ہوں پھر مجھے حکم دعا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دعائیں دوں ۔ معلوم ہوا کہ میرا منہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دعا کے لائق ہے ، پھر فرمایا مجھے بھولنا نہیں ۔ معلوم ہوا کہ میرا دل کاشانۂ یار بننے کے لائق ہے ، یہ ایسی بشارتیں ہیں کہ تمام دنیا کی نعمتیں ان پرقربان ہیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب مدینۂ طیبہ میں اُخوت یعنی بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت عَلِیُّ المُرْتَضیٰ رضی اللہ عنہ  روتے ہوئے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رَسُوْلَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ نے سارے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا مگر مجھے  کسی کا بھائی نہ بنایا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃِ یعنی (اے علی رضی اللہ عنہ) تم دُنیا میں بھی میرے بھائی ہو اور آخرت میں بھی میرے بھائی ہو ۔ (جماع ترمذی کتاب المناقب باب مناقب علی بِن ابی طالب ،۵/ ۴۰۱، حدیث ۳۷۴۱)


وقال البراء : عن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انت اخونا ومولانا ۔

ترجمہ اور براء رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا ، تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو ۔ (صحیح بخاری بَابُ مَنَاقِبُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پانچ رضاعی بھائی تھے :


فمنهن ثويبة مولاة أبي لهب، أرضعته أياما وأرضعت معه أبا سلمة عبد الله بن عبد الأسد المخزومي بلبن ابنها مسروح، وأرضعت معهما عمه حمزة بن عبد المطلب ۔ واختلف في إسلامها، فالله أعلم ۔

ثم أرضعته حليمة السعدية بلبن ابنها عبد الله أخي أنيسة وجدامة وهي الشيماء أولاد الحارث بن عبد العزى بن رفاعة السعدي، واختلف في إسلام أبويه من الرضاعة، فالله أعلم، وأرضعت معه ابن عمه أبا سفيان بن الحارث بن عبد المطلب ، وكان شديد العداوة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم أسلم عام الفتح وحسن إسلامه، وكان عمه حمزة مسترضعا في بني سعد بن بكر فأرضعت أمه رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما وهو عند أمه حليمة، فكان حمزة رضيع رسول الله صلى الله عليه وسلم من جهتين: من جهة ثويبة، ومن جهة السعدية ۔


1 ۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دو جہتوں سے رضاعی بھائی تھے ، ثویبہ کا دودھ پیا تھا اور حلیمہ سعدیہ کا دودھ بھی پیا تھا ۔


 2۔ حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد المخزومی رضی اللہ عنہ ۔


3 ۔ حضرت مسروح ، ثویبہ رضی اللہ عنہما کے بیٹے تھے ، جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ثویبہ کا دودھ پیا تھا ۔


4 ۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن الحارث بن عبدالمطلب ، ان کو حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے دودھ پلایا تھا ۔


5 ۔ حضرت عبد اللہ بن الحارث ، حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہم کے بیٹے تھے ، جن کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا تھا ۔ اور رضاعی بہنیں دو تھیں : انیسہ بنت الحارث ، حذافہ بنت الحارث ، جو الشَیْمَاء رضی اللہ عنہم کے نام سے مشہور تھیں ۔ (زادالمعاد:٦٦/١، ط :المکتبہ العصریہ، بیروت،چشتی)


عن ابی ھریرۃ رضی عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتی المقبرۃ فقال السلام علیکم دار قوم مؤمنین و انا ان شاء اللہ بکم لاحقون وددت انا قد رأینا اخواننا قالوا او لسنا اخوانک یا رسول اللہ قال: انتم اصحابی و اخواننا الذین لم یأتوا بعد فقالوا: کیف تعرف من لم یأت بعد من امتک یا رسول اللہ فقال ارأیت لو ان رجلاً لہ خیل غر محجلۃ بین ظھری خیل دھم بھم الا یعرف خیلہ قالوا: بلیٰ یا رسول اللہ قال: فانھم یأتون غرا محجلین من الوضوء و انا فرطھم علی الحوض ۔ (مسلم، مشکوۃ: ۱؍۴۰،چشتی)(مسلم: ۲؍۲۲۹)(مسند احمد: ۱۷؍۲۴۵)(مؤطا مالک: ۱؍۷۵)(نسائی: ۱؍۲۶۲) ۔ وہ حدیث شریف مشکوۃ شریف میں ص: ۴۰ پر مؤطا مالک میں ص: ۱۰ پر مسلم شریف میں ص: ۱؍۱۲۷ پر ذکر کی گئی ہے ۔ دوسری روایت جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عمرہ میں جاتے وقت ہے اور وہ بھی ترمذی شریف: ۲ ؍ ۱۹۶ مشکوۃ شریف: ۱؍۱۹۵ پر موجود ہے لیکن اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے امتی کو بھائی کہا ہے ، امتی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھائی نہیں کہا ہے ۔


تفسیر مـظہری و دیگر کتب کی وہ روایت جو رافضیوں ، نیم رافضیوں ، ذاکرین ، جاہل پیروں ، جاہل نوٹ خوانوں ، نیبوں ، اجہل خطیبوں اور جاہل شعرا پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے : روی محمد بن اسحاق عن عبد الغفار بن القاسم عن المنہال عن بن عمرو عن عبد اللہ بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب عن عبد اللہ بن عباس عن علی بن ابی طالب لما نزلت ھذہ الآیۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (وانذر عشیرتک الاقربین) دعانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فقال یا علی ان اللہ یامرنی ان انذر عشیرتی الاقربین ۔

ترجمہ : محمد بن اسحاق سے روایت ہے ، وہ روایت کرتے ہیں عبد الغفار ابن قاسم سے ، وہ منہال سے ، وہ ابن عمرو سے ، وہ عبد اللہ بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب سے، وہ عبد اللہ بن عباس سے ، وہ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم سے کہ جب آیت کریمہ (وانذر عشیرتک الاقربین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے بلا کر فرمایا کہ اے علی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈراؤں ۔ (تفسیر بغوی مع خازن ج 4، ص 506۔507،چشتی)(تفسیر مظہری ج 7، ص 90)


روایت میں آگے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کھانا تیار کروایا اور اپنے خاندان کے افراد کو جمع کیا ، جن کی تعداد تقریباً چالیس تھی ، جب وہ کھانے پینے سے فارغ ہوئے تو ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی سب نے انکار کردیا ، اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پھر تمام اہل خاندان کو کھانے پر مدعو کیا اور ان کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کی، اور فرمایا : یا بنی عبد المطلب انی قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرۃ وقد امرنی اللہ ان ادعوکم الیہ فایکم یؤزرنی علی امری ویکون اخی ووصیی وخلیفتی فاحجم القوم عنھا جمیعا فقلت وانا احدثھم سنا انا یا نبی اللہ انا وزیرک علیہ فأخذ برقبتی ثم قال ان ھذا اخی ووصیی وخلیفتی فیکم فاسمعوا لہ واطیعوا فقام القوم یضحکون امرنا ان نسمع لعلی ونطیع ۔

ترجمہ : اے اولاد عبد المطلب ! میں تمہارے پاس دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں ، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم کو بھی اس کی دعوت دوں ، تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرےگا ، اور میرا بھائی ، وصی اور نائب ہوگا ؟ تمام لوگوں پر خاموشی چھاگئی ۔ تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بے شک میں ان تمام میں سب سے کم عمر ہوں، لیکن میں اس کام میں آپ کا مددگار ہوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے گردن سے پکڑ کر ارشاد فرمایا : بے شک تم میں یہ میرا بھائی، وصی اور نائب ہے ، اس کی بات سنو اور اطاعت کرو ۔ لوگ ہنستے ہوئے کھڑے ہوئے کہ یہ ہمیں علی کی بات سننے اور پیروی کرنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ (تفسیر بغوی مع خازن ج 4، ص 506۔507،چشتی)(تفسیر مظہری ج 7، ص 90)


اس روایت سے رافضی اور نیم رافضی حضرات اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صاف صاف فرمایا ہے کہ علی ہی میرا بھائی ، وصی اور خلیفہ ہے ، اور علی کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا تم پر لازم ہے ۔ اس روایت سے واضح ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی کو اپنا وصی اور خلیفہ مقرر فرمادیا تھا، لہذا حضرت علی کی خلافت بلا فصل اس روایت سے صراحتاً ثابت ہے ، اور خود علمائے اہل سنت نے اس روایت کو اپنی تفاسیر میں نقل کیا ہے ۔


عُلمائے اہلِ سنت کے نزدیک اس روایت کی حیثیت :


یاد رکھئے ! علمائے اہل سنت نے کسی بھی روایت کے قبول اور رد کرنے کےلیے اصول اور قوانین مرتب کردیئے ہیں ۔ جن کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی کسی روایت کو درجۂ قبولیت حاصل ہوتا ہے ۔ اور اگر وہ روایت ان اصول وقوانین کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد درجۂ قبولیت حاصل نہ کر سکی تو اس روایت سے استدلال کسی بھی صورت میں معتبر نہیں ۔ نہ ہی اس سے کسی بھی عقیدہ ، شرعی حکم اور مسئلے کا استخراج و استنباط درست ہے ۔


اس تمہید کے بعد آئیے ہم "تفسیر مظہری" کے حوالے سے پیش کی گئی روایت کا جائزہ لیتے ہیں ۔ وہ علمائے اہل سنت والجماعت کے وضع کردہ اصول و قوانین کی روشنی میں لائق استدلال ہے یا نہیں ؟


قاضی "محمد ثناء اللہ عثمانی حنفی پانی پتی" رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ روایت سورۃ الشعراء کی آیت نمبر 214 "وانذر عشیرتک الاقربین" کے تحت "تفسیر بغوی المسمی معالم التنزیل" کے حوالے سے پیش کی ہے۔۔۔۔ جو کہ اہل سنت کے عظیم المرتبت مفسر امام "محمد مسعود فراء بغوی شافعی" علیہ الرحمہ کی تصنیف ہے ۔ اور یہ "تفسیر الخازن" کے ساتھ چھپی ہوئی ہے ۔ جب ہم نے "تفسیر بغوی" میں اس روایت کو تلاش کیا تو ہمیں یہ روایت اسی آیت کے تحت ملی ۔


"امام فراء بغوی" علیہ الرحمہ نے اس روایت کو اس کی پوری "سند" کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

پوری روایت بعینہٖ تو ہم نے پیش نہیں کی ہے ۔ ہاں روایت کا وہ حصہ پیش کر دیا ہے جس سے شیعہ رافضیوة اور نیم رافضیوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت بلا فصل پر استدلال کیا ہے ۔


اس روایت سے استدلال کرنا اہل سنت کے نزدیک جائز ہی نہیں ہے ، کیونکہ یہ روایت علمائے اہل سنت کے نزدیک معتبر ہی نہیں ہے، اس روایت کی سند میں ایک راوی "عبد الغفار ابن قاسم ابو مریم" ہے، جو کہ متروک الحدیث، کذاب اور جھوٹی حدیثیں گڑھنے والا رافضی شیعہ ہے۔

اس راوی کے کذاب، متروک الحدیث، واضع الحدیث، رافضی شیعہ ہونے پر ہمارے پاس کئی دلائل وشواہد ہیں :


پـہلی دلیـل : اس کے متعلق امام حافظ "احمد ابن علی ابن حجر عسقلانی" علیہ الرحمہ (متوفی 854ھ) فرماتے ہیں :

1: عبد الغفار بن القاسم ابو مریم الأنصاری رافضی لیس بثقۃ۔

ترجمہ : عبد الغفار ابن قاسم ابو مریم الأنصاری رافضی ہے ، ثقہ نہیں ہے۔

2: قال علی بن المدینی کان یضع الحدیث ویقال کان من رؤوس الشیعۃ۔

ترجمہ : علی ابن مدینی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ وہ حدیث گڑھتا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ وہ شیعوں کا سردار تھا ۔

3: وروی عباس عن یحییٰ لیش بشیئ۔

ترجمہ : عباس نے یحیٰی سے روایت کیا کہ اس محدثین میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

4: وقال البخاری عبد الغفار بن القاسم بن قیس بن فھد لیس بالقوی عندھم۔

ترجمہ : امام بخاری نے فرمایا کہ عبد الغفار ابن قاسم ابن قیس ابن فھد محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے۔

5: قال ابو داؤد وانا اشھد ان ابا مریم کذاب۔

ترجمہ: ابو داؤد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ ابو مریم بہت بڑا جھوٹا ہے۔

6: وقال ابو حاتم والنسائی وغیرھما متروک الحدیث۔

ترجمہ: ابو حاتم اور نسائی وغیرہما نے فرمایا کہ وہ متروک الحدیث ہے۔ ( جملہ اقتباسات از لسان المیزان ج 5، ص 226۔ 227۔ 228)

"لسان المیزان ج 5،" کے مذکورہ صفحات کا مطالعہ کروگے تو پتہ چل جائے گا کہ اس کے راوی "عبد الغفار ابن قاسم" کے متعلق محدثین کی اور کیا کیا رائے ہیں ، ان میں سے ہم نے چند ہی بیان کی ہیں ۔


دوسـری دلیـل : اسی راوی کے متعلق حضرت "علامہ محمد طاہر ابن علی الفتنی الہندی" علیہ الرحمہ (متوفی 986ھ) فرماتے ہیں : عبد الغفار بن القاسم شیعی متروک یضع۔

ترجمہ : عبد الغفار ابن قاسم راوی شیعہ، متروک الحدیث تھا، وہ احادیث گڑھتا تھا۔ ( تذکرۃ الموضوعات مع قانون الموضوعات والضعفاء صفحہ 270)


تـیسری دلیـل : یہ روایت موضوع ہے، محدث جلیل "حضرت ملا علی قاری" علیہ الرحمہ (متوفی 1014ھ) اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں : حدیث وصیی موضع سری وخلیفتی فی اھلی وخیر من اخلف بعدی علی بن ابی طالب موضوع علی ماقالہ الصغانی فی الدر الملتقط قلت وھو من مفتریات الشیعۃ الشنیعۃ قاتلھم اللہ فانی یوفکون وکیف یافکون ۔

ترجمہ : حدیث "میرا وصی، میرے بھید کی جگہ، میرے اہل میں میرا خلیفہ اور اس سے بہتر کہ جس کو میں خلیفہ اپنے پیچھے بناؤں علی ابن ابی طالب ہے" یہ موضوع ہے، جیساکہ صغانی نے در ملتقط میں کہا ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ شیعوں کا افتراء ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک فرمائے، یہ کیسی کیسی تہمتیں لگاتے ہیں۔ ( موضوعات کبیر صفحہ 151، حدیث تحت حرف واؤ،چشتی)


چـوتھی دلیـل : اس روایت کے راوی "عبد الغفار ابن قاسم" کے شیعہ ہونے پر صرف علماۓ اہل سنت کے اقوال نہیں ہیں، بلکہ اس کی تائید خود شیعہ حضرات کی معتبر کتاب بھی کرتی ہے ۔

چنانچہ شیعوں کے معتبر عالم، قاضی نور اللہ مرعشی تستری (متوفی 1019ھ) لکھتے ہیں :

عبد الغفار بن قاسم بن قیس بن فھد الانصاری، ذکر فی الخلاصۃ فی المقبولیین من القسم الاول۔

ترجمہ : عبد الغفار ابن قاسم کو "صاحب کتاب خلاصہ" نے قسم اول کے مقبول شیعہ حضرات میں شمار کیا ہے ۔ (مجالس المؤمنین ج 1، ص 454)


خُــلاصۂ گفتگو : جو روایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت بلا فصل کیلئے بطور استدلال "تفسیر مظہری" کے حوالے سے پیش کی گئی ہے وہ علمائے اہل سنت و جماعت کے نزدیک معتبر ، مستند ، لائق استدلال اور درجۂ قبولیت پر فائز ہی نہیں ہے ۔ لہٰذا کسی شیعہ رافضی کا ایسی روایت اہل سنت کے سامنے پیش کرنا کسی طرح بھی مفید نہیں ہے ۔


رافضیوں اور نیم رافضیوں کےلیے جــوابِ الزامی


اب اخیر میں بطور "جواب الزامی" ہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے "خلیفہ بلا فصل" ہونے ، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفۂ برحق ہونے پر خود شیعہ کے گھر کی گواہی پیش کرتے ہیں ، اور اسے چیلینج دیتے ہیں کہ جس طرح علمائے اہل سنت ہر سوال کا جواب پوری تفصیل سے دیتے ہیں ، جواب دینے کیلئے خوب محنت ومشقت کرتے ہیں ، رات ودن ضخیم اور کئی کئی جلدوں پر مشتمل کتب کا باریکی سے مطالعہ کرتے ہیں ، اسی طرح وہ شیعہ بھی بغیر کسی تقیہ کے ہمارے اس چیلینج کا مفصل اور مدلل ، اپنی معتبر و مستند کتابوں سے جواب دے ۔ وہ گـواہی یہ ہے : ⬇

شیعوں کے معتبر عالم ، مفسر قرآن کریم "ابو الحسن علی ابن ابراہیم قمی" جو کہ تیسری صدی ہجری کے مشہور علامہ وفہامہ ہیں ، "کلینی" جیسے مستند شیعہ عالم کے مشائخ میں سے ہیں ، اپنی مشہور تصنیف "تفسیرُ القُمّی" میں فرماتے ہیں : فقال (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لحفصۃ رضی اللہ عنہا) ان ابا بکر یلی الخلافۃ ﴿من﴾ بعدی، ثم ﴿من﴾ بعدہ ابوک، فقالت من اخبرک بھذا ؟ قال اللہ أخبرنی الخ ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت حفصہ بنت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ میرے بعد منصبِ خلافت پر ابو بکر رضی اللہ عنہ فائز ہونگے ، اس کے بعد تمہارے باپ (عمر ابن خطاب) حضرت حفصہ نے عرض کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کو یہ خبر کس نے دی ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ تعالی نے خود مجھے یہ خبر دی ہے ۔ ( تفسیرِ قُمّی جلد 3 صفحہ 1082۔1083، زیرِ سورۃ تحریم پ 28) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔