Friday 13 August 2021

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ماتم کیا کا جواب

0 comments

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ماتم کیا کا جواب

محترم قارئینِ کرام : شیعہ حضرات جب بھی دلیل دیتے ہیں تو صرف اپنے مطلب کی بات کرتے ہیں اور پوری بات نہیں کرتے ۔ جس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ماتم ثابت کرنا چاہ رہے ہیں لیکن مکمل روایت نقل نہیں کی ہم مکمل روایت پیش کر رہے ہیں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں : حدثنا يعقوب قال حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال حدثنی يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير عن أبيه عباد قال سمعت عاشة تقول مات رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بين سحری و نحری وفی دولتی لم أظلم فيه أحدا فمن سفهی وحداثة سنی أن رسول الله قبض وهو في حجري ثم وضعت رأسه على وسادة وقمت ألتدم مع النسا وأضرب وجهی ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال میری گردن اور سینہ کے درمیان اور میری باری کے دن میں ہوا تھا ، اس میں میں نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ، لیکن یہ میری بیوقوفی اور نوعمری تھی کہ میری گود میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اور پھر میں نے ان کا سر اٹھا کر تکیہ پر رکھ دیا اور خود عورتوں کے ساتھ مل کر رونے اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی ۔ (مسند احمد جلد نہم حدیث نمبر 6258،چشتی)


اس میں ماتم کا جواز نہیں ملتا بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرما رہی ہیں کہ “یہ میری بیوقوفی اور نوعمری تھی” یہ کسی عام بندے کی وفات کی بات نہیں تھی بلکہ افضل البشر ، رحمۃ اللعالمین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال تھی اور عائشہ رضی اللہ عنھا سے یہ عمل ہو بھی گیا ہے تو اس کو ماتم کرنے کی دلیل نہیں لی جا سکتی ۔


ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتے اور شیعہ جنہیں امام معصوم سمجھتے ہیں ان سے بھی کافی غلطیاں ہوئیں تھی ۔ جیسا کہ شیعہ کتاب “ملاذ الاخیار پر لکھا ہے علی علیہ السلام نے غلطی سے میں کو چوری کے الزام میں ہاتھ کٹوا دیئے لیکن اصل چور کوئی اور تھا ۔ (ملاذ الاخیار جلد 10 صفحہ 126،چشتی)


اگر حضرت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک بار ماتم ثابت ہے اور جس میں وہ خود اپنی غلطی کا ازھار بھی کر رہی ہے تو کیا اسے جس طرح شیعہ ماتم کرتے ہیں اس کی دلیل لی جا سکتی ہے ؟ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے ہر سال ماتم کیا ؟


اگر شیعہ سمجھتے ہیں کی ماتم کرنا محبت کی نشانی ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک پر حضرت علی ، فاطمہ ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اجمعین نے ماتم کیوں نہ کیا ؟ کیوں سینہ نہیں پیٹا ؟ کیوں تلوار سے ماتم نہیں کیا ؟ کیوں قمی زنی نہیں کی؟ کیا ان حضرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں تھی ؟


کیا شیعہ حضرات نبی ص کی وفات پر ہر سال ماتم کرتے ہیں ؟ کیونکہ ماتم تو شیعہ کے نزدیک عبادت ہے، اور بعض کے نزدیک تو اصل نماز ہی ماتم ہے ۔


شیعہ حضرات اہل سنت پر ماتم کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے اس کو بڑے فخر و غرور سے یہ مزکورہ روایت پیش کرتے ہیں اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر  پہلے اس وایت کے راویوں پر “فن اسماء الرجال” کے تحت کچھ گفتگو ہو جائے تاکہ راویت کا درجہ معلوم ہو سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ کیا یہ حدیث قابل استدلال اور قابل قبول ہے بھی یا نہیں ۔


تاریخ طبری کے مصنف نے یہ روایت جس راوی سے نقل کی ہے اس کا نام محمد بن حمید ہے اس راوی کے متعلق علامہ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب نامی کتاب میں یوں لکھا ہے۔


نوٹ : یہ اسماءالرجال میں بہت اہم اور سب سے بڑی کتاب ہے ۔


  راوی ابن حمید


یعقوب بن شبہ کہتے ہیں کہ محمد بن حمید منکر حدیثیں زیادہ روایت کرتا ہے امام بخاری کہتے ہیں اس کی روایت کردہ حدیث میں نظر ہے یعنی بے سوچے سمجھے قبول نہ ہوگی امام نسائی فرماتے ہیں یہ ثقہ نہیں ہے اور جوز جانی کہتے ہیں یہ ردی المذہب اور غیر ثقہ ہے اور فضلک رازی نے کہا میرے پاس ابن حمید کی روایت کردہ پچاس ہزار احادیث ہیں لیکن میں ان میں سے ایک حرف بھی روایت نہیں کرتا ۔


صالح بن محمد اسدی کہتے ہیں کہ ابن حمید جو حدیث ہمیں سناتا ہم اس کو متہم کرتے ایک اور جگہ فرمایا یہ کثیر الاحادیث ہے اور اللہ تعالی کے معاملہ اس سے بڑا بے باک میں نے کوئی دوسرا نہ دیکھا لوگوں سے حدیث لیتا اور ایک دوسری میں غلط ملط کر دیتا اور ابوالعباس بن سعید نے کہا ابن خراش سے میں نے سنا کہ ابن حمید ہمیں حدیثیں سناتا اور اللہ کی قسم وہ جھوٹ بولتا ۔


جس سند میں ایک راوی ایسا ہو جو فن اسماءالرجال میں کذاب ، غیر ثقہ ، ردی المذہب اور خاص کر اللہ تعالی پر غلط باتوں کی نسبت کرنے کی جرات میں لاثانی ہو اس روایت کا کیا مقام ہو گا ایسی حدیث سے شیعہ کا استدلال کرنا کہ ماتم جائز ہے لوگوں کو کھلا دھوکا دینا ہے یا پھر اپنی کم علمی بے بسی کا رونا ہے ورنہ ایسی حدیث جس کے راوی پر اس قدر جرح ہو وہ قابل نہیں رہتی اس بات سے فن اسماءالرجال کا ادنی طالب علم بھی آگاہ ہے ۔


 سلمہ بن فضل راوی محمد حمید کے استاد ہیں ان سے ابن حمید نے روایت کی ہے ان کا پورا نام سلمہ بن فضل الابرش الانصاری ہے ۔


سلمہ بن فضل


امام بخاری نے فرمایا سلمہ بن فضل کے پاس زیادہ احادیث منکر تھیں جن کو علی نے کمزور کہا علی نے کہا ہم نے رے نامی شہر سے باہر نکلتے وقت اس کی حدثیں وہیں چھوڑ دی تھی برزعی کہتا ہے کہ ابوذرعہ نے کہا کہ اہل رائے سلمہ بن فضل کی طرف رغبت نہ کرتے تھے کیونکہ یہ شخص بری رائے اور ظلم سے موصوف تھا ابراہیم بن موسی نے کہا کہ میں نے اس سلمہ بن فضل کے بارے میں ابوذرعہ کو بار ہار اپنی زبان پکڑتے دیکھا جس سے وہ اس کا جھوٹا ہونا اشارةً بیان کرتے تھے امام نسائی نے اسے ضعیف کہا اور یہ بھی کہا کہ اس میں شیعت تھی ۔


محترم قارئینِ کرام : فن اسماء الرجال سے ہم نے سلمہ بن فضل کے بارے میں ناقدین کی تنقید بمع وجوہات ذکر کی امام بخاری کے نزیک یہ منکراحادیث کا جامع ہے اور ابوذرعہ اس کے بارے میں یہاں تک کہتے ہیں کہ خود اس کے ہم شہر لوگ اس کی بات کی کوئی اہمیت نہ دیتے کیونکہ ظم اور بری رائے اس میں مشہور تھی بلکہ ابوذرعہ نے تو کذاب بھی کہا امام نسائی نے کذاب مائل شیعیت کہا اور کوئی جرع کی وجہ نہ ہوتی صرف شیعت ہی اس مقام پر کافی تھی کیونکہ شیعوں نے اس حدیث کو سنیوں کی حدیث کے طور پر بیان کیا اور بطور حجت اہلسنت کی حدیث پیش کر کے مروجہ ماتم کو اہلسنت عبارات سے ثابت کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی آپ غور فرمائیں جس حدیث کا راوی ایک شیعہ ہو وہ سنیوں کی روایت کیسے ہوئی گویا شیعوں نے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ دیکھو اہلسنت کی کتابوں میں ثابت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انتقال پر مروجہ ماتم کیا ۔


محمد بن اسحاق راوی سملہ بن فضل کے استاد ہیں ان کا پورا نام محمد بن اسحاق ہے ان کا حال بھی ملاخط کر لیں تاکہ راویان حدیث میں ان کے مقام کو سمجھا جا سکے ۔


محمد بن اسحاق


امام مالک نے فرمایا محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے جوزجانی نے کہا ہے اس پر مختلف بدعات ایجاد کرنے کا الزام لگایا گیا موسی بن ہارون نے کہا میں نے محمد بن عبد اللہ نمیر سے سنا کہ محمد بن اسحاق قدریہ تھا میمونی نے ابن معین سے نقل کیا یہ ضعیف تھا اور امام نسائی نے اسے لیس بقوی کہا ۔


ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ حدیث میں جب ایسے راوی ہوں جن کو ائمہ حدیث قابل حجت شمار نہ فرمائیں تو وہ حدیث اہلسنّت کے ہاں کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے اس قسم کے غیر معتبر راویوں کی حدیث بیان کر کے خود شیعوں نے مروجہ ماتم جائز ثابت کرنے کی کوشش کی تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کے پاس لے دے کے کچھ ایسی ہی ناقابل حجت احادیث ہیں جب خود حدیث غیر مقبول ہوئی تو اس سے استدلال اور حجت کو کون قوی اور قابلِ عمل کہے ۔


دوسری بات ائمہ محدثین کے ہاں ایک قانوں یہ بھی ہے کہ جب حدیث کا کوئی راوی خود اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرے یا اس میں تنقید یا عذر پیش کرے تو وہ حدیث بھی قابل عمل نہیں رہتی شیعوں نے اس حدیث سے استدلال کیا لیکن ام المومنین سیدہ عائشہ صدیق رضی اللہ عنہا کا عذر اور تنقید نظر نہ آئی وہ یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرا ایسا کرنا یعنی چہرہ پر ہاتھ مارنا اور پیٹنا بوجہ بے عقلی اور کم سنی کے تھا یعنی اگر میر عمر حد بلوغ تک پہنچ چکی ہوتی اور اس کے ساتھ میری عقل بھی کامل ہو چکی ہوتی تو پھر یہ کام مجھ سے متوقع نہ تھا ۔


اب آپ حضرات خود سوچیں کہ اہل تشیع جن کو اپنے مسلک کے ثبوت پر بطور دلیل و حجت پیش کرتے ہیں یہ وہی شخصیت ہیں جس کے بارے میں شیعوں کی کتاب فروع الکافی موجود ہے کہ ہر فرضی نماز کے بعد ان پر شیعوں کو لعنت کرنی چاہیے ادھر اس قدر نفرت اور ادھر ان کے فعل کو اپنے مسلک کی دلیل بنانا کس قدر منافقت ہے پھر جب قاعدہ مذکورہ کے تحت راوی حدیث خود اپنی روایت کردہ بات کو ناپسند کرے اور اس میں عذر پیش کرے ایسے میں دوسرے کے لیے اس سے ثبوت مہیا کرنا کس طرح روا ہے ۔


ہم شیعہ حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ اللہ عزوجل سے ڈریں اور جب بھی بات کریں تو مکمل کیا کریں صرف اپنے مطلب کی بات کاٹ کر لوگوں کو گمراہ نہ کریں ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے :  وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ (۱۵۵)  الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ (۱۵۶) ۔

 ترجمہ : اور ہم ضرورتمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو ۔ وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ۔ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ (سورۃ البقرۃ ۔ آیت 155-156)


قرآنِ کریم میں مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور یہ بتایا گیا کہ صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ تعالیٰ ہی کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور آخرت میں ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ (تفسیر جلالین سورہ البقرۃ : ۱۵۶، صفحہ ۲۲،چشتی)


آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول خوف سے اللہ تعالیٰ کا ڈر ، بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا ، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے ، جیساکہ حدیث شریف میں ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا : جب کسی بندے کا بچہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی ۔وہ عرض کرتے ہیں کہ ’’ہاں ، یارب پھر فرماتا ہے :’ تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا ۔ وہ عرض کرتے ہیں : ہاں ، یارب ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس پر میرے بندے نے کیا کہا ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : اس نے تیری حمد کی اور ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس کےلیے جنت میں مکان بناؤ اور اس کا نام بیتُ الحمد رکھو ۔(ترمذی، کتاب الجنائز، باب فضل المصیبۃ اذا احتسب، ۲ / ۳۱۳،  الحدیث: ۱۰۲۳،چشتی)


یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ،ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا ستایا جانا اور انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان کوچاہئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے ۔


صدر الشریعہ حضرت  مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب ( اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ (وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا (استقبال کرتے ہیں) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو) صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب (جو احادیث میں بیان کیاگیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے ۔ (بہار شریعت، کتاب الجنائز، بیماری کا بیان، ۱ / ۷۹۹)


اللہ عزوجل نے ہمیں اشرف المخلوقات میں سے پیدا کیا اگر وہ چاہتا تو ہمیں جانوروں میں سے بھی پیدا کر سکتا تھا اس وجہ سے اللہ کا شکر ادا کریں اللہ سبحان وتعالی نے ہمیں صحت جیسی نعمت دی ، ہمیں دماغ دیا سوچنے کےلیے اس وجہ سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کفر نہ کریں اپنا خون بہا کر ۔ اللہ ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان صبر کرنے والوں میں سے کردے جنہیں اللہ نے قرآن میں بشارت دی ہے ۔ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔