افضلیت حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ حصہ اول
محترم قارئینِ کرام : اہلِ سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء و رسل بشر و رسل علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعدحضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی ، ان کے بعد عَشَرَۂ مُبَشَّرہ کے بقیہ صحابہ کرام ، ان کے بعد باقی اہل بدر ، ان کے بعد باقی اہل اُحد، ان کے بعد باقی اہل بیعت رضوان ، پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ دراصل جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت رکھتے ہیں ، یوں ہی آپ کی امت کو سابقہ تمام امتوں پر فضیلت کا شرف حاصل ہے . پھر تمام امت محمدیہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے افضل قرار پائے ، پھر حضرات صحاب کرام میں وہ مہاجرین جنہیں سابقین اولین ہونے کا شرف حاصل ہے . پھر ان میں بھی وہ دس خوش نصیب حضرات جنہوں نے زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دنیا ہی میں جنتی ہونے کا مژدہ پایا ، پھر ان عشرۂ مبشرہ میں حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو تمام پر فضیلت حاصل ہے ۔ اور ان چار یاروں میں بھی یارِ غار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تمام پر فضیلت حاصل ہے . یہ باتیں مستحکم دلائل پر مبنی ہیں ۔
امام اہل سنت امام احمدرضا خانقادری رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت نصر ہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکہ ، ورسل ، و انبیائے بشر صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان تعالی علیہم تمام مخلوق الہٰی سے افضل ہیں ۔ پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولیٰ علی صلی اللہ تعالی علی سید ہم ومولا ہم وآلہ وعلیہم وبارک وسلم ۔ اس مذہب مہذب پر آیات قرآن عظیم و احادیث کثیرہ حضور پرنور نبی کریم علیہ وعلی آلہ و صحبہ الصلوۃ والتسلیم و ارشادات جلیہ واضحہ امیر المؤمنین مولی علی مرتضی ودیگر ائمۂ اہل بیت طہارت و ارتضاواجماع صحاب کرام وتابعین عظام وتصریحات اولیائے امت وعلمائے امت رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے وہ دلائل باہرہ وحجج قاہرہ ہیں ، جن کا استیعاب نہیں ہوسکتا ۔ (فتاوی رضویہ،ج 28،ص 478،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ان دلائل باہرہ میں سے ایک قرآنی دلیل ہدیہ قارئین ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ ۔ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ ۔ وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠ ۔
ترجمہ : اورعن قریب سب سے بڑے پرہیزگار کو اس آگ سے دور رکھا جائے گا ۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے ۔ اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو ۔ صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے ۔ اور بےشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا ۔
ان آیات مقدسہ میں غور کریں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس ذات کو ”اتقی” فرمایا ، اس کے چار اوصاف ذکر فرمائے ۔
پہلا وصف یہ کہ : وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اپنا مال لٹاتا ہے ۔
دوسرا وصف یہ بیان فرمایا کہ : اس پرکسی کا ایسا احسان نہیں ، جس کا بدلہ دیا جائے ۔
تیسری صفت یہ بیان ہوئی کہ : اسے اس سے صرف رضائے الہی مطلوب ہے ۔
چوتھی صفت یہ بیان ہوئی کہ : اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خوش خبری سنائی اسے رب کی رضا حاصل ہوگی ۔
یہ سارے اوصاف جس ذات پر صادق آتے ہیں ، باجماع مفسرین وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر رازی میں فرماتے ہیں : أجمع المفسرون منا على أن المراد منه ابوبكر رضي الله عنه ۔
ترجمہ : اہل سنت کے مفسرین کا اجماع ہے کہ ”اتقی” سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ (التفسیر الکبیر،ج:31،ص:205 دارالفکر،بیروت،چشتی)
تفسیر معالم التنزیل میں ہے : الاتقى يعنى ابابكر الصديق في قول الجميع ۔
ترجمہ : اتقی سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں ۔ (تفسیر معالم التنزیل،ج:8،ص:70،دار طیبہ ریاض)
الصواعق المحرقہ میں امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے : قال ابن الجوزي : أجمعوا أنها نزلت في أبي بكر،ففيها التصريح بأنه أتقى من سائر الأمة ۔
امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اور اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق امت میں سب سے اتقی ہیں ۔ (الصواعق المحرقہ،ص:98،الباب الثالث،الفصل الثانی فی ذکر فضائل أبی بکر،مکتبہ فیاض)
ان تفسیرات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اہل سنت کا اجماع ہے کہ ”اتقی” سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں ارشاد فرمایا : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ۔
ترجمہ : بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے ، جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔ بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ”اکرم” یعنی سب سے زیادہ عزت والا،سب سے زیادہ فضیلت والا وہ ہے جو ”اتقی” ہے ۔ اور ”اتقی” سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں ۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔
لہٰذا پتا چلا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی ہیں ۔
شرح المواقف للجرجانی میں ہے : أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم هو عندنا و اكثر قدماء المعتزله، ابو بكر رضي الله تعالى عنه ۔ لنا وجوه: الاول،قوله تعالى: سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ قال اكثر المفسرين وقد اعتمد عليه العلماء،أنها نزلت في أبي بكر فهو “اتقى”، و من هو “اتقى” فهو “اكرم” عند الله ؛ لقوله تعالى : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ وهو أي : الاكرم عند الله هو الأفضل.فأبوبكر أفضل ممن عداه من الأمة ۔ (شرح المواقف للجرجانی،ج:8، ص:397 دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
ترجمہ : ہمارے اور اکثر معتزلہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد افضل الناس ابوبکر صدیق ہیں ۔ اس کی کئی دلیلیں ہیں۔ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ اکثر مفسرین نے کہا اور علماء نے اسی پر اعتماد کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں اتری ہے ۔ تو ابوبکر صدیق “اتقی” ہوئے اور جو “اتقی” ہے ، وہ اکرم ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ اور جو اللہ کے نزدیک اکرم ہے ، وہی افضل ہے ۔ لہٰذا ابو بکر افضل امت ہوئے ۔
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ صدیق جس کی افضلیت مطلقہ پر قرآنِ کریم کی شہادت ناطقہ ہے کہ فرمایا : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ تم میں سب سے زیادہ عزت والا ﷲ کے حضور وہ ہے، جو تم سب میں “اتقی” ہے ۔ اور دوسری آیت کریمہ میں صاف فرمادیا : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ قریب ہے کہ جہنم سے بچایا جائے گا وہ اتقٰی ۔ بہ شہادت آیت اُولی ان آیات کریمہ سے وہی مراد ہے ، جو افضل و اکرم امتِ مرحومہ ہے ، اور وہ نہیں، مگر اہل سنت کے نزدیک صدیق اکبر ۔ اور تفضیلیہ و روافض کے نزدیک یہاں امیر المومنین مولٰی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔
مگر ﷲ عزوجل کے لیے حمد کہ اس نے کسی کی تلبیس و تدلیس اور حق و باطل میں آمیزش و آویزش کو جگہ نہ چھوڑی ، آیت کریمہ نے ایسے وصفِ خاص سے “اتقٰی” کی تعیین فرمادی ، جو حضرت صدیق اکبر کے سوا کسی پر صادق آہی نہیں سکتا ۔ فرماتا ہے : وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ ۔ اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے ۔ اور دنیا جانتی مانتی ہے کہ وہ صرف صدیقِ اکبر ہی ہیں ، جن کی طرف سے ہمیشہ بندگی و غلامی و خدمت و نیاز مندی اور مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے براہِ بندہ نوازی قبول و پذیرائی کا برتاؤ رہا۔یہاں تک کہ خودارشاد فرمایا کہ : بے شک تمام آدمیوں میں اپنی جان و مال سے کسی نے ایسا سلوک نہیں کیا،جیسا ابوبکر نے کیا ۔ (جامع الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ) جب کہ مولٰی علی نے مولائے کل ، سیّد الرسل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی ، حضور کی گود میں ہوش سنبھالا، اور جو کچھ پایا ،بظاہر حالات یہیں سے پایا ، تو آیت کریمہ : وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ (اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے) ۔ سے مولا علی قطعاً مراد نہیں ہو سکتے ، بلکہ بالیقین صدیقِ اکبر ہی مقصود ہیں ، اور اسی پر اجماعِ مفسرین موجود ۔ (فتاوی رضویہ،ج: 18، ص:248,249،امام احمد رضا اکیڈمی،بریل شریف)
افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حدیث کی روشنی میں
سیدنا عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانۂ مبارکہ میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو شمار کرتےان کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی ، الحدیث : ۳۶۵۵، ج۲، ص۵۱۸،چشتی)،(صحیح بخاری مترجم جلد 2 صفحہ نمبر 605)،(تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۳۴۶)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث 178 جلد اول ، ص107)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ کے وصال کے بعد آپ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر ، تاریخ دمشق، جلد 30، صفحہ 73،چشتی)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہما ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671، جلد 2، ص 522)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتائوں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)
ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری ، ابن عساکر ، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189، چشتی)
حضرت عمرو بن العاص رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے استفسار کیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک مردوں میں سب زیادہ محبوب کون ہے ؟ إرشاد فرمایا : أبوبکر حدیث کے الفاظ ہیں : أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل فأتيته فقلت : أي الناس أحب إليك ؟ قال : "عائشة” فقلت من الرجال ؟ قال: "أبوها” قلت ثم من ؟ قال : ” ثم عمر بن الخطاب” فعد رجالاً ۔ [رواہ بخاری و مسلم]
حضرت عائشہ رضی الله عنها کی روایت ہے کہ سقيفۂ بنی ساعدہ کے موقع پر امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : آپ ہمارے سردار ، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب زیادہ محبوب ہیں یہ ایک طویل حدیث ہے جس کے بعض الفاظ ہیں : وفيه أن أبا بكر قال للأنصار : ولكنا الأمراء وأنتم الوزراء هم أوسط العرب دارا، وأعربهم أحسانا، فبايعوا عمر بن الخطاب أو أبا عبيدة بن الجراح فقال عمر بل نبايعك أنت *فأنت سيدنا وخيرنا وأحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذ عمر بيده فبايعه وبايعه الناس ۔ (رواہ البخاری)
چوتھے خلیفہ راشد باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب ان کے صاحبزادے حضرت محمد بن الحنفیہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں کون سب سے بہتر ہے .؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ابوبکر ۔ حدیث کے متعلقہ الفاظ ہیں : محمد بن الحنفية قال : قلت : لأبي: أي الناس خير بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أبو بكر قلت: ثم من ؟ قال : عمر . (رواہ البخاری )
مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ حضرت علي رضي الله عنه نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں. حدیث کے الفاظ ہیں : عن علی رضی اللہ عنه أنه قال لأبي جحيفة: يا أبا جحيفة ألا أخبرك بأفضل هذه الأمة بعد نبيها قال: قلت: بلى ولم أكن أرى أن أحدا أفضل منه قال : أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وبعد أبي بكر عمر وبعدهما آخر ثالث ولم يسمه ۔ (روى الإمام أحمد بإسناده) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment