آل و اصحاب رضی اللہ عنہم پر درود پڑھنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود کےلیے لفظ ’’ صلاۃ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔ (پارہ 22 سورہ الاحزاب:56)
ترجمہ : بے شک اللہ اور اس کے فر شتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتا نے وا لے (نبی) پر اے ایما ن والو! ان پر در ود اور خوب سلام بھیجو ۔
درود شریف میں آل و اَصحاب رضی اللہ عنہم کا ذکر شروع سے چلتا آ رہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر درود مقبول نہیں یعنی درود شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلِ بیت کو بھی شامل کیا جائے ۔ (تفسیر مدارک سورہ الاحزاب ، ۵۶، ص۹۵۰)(تفسیرات احمدیہ، الاحزاب ، ۵۶، ص۶۳۵،چشتی)
اور اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہی حکم صحابہ کرام کےلیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا ہے : خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔
ترجمہ : آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے ، اور ﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔ (سورہ التَّوْبَة، 9: 103)
بات واضح ہے کہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لئے بھی قرآن میں (صَلِّ عَلَيْهِ) کا حکم ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے بھی (صَلِّ عَلَيْهِمْ) کے الفاظ سے حکم ہے ۔
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اہلِ ایمان پر درود و سلام بھیجنا جائز ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ ارشاداتِ باری تعالیٰ ہیں :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔
تجمہ : آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے ، اور ﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔ (سورہ التَّوْبَة، 9: 103)
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ۔
ترجمہ : وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے ۔ (سورہ الْأَحْزَاب، 33: 43)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ۔
تجمہ : اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو ، یہ تمہارے لیے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو ۔ (سورہ النُّوْر، 24: 27)
فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون ۔
ترجمہ : پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے۔ (سورہ النُّوْر، 24: 61)
امام بخاری رحمة ﷲ علیہ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ یوں قائم کیا ہے : هَلْ يُصَلَّی عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ؟
ترجمہ : کیا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسروں پر درود بھیجے ؟
اور پھر اس باب کے تحت یہ حدیثِ مبارکہ لائے ہیں : عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ کَانَ إِذَا أَتَی رَجُلٌ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم بِصَدَقَتِهِ قَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ أَبِي أَوْفَی ۔
ترجمہ : حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صدقہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : اے اللہ! اس پرصلوٰۃ (رحمت) نازل فرما ۔ میرے والد ماجد صدقہ (ہدیہ) لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : اے اللہ! آل ابی اوفیٰ پر درود (رحمت) بھیج۔ (بخاري، الصحيح، 5: 2339، رقم: 5998، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة،چشتی)(مسلم، الصحيح، 2: 756، رقم: 1078، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)
امام ابو داؤد رحمة ﷲعلیہ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ قائم کیا ہے : الصَّلَاةِ عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسرے پر درود بھیجنا ۔
اور اس باب کے ضمن میں درج ذیل حدیث مبارکہ نقل کی ہے : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِرضی الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَی زَوْجِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلَّی ﷲُ عَلَيْکِ وَعَلَی زَوْجِکِ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوئی کہ میرے لیے اور میرے خاوند کےلیے دعا فرمائیں تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ تم پر اور تمہارے خاوند پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرمائے ۔ (أبي داؤد، السنن، 2: 88، رقم: 1533، دار الفکر،چشتی)(ابن حبان الصحيح، 3: 197، رقم: 916، مؤسسة الرسالة بيروت)
لہٰذا یہ بات تو طے ہوئی کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور پر درود وسلام بھیج سکتے ہیں لیکن ہمیں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے کے ناطے کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پوری امت کے صالحین کو شامل کرنا چاہیے تاکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے سب کو زیادہ سے زیادہ برکتیں حاصل ہوں ۔ جیسے ہم پڑھتے ہیں : اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِهِ وَصَحْبِهِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ ۔
یعنی جوبھی درود وسلام بھیجیں اُن میں جب ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود وسلام بھیجیں گے تو آل محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں امت کے سارے صالحین آ جائیں گے، جو درج ذیل حدیث مبارکہ سے ثابت ہے : عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم مَنْ آلُ مُحَمَّدٍ؟ فَقَالَ: کُلُّ تَقِيٍّ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا ، آل محمد کون ہیں ؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری امت کا) ہر پرہیزگار میری آل ہے ۔ (المعجم الأوسط، 3: 338، رقم: 3332، دار الحرمين القاهرة،چشتی)(مجمع الزوائد، 10: 269، بيروت، القاهرة: دار الکتاب)
حضرت صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : سیِّدعالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم پر دُرود و سلام بھیجنا واجب ہے، ہر ایک مجلس میں آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا ذکر کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ایک مرتبہ، اور اس سے زیادہ مستحب ہے۔ یہی قول معتمد ہے اور اس پر جمہور ہیں، اور نماز کے قعدہ اَخیرہ میں بعد تشہد درود شریف پڑھنا سنت ہے، اور آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے تابع کرکے آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے آل و اصحاب ودُوسرے مؤمنین پر بھی دُرود بھیجا جاسکتا ہے یعنی درود شریف میں آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ و سلَّم کے نامِ اَقدَس کے بعد ان کو شامل کیا جاسکتا ہے اور مستقل طور پر حضورکے سوا ان میں سے کِسی پر درود بھیجنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ : درود شریف میں آل و اصحاب کا ذکر متوارث ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر مقبول نہیں۔ درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبئ کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی تکریم ہے۔ علماء نے اَللّٰہُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ کے معنٰی یہ بیان کئے ہیں کہ یا ربّ! محمد ِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو عظمت عطا فرما،دنیا میں ان کا دین بلند اوران کی دعوت غالب فرما کر اوران کی شریعت کو بقا عنایت کرکے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کرکے اور اوّلین و آخرین پر اُن کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور انبیاء مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر اُن کی شان بلند کرکے ۔مسئلہ: درود شریف کی بہت برکتیں اور فضیلتیں ہیں، حدیث شریف میں ہے: سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا کہ جب درود بھیجنے والا مُجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔مسلم کی حدیث شریف میں ہے:جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار بھیجتا ہے۔ ترمذی کی حدیث شریف میں ہے: بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے ۔ (تفسیر خزائن العرفان)
اَنبیاء عَلَیْھِمُ السَّلام اور فِرِشتوں کے علاوہ کسی اور کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام اِسْتِقْلالاً یا اِبتداءً لکھنا یابولنا شرعاً دُرُست نہیں ہے ۔ عُلما نے اسے اَنبیاء کرام عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص لکھا ہے ۔ چُنانچہ صَدْرُ الشَّریعہ مُفْتی امجد علی اَعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کسی کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام کہنا ، یہ انبیا و ملائکہ عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص ہے ۔ مثلاً موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام ، جبریل عَلَیْہِ السَّلام ۔ نبی اور فِرِشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے ۔ (بہار شریعت ، ۳ / ص۴۶۵)
اَلبتَّہان کی تَبْعِیَّت میں غیر نبی پر دُرُود و سلام بھیجا گیا ہو تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ چُنانچہ فقیہ مِلَّت حضرت علاَّمہ مولانا مُفْتی جلالُ الدِّین اَمجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمہور علماء کا مَذہَب یہ کہ اِسْتِقْلالاً واِبتداءً نہیں جائز اور اِتباعا جائز ہے یعنی امام حسین عَلَیْہِ السَّلام کہنا جائز نہیں ہے اور امام حسین عَلٰی نَبِینا وَعَلَیْہِ السَّلام جائز ہے ۔ (فتاوی فیض الرسول ، ۱ / ۲۶۷)
حضرت امام بدرُ الدِّین عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وَقَالَ أبُوْ حَنِیْفَۃَ وَ اَصْحَابُہٗ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِیُّ وَالْاَکْثَرُوْنَ اِنَّہٗ لاَ یُصَلّٰی عَلٰی غَیْرِ اْلَانْبِیَاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ اِسْتِقْلاَلاً، فَلاَ یُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ بَکر اَوْ عَلٰی اٰلِ عُمَرَ اَوْ غَیْرِھِمَا و لٰکِن یُّصَلّٰی عَلَیْہِمْ تَبْعاً ‘‘ (عمدۃ القاری ، کتاب الزکاۃ ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ وقولہ، ۶ / ۵۵۶،چشتی)
مشہور شافعی بُزُرگ حضرت امام مُحی الدِّین نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : لاَ یُصَلّ عَلٰی غَیْرِ الْأَنْبِیَائِ اِلَّا تَبْعاً لِاَنَّ الصَّلاَۃَ فِیْ لِسَانِ السَّلَفِ مَخْصُوْصَۃٌ بِالْاَنْبِیَاء صَلَواتُ اللّٰہ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ کَمَا اَنَّ قَوْلَنَا ’’عَزَّوَجَلَّ‘‘ مَخْصُوْصٌ بِاللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی فَکَمَا لَایُقَالُ مُحَمَّدٌ عَزَّوَجَلَّ وَاِنْ کَان عَزِیْزاً جَلِیْلًا لَا یُقَالُ اَبُوْ بَکْرٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِنْ صَحَّ الْمَعْنٰی (اِلٰی اَنْ قَال) وَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّہٗ یَجُوْزُ اَنْ یُّجْعَلَ غَیْرَ اْلَانْبِیَائِ تَبْعَاً لَّھُمْ فِیْ ذٰلِکَ فَیُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہ وَاَتْبَاعِہٖ لِاَنَّ السَّلَفَ لَمْ یَمْنَعُوْا مِنْہُ وَقَدْ اُمِرْنَا بِہٖ فِی التَّشَہُّدِ وَغَیْرِہ قَالَ الشَّیْخُ اَبُوْمُحَمَّدِ الجُوَیْنِیْ مِنْ اَئِمَّۃِ اَصْحَابِنَا اَلسَّلَامُ فِیْ مَعْنَی الصَّلَاۃِ وَلَایُفْرَدُ بِہٖ غَیْرُ الْاَنْبِیَائِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَرَنَ بَیْنَہُمَا وَلَا یُفْرَدُ بِہٖ غَائِبٌ وَلَا یُقَالُ قَالَ فُلَانٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ۔ (شرح مسلم للنووی، باب الدعاء لمن اتی بصدقتہ، ۴ / ۱۸۵، الجزء السابع)
ان دونوں عبارتوں کا خُلاصہ یہ ہے کہ اِمام ابُو حَنیفہ ، اُن کے اَصحاب ، امام مالک ، امام شافعی اور اکثر عُلماء علٕہم الرحمہ کا قول یہ ہے کہ غَیرِ نبی پر اِسْتِقْلالاً صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی ، اَلبتَّہ تَبْعاً پڑھی جا سکتی ہے ۔ یعنی یوں نہیں کہا جائے گا : اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍاَلبتَّہ یوں کہا جا سکتا ہے : اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلی اَبِیْ بَکْرٍ ۔ اس کے جَواز اور عَدمِ جَواز کی دلیل سلف صالحین کا عمل ہے ، اور جَواز باِلتَّبع کی دلیل تَشَہُّد وغیرہ دیگر مَقامات بھی ہیں جہاں باِلتَّبع پڑھنے کا حکم ہے ۔ اِمامُ الْحَرَمَیْن حضرت امام جُوَیْنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سلام بھی اس حکم میں صَلاۃ کے مَعْنی میں ہے ۔
اِمام احمد رضاخان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کےلیے روانہیں ، ہاں بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے رضی اللہ عنہم کہا جائے ، اَولیائے وعُلماء کو رحمة اللہعلیہم یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رضی اللہ عنہم کہے جب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ (فتاوی رضویہ ۲۳ / ۳۹۰)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment