فتنہ صلح کلیت تعریف و پہچان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : صلح کلی کے لفظ پر ہی اگر غور کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام لوگوں سے صلح یعنی میل جول رکھنا اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب کہ کسی کا رد نہیں کیا جاۓ خواہ وہ کسی بھی عقیدے کا ہو مثلاً دیوبندی ، وہابی ، شیعہ ، تفضیلی وغیرہ ۔ جبکہ ان سب کا رد کرنا ضروری ہے ان سے میل جول رکھنا جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے : ایاکم وایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم ،، یعنی تم ان سے دور رہو اور ان کو اپنے سے دور رکھو کہیں تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ صلح کلی مخفف ہے صلح کل مذاہب کا جو آدمی سارے باطل فرقوں و مذہب والوں کو حق سمجھے کہ سنی بھی حق پر ، وہابی بھی حق پر ، رافضی بھی حق پر ، قادیانی بھی حق پر یہ بھی حق پر وہ بھی حق پر حقیقت میں صلح کلی وہی ہے ، ایسا صلح کلی اسلام سے رشتہ اور تعلق نہیں رکھتا ۔
عقیدہ کو الحق سمجھنے کے بجائے شعوری یا غیر شعوری طور پر ، التزامی یا لزومی طور پر الحق کو فرد کا حق محض سمجھنا جس کے نتیجہ میں الحق کے ساتھ مداہنت یا باطل کے ساتھ موالات ( نظری ، قلبی یا عملی) اختیار کرنا ، اس مخصوص رویہ کا نام صلح کلیت ہے ، جو رویہ سے عقیدہ میں منقلب ہوتا ہے ۔
صلح کلیت کا فتنہ ہمیشہ باطل نظام و سماج کا مسلط کردہ ہوتا ہے ۔ عصری تناظر میں یہ نظریہ باطل ، لبرل حلقوں نے مغربی نظریہ تکثیر حق Pluralistic ideology کے تناظر میں مسلم سماج پر مسلط کیا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں عقیدہ الحق کی حاکمیت ختم ہو جاتی ہے اور یوں مذہب سیکیولر منہج تعقل میں فرد کی پسند و پاسند کی سرمایہ دارانہ پروڈکٹ قرار پاتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس عصر سرمایہ کے صلح کلی نہ صرف فتنہ توہب سے قربت رکھتے ہیں بلکہ عالمی فتنہ تجدد کے آلہ کار بھی ثابت ہوئے ہیں ۔
امام ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : لاتجالسوا اصحاب الاھواء فانی اخاف ان ترتد قلوبکم ۔
ترجمہ : بد مذہبوں کے ساتھ نہ اٹھو بیٹھو مجھے خوف ہےکہ کہیں وہ تمہارے قلوب کو ارتداد کی طرف نہ پھیر دیں ۔ (الابانة ، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بيروت :137/1)
امام احمد رضا خان قادری قندھاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : مشرک سے عہد باندھ کے مشرک ہوئے یہود ۔ یہ مشرکوں کے عبد مسلمان ہی رہے ۔ (فتاوی رضویہ شریف، جامعہ نظامیہ لاہور : 489/14،چشتی)
امام احمد رضا خان قادری قندھاری رحمة اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ردبد مذہباں فرض ہے ۔ اور صاحب تفسیر روح البیان تحریر فرماتے ہیں کہ : ہمارے دور میں بد مذہب سے نرم پالیسی پر زور دیا جاتا ہے ہمارے نزدیک ایسی پالیسی سخت غلط اور پرلے درجے کی غلیظ عادت ہے ۔ اور یہی صاحب تفسیر روح البیان دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ : بد مذہبوں سے نرمی برتنا دین کو دنیا کے عوض بیچنا ہے اور یہ سیات میں سے ہے ۔ (تفسیر روح البیان پارہ ۲۹ صفحہ ۹۸،چشتی)
اور کبھی کبھی نرمی کرنے میں بدمذہبوں کی تعظیم بھی کرنی پڑتی ہے اور یہ ناجائز و حرام ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ، یعنی جس نے بد مذہبوں کی تعظیم کی اس نے اسلام کو ڈھانے پر مدد کی ۔ اور جو ایسی مذموم پالیسی اختیار کرے اس دور رہنا ضروری ہے ۔ کما قال اللہ تعالیٰ ۔ واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین ۔ (پارہ ۷ سوة الانعام)
بہت افسوس ہوتا ہے کہ جدید مسائل میں اختلاف کے سبب اہل سنت و جماعت قریبا تیس سالوں کے اندر متعدد گروپ بن گئے ۔ گروہ بندی کا سب سے خطرناک نقصان یہ ہوا کہ اعتقادی امور کی تحقیق میں اختلاف ہونے لگا ۔ یہ بہت مشکل مرحلہ ہے ۔ نیم رافضیت ، تفضیلیت اور صلح کلیت سے بھی بہت ستمے لوگ متاثر ہوئے ۔ اب ہم سب پر لازم ہے کہ فقہی اختلافات کی زیادہ تشہیر نہ کریں ۔ تحقیق و تنقیح غلط نہیں ۔ لیکن گروپ بندی کرنا غلط ہے ۔ علمائے حق پر طعن و تشنیع غلط ہے ۔ فتنہ پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے یہ موثر علاج ہے ۔ اعتقادی اختلاف کرنے والوں کی تفہیم کی جائے ۔ ان سے نظر ثانی کا مطالبہ کیا جائے ۔ نہ مانیں تو صحیح مسئلہ واضح کیا جائے ۔ جو لوگ بد اعتقادی میں مبتلا ہو جائیں ۔ ان سے جدا ہو جائیں : ایاکم وایاہم لا یضلونکم ولا یفتنونکم ۔ فقیر کو تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اعتقادی لغزشوں پر خاموشی رہتی ہے ۔ فقہی و فروعی اختلاف پر زیادہ شور ہوتا ہے ۔ حالاں کہ اعتقادی مسائل اہم ہیں ۔ اعتقادی فتنوں کا سد باب کیا جائے ۔
یاد رہے کہ اصل راستہ اور طریقہ مذہب ِاہل سنت ہے ، اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق کرنا ہے ۔ اور یہ ممنوع ہے ۔ بعض لوگ یہ آیت (وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا۪) لے کر اہلسنّت سمیت سب کو غلط قرار دیتے ہیں ۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ حکم یہ ہے کہ جس طریقے پر مسلمان چلتے آرہے ہیں ، جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے جاری ہے اور سنت سے ثابت ہے اس سے نہ ہٹو ۔ اہلِ سنت و جماعت تو سنتِ رسول اور جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلتے آرہے ہیں تو سمجھایا تو ان لوگوں کو جائے گا جو اس سے ہٹے نہ کہ اصل طریقے پر چلنے والوں کو کہا جائے کہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو ۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان اتفاق و اتحاد کے ساتھ صحیح اصولوں پر زندگی گزار رہا ہو ، ان میں سے ایک فرد غلط راہ اختیار کر کے اِنتشار پیدا کرے تو اُس جدا ہونے والے کو سمجھایا جائے گا نہ کہ خاندان والوں کو بھی اتحاد ختم کر کے غلط راہ چلنے کا کہنا شروع کر دیا جائے ۔ بِعَیْنِہٖ یہی صورتِ حال اہلسنّت اور دوسرے فرقوں کی ہے ۔ اصل حقیقت کو سمجھے بغیر صلح کُلِّیَّت کی رٹ لگانا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا سراسر جہالت ہے ۔
مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے فتویٰ کی وضاحت صلح کلیوں کو علماۓ اہلسنت کی طرف سے جواب پڑھیں : ⬇
*وہابی، تبلیغی، رافضی وغیرہ باطل فرقوں کے ساتھ وقت کی نزاکت کی دہائی دے کر ایکتا اور سارے اعتقادی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ایک ہونے کا راگ الاپنے والے اور دلیل میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے ایک حکیمانہ فتویٰ کو پیش کرنے والوں کا جواب*
سب سے پہلے استفتاء اور آپ کے فتویٰ کے الفاظ پڑھیے۔
پادرا وڈودرا گجرات سے ایک سوال آیا تھا
*استفتــــــــــــاء*
ریاست بڑودا کے اندر مسلمانان بڑودا راج کانفرنس نامی ایک انجمن واسطے حقوق طلبی و تحفظ اسلام قائم کی ہوئی ہے۔ یہ انجمن بیچ کوئی مذہبی امور کے دخل کرنے کے واسطے نہیں ہے صرف یہاں کے ہنود راجہ و ہنود رعایا کے سامنے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا کام کرنے والی ہے. اس لیے اس میں بلا قید ہر فرقے کے کلمہ گو شامل ہو سکتے ہیں۔ کیا اس انجمن میں سنی حنفی مسلمانوں کو شریک ہونا جائز ہے ؟ بينوا توجروا
از پادرا گجرات مرسلہ جمال بھائی قاسم بھائی
*الجوابــــــــــــــــــــــــــــــ*
ایسی انجمن میں شرکت برائے تحفظ حقوق اہل سُنت بمقابله فرق باطلہ و تحفظ حقوق اسلام بمقابله اعدائے اسلام ضروری ہے۔ فرق باطلہ کے ساتھ وہ مجالست نا جائز و حرام ہے جو بر بنائے محبت و موالات ہو۔ نیز وہ جو بے ضرورت و حاجت و مصلحت شرعيه ہو۔ نہ وہ جو برائے تبلیغ و رد ہو۔ و الله تعالیٰ اعلم۔
یہ مکمل سوال و جواب کی عبارتیں ہیں۔
سب سے پہلے فتویٰ کا تجزیہ اور معنی کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں تا کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔
*فتویٰ کا پہلا ٹکڑا اور اس کا مطلب*
*تحفظ حقوق اہل سُنت بمقابله فرق باطلہ*
اس عبارت کا مطلب ہے باطل فرقے مثلاً وہابی دیوبندی رافضی وغیرہ کے مقابلہ میں اہل سنت کے حقوق کی حفاظت کرنا اس انجمن کا مقصد ہو ۔۔ نہ کہ ایمان و کفر کو ایک کرنے کا مشن ہو۔
اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ یہ فتویٰ وہابیوں وغیرہ بد مذہبوں کے ساتھ سلام کلام اُلفت و محبت کے بارے میں ہے ہی نہیں بلکہ اسی پہلے جملہ سے صلح کلی ایکتا کے باطل نظریہ کا رد کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا جس انجمن میں عقیدہ اہل سُنت کی حفاظت نہ ہو پائے اس میں شرکت ہر گز جائز نہیں ہو گی۔
*فتویٰ کا دوسرا ٹکڑا اور اس کا مطلب*
*و تحفظ حقوق اسلام بمقابله اعدائے اسلام*
اس عبارت کا مطلب ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلہ میں اسلام کے حقوق کی حفاظت اس انجمن کا مقصد ہو۔ نہ کہ کفر اور شرک کو ایک کرنا مقصد ہو۔
*فتویٰ کا تیسرا ٹکڑا اور اس کا مطلب*
فرق باطلہ کے ساتھ وہ مجالست نا جائز و حرام ہے جو بر بنائے محبت و موالات ہو۔ نیز وہ جو بے ضرورت و حاجت و مصلحت شرعيه ہو۔
یعنی باطل فرقوں مثلاً تبلیغی خارجی وغیرہ کے ساتھ اُن کے لیے دل میں نرمی محبت اور بھائی چارے کے ساتھ بیٹھنا نا جائز و حرام ہے ۔ ساتھ ہی ان کے ساتھ میٹنگ کرنے میں نہ کوئی شرعی ضرورت ہو نہ دینی حاجت ہو نہ کوئی مذہبی فائدہ تب بھی حرام ہی ہے۔
اور یہاں تو معاملہ ہی بر عکس ہے، وہابیوں کے ساتھ سلام کلام کھانا پینا اُن کا دفاع آن کے تعلق سے نرمی برتنے والے صلح کلیت کے وائرس زدہ لوگ اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے اس صلح کلیت شکن مبارک فتویٰ کا نا جائز سہارا لے کر اپنے الحادی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔
🌼 نیز اس فتویٰ میں یہ کہاں ہے کہ مذہبی و اعتقادی اختلاف کو بھلا کر ان سے ایک ہو جائیں ۔۔ *ہرگز ہرگز نہیں ہے ۔۔۔* اگر کوئی یہ مطلب نکالتا ہے تو یقینا یہ سرکار مفتی اعظم ہند پر بہتان لگاتا ہے۔ استغِرُاللہ
کیوں کہ ان سے ہمارا اختلاف تھا ہے اور رہےگا یہ اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب کہ سنیت کے سچے عقائد کو وہ تسلیم و قبول کرلیں اور اپنی بد مذہبی سے سچی توبہ کر کے سنی ہو جائیں۔
🌼 نیز اس فتویٰ میں ایسی انجمن میں اہل سُنت کے حقوق کی حفاظت کے لیے سنیت کا نمائندہ بن کے شریک ہونے کی بات ہے۔ یہ کہاں فرمایا کہ وہابیوں کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔ اُن سے ہاتھ ملا لو ، اُن سے ایک ہو جاؤ ؟؟
الحمدللہ ہم نے پورے فتویٰ کی درست وضاحت کر کے بتا دیا کہ ایکتا اور صلح کلیت کی بین بجانے والے اس فتویٰ سے عوام کو جو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں یہ بالکل غلط اور باطل ہے۔ اور اس فتویٰ سے یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ وقت کی نزاکت کو دیکھ کر ان سے اتفاق کر لیا جائے۔
لہٰذا سنی عوام سے گزارش ہے کہ وہ ہر حال میں وہابی دیوبندی رافضی وغیرہ بد مذہبوں سے دور ہی رہیں انہیں اپنے قریب نہ آنے دیں نہ خود ان سے قریب ہوں اسی میں ایمان و اسلام کی حفاظت ہے۔
*✍🏻حضرت علامہ حافظ محمد توفیق خان رضوی مصباحی صاحب قبلہ*
خادم علم شریف
دار العلوم مصطفائيه، ہلدروا
گجرات ۔
صدر جماعت رضائے مصطفی پٹلاد، آنند گجرات 7698502040
*تصدیقات*
⬅️ حضرت علامہ مفتی اشرف رضا صاحب قادری برہانی
مہتمم جامعہ مدینۃ العلوم رتنپور کھیڑا گجرات
*ما شاء اللہ میں نے پورے فتویٰ کو پڑھا وقت کے حساب سے اچھی وضاحت فرمائی ہے ۔ میں اس کی تصدیق اور تائید کرتا ہوں۔*
⬅️ فاضل جامع ازہر مصر حضرت علامہ مفتی جنید صاحب ازہری قادری
نڈ یاد گجرات
*ما شاء اللہ فتویٰ کا بالکل صحیح مطلب اور صحیح مفہوم آپ نے بیان کیا اور بہت اچھی ترجمانی کی۔*
⬅️ حضرت علامہ اسماعیل امجدی صاحب قبلہ
سورت گجرات
*حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے فتویٰ کی آپ نے بالکل درست وضاحت فرمائی ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔*
⬅️ حضرت علامہ مفتی عبد الستار رضوی صاحب قبلہ
استاذ و مفتی مدرسہ ارشد العلوم عالم بازار کلکتہ *الجواب صحیح واللہ تعالیٰ اعلم*
محترم قارٸینِ کرام : ایساشخص صلح کلی ہے جو ہر مذہب کو صحیح کہے اور کبھی ادھر بھاگےکبھی ادھر بھاگے مطلب یہ کہ جس کاپلہ بھاری ہو اسی کی طرف چلاجائے یہ صلح کلیت ہے جیسا کہ علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ صلح کلی کےمتعلق فرماتے ہیں کہ : صلح کلی وہ ہے جوسارے مذاہب کو صحیح مانے اور جو باطل پرستوں پر احکام شرعیہ ہے اس کو تسلیم نہ کریں مثلایہ کہے کہ مسلمان بھی صحیح راستے پر ہیں ہندو بھی صحیح راستے پر ہیں شیعہ بھی صحیح راستے پر ہیں سنی بھی صحیح راستے پر ہیں غیر مقلد بھی صحیح راستے پر ہیں مطلب یہ کہ سب کوصحیح مانے کسی کو غلط نہ کہے یہی صلح کلی ہوتا ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری جلدسوم صفحہ نمبر 155،چشتی) ۔ ایسےشخص کو سمجھایاجائے اگرمان جائے تب ٹھیک ہے ورنہ اس کابائیکاٹ کیاجائے اس سے کلام کھانا پینا سب بند کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (سورہ انعام آیت نمبر 68)
ترجمہ : اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ آخری زمانہ میں جھوٹے دجال ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو نہ تم نے سنیں ، نہ تمہارے باپ داداؤں نے ، ان کو اپنے اور اپنے کو ان سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ (مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، صفحہ ۹، الحدیث : ۷،چشتی)
البتہ علماء جو ان بد مذہبوں کارد کرنے کےلیے جاتے ہیں وہ اِس حکم میں داخل نہیں۔یاد رہے کہ بد مذہبوں کی محفل میں جانا اور ان کی تقریر سننا ناجائز و حرام اور اپنے آپ کو بدمذہبی و گمراہی پر پیش کرنے والا کام ہے۔ ان کی تقاریر آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہوں خواہ احادیثِ مبارَکہ پر ، اچھی باتیں چننے کا زعم رکھ کر بھی انہیں سننا ہر گز جائز نہیں ۔ عین ممکن بلکہ اکثر طور پر واقع ہے کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح ووضاحت کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں ، اور قوی خدشہ بلکہ وقوع کا مشاہدہ ہے کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے ،لہٰذا باوجودیہ کہ وہ عقیدے میں انتہائی مُتَصَلِّب و پختہ ہوتے پھر بھی وہ کسی بدمذہب کی بات سننا ہر گز گوارا نہ فرماتے تھے اگرچہ وہ سو بار یقین دہانی کراتا کہ میں صرف قرآن و حدیث بیان کروں گا ۔ چنانچہ امام احمد رضا خان قادری قندھاری رحمة اللہ علیہ اس بارے میں اسلاف کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’سیدنا سعید بن جبیر شاگردِ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو راستہ میں ایک بد مذہب ملا۔ کہا، کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی ایک کلمہ۔ اپنا انگوٹھا چھنگلیا کے سرے پر رکھ کر فرمایا، ’’وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ‘‘ آدھا لفظ بھی نہیں۔ لوگوں نے عرض کی اس کا کیا سبب ہے۔ فرمایا، یہ ان میں سے ہے یعنی گمراہوں میں سے ہے۔
امام محمد بن سیرین شاگردِ انس رضی اللہ عنہما کے پاس دو بد مذہب آئے۔ عرض کی، کچھ آیاتِ کلام اللہ آپ کو سنائیں ! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی کچھ احادیثِ نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنائیں ! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ فرمایا، تم دونوں اٹھ جاؤ یا میں اٹھا جاتا ہوں۔ آخر وہ خائب و خاسر چلے گئے۔ لوگوں نے عرض کی: اے امام! آپ کا کیا حرج تھا اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے ؟ فرمایا، میں نے خوف کیا کہ وہ آیات و احادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل لگائیں اور وہ میرے دل میں رہ جائے تو ہلاک ہو جاؤں ۔ پھر فرمایا ’’ائمہ کو تو یہ خوف اور اب عوام کو یہ جرأت ہے، وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ۔ دیکھو! امان کی راہ وہی ہے جو تمہیں تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائی ،’’اِیَّاکُمْ وَ اِیَّا ھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ان (بدمذہبوں) سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کرو ، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ دیکھو! نجات کی راہ وہی ہے جو تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے بتائی ،’’فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (انعام: ۶۸) ، یاد آئے پر پاس نہ بیٹھ ظالموں کے ۔
بھولے سے ان میں سے کسی کے پاس بیٹھ گئے ہو تو یاد آنے پر فوراً کھڑے ہو جاؤ۔(فتاویٰ رضویہ، ۱۵ / ۱۰۶ ، ۱۰۷)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment