Monday 23 August 2021

خانقاہیں اور وراثتی گدی نشینی

0 comments

 خانقاہیں اور وراثتی گدی نشینی


محترم قارئینِ کرام : خانقاہ در حقیقت عربی زبان کا لفظ ہے جس سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں بظاہر دنیا سے کٹ کر صرف اور صرف اللہ کا ہو کر رہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : خانقاہ نشینوں کے فرائض میں داخل ہے کہ مخلوق سے (مکمل طور پر) قطع تعلق کر لیں اورحق کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیں ۔ (عوارف المعارف)


خانقاہ میں مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر حاصل کردہ تعلیم و تربیت عام انسان کو درویش بنا دیتی ہے ۔ خانقاہی نظام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دور سے قا ئم ہے جیساکہ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم تمام دنیا سے کٹ کر صفہ کے چبوترے پر رہتے اور صبح شام اپنے مرشد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں مدارس میں دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ معدوم ہوتا دکھائی دیا تو اولیا اللہ نے خانقاہوں کے ذریعے باطنی علوم عوام الناس میں بانٹنے کا بیڑہ اُٹھایا ۔ برصغیر پاک و ہند میں ہزاروں خانقاہیں تھیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایسی نفسانیت اور مادیت پرستی نہ تھی جیسی آج ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کی دین سے دوری کی وجہ سے غیر مسلم اقوام نے ان خانقاہوں پر قبضہ کر کے مسلمانوں کے دین کو صرف ظاہر پرستی تک محدود کر دیا اور فرقہ واریت کو فروغ دیا ۔ دوسری طرف دین سے دوری اور دنیا کی بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے اولیا اللہ نے بھی خود کو چھپا لیا ۔ نوجوان طبقہ میں انتشار ان تعلیمی اداروں نے ڈالا ہے جو روحانیت جیسے اہم شعبے سے خالی تھے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ انگریزوں نے مسلمانوں کے صدیوں سے قائم خانقاہی نظام کو تباہ کرنے کےلیے خانقاہ کی سربراہی کو وراثت کے قانون کے تحت ولی اللہ کے وصال کے بعد اس کے اصل روحانی وارث کسی اہل و کامل کی بجائے اس کے ظاہری فرزند کے حوالے کر دیا خواہ وہ اس کا اہل ہو یا نہ ۔ اگر کوئی ولی اللہ اپنی زندگی میں ہی اپنے روحانی وارث کو اپنے مزار کا سجادہ نشین بنا دیتا ہے تو وراثت کے قانون کے مطابق عدالت اس کا حق نہیں دیتی اور مزار اور خانقاہ ولی کے فرزندوں کے حوالے کر دیتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ سجادہ نشین یا گدی نشین بننے والا بیٹا ولی کا روحانی وارث بھی ہو ۔ یہ تو ان کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ وہ کسی ولی کامل کے گھر پیدا ہوتے ہیں ۔ آج کل کے سجادہ نشین اور گدی نشین کا تو یہ حال ہے کہ وہ گدی کے حصول کےلیے قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ ان کی نظر مزار سے آنے والی کمائی پر ہوتی ہے ۔ اور اگر وہ سیاست میں قدم رکھیں تو مریدین کی صورت میں بھاری مقدار میں ووٹ بھی حاصل ہو جاتے ہیں ۔ سجادہ نشینی کی راہِ تصوف و معرفت میں کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اب مزار کے سربراہ کے طور پر کوئی خاص حیثیت رہ گئی ہے ۔ اس طرح کے سجادہ نشینوں کی وجہ سے لوگ اصل اولیا سے بھی دور ہو گئے ہیں کیونکہ وہ سجادہ نشین کو اس کی ظاہری حیثیت کی وجہ سے ولی سمجھ بیٹھے ہیں اور جب اس کو تمام روحانی اوصاف اور قوتوں سے عاری پاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اس دور میں کوئی ولئ کامل ہے ہی نہیں ۔


روحانیت کو کاروبار کا درجہ دینے کا دوسرا اہم سبب وہ جاہل مرید ہیں جو پیر صاحب کے ہر عمل پر ایمان اور ہر حرکت کو ولی اللہ کی ادا سمجھتے ہیں ۔ اور یہ بات تصور کر لی گئی ہے کہ جس طرح کارخانے دار کا بیٹا اس کے کارخانے کا ، اور جاگیر دار کا بیٹا اس کی جاگیر کا وارث ہے بالکل اسی طرح پیر صاحب کا بیٹا پیر ہی ہو گا ۔ اندھی عقیدت و تقلید کا جذبہ انہیں پالنے میں پلنے والے شیر خوار و کم نوخیز بچوں کے نام کے ساتھ صاحبزادہ ، پیرزادہ  ، اعلی حضرت جناب ، عالی مقام جیسے القابات کے گاڑھے شیرے میں ڈبو کر رکھتے ہیں اسی لیے جب یہ بچے پالنے سے نکلتے ہیں تو اپنے نام کے ساتھ یہی القاب تکبر و رعونت سے لگاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کی تمام ویب سائٹس آپ کو پیرانِ عظام کے بچوں کے ناموں سے بھری ملیں گی ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے ایک پیر صاحب سے پوچھا حضر آپ کا بزنس کیا ہے ؟ تو چونک کر میری جانب حیرت سے دیکھنے لگے ، میں نے صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کیا جناب یہ نئی گاڑی ، گاڑی کا خرچہ ، ڈرائیور ، گن مین یہ قیمتی زرق برق لباس وغیرہ ۔۔۔ خرچے کیسے پورے ہوتے ہیں ؟ کہنے لگے "بس جی اللہ کا کرم ہے ۔" میں نے پوچھ لیا کہ اللہ کا ایسا کرم کسی اور پر کیوں نہیں ؟ پیر صاحب تو نہیں بولے مگر پاس بیٹھے ان کے مرید مجھے پھاڑ کھانے والی نظروں سے تکنے لگے ۔ میرا خیال ہے کہ بعض مرید اپنی گدی کے اسی پیر سے زیادہ تعلقات بنا کے رکھتے ہیں جس سے وقتاً فوقتاً کچھ مفادات حاصل کئے جا سکیں اور پیر صاحب کی نگاہِ لطف بھی صاحبِ ثروت مریدوں پر عام مریدوں سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے ۔

بہرحال پیری مریدی ایک خالصتاً نفع بخش کاروبار اور بہترین ذریعہ روزگار ہے ۔ اس میں خسارے کا سودا بالکل نہیں ۔ کوئی بھی شخص پیر بن کے بیٹھ جائے اس کی کوٹھی بنگلے ، گاڑی ، گھر بچوں اور نوکر چاکر کا خرچہ بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے بلکہ مزید آسامیاں پھنسانے کے لئے لنگر کے پیسے بھی وافر مقدار میں ملتے رہتے ہیں ۔ اسی لئے اقبال علیہ الرحمہ نے کہا تھا کہ :


نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا


یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنا منافع بخش کاروبار یقینا بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد ہی چلتا ہو گا ، نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے اور کہاں کہاں کی خاک چھاننی پڑتی ہوگی ۔ حالانکہ پیر بننا پاکستان میں آسان ترین کام ہے ۔ اگر آپ کسی دربار کے پیر خاندان یا سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر تو آپ بنے بنائے سکہ بند پیر ہیں ۔ پیری مریدی آپ کا خاندانی اور موروثی حق ہے ، جسے کوئی مائی کا لعل بھی آپ سے چھین نہیں سکتا ، ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے ۔


پیر بن جانے کے بعد زندگی کے وارے نیارے تو پکے ہیں ، مرنے کے بعد بھی قل خوانی ، چہلم ، عرس ، مزار ، خانقاہ اور اولاد کی سرپرستی وغیرہ کے متعلق فکر مند ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ، سب کچھ خود بخود ہوتا چلا جائے گا ۔


اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک 

نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ 

میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد 

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن


مسندِ تلقین و ارشاد اللہ کے حکم سے اولیا اللہ اس جہان فانی سے پردہ کرنے سے پہلے اپنے روحانی وارث کے سپرد کرتے ہیں تاکہ مخلوقِ خداکی رہنمائی کی جاسکے ۔ شاہینوں کے نشیمن، جہاں لوگوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کی جاتی تھی اب زاغوں (کوے ) کے قبضے میں ہیں ۔ ان کا مقصد صرف مال اکٹھا کرنا ہے کیو نکہ تلقین وارشاد کی مسند تو انہیں وراثت میں ملی ہے ۔ لیکن اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اولاد میں ولایت و فقر کے حق دار نہیں ہوتے ، ہوتے ہیں ضرور ہوتے ہیں اور بعض اوقات عام لوگوں سے زیادہ حقدار ہوتے ہیں لیکن آج کے دور میں تو اکثر نااہلوں کو ہی گدی نشین دیکھا گیا ہے ۔ بقول اقبالؒ :


قُمْ  بِاِذْنِ  اللّٰہِ  کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے 

خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن 


اس شعر میں اقبالؒ قُمْ  بِاِذْنِ  اللّٰہِ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ وہ ولئ کامل فقیرِ کامل جو لوگوں کے مردہ قلوب کو ایمان کی روشنی سے زندہ کرتے تھے‘ اب نایاب ہو گئے ہیں ۔ مزاروں کے ساتھ ملحقہ خانقاہوں میں صرف ایسے لوگ بیٹھے ہیں جویا تو اس لیے گدی نشین بن گئے کہ ان کے آباؤ اجداد میں سے کوئی فقیر کامل کے اعلیٰ منصب پر فائز تھا یا اس لیے کہ انہیں وراثت میں بغیر محنت و مشقت کے مسند تلقین و ارشاد مل گئی ۔ یہ لوگ تو کاروبار کرتے ہیں مزاروں کا ۔ مزاروں اور خانقاہوں پر اصل ولیوں کی بجائے گدی نشینوں کے قبضہ سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے آج پورا معا شرہ روحانی طور پر اپاہج نظر آتا ہے کیونکہ سکون تو روحانیت میں ہے ۔ روحانیت کے بغیر انسانیت اور اخلاقیات نابینا ہے ۔


گدی نشین کےلیے عموماً بڑے بیٹے کو ہی چُنا جاتاہے اور اس بات کا ہرگز خیال نہیں رکھا جاتا کہ وہ ظاہری اور باطنی علوم پر کتنی مہارت رکھتا ہے ۔ لوگ اس کی پیروی آنکھیں بند کرکے کیے جاتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ فلاں گدی نشین پیروی کے لائق ہے بھی یانہیں حالانکہ اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے خاص بندے ( اولیاۓ کاملین) شہرت سے دور بھاگتے ہیں اور آج کل کے گدی نشین و پیر شہرت کے ہمہ وقت متلاشی رہتے ہیں اور شہرت کےلیے ہر جاٸز و ناجاٸز طیقہ استعمال کرتے ہیں ۔ دعا اللہ تعالیٰ مسلمانانِ اہلسنت کو ان وراثتی  جاہل گدی نشینوں سے نجات عطا فرماۓ اور کامل اولیاۓ کرام کی پہچان و صحبت عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔