افضلیت حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ حصہ دوم
سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی افضلیت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہمارے سردار ہیں ، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ (سنن الترمذی، کتاب المناقب ، مناقب ابی بکر الصدیق ، الحدیث : ۳۶۷۶، ج۵، ص۳۷۲)
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ارشادفرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اگراس کے علاوہ کسی نے کوئی دوسری بات کی تووہ مُفْتَرِی یعنی الزام لگانے والا ہے اوراس کی سزا بھی وہی ہے جوالزام لگانے والے کی سزا ہے ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل ، باب فضائل الصحابۃ، فضل الصدیق، الحدیث : ۳۵۶۲۲، ج۶، الجزء : ۱۲، ص۲۲۳، جمع الجوامع، مسند عمر بن الخطاب، الحدیث : ۱۰۵۸، ج۱۱، ص۲۱۹)
حضرت سیدنا اِصبغ بن نباتہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہےفرماتے ہیں : میں نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے استفسار کیا : اس امت میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ فرمایا : اس اُمت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر میں ۔ (الریاض النضرۃ، ج۱، ص۵۷)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ نمبر 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور،چشتی)
حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبد بن حمید حدیث 212، ص 101 ابو نعیم طبرانی)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107،چشتی)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 30 ص 73)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی حدیث 3671، جلد 2، ص 522)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔ (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)
ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری، ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189،چشتی)
حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول، ص 405)
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36097، جلد 13،ص 6/7)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق، جلد 30، ص 382)
حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں
سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی)
ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)
جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)
حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36151)
افضلیت ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتب شیعہ سے
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔
ترجمہ : اس امت میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428)
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔
ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی (جلد ص 153)
مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ فرمان مولا علی رضی ﷲ عنہ : جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)،(رجال کشی، ص 338، سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)
اے محبتِ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا دعویٰ کرنے والو اب جواب دو تم لوگ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی بات مانو گے یا سڑک چھاپ جاہل ذاکروں ، جاہل پیروں اور جاہل خطیبوں کی ؟
ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ مبارکہ میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو شمار کرتے ان کے بعدحضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی، الحدیث : ۳۶۵۵، ج۲، ص۵۱۸، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۳۴۶)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب میں بہت زیادہ میل جول رکھنے والے تھے اور ہماری تعداد بھی بہت زیادہ تھی اس وقت ہم مراتب صحابہ یوں بیان کیا کرتے تھے، اس امت میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعدسب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق اوران کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم افضل ہیں ۔پھر ہم خاموش ہوجاتے ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، جامع الخلفاء، الحدیث : ۳۶۷۱۷، ج۷، الجزء : ۱۳، ص۱۰۵)
حضرت سیدنا محمد بن علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی یعنی حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا : نبی کریم اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ ارشادفرمایا : ’’ابوبکر‘‘ میں نے کہا : ’’پھر کون ؟‘‘ فرمایا : ’’عمر‘‘ ۔ مجھے خدشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ ’’پھر کون ؟‘‘ تو شاید آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا نام لے لیں گے ، اس لیے میں نے فورا کہا : ’’حضرت سیدنا عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہی سب سے افضل ہیں ؟ ارشادفرمایا : میں تو ایک عام سا آدمی ہوں ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو کنت ۔۔۔ الخ، الحدیث : ۳۶۷۱، ج۲، ص۵۲۲)
حضرت سیدنا اصبغ بن نباتہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ میں نے عرض کی : پھر کون ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴۴، ص۱۹۶)
حضرت سیدنا ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے آگے چل رہا تھا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : اے ابودرداء ! تم اس کے آگے چل رہے ہوں جودنیا وآخرت میں تم سے بہتر ہے ، نبیوں اور مرسلین کے بعد کسی پر نہ تو سورج طلوع ہوا اور نہ ہی غروب ہواکہ وہ ابوبکر سے افضل ہو ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل، بقیہ قولہ مروابابکر ان یصلی، الرقم : ۱۳۵، ج۱، ص۱۵۲)
حضرت سیدنا سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کے علاوہ تمام لوگوں میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ۔ (جمع الجوامع، الھمزۃ مع الباء ، الحدیث : ۱۲۰، ج۱، ص۳۸، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۲۱۲)
ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر توجہ فرمائی تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نظر نہ آئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا نام لے کر دو بار پکارا ، پھر ارشاد فرمایا : بیشک روح القدس جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے تھوڑی دیر پہلے مجھے خبر دی کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں ۔ (المعجم الاوسط، من اسمہ محمد ، الحدیث : ۶۴۴۸، ج۵، ص۱۸)
حضرت سیدنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پوچھا : یارسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : ’’عائشہ‘‘ میں نے کہا : ’’مردوں میں ؟‘‘ فرمایا : ’’ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق)‘‘ میں پوچھا : ’’پھر کون؟‘‘ ارشاد فرمایا : ’’عمر بن خطاب‘‘ (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ) ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب قول النبی لو کنت متخذا، الحدیث : ۳۶۶۲، ج۲، ص۵۱۹،چشتی)
حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ
فرماتے ہیں :
إِذَا تَذَكَّرْتَ شَجْوًا مِنْ أَخِى ثِقَةٍ فَاذْكُرْ أَخَاكَ أَبَا بَكْرٍ بِمَا فَعَلاَ
خَيْرُ الْبَرِّيَّةِ اَتْقَاھَا وَاَعْدَلَھَا بَعْدَ النَّبِیِّ وَ اَوْفَاھَا بِمَا حَمَلَا
ترجمہ : جب تجھے سچے دوست کا غم یاد آئے ، تو اپنے بھائی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے کارناموں کو یاد کر جو نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد ساری مخلوق سے بہتر ، سب سے زیادہ تقوی اور عدل والے ، اور سب سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والےہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابۃ، استنشادہ فی مدح الصدیق، الحدیث : ۴۴۷۰، ج۴، ص۷)
حضرت سیدنا ابوبکر بن عیاش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا ابو حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو یہ فرماتے سنا : وَاللہ مَا وَلَدَ لِآدَمَ بَعْدَ النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ أَفْضَلُ مِنْ أَبِيْ بَكْر ، یعنی انبیاء و مرسلین کے بعد حضرت سیدنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے افضل کوئی پیدا نہیں ہوا ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل، ومن فضائل عمر بن الخطاب من حديث أبي بكر بن مالك۔۔الخ، الرقم : ۵۹۸، ج۱، صفحہ نمبر ۳۹۴،چشتی)
حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم ! آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبدبن حمید ، حدیث 212، ص 101، ابو نعیم، طبرانی)
حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام میں سے کسی کو بھی ابوبکر سے افضل کوئی ساتھی نصیب نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سورۂ یٰسین میں بیان ہونے والے جن انبیاء کرام علیہم السلام کے جس شہید ساتھی کا ذکر ہے ، وہ بھی ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے افضل نہ تھا ۔ (حاکم، ابن عساکر،چشتی)
حضرت اسعد بن زراہ رضی ﷲ عنہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک روح القدس جبریل امین نے مجھے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ابوبکر ہیں ۔ (طبرانی المعجم الاوسط، حدیث 6448، جلد 5، ص 18)
حضرت سلمہ ابن اکوع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے سوا ابوبکر لوگوں میں سب سے بہتر ہیں ۔ (طبرانی، ابن عدی)
حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نبیوں اور رسولوں کے سوا زمین وآسمان کی اگلی اور پچھلی مخلوق میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ۔ (حاکم ،الکامل لابن عدی، حدیث 368، جلد 2،ص 180)
حضرت زبیر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد میری امت میں سب سے بہتر ابوبکر اور عمر ہیں ۔ (ابن عساکر، ابو العطوف، ابن الجوزی، العینی)
حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ہم کہتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ، پھر عمر ، پھر عثمان اور پھر علی ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3655،جلد 2، ص 451) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment