Thursday 26 August 2021

شیعہ کافر ہیں کہ نہیں حصہ اول

0 comments

 شیعہ کافر ہیں کہ نہیں حصہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : مضمون پڑھنے سے پہلے گذارش ہے اُن پیروں ، مریدوں ، خطیبوں ، نعت خوانوں ، نقیبوں اور قاریوں سے جو شیعوں کے ساتھ مجالس پڑھتے اور ان کے ہمنوا بنتے ہیں  ذرا آنکھیں کھول کر ایک بار مکمل پڑھنا غلیظ شیعہ کن کن اہلسنت کے اکابرین ک ناصبی اور کافر کہتے ہیں جن کی راہ پر چل کر آپ لوگ اہلسنت کو ناصبی ناصبی کہنے کی رٹ لگاۓ ہوۓ ہیں ۔ اے لکیر کے فقیرو آپ میں ذرا بھر بھی ایمانی غیرت باقی ہے تو ان مکمل حوالہ جات کو پڑھ کر اس غیرتِ ایمانی سے فیصلہ کریں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں ؟


اور شیعہ حضرات کو اتنا کہوں گا گھسی پٹی پوسٹر بازی ۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجاۓ اپنے گھر کی کتابوں کے مکمل حوالے پڑھ کر پھر جواب بحوالہ دینے کی ہمت کیجیے گا اپنے گھسے پٹے پوسٹر اپنے گھر سنبھال کر رکھیں :


شیعہ حضرات اکثر ائمہ میں سے ایک دو کے اقوال پیش کر کے کہتے ہیں کہ دیکھئے ، آپ کے ائمہ کے مطابق ہم کافر نہیں قرار پاتے ۔ لا حول ولا قوة الا باللہ۔اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات تقیہ کے پیروکار ہیں ۔ اس تقیہ کی روشنی میں وہ اپنے عقائد سنی حضرات سے چھپا کر رکھتے رہے ہیں ۔ پس ہمارے کئی ائمہ کرام اور علماء کرام کو ان کے ان عقائد کا پتہ نہ چلا ، لیکن جس نے بھی ان کے عقائد معلوم کیے ، انہوں نے ان کے کفر کا فتوٰی دیا ۔ جنہوں نے شیعوں کو صریحاً کافر قرار نہیں دیا ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے ان کفریہ عقائد کے حامل گروہ کو کافر قرار نہیں دیا ، بلکہ ان کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ شیعوں کے یہی عقائد ہیں ۔ ایک اور بات ذھن میں رہنی چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ شیعوں کے کسی ایک عقیدہ کو بعض ائمہ نے کفر کے زمرے میں شامل نہ کیا ہو ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ا ن کی نظر میں شیعہ کافر نہیں ، یا ان کی نظر میں شیعوں کے بقیہ عقائد کفر کے زمرے میں نہیں آتے ۔ اس مضمون کے آخر میں میں شیعوں کے اہل سنت کے بارے میں عقائد بھی پیش کروں گا جس سے امید ہے اس سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے گا ۔


امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ما أبالي صليت خلف الجهمي والرافض أم صليت خلف اليهود والنصارى ولا يسلم عليهم ولا يعادون ولا يناكحون ولا يشهدون ولا تؤكل ذبائحهم ۔

ترجمہ : میں نے کسی جہمی یا رافضی یا عیسائی یا یہودی کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی فرق نہیں پاتا ۔ ان کو نہ ہی سلام کرنا چاہئیے ، نہ ہی ان سے ملنا چاہئیے ، نہ ہی ان سے نکاح کرنا چاہئیے ، نہ ان کی شہادت قابل قبول ہے اور نہ ہی ان کا زبیحہ کھایا جائے ۔ (خلق افعال العباد صفحہ نمبر ١۳،چشتی)


حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بھی مثلا حضرت ابوبکر کو یا حضرت عمر کو اور یا حضرت عثمان یا حضرت معاویہ یا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو برا کہنے والے کے بارہ میں حکم بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ اگر وہ شخص یہ کہے کہ وہ (صحابہ) گمراہ تھے یا کافر تھے تو اس شخص کو قتل کیا جائے ۔

من شتم أحداً من أصحاب محمد أبا بكر أو عمر أو عثمان أو معاوية أو عمرو ابن العاص ، فإن قال كانوا على ضلال وكفر قتل ۔

عن أبي بكر المروذي قال : سألت أبا عبد الله عن من يَشتم أبا بكر وعمر وعائشة . قال : ما رآه على الإسلام . قال : وسمعت أبا عبد الله يقول : قال مالك : الذي يشتم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ليس لهم سهم أو قال نصيب في الإسلام ۔

ابوبکر المروزی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا امام احمد سے اس شخص کے متعلق جو حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو برا کہے تو آپ نے فرمایا ؛ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ ابوبکر المروزی فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو فرماتے ہوئے سنا کہ امام مالک نے فرمایا کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کو برا کہے تو ان کا کوئی حصہ نہیں یا فرمایا ان کا کوئی حصہ نہیں اسلام میں ۔ (السنہ للخلال ج ۳ ص ۴۹۳)


نیز امام احمد سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شخص نے نبی کریم ﴿ص﴾ کے صحابی کو گالی دی ،قد مَرَقَ عن الدِّين، تو وہ دین سے نکل گیا ۔ (السنہ للخلال ج ۳ ص ۴۹۳)


على بن عبد الصمدقال سالت احمد بن حنبل عن جار لنا رافضى يسلم على ارد عليه قال لا ۔

علی بن عبدالصمد فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ ہمارے پڑوس میں رافضی ہے ، جو مجھ کو سلام کرتا ہے تو کیا میں اس کو جواب دوں ؟ آپ نے فرمایا ؛ نہیں ۔

(السنہ للخلال ج ۳ ص ۴۹۳،چشتی)


الحسن بن على الحسن انه سئل عبدالله عن صاحب بدعة يسلم عليه قال اذا كان جهميا او قدريا او رافضيا داعية فلا يصلى عليه و لا يسلم عليه ۔

حسن بن علی الحسن نے سوال کیا امام احمد سے صاحب بدعت کے بارے میں کہ وہ ان کو سلام کرتا ہے تو انہوں نے فرمایا جب جہمی یا قدریہ یا رافضی بلائے تو اس پر نہ نماز جنازہ پڑھو اور نہ اس پر سلام کرو ۔ (السنہ للخلال ج ۳ ص ۴۹۴)


ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں : لا اصلي على رافضى ، کہ میں رافضی کی نماز جنازہ نہیں پڑھتا ۔ (المغنی ج ۵ ص ٦۲)


علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :و مذهب الرافضة شر من مذهب الخوارج المارقين , فان الخوارج غايتهم تكفير عثمان و على و شيعتهما و الرافضة تكفير ابى بكر و عثمان و جمهور السابقين الاولين ۔

اور رافضہ کا مذہب دین سے نکل جانے والے خارجیوں سے بدتر ہے کیونکہ خوارج کی انتہا حضرت عثمان اور حضرت علی اور ان کے گروہ کی تکفیر تھی اور روافض نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اورتمام سابقین و اولین کی تکفیر کی ۔ (مجموعة فتاوٰی ابن تیمیة ج ٦ ص ۴۲١،چشتی)


محیط میں حضرت امام محمد رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ رافضیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت کے منکر ہیں ۔ خلاصہ میں لکھا ہے : من انکر خلافۃالصدیق فہو کافر  یعنی جس شخص نے ابوبکر صدیق کی خلافت کاانکار کیا وہ کافر ہیں ۔


حضرت مالک بن انس کا قول ہے : من غاظه أصحاب محمد فهو كافر لقولـه تعالى: لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۔

جس شخص نے اصحا ب محمد کے تئیں بغض وغصہ رکھا ،وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” تاکہ ان سے کافروں کوغصہ دلائے ۔ (سورہ الفتح : ۲۹)” کے بموجب کافر ہے ۔


فتاوی عالمگیری میں درج ہے : من انکرامامہ ابی بکر الصدیق فہوکافر علی قول بعضہم وقال بعضہم ہو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر کذلک من انکر خلافۃ عمر فی اصح الاقوال ویجب اکفار الروافض فی قولہم برجہۃالاموات الی الدنیا وتناسخ الارواح ۔

جس شخص نے ابوبکر کی امامت کبریٰ کا انکار کیا وہ بعض حضرات کے قول کے مطابق کافر ہے جب کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ مبتدع قرار پائے گا اس کو کافر نہیں کہیں گے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ کافر ہے۔ اسی طرح قول صحیح کے مطابق وہ شخص بھی کافر ہو جائے جو حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے گا نیز رافضیوں کو اس بنا ء پر کافر قرار دینا واجب ہے کہ وہ مُردوں کے دنیا میں لوٹنے اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ (فتاوی عالمگیری ج ١۷ ص ١۵۴،چشتی)


مرقاۃ میں امام ملا علی قاری فرماتے ہیں : قلت وهذا في غير حق الرافضة الخارجة في زماننا فإنهم يعتقدون كفر أكثر الصحابة فضلا عن سائر أهل السنة والجماعة فهم كفرة بالإجماع بلا نزاع ۔

میں کہتا ہوں کہ یہ بات ہمارے زمانہ کے رافضیوں اور خارجیوں کے حق میں صادق آتی ہے کیونکہ ان فرقوں کے لوگ اکابر صحابہ میں سے اکثر کے کفر کا عقید ہ رکھتے ہیں اور تمام اہل سنت والجماعت کو بھی کافر سمجھتے ہیں ان فرقوں کے کافر ہونے پر اجماع ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ (مرقاة ۹/١۳۷)


امام ابوزرعہ نے جو امام مسلم کے جلیل القدر شیوخ میں سے ہیں کہا ہے کہ اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیض و توہین کرے تو بلاشبہ وہ زندیق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن حق ہے اور رسول جو کچھ (دین وشریعت) لے کر آئے وہ حق ہے نیز ان سب (قرآن اوردین وشریعت) کو نقل اور ہدایت کے ذریعہ ہم تک پہنچانے والے ان صحابہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے پس جس شخص نے ان صحابہ میں عیب و نقص نکالا اس نے در اصل کتاب و سنت کو باطل اورلغو قرار دینے کا ارادہ کیا ۔اس اعتبار سے سب سے بڑا عیب دار اورناقص خود وہی شخص قرار پائے گا اور اس پر زندقہ وضلالت کا حکم راست ودرست آئے گا ۔ حضرت سہل ابن عبد اللہ تستری کا قول ہے، اس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والا ہرگزنہیں کہا جا سکتا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کی توقیر نہ کی ۔


امام ذہبی فرماتے ہیں : فان كفرهما والعياذ بالله جاز عليه التكفير واللعنة ۔

اگر شیخین کی کوئ تکفیر کرے العیاذ باللہ تو اس کی تکفیر اور اس پر لعنت جائز ہے ۔ (تذکرة الحفاظ ج ۲ ص ۷۵۵،چشتی)


امام ابو سعد السمانی الشافعی اپنی کتاب الانساب میں فرماتے ہیں : واجتمعت الامة على تكفير الامامية ۔ امامیہ کی تکفیر پر اجماع ہے ۔ (الانساب ج ۳ ص ١۸۸)


مختصراً یہ کہ شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی تکفیر پر ائمہ کے بے شمار اقوال اور فتاوی پیش کئے جا سکتے ہیں ۔ امت کا اجماع ہے کہ شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کافر ہیں ۔ مزید بہت حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن فقیر خیال میں اتنا کافی رہے گا ۔


اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ کی تکفیر کرنے والے صرف اہل سنت ہی ہیں یا شیعہ بھی اہل سنت کی تکفیر کرتے ہیں ؟ تو عرض ہے کہ شیعہ بھی اہل سنت کی تکفیر کرتے ہیں ، اور ان کی کتب صحابہ کرام ، ائمہ اہل سنت اور عام سنی لوگوں کی تکفیر سے بھری پڑی ہے بلکہ شیعہ کی تکفیر میں جتنے اقوال اہل سنت کی کتب میں درج ہیں ، اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں شیعہ کتب میں صحابہ کرام ، اہل سنت اور عام سنی لوگوں کی تکفیر موجود ہے ۔ ⬇


امام صادق رضی اللہ عنہ سے شیعوں نے جھوٹا نقل کیا ہے کہ : من شك في كفر أعدائنا والظالمين لنا فهو كافر ۔

جو شخص ہمارے دشمنوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کے کفر میں شک کرے ، تو وہ کافر ہے ۔ (وسائل الشیعہ ج ۲۸ ص ۳۴۵)(بحار الانوار ، ج ۸ ص ۳٦٦،چشتی)


اور شیعہ اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد کو اہل بیت رضی اللہ عنہم کا دشمن اور ان پر ظلم کرنے والے سمجھتی ۔


ومن أنكرهم أو شك فيهم أو أنكر أحدهم أو شك فيه أو تولى أعداءهم أو أحد أعدائهم فهو ضال هالك بل كافر ۔

جو بھی ان کا انکار کرے ، یا شک کرے ، یا کسی ایک کا بھی انکار کرے ، یا شک کرے ، یا ان کو دشمنوں کو دوست رکھے ، یا ان کے دشمنوں میں سے کسی ایک کو بھی دوست رکھے ، تو وہ گمراہ ہو گیا ، بلکہ کافر ہو گیا ۔ (بحار الانوار ج ۲۵ ص ۳٦۲)


امام صادق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : المنكر لآخرنا كالمنكر لاولنا ۔

ہمارے آخر کا انکار کرنا ایسا ہے جیسے ہمارے اول کا انکار کرنا ۔ (بحار الانوار ج ۲۷ ص ٦١)


اعلم أن إطلاق لفظ الشرك والكفر على من لم يعتقد إمامة أمير – المؤمنين والائمة من ولده عليهم السلام وفضل عليهم غيرهم يدل على أنهم كفار مخلدون في النار ۔

جان لینا چاہئے کہ لفظ شرک اور کفر کا ان پر اطلاق جو حضرت علی اور ان کی اولاد میں سے جو امام ہیں، ان کی امامت کا اعتقاد نہیں رکھتے، اس کا ثبوت ہے کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ۔ (بحار الانوار ج ۲۳ ص ۳۹۰)


آیت اللہ شیرازی اپنی کتاب الفقہ میں کہتا ہے

و اما سائر اقسام الشيعةغير الاثنى عشرية فقد دلت نصوص كثيرة على كفرهم ككثير من الاخبار المقتدمة الدالة على ان من جحد اماما كان كمن قال : ان الله ثالث الثلاثة ۔

جہاں تک اثنا عشریہ کے سوا شیعہ کے بقیہ تمام گروہوں کا تعلق ہے تو کثیر تعداد میں نصوص ان کے کفر پر دلالت کرتی ہیں، جیسے کہ ہم نے روایات کو اس سے پہلے ذکر کیا، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جوبھی کسی ایک امام کا انکار کرے، وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو کہے کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے ۔ (الفقہ للشیرازی ، ج ۳،چشتی)


محمد طاہر بن محمد حسین الشیرازی النجفی القمی اپنی کتاب الاربعین فی امامة الائمة الطاہرین میں بکتا ہے : ان عائشة كافرة مستحق للنار و هو مستلزم لحقية مذهبنا ۔

بے شک عائشہ کافرہ ہے، اور نار جہنم کی مستحق ہے ، اور یہ ہمارے مذہب کی حقانیت کے لئے مستلزم ہے ۔ (الاربعین فی امامة الائمة الطاہرین ، ص ٦١۵)


مجلسی کہتا ہے : عندنا أن من حارب أميرالمؤمنين كافر ، والدليل على ذلك إجماع الفرقة المحققة لامامية على ذلك ، و إجماعهم حجة ، وأيضا فنحن نعلم أن من حاربه كان منكرا لامامته ۔

ہمارے ہاں ہر وہ شخص کافر ہے جس نے امیر المومنین ﴿حضرت علی﴾ سے جنگ کی ﴿حضرت عائشہ ، حضرت معاویہ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور دیگر صحابہ کرام کی کھلی تکفیر﴾۔ اور اس کی دلیل فرقة المحققہ لامامہ کا اس پر اجماع ہے ، اور ان کا اجماع حجت ہے ، اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ جس نے ان سے جنگ کی ، تو وہ ان کی امامت کا منکر قرار پایا ۔ (بحار الانوار ج ۸ ص ۲٦٦،چشتی)


سلیم بن قیس اپنی کتاب میں حضرت علی رضی اللہعنہ سے منسوب قول نقل کرتا ہے کہ انہوں نے کہا : ان الناس كلهم ارتدوا بعد رسول الله صلى الله عليه و اله غير اربعة ۔

سوائے چار کے بقیہ تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے ۔ (سلیم بن قیس ، ص ۵۹۸)


محمد بن مسعود ابن عیاش السمرقندی اپنی کتاب تفسیر عیاشی میں لکھتا ہے :عن ابى جعفر قال كان الناس اهل الردة بعد النبى الا الثلاثة فقلت و من الثلاثة ؟ قال المقداد و ابو ذر و سلمان فارسى ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگ مرتد ہو گئے ، سوائے تین کے ، راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا، وہ تین کون ہیں ؟ فرمایا ؛ مقداد ، ابوذر اور سلمان فارسی ۔ (تفسیر عیاشی ص ۲۲۳)


مجلسی اپنی کتاب میں لکھتا ہے : عن مولى لعلى بن الحسين قال : كنت معه فى بعض خلواته فقلت ان لى عليك حقا الا تخبرنى عن هذين الرجلين : عن ابى بكر و عمر . فقال كافران , كافر من احبهما ۔

علی بن الحسین کا آزاد کردہ غلام کہتا ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک دفعہ تنہائ میں تھا، میں نے ان سے کہا کہ میرا آپ پر حق بنتا ہے کہ آپ مجھے ان دو افراد کے بارے میں بتائے، یعنی ابوبکر اور عمر ۔ تو انہوں نے کہا، دونوں کافر ہیں اور وہ بھی کافر ہیں جو ان سے محبت کریں ۔ (بحار الانوار ج ۲۸ ص ١۹۹،چشتی)


باقر مجلسی کا باپ ملا تقی مجلسی اپنی کتاب میں کہتا ہے :(و اما) انكار معاوية و عائشة فانهما خارجان عن الدين و ليسا من المسلمين ۔

جہاں تک انکار معاویہ اور حضرت عائشہ کا تعلق ہے تو وہ دونوں دین سے خارج ہیں، اور مسلمانوں میں سے نہیں۔ (روضة المتقین ج ۲ صفحہ نمبر ۲١۸)


شیعہ عبداللہ الشبر اپنی کتاب شرح الزيارة الجامعة میں کہتا ہے : وقد دلت اخبار كثيرة على كفر المخالفين يحتاج جمعها الى كتاب مفرد ۔

کثیر تعداد میں روایات مخالفین کے کفر پر دلالت کرتی ہیں ، اور یہ محتاج ہیں کہ ان کو ایک پوری کتاب میں جمع کیا جائے ۔ (شرح الزيارة الجامعة صفحہ ١۳٦)


آیت اللہ بحرانی شیعہ کہتا ہے : قد استفاضت الروايات والاخبار عن الائمة الابرار (عليهم السلام) – كما بسطنا عليه الكلام في كتاب الشهاب الثاقب في بيان معنى الناصب – بكفر المخالفين ونصبهم وشركهم وان الكلب واليهودى خير منهم ۔

بڑی تعداد میں نیک ائمہ سے مروی روایات ، جیسا کہ میں نے اپنی کتاب شہاب الثاقب فی بیان معنی الناصب میں بیان کیں ، مخالفین کے کفر اور ان کے ناصبی ہونے اور ان کے شرک کو ظاہر کرتی ہیں ۔ اور کتے اور یہودی ان سے بہتر ہیں ۔ (الحدائق الناضرة ج ١۰ صفحہ ۴۳)


حسین البحرانی اپنی کتاب محاسن الاعتقاد فی اصول الدین میں کہتا ہے : فبهذا نعتقد و نقطع بان معاوية و طلحة و الزبير و المراة و اهل النهروان و غيرهم ممن حاربوا عليا و الحسن و الحسين كفار بالتاويل ۔

اور اس وجہ سے ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ معاویہ اور طلحہ اور زبیر اور وہ عورت ﴿یعنی حضرت عائشہ﴾ اور اہل نہروان اور دوسرے جو علی اور حسن اور حسین کے ساتھ لڑے ، وہ کافر بالتاویل ہیں ۔ (محاسن الاعتقاد فی اصول الدین ص ١۵۷،چشتی)


مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں شیخ مفید کا قول نقل کرتا ہے : قال الشيخ المفيد قدس الله روحه فى كتاب المسائل : اتفقت الامامية على ان من انكر امامة احد من الائمة و جحد ما اوجبه الله تعالى له من فرض الطاعة فهو كافر ضال مستحق للخلود فى النار ۔

شیخ مفید اپنی کتاب المسائل میں کہتا ہے ؛ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی کسی ایک امام کا انکار کرے ، اور جو اللہ تعالٰی نے واجب کی ہے ان کے متعلق اس کا انکار کرے، تو وہ کافر ہے، گمراہ ہے، اور جہنم میں رہنے کا مستحق ہے ۔ (بحار الانوار ج ۲۳ صفحہ ۳۹۰)


اہل تشیع کے ہاں اہل سنت کو ناصبی پکارا جاتا ہے ۔ پہلے ایک روایت ملاحظہ ہو کہ نواصب کی شیعہ کے ہاں کیا حیثیت ہے ۔


عن داود بن فرقد قال : قلت لأبي عبد الله ع ما تقول في قتل الناصب قال: حلال الدم لكني اتقي عليك فان قدرت أن تقلب عليه حائطا أو تغرقه في ماء لكيلا يشهد به عليك فافعل قلت: فما ترى في ماله قال توه ما قدرت عليه ۔

داؤد بن فرقد کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے پوچھا کہ ناصبی کو قتل کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ تو انہوں نےفرمایا اس کا خون حلال ہے لیکن مجھے تجھ پر ڈر ہے اس لیے اگر تیرے لئے ممکن ہو تو اس پر کوئ دیوار گرا دے یا اس طرح پانی میں غرق کر دے کہ کوئی تجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ نہ لے ۔ (علل الشرائع للصدوق جلد ۲ صفحہ ٦۰١)


شیعہ نعمت اللہ الجزائری اپنی کتاب انوار النعمانیہ میں لکھتا ہے : الذي ورد في الأخبار أنه نجس وأنه شر من اليهودي والنصراني والمجوسي، وأنه كافر نجس بإجماع علماء الشيعة الإمامية ۔

روایات میں وارد ہوا ہے کہ یہ ﴿ناصبی﴾ یہودی ، عیسائی اور مجوسی سے بدتر ہوتا ہے ، اور وہ باجماع علماء شیعہ امامیہ نجس کافر ہوتا ہے ۔ (انوار النعمانیہ ج ۲ ص ۳۰٦،چشتی)


اب ملاحظہ کرتے جائیے کون کون سے سنی ائمہ کرام علیہم الرحمہ پر شیعہ ناصبی کا لیبل لگاتے ہیں ۔ جب ہمارے علماء و اٸمہ ناصبی قرار دیے جائیں تو کیا خیال ہیں تقیہ کی چادر تلے آپ کو کچھ اور سمجھا جا رہا ہوگا ؟


امام شعبی رحمة اللہ علیہ


و عامر الشعبي الناصبي المنحرف عن أمير المؤمنين ۔ (نور الأفهام للحسن الحسيني اللواساني ج ۲ ص ۳۴)


امام مالک رحمة اللہ علیہ


أن الإمام مالكا كان من النواصب

امام مالک ناصبی تھے ۔ (الشيعة هم أهل السنة للدكتور محمد التيجاني السماوي، ص ١۰۳)


امام شافعی رحمة اللہ علیہ


امام شافعی کے خلاف تو محقق البحرانی نے پوری ایک نظم لکھی ہے، کہتا ہے

كذبت في دعواك يا شافعي ۔ فلعنة الله على الكاذب ۔

شافعی ، تم اپنے دعوی میں جھوٹے ہو، اور اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر ۔

فالشرع والتوحيد في معزل ۔ عن معشر النصاب يا ناصبي ۔

شریعت اور توحید ناصبیوں سے دور ہے ، اے ناصبی ۔


امام احمد رحمة اللہ علیہ


علی بن یونس العاملی اپنی کتاب الصراط المستقیم میں شیخ کشی کا امام احمد کے بارے میں قول نقل کرتا ہے ۔ قال الكشي : هو من أولاد ذي الثدية جاهل شديد النصب ۔

وہ زی الثتیہ کی اولاد سے ہے ، جاہل، ناصبیت میں شدید ہے ۔ (الصراط المستقیم جلد ۳ صفحہ ۲۲۳)


امام یحیی بن معین رحمة اللہ علیہ


نور الله الحسيني المرعشي التستري اپنی کتاب شرح احقاق الحق میں لکھتا ہے : نور الله الحسيني المرعشي التستري ۔ و كذا الكلام في يحيى بن معين ، فإنه كان أمويا ناصبيا ۔ یہی کلام یحیی بن معین کے لیے ہے ، اور وہ اموی اور ناصبی ہے ۔ (شرح احقاق الحق جلد ۳ صفحہ ۳۹۸،چشتی)


امام ابو داؤد رحمة اللہ علیہ


شیخ باقر المحمودی اپنی کتاب جواہر المطالب کے حاشیہ میں ان کا تعارف کرتے ہوئے لکھتا ہے : و هو عبد الله بن سليمان بن الأشعث الناصبي ۔ اور وہ عبداللہ بن سلیمان بن الاشعث الناصبی ہے ۔ (جواہر المطالب صفحہ نمبر ١۵١)

ۢ

امام ابن حبان رحمة اللہ علیہ


آیت اللہ تقی التستری قاموس الرجال میں لکھتا ہے :  قول ابن حبان الناصبي ۔ 

(قاموس الرجال ج ۹ ص ۲۸۳)


امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ


آیت اللہ علی النمازي الشاهرودي اپنی کتاب المستدرکات میں لکھتا ہے : وكان ناصبيا ۔ وہ ناصبی تھا ۔ (مستدركات علم رجال الحديث ج ۸ ص ۵١۴)


امام ابن حجر الہیثمی رحمة اللہ علیہ


نعمت اللہ جزائری اپنی کتاب نورالبراہین میں لکھتا ہے : و لما نظر ابن حجر الناصبي إلى أن هذا الخبر يستلزم ۔ (نور البراہین ج ۲ ص ١۵۸)


شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ


آیت اللہ تقی تستری اپنی کتاب قاموس الرجال میں ایک راوی کےتحت لکھا ہے : وثقه ابن حجر الناصبي ۔ اس کو توثیق ابن حجر الناصبی نے کی ہے ۔ (قاموس الرجال ج ۹ ص ۲۸٦)


امام ذہبی رحمة اللہ علیہ


نور اللہ شوستری اپنی کتاب صوارم المحرقہ میں ایک جگہ لکھتا ہے : وأما ما نقله عن الذهبي الناصبي ذهب الله بنوره ۔ اور جہاں تک اس کا تعلق ہے جس کہ ذہبی الناصبی سے نقل کیا ہے، اللہ اس کا نور ہٹا دے ۔ (صوارم المحرقہ صفحہ ١۹۸،چشتی)


امام فخر الدین الرازی رحمة اللہ علیہ


شیخ باقر مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں ایک جگہ لکھتا ہے : وأفحش من ذلك ما ذكره الرازي الناصبي حيث قال ۔ اور اس سے بھی بدتر وہ ہے جس کو رازی الناصبی نےذکر کیا جب وہ کہ رہا تھا ۔ (بحار الانوار ج ۳۵ ص ۳۸۴)


امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ


آیت اللہ تقی تستری اپنی کتاب قاموس الرجال میں کہتا ہے : ابن الجوزي هو ” عبد الرحمن بن علي الناصبي “ ۔ ابن جوزی ، اور وہ عبدالرحمٰن بن علی الناصبی ہے ۔ (قاموس الرجال جلد ١١ صفحہ ۵۹۹)


خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ


تقی تستری اپنی کتاب قاموس الرجال میں کہتا ہے : ولا عبرة بقول الخطيب الناصبي ۔ خطیب الناصبی کے قول کو کوئ توجہ نہیں دینی چاہئے ۔ (قاموس الرجال ج ۹ ص ۳۹۰)

اور ایک دوسری جگہ لکھتا ہے : وفي تاريخ بغداد للخطيب الناصبي ۔ اور خطیب الناصبی کی کتاب تاریخ بغداد میں ۔ (قاموس الرجال جلد ۹ صفحہ ۵۵۵،چشتی)


امام حسن بصری ، امام غزالی اور امام سفیان ثوری علیہم الرحمہ


ملا باقر مجلسی اپنی کتاب عین الحیاة میں کہتا ہے : أتقول : انّي تابعت الحسن البصري الملعون في عدّة أحاديث ؟ أو تابعت سفيان الثوري المعادي للامام الصادق ( عليه السلام ) والمعارض له ، وقد ذكرنا بعض أحواله في أوّل هذا الكتاب ؟ أو تعتذر عند الله بمتابعة الغزالي الناصبي يقيناً ۔ میں کہتا ہوں ، کیا تم حسن بصری کی اتباع کرو گے جو کے کئی احادیث میں ملعون قرار دیا گیا ہے ؟ یا پھر سفیان ثوری کی اتباع کرو گے جو کے امام صادق کا دشمن تھا ۔ یا پھر غزالی کی متابعت کرو گے جو کے کھلم کھلا ناصبی تھا ۔


امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے متعلق ایک شیعی روایت کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے : انّ أمير المؤمنين (عليه السلام) قال الحسن البصري : … أما انّ لكلّ قوم سامري وهذا سامريّ هذه الامة ، أما انّه لا يقول لا مساس ولكن يقول لا قتال ۔ حضرت علی ﴿ع﴾ نے حسن بصری سے کہا ؛ ہر قوم کا ایک سامری ہوتا ہے اور یہ اس قوم کا سامری ہے ۔ (عین الحیاة ص ۴۲۲ ، ۴۲۳)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔