Monday, 9 August 2021

حرمتِ متعہ اور شیعہ دلائل کا جواب (2)

 حرمتِ متعہ اور شیعہ دلائل کا جواب (2)


محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس موضوع کا حصّہ اوّل آپ پڑھ چکے ہونگے آئیے اب حصّہ دوم پڑھتے ہیں :


ضروری نوٹ اسلام میں لونڈی کے احکام پر ہم اس سے قبل لکھ چکے ہیں جلد دوبارہ الگ سے اس موضوع پر تفصیل سے لکھیں گے ان شاء اللہ ۔


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر جن عورتوں سے (نکاح کرکے) تم نے مہر کے عوض تمتع کیا ہے (لذت حاصل کی ہے) تو ان عورتوں کو ان کا مہر ادا کردو ۔ (سورہ النساء : 24)


متعہ کے جواز پر شیعہ علماء کے دلائل اور ان کا جواب


مشہور شیعہ مفسر ابو علی فضل بن الحسن الطبرسی من القرن السادس لکھتا ہے :

اس آیت سے مراد نکاح المتعہ ہے اور یہ وہ نکاح ہے جو مہر معین سے مدت معین کےلیے کیا جاتا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘ سدی ‘ ابن سعید اور تابعین کی ایک جماعت سے یہی مروی ہے ‘ اور ہمارے اصحاب امامیہ کا یہی مذہب ہے اور یہی واضح ہے کیونکہ لفظ استمتاع اور تمتع کا لفظی معنی نفع اور لذت حاصل کرنا ہے لیکن عرف شرع میں وہ اس عقد معین کے ساتھ مخصوص ہے ۔ خصوصا جب اس لفظ کی عورتوں کی طرف اضافت ہو اس بناء پر اس آیت کا یہ معنی ہوگا جب تم ان سے متع کرلو تو ان کو اس کی اجرت دے دو ‘ اور اس کو اس کی اجرت دے دو ‘ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماع کے بعد مہر کو واجب نہیں کیا بلکہ متعہ کے بعد مہر کو واجب کیا ہے اور حضرت ابی بن کعب ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی اس طرح قرات کی ہے : فما استمتم بہ منھن الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن ۔

ترجمہ : جب تم نے مدت معین تک ان سے استمتاع (متعہ) کیا تو ان کو ان کی اجرت (مہر) دے دو ۔

اور اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ اس آیت میں آیت میں استمتاع سے مراد عقد متعہ ہے ۔


حکم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ متعہ سے منع نہیں کرتے تو کسی بدبخت کے سوا کوئی زنا نہیں کرتا ‘ اور عطا نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہم نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے عہد اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں متعہ کیا ہے ۔ نیز اس آیت میں لفظ استمتاع سے مراد متعہ ہے نہ کہ جماع اور انتفاع ‘ اس پر دلیل یہ ہے کہ اگر اس آیت کا یہ معنی ہو کہ جن عورتوں سے تم مہر کے عوض لذت حاصل کی یعنی جماع کیا ہے تو ان کو ان کا مہر ادا کردو تو اس سے لازم آئے گا کہ بغیر جماع کے مہر واجب نہ ہو۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ غیر مدخولہ کا بھی نصف مہر واجب ہوتا ہے۔ اس پر مزید تائید یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے عہد میں دو متعہ (متعہ نکاھ اور تمتع بالحج) حلال تھے اور میں ان سے منع کرتا ہوں اور تمتع بالحج بالاتفاق منسوخ نہیں ہے تو پھر تمتع بالنکاح بھی منسوخ نہیں ہوگا۔ (مجمع البیان ج 3 ص ‘ 53۔ 52 مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ‘ ایران ‘ 1411 ھ،چشتی)


شیعہ کے نزدیک متعہ کے فقہی احکام


شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی متوفی 329 ھ روایت کرتا ہے : ابو عمیر کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا انہوں نے کہا تم یوں کہو اے اللہ کی بندی میں اتنے پیسوں کے عوض اتنے دنوں کےلیے تم سے متعہ کرتا ہوں ‘ جب وہ ایام گزر جائیں گے تو اس کو طلاق ہوجائے گی اور اس کی کوئی عدت نہیں ہے ۔ (الفروع من الکافی ج 5 ص 456‘ 455‘ مطبوعہ درالکتب الاسلامیہ تہران ‘ 1326 ھ)


شیعہ محقق ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی متوفی 460 ھ روایت کرتا ہے :

منصور صیقل بیان کرتے ہیں کہ ابوعبد اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا مجوسی (آتش پرست) عورت سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (الاستبصار ج 3 ص 144‘ مطبوعہ دارالاسلامیہ طہران ‘ 1365 ھ)

زرارہ کہتے ہیں کہ ابوعبد اللہ (علیہ السلام) سے پوچھا گیا کہ کیا متعہ صرف چار عورتوں سے کیا جاسکتا ہے ؟ انہوں نے کہا متعہ اجرت کے عوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو ۔ (الاستبصارج 3 ص 147)

عمر بن حنظہ بیان کرتے ہیں کہ متعہ میں فریقین کے درمیان میراث نہیں ہوتی ۔ (الاستبصارج 3 ص 153،چشتی)


شیعہ محققِ اعظم ابو جعفر محمد بن علی بن حسین قمی متوفی 381 ھ لکھتا ہے :

محمد بن نعمان نے ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے پوچھا کم از کم کتنی چیز کے عوض متعہ ہوسکتا ہے انہوں نے کہا دو مٹھی گندم سے ۔ تم اس سے کہو کہ میں تم سے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق متعہ کرتا ہوں تو نکاح ہے زنا نہیں ہے اس شرط پر کہ نہ میں تمہارا وارث ہوں اور نہ تم میری وارث ہو ‘ نہ میں تم سے اولاد کا مطالبہ کروں گا ‘ یہ نکاح ایک مدت متعین تک ہے پھر اگر میں نے چاہا تو میں اس مدت میں اضافہ کر دوں گا اور تم بھی اضافہ کردینا ۔ (من لایحضرہ الفقیہہ ج 3 ص 249‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ تہران ‘ 1361 ھ)


شیعوں کا امام روح اللہ خمینی متعہ کے احکام بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :

(2421) متعہ والی عورت اگرچہ حاملہ ہوجائے خرچ کا حق نہیں رکھتی ۔

(2422) متعہ والی عورت (چار راتوں میں سے ایک رات) ایک بستر پر سونے اور شوہر سے ارث پانے اور شوہر بھی اس کا وارث بننے کا حق نہیں رکھتا ۔

(2423) متعہ والی عورت کو اگرچہ علم نہ ہو کہ وہ اخراجات اور اکٹھا سونے کا حق نہیں رکھتی تب بھی اس کا عقد صحیح ہے اور نہ جاننے کی وجہ سے بھی شوہر پر کوئی حق نہیں رکھتی ۔ (توضیح المسائل اردو ‘ 369‘ 368‘ مطبوعہ سازمان تبلیغات)


شیعیوں کے جواز متعہ پر دلائل کے جوابات


علماء شیعہ نے ” الی اجل مسمی “ کی قرات سے متعہ کے جواز پر جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ قرات شاذہ ہے قرآن مجید کی جو قرات متواتر ہے حتی کہ شیعہ کے قرآن میں بھی جو قرات مذکورہ ہے اس میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں اس لئے قرات متواترہ کے مقابلہ میں اس قرات سے استدلال درست نہیں ہے ۔ اس پر اتفاق ہے کہ جنگ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر جنگ خیبر کے موقعہ پر متعہ کو حرام کردیا گیا ‘ پھر فتح مکہ کے موقع پر تین دن کے لئے متعہ حلال کیا گیا تھا اور اس کے بعد اس کو دائما حرام کردیا گیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما متعہ کے جواز کے قائل تھے لیکن اخیر عمر میں انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا اور جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ نے متعہ کے جواز کا فتوی دیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا میں نے یہ فتوی نہیں دیا میرے نزدیک متعہ خون ‘ مردار اور خنزیر کی طرح حرام ہے اور یہ صرف اضطرار کے وقت حلال ہے ‘ یعنی جب نکاح کرنا ممکن نہ ہو اور انسان کو غلبہ شہوت کی وجہ سے زنا کا خطرہ ہو ‘ لیکن اخیر عمر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس سے بھی رجوع کرلیا اور یہ جو بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں متعہ کیا جاتا تھا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کردیا اس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں تک متعہ کی حرمت نہیں پہنچی تھی وہ متعہ کرتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو تبلیغ کردی تو وہ متعہ سے باز آگئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے متعہ کو حرام نہیں کیا نہ یہ ان کا منصب ہے انہوں نے صرف متعہ کی حرمت بیان کی ہے جیسے اور دیگر احکام شرعیہ بیان کئے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ متعہ سے منع نہ کرتے تو کوئی بدبخت ہی زنا کرتا ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ متعہ کی حرمت کو قرآن اور حدیث سے واضح نہ کرتے اور متعہ کی ممانعت پر سختی سے عمل نہ کراتے تو زنا بالکل ختم ہوجاتا ۔


صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود ‘ حضرت ابن عباس ‘ حضرت جابر ‘ حضرت سلمہ بن اکوع اور حضرت بہرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہم سے اباحت متعہ کے متعلق احادیث ہیں ۔ لیکن کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وطن میں متعہ کی اجازت دی گئی ہو ‘ ان تمام احادیث میں یہ مذکور ہے کہ سفر میں متعہ کی اجازت دی گئی تھی۔ جہاں ان صحابہ کی بیویاں نہیں تھیں جب کہ وہ گرم علاقے تھے اور عورتوں کے بغیر ان کا رہنا مشکل تھا ۔ اس وجہ سے جہاد کے موقعہ پر ضرورتا متعہ کی اجازت دی گئی حضرت ابن ابی عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ تصریح ہے کہ ابتداء اسلام میں ضرورت کی بناء پر متعہ کی اجازت تھی جیسے ضرورت کے وقت مردار کا کھانا مباح ہوتا ہے فتح مکہ کے موقع پر متعہ کو قیامت تک کے لئے حرام کردیا گیا اور حجۃ الوداع کے موقع پر تاکیدا اس تحریم کو دہرایا گیا ہم ان تمام امور پر باحوالہ احادیث پیش کریں گے ۔


شیخ طبرسی نے لکھا ہے کہ اگر اس آیت کا یہ معنی ہو کہ جن عورتوں سے تم نے مہر کے عوض لذت حاصل کی یعنی جماع کیا ہے تو انکا مہر ادا کردو ‘ تو اس سے لازم آئے گا کہ بغیر جماع کے مہر واجب نہ ہو ، حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ غیر مدخولہ کا بھی نصف مہر واجب ہوتا ہے ‘ یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں حصر کا کوئی لفظ نہیں ہے کہ تم صرف اسی عورت کا مہرادا کرو جس سے تم نے جماع کیا ہو ۔


حرمت متعہ پر قرآن مجید سے دلائل


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ وما ملکت ایمانکم ۔ (سورہ النساء : 3)

ترجمہ : جو عورتیں تم کو پسند ہیں ان سے نکاح کرو ‘ دو دو سے تین تین سے اور چار چار سے اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر سکو گے تو صرف ایک نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفاء کرو ۔


یہ آیت سورة نساء سے لی گئی ہے جو مدنی سورت ہے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قضاء شہوت کی صرف دو جائز صورتیں بیان فرمائی ہیں کہ وہ ایک سے چار تک نکاح کرسکتے ہیں ‘ اور اگر ان میں عدل قائم نہ رکھ سکیں تو پھر اپنی باندیوں سے نفسانی خواہش پوری کرسکتے ہیں اور بس ! اگر متعہ بھی قضاء شہوت کی جائز شکل ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا بھی ان دو صورتوں کے ساتھ ذکر فرما دیتا اور اس جگہ متعہ کا بیان نہ کرنا ہی اس بات کا بیان ہے کہ وہ جائز نہیں ہے۔ اوائل اسلام سے لے کر فتح مکہ تک متعہ کی جو شکل معمولی اور مباح تھی اس آیت کے ذریعہ اس کو منسوخ کردیا گیا ۔

شیعہ حضرات کو اگر شبہ ہو کہ اس آیت میں لفظ نکاح متعہ کو بھی شامل ہے لہذا نکاح کے ساتھ متعہ کا جواز بھی ثابت ہوگیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح کی حد صرف چار عورتوں تک ہے اور متعہ میں عورتوں کی تعداد کے لئے کوئی قید نہیں ہے۔ اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ نکاح اور متعہ دو الگ الگ حقیقتیں ہیں نکاح میں عقد دائمی ہوتا ہے اور متعہ میں عقد عارضی ہوتا ہے نکاح میں منکوحات کی تعداد محدود ہے اور متعہ میں ممنوعات کی کوئی حد نہیں۔ نکاح میں نفقہ ‘ سکنی ‘ نسب اور میراث لازم ہوتے ہیں اور ایلاء ظہار ‘ لعان اور طلاق عارض ہوتے ہیں اور متعہ میں ان میں سے کوئی امر لازم نہیں ہے نہ عارض۔ لہذا نکاح اور متعہ دو متضاد حقیقتیں ہیں اور نکاح سے متعہ کا ارادہ غیر معقول ہے ۔


ﺷﯿﻌﻮﻥ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺳﻮﺭﮦ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﺑﺎﻃﻞ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻭ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﻖ ﻣﮩﺮ ﭘﻮﺭﮦ ﺩﮮ ﺩﻭ ۔ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻘﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﮓ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺩﮬﺎ ﻣﮩﺮ ﺩﮮ ﺩﻭ۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻭ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﭘﻮﺭﮦ ﺩﯾﻨﺎ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﻣﺪﺕ ﺗﮏ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮯ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻤﻮﻣﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻧﮑﺎﺡ ۔۔۔۔۔۔ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻋﻤﻮﻣﯽ ﻧﮑﺎﺡ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺧﺎﺹ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﺰ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﻠﮑﻞ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ۔۔۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻔﻖ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﺎﺹ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﻋﻤﻮﻣﯽ ﻃﺮﺡ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺑﺲ ﯾﮧ ﺍﯾﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ

ﺷﯿﻌﮧ ﺑﺲ ﻟﻔﻆ ﺍﺳﺘﻤﺘﻌﺘﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻟﯿﻨﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺧﻮﺍﮦ ﻣﺨﻮﺍﮦ ﺍﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮩﻨﭽﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺍٓﯾﺖ ۲۳ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍٓﭖ ﻧﮑﺎﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ۲۴ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻮ ﺻﺮﻑ ﺷﮩﻮﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮩﯿﻦ ﮨﻮ ﺍﺳﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ

ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺮﺩﯾﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍٓﯾﺖ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﮯ : ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﻳﻮﺏ ﻭﻗﺘﻴﺒﺔ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﻤﻌﻴﻞ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ

ﻣﺤﻴﺮﻳﺰ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﺩﺧﻠﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﺃﺑﻮ ﺻﺮﻣﺔ ﻋﻠﻰ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﺨﺪﺭﻱ ﻓﺴﺄﻟﻪ ﺃﺑﻮ ﺻﺮﻣﺔ ﻓﻘﺎﻝ ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﻫﻞ ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﺍﻟﻌﺰﻝ ﻓﻘﺎﻝ ﻧﻌﻢ ﻏﺰﻭﻧﺎ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻏﺰﻭﺓ ﺑﻠﻤﺼﻄﻠﻖ ﻓﺴﺒﻴﻨﺎ ﻛﺮﺍﺋﻢ ﺍﻟﻌﺮﺏ ﻓﻄﺎﻟﺖ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﺍﻟﻌﺰﺑﺔ ﻭﺭﻏﺒﻨﺎ ﻓﻲ ﺍﻟﻔﺪﺍﺀ ﻓﺄﺭﺩﻧﺎ ﺃﻥ ﻧﺴﺘﻤﺘﻊ ﻭﻧﻌﺰﻝ ﻓﻘﻠﻨﺎ ﻧﻔﻌﻞ ﻭﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻴﻦ ﺃﻇﻬﺮﻧﺎ ﻻ ﻧﺴﺄﻟﻪ ﻓﺴﺄﻟﻨﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﺎﻝ ﻻ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺃﻥ ﻻ ﺗﻔﻌﻠﻮﺍ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ ﻧﺴﻤﺔ ﻫﻲ ﻛﺎﺋﻨﺔ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﺇﻻ ﺳﺘﻜﻮﻥ ۔(چشتی)

ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺳﻌﯿﺪ ﺍﻟﺨﺪﺭﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺑﻨﯽ ﻣﺼﻄﻠﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﻋﻤﺪﮦ ﻋﻮﺭﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻗﯿﺪ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﮐﻮ ﻣﺪﺕ ﺗﮏ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻔﺎﺭ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﻝ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﻔﺢ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻗﺮ ﻋﺰﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺣﻤﻞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻋﺰﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻢ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺟﺲ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﻟﮑﮩﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮔﯽ ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻨﮑﺎﺡ ﺑﺎﺏ ﺣﮑﻢ ﻋﺰﻝ،چشتی)


ﯾﮧ ﻋﺰﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﻆ ﺍﺳﺘﻤﺘﺎﻉ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺟﻨﮓ ﮨﺎﺗﮫ ﺍٓﺋﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻟﻮﻧﮉﯾﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺣﻼﻝ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻊ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﯽ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻧﺴﻞ ﮐﺎ ﭼﻠﻨﺎ ، ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﮐﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﻮﺍﺀ ﺷﮭﻮﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻭﺭﮐﻮﺋﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﺑﻌﯿﺪ ﺍﺯ ﻗﯿﺎﺱ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺻﺮﻑ ﺷﮭﻮﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻤﺘﻌﺘﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺑﻠﮑﻞ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮭﺎﮞ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺻﺮﻑ ﺷﮭﻮﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ۔ ﺃَﻥ ﺗَﺒْﺘَﻐُﻮﺍ ﺑِﺄَﻣْﻮَﺍﻟِﻜُﻢ ﻣُّﺤْﺼِﻨِﻴﻦَ ﻏَﻴْﺮَ ﻣُﺴَﺎﻓِﺤِﻴﻦَ ﻓَﻤَﺎ ﺍﺳْﺘَﻤْﺘَﻌْﺘُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻨْﻬُﻦَّ ﻓَﺂﺗُﻮﻫُﻦَّ ﺃُﺟُﻮﺭَﻫُﻦَّ ﻓَﺮِﻳﻀَﺔً (24 ) ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ (ﻧﮑﺎﺡ ﺳﮯ ) ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻋﻔﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮ ﻧﮧ ﺷﮩﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﺗﻮ ﺟﻦ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﮩﺮ ﺟﻮ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﻭ ۔


ﯾﮩﺎﮞ ﺩﯾﮑﮩﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﺷﮭﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﯾﻌﻨﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﺅ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻘﺼﻮﮦ ﺷﮭﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻣﻄﻠﺐ ﺍﺱ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﺴﻞ ﮐﺎ ﭼﻠﻨﺎ ، ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺍٓﮔﮯ ﺍٓﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔

ﺷﯿﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﺭﮦ ﻧﺴﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﺳﮯ ﭘﮭﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﻟﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ؟؟؟

ﯾﮧ ﺑﻠﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍٓﯾﺖ 23 ﻣﯿﻦ ﮐﻦ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ 24 ﮐﺎ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ ۔

ﺍٓﯾﺖ نمبر 23 میں ہے : ﺣُﺮِّﻣَﺖْ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ﺃُﻣَّﻬَﺎﺗُﻜُﻢْ ﻭَﺑَﻨَﺎﺗُﻜُﻢْ ﻭَﺃَﺧَﻮَﺍﺗُﻜُﻢْ ﻭَﻋَﻤَّﺎﺗُﻜُﻢْ ﻭَﺧَﺎﻟَﺎﺗُﻜُﻢْ ﻭَﺑَﻨَﺎﺕُ ﺍﻟْﺄَﺥِ ﻭَﺑَﻨَﺎﺕُ ﺍﻟْﺄُﺧْﺖِ ﻭَﺃُﻣَّﻬَﺎﺗُﻜُﻢُ ﺍﻟﻠَّﺎﺗِﻲ ﺃَﺭْﺿَﻌْﻨَﻜُﻢْ ﻭَﺃَﺧَﻮَﺍﺗُﻜُﻢ ﻣِّﻦَ ﺍﻟﺮَّﺿَﺎﻋَﺔِ ﻭَﺃُﻣَّﻬَﺎﺕُ

ﻧِﺴَﺎﺋِﻜُﻢْ ﻭَﺭَﺑَﺎﺋِﺒُﻜُﻢُ ﺍﻟﻠَّﺎﺗِﻲ ﻓِﻲ ﺣُﺠُﻮﺭِﻛُﻢ ﻣِّﻦ ﻧِّﺴَﺎﺋِﻜُﻢُ ﺍﻟﻠَّﺎﺗِﻲ ﺩَﺧَﻠْﺘُﻢ ﺑِﻬِﻦَّ ﻓَﺈِﻥ ﻟَّﻢْ ﺗَﻜُﻮﻧُﻮﺍ ﺩَﺧَﻠْﺘُﻢ ﺑِﻬِﻦَّ ﻓَﻠَﺎ ﺟُﻨَﺎﺡَ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ﻭَﺣَﻠَﺎﺋِﻞُ ﺃَﺑْﻨَﺎﺋِﻜُﻢُ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻣِﻦْ ﺃَﺻْﻠَﺎﺑِﻜُﻢْ ﻭَﺃَﻥ ﺗَﺠْﻤَﻌُﻮﺍ ﺑَﻴْﻦَ ﺍﻟْﺄُﺧْﺘَﻴْﻦِ ﺇِﻟَّﺎ ﻣَﺎ ﻗَﺪْ ﺳَﻠَﻒَ ۗ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻛَﺎﻥَ ﻏَﻔُﻮﺭًﺍ ﺭَّﺣِﻴﻤًﺎ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 23)

ترجمہ : تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا اور تمہاری رضاعی (دودھ شریک) بہنیں ‘ اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری ان بیویوں کی بیٹیاں جن سے تم صحبت کرچکے ہو، اور اگر تم نے ان بیویوں سے صحبت نہ کی ہو تو (ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں) تم پر کوئی گناہ نہیں ‘ اور تمہارے نسلی بیٹیوں کی بیویاں اور (تم پر حرم کیا گیا ہے) یہ کہ تم دو بہنوں کو (نکاح میں) جمع کرو مگر جو گزر چکا ‘ بیشک اللہ بہت بخشنے والا ‘ بےحد رحم فرمانے والا ہے ۔


ﻭَﺍﻟْﻤُﺤْﺼَﻨَﺎﺕُ ﻣِﻦَ ﺍﻟﻨِّﺴَﺎﺀِ ﺇِﻟَّﺎ ﻣَﺎ ﻣَﻠَﻜَﺖْ ﺃَﻳْﻤَﺎﻧُﻜُﻢْ ۖ ﻛِﺘَﺎﺏَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ۚ ﻭَﺃُﺣِﻞَّ ﻟَﻜُﻢ ﻣَّﺎ ﻭَﺭَﺍﺀَ

ﺫَٰﻟِﻜُﻢْ ﺃَﻥ ﺗَﺒْﺘَﻐُﻮﺍ ﺑِﺄَﻣْﻮَﺍﻟِﻜُﻢ ﻣُّﺤْﺼِﻨِﻴﻦَ ﻏَﻴْﺮَ ﻣُﺴَﺎﻓِﺤِﻴﻦَ ۚ ﻓَﻤَﺎ ﺍﺳْﺘَﻤْﺘَﻌْﺘُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻨْﻬُﻦَّ ﻓَﺂﺗُﻮﻫُﻦَّ ﺃُﺟُﻮﺭَﻫُﻦَّ ﻓَﺮِﻳﻀَﺔً ۚ ﻭَﻟَﺎ ﺟُﻨَﺎﺡَ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ﻓِﻴﻤَﺎ ﺗَﺮَﺍﺿَﻴْﺘُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻦ ﺑَﻌْﺪِ ﺍﻟْﻔَﺮِﻳﻀَﺔِ ۚ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻛَﺎﻥَ ﻋَﻠِﻴﻤًﺎ ﺣَﻜِﻴﻤًﺎ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 24)

ترجمہ : اور (تم پر حرام کی گئی ہیں) وہ عورتیں تو دوسروں کے نکاح میں ہوں مگر (کافروں کی) جن عورتوں کے تم مالک بن جاؤ‘ یہ حکم تم پر اللہ کا فرض کیا ہوا ہے اور ان کے علاوہ سب عورتیں تم پر حلال کی گئی ہیں ‘ کہ تم اپنے مال (مہر) کے عوض ان کو طلب کرو ‘ درآں حالیکہ تم ان کو قلعہ نکاح کی حفاظت میں لانے والے ہو نہ کہ محض عیاشی کرنے والے ہو ‘ پھر جن عورتوں سے (نکاح کرکے) تم نے مہر کے عوض لذت حاصل کی ہے، تو ان عورتوں کو ان کا مہر ادا کردو ‘ (یہ اللہ کا کیا ہوا) فرض ہے ‘ اور مہر مقرر کرنے کے بعد جس (کمی بیشی) پر تم باہم راضی ہوگئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ بیشک اللہ خوب جاننے والا بہت حکمت والا ہے ۔

ﺍﺏ ﺩﯾﮑھﯿﮟ ﮐﮧ ﺍٓﯾﺖ 23 ﮐﺎ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﺩﻭ ﺑﮭﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﭘﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍٓﯾﺖ 24 ﺷﻮﮨﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﻦ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﺍٓﯾﺖ 24 ﮐﯽ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﺍٓﯾﺖ 23 ﮐﺎ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﮨﮯ ۔ﯾﻌﻨﯽ ﺍٓﯾﺖ 24 ﻭﮨﯽ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﻦ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭَﺃُﺣِﻞَّ ﻟَﻜُﻢ ﻣَّﺎ ﻭَﺭَﺍﺀَ ﺫَٰﻟِﻜُﻢْ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺣﻼﻝ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺃَﻥ ﺗَﺒْﺘَﻐُﻮﺍ ﺑِﺄَﻣْﻮَﺍﻟِﻜُﻢ ﻣُّﺤْﺼِﻨِﻴﻦَ ﻏَﻴْﺮَ ﻣُﺴَﺎﻓِﺤِﻴﻦَ ۚ ﻓَﻤَﺎ ﺍﺳْﺘَﻤْﺘَﻌْﺘُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻨْﻬُﻦَّ ﻓَﺂﺗُﻮﻫُﻦَّ ﺃُﺟُﻮﺭَﻫُﻦَّ ﻓَﺮِﻳﻀَﺔً ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﻋﻔﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮩﻨﺎ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺷﮭﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﺅ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﭘﮭﻠﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﻖ ﻣﮩﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﻭ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺣﻼﻝ ﮨﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﮩﺮ ﮐﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﻻﺯﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﺍٓﭖ ﺍٓﯾﺖ ۲۵ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍٓﯾﺖ ۲۴ ﮐﺎ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﮔﺮ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﻟﻮﻧﮉﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮ ﻟﻮ۔۔۔ﯾﻨﻌﯽ ﺍٓﯾﺖ 24 ﺍﻭﺭ 25 ﮨﯽ اﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺷﻌﯿﮧ ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺱ ﺍٓﺭﺍﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ۔۔ ﺍٓﯾﺖ 25 ﻭَﻣَﻦ ﻟَّﻢْ ﻳَﺴْﺘَﻄِﻊْ ﻣِﻨﻜُﻢْ ﻃَﻮْﻟًﺎ ﺃَﻥ ﻳَﻨﻜِﺢَ ﺍﻟْﻤُﺤْﺼَﻨَﺎﺕِ ﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨَﺎﺕِ ﻓَﻤِﻦ ﻣَّﺎ ﻣَﻠَﻜَﺖْ ﺃَﻳْﻤَﺎﻧُﻜُﻢ ﻣِّﻦ ﻓَﺘَﻴَﺎﺗِﻜُﻢُ ﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨَﺎﺕِ ۚ ﻭَﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﻋْﻠَﻢُ ﺑِﺈِﻳﻤَﺎﻧِﻜُﻤﺎﻭﺭ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﻮﻣﻦ ﺁﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺑﯿﺒﯿﻮﮞ ) ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﻭﺭ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﻮ ﻣﻮﻣﻦ ﻟﻮﻧﮉﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ (ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻟﮯ ) ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﺎ

ﮨﮯ ۔ ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﭘﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﮔﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﮭﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﯽ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ہے ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﺗﻮ ﺍٓﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻧﻔﻘﮧ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﻧﮧ ﻃﻼﻕ ﻭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﻨﺠﮭﭧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺗﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯿﺎ ﺑﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭼﮧ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮐﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﺗﮭﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍٓﺳﺎﻥ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮ ﻟﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﮭﺮ ﮐﻢ ﻟﮕﮯ ﮔﯽ ۔ ﺍﺱ ﺻﺎﻑ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﻄﻠﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ ۔ ﺳﻮﺭﮦ ﻧﺴﺎﺀ ﮐﯽ 24 ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﻭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ۔ ﻟﻔﻆ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﻭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﻣﺤﺼﻨﯿﻨ ﻠﻔﻆ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﮐﯽ ﺍﺻﻄﻼﺣﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﺣﺼﺎﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ۔ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻋﻔﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺼﺎﻥ

ﺗﺐ ﮨﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻋﻘﺪ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮧ ﭼﻨﺪ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﭘﺮ ﻟﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺳﮑﺘﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻋﺎﺭ ﯾﺘﮧ ﺍﻟﻔﺮﺝ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﭘﺮ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮪ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﮧ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﻼﺣظﮧ ﮨﻮﺍﻻﺳﺘﺒﺼﺎﺭ ﻟﺸﯿﺦ ﻃﻮﺳﯽ ﺟﻠﺪ ۳ ﺹ 141ﻓﺄﻣﺎ ﻣﺎ ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﻋﻦ ﻓﻀﺎﻟﺔ ﺑﻦ ﺃﻳﻮﺏ ﻋﻦ ﺃﺑﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻋﻦ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺍﻟﻌﻄﺎﺭ ﻗﺎﻝ : ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻦ ﻋﺎﺭﻳﺔ ﺍﻟﻔﺮﺝ ﻗﺎﻝ : ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻪ ، ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺑﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺷﺮﻣﮕﺎﮦ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﯾﺎ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﺍﺏ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮪ ﭨﮭﯿﮑﮯ ﭘﺮ ﺩﮮ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ؟

ﯾﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ ﺳﻔﺎﺡ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺯﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﭘﺮ ﺯﻧﺎ ﺷﮩﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﻦ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﮐﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﺷﮩﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﺟﯿﺴﺎ ﻟﻔﻆ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺣﻼﻝ ﮨﻮﮞ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺣﺼﺎﻥ (ﯾﻌﻨﯽ ﻋﻘﺪ ﺩﺍﺋﻤﯽ) ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﺻﺮﻑ ﺷﮭﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮧ ﮨﻮ ﯾﮧ ﺑﻠﮑﻞ ﺻﺎﻑ ﺑﯿﺎﻥ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﮈﻧﮉﯼ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﻋﻘﺪ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﭘﺮ ﺩﻻﻟﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔۔۔۔۔۔ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﺩﻭﺳﺮﮦ ﻣﺴﺎﻓﺤﺘﻤﺘﻌﮧ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻠﻖ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺘﯽ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﻣﺮﺩ ﭘﺮ ﺣﻘﻮﻕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﺪﺍﺭﯼ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﮨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺁﭖ ﮨﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﺍﻭﺭ ﺳﻔﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﺳﮯ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﺟﻨﺴﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﻻﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﻟﯿﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺳﻔﺎﺡ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﻟﺬﺕ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻋﺎﺭﯾﺘﮧ ﺍﻟﻔﺮﺝ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﻭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺩﻻﻟﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺯﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼﺣﻀﮧ ﮨﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺷﯿﺦ ﻣﻔﯿﺪ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ،۔ ﻭﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﺼﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺫﻛﺮ ﻟﻠﺼﺎﺩﻕ – ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ – ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﻫﻞ ﻫﻲ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊ؟ ﻓﻘﺎﻝ : ﺗﺰﻭﺝ ﻣﻨﻬﻦ ﺃﻟﻔﺎ. ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻭﮦ ﭼﺎﺭ ﺯﻭﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﻢ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔(چشتی)

ﭘﮭﺮ ﻃﻮﺳﯽ ﺍﻻﺳﺘﺒﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮞﻌﻨﻪ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺭﺋﺎﺏ ﻋﻦ ﺯﺭﺍﺭﺓ ﺑﻦ ﺃﻋﻴﻦ ﻗﺎﻝ : ﻗﻠﺖ ﻣﺎ ﻳﺤﻞ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ؟ ﻗﺎﻝ : ﻛﻢ ﺷﺌﺖ. ﯾﻌﻨﯽ ﺯﺭﺍﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﺘﻨﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﻮ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔

ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﻧﮯ ﺩﯾکھ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍٓﯾﺖ 24 ﮐﮯ ﺿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯﮐﮧ ﮐﮧ ﺯﻭﺟﮧ ﺑﻨﺺ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﺪ ﭼﺎﺭ ﺗﮏ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺯﻭﺟﮧ ﻭﮦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭼﺎﺭ ﻭﺍﻟﯽ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﻟﻐﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﭼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔

ﺷﯿﺦ ﻣﻔﯿﺪ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﺍﻟﻤﺘﻌﮧ ﺹ ۹ ﭘﮧ ﻟﮑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮞﻮﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻗﻮﻟﻮﻳﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ،ﻋﻦ ﺳﻌﺪ، ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ، ﻋﻦ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ،ﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻤﻴﺪ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﻗﺎﻝ : ﻟﻴﺲ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊﻷﻧﻬﺎ ﻻ ﺗﻄﻠﻖ ﻭﻻ ﺗﺮﺙ . ﯾﻌﻨﯽ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﭼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮧ ﺗﻮ ﻃﻼﻕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﯾﮩﺎﮞ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮧ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺷﯿﺦ ﻣﻔﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﺯﻭﺟﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﻮ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﻮ ۔ ﭘﮭﺮ ﻃﻮﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻻﺳﺘﺒﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮞﻤﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﻋﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺍﻷﺷﻌﺮﻱ ﻋﻦ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻷﺯﺩﻱ ﻗﺎﻝ : ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﺃﻫﻲ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊ ؟ ﻗﺎﻝ : ﻻ . ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﯽ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﺎﺭ ﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻋﻦ ﺍﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﻋﻦ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻤﻴﺪ ﺍﻟﻄﺎﺋﻲ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻌﻔﺮ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﻗﺎﻝ : ﻟﻴﺴﺖ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊ ﻷﻧﻬﺎ ﻻ ﺗﻄﻠﻖ ﻭﻻ ﺗﺮﺙ ﻭﻻ ﺗﻮﺭﺙ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻲ ﻣﺴﺘﺄﺟﺮﺓ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻭﺍﺭﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﻼﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺩﯼ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺯﻭﺟﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭨﮭیکہ ﭘﺮ ﻟﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﮯ ۔ ( ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ) ﭘﮭﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺩﻕ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯﻋﻨﻪ ﻋﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻋﻦ ﺳﻌﺪﺍﻥ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﺑﻦ ﺯﺭﺍﺭﺓ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻗﺎﻝ : ﺫﻛﺮ ﻟﻪ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﺃﻫﻲ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊ ؟ ﻗﺎﻝ : ﺗﺰﻭﺝ ﻣﻨﻬﻦ ﺃﻟﻔﺎ ﻓﺈﻧﻬﻦ ﻣﺴﺘﺄﺟﺮﺍﺕ . ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺩﻕ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭼﺎﺭ ( ﯾﻨﻌﯽ ﻣﻨﮑﻮﺣﮧ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺟﻨﮭﯿﮟ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻧﮯ ﺯﻭﺟﮧ ﭨﮭﺮﺍﯾﮧ ﮨﮯ ) ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﻟﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻥ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﭼﺎﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮑﮧ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮦ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺭﻧﮉﯼ ۔


ﺷﯿﻌوں کا ﺳﻮﺍﻝ : ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ‘ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ’ ﺍﻭﺭ ‘ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ’ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﻣﮑﻤﻞ ﭘﻮﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺣﺼﺎﺭﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﻭ ﭘﺎﮐﺪﺍﻣﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻔﺎﺡ ﮐﺎﺭﯼ [ﺯﻧﺎﮐﺎﺭﯼ ﻭ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ] ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮧ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺻﻮﻝ ﻭ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﮐﯽ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺯﻧﺎﮐﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺎﺭﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ، ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺮ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﻣﺮﺩ ﭘﺮ ﻋﺎﺋﺪ ﮨﮯ، ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﺍُﺳﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻋﺪﺕ ﮔﺬﺍﺭ ﮐﺮ ﭘﺎﮎ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮ، ﺍﻭﺭ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﻋﺪﺕ ﮔﺬﺍﺭ ﮐﺮ ﮨﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﯾﺎ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﻐﺮﺽ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﮐﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺪﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﻃﻼﻕ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ

ﮨﮯ ؟

اس سوال کا ﺟﻮﺍﺏ : ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﻌﯿﺪ ﺍﺯ ﻗﯿﺎﺱ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ 5 ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﻟﮯ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ 5 ﺳﮯ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﮯ ۔۔۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ کہہ ﺳﮑﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻭ ﻣﺮﺩ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺳﺘﺒﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﮯ ﺷﺮﻣﮕﺎﮪ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﺘﺎﺟﺮﮦ ﯾﻌﻨﯽ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﺗﺐ ﮐﮩﻼﺋﮯ ﮔﯽ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﻌﮧ ﻋﻔﺖ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﺘﺎ ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﮐﺮﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﻦ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮩﺄﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻋﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﻴﺮ ﻋﻦ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﺍﻟﺒﺨﺘﺮﻱ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻲ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻳﺘﺰﻭﺝ ﺍﻟﺒﻜﺮ ﻣﺘﻌﺔ ﻗﺎﻝ :ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻠﻌﻴﺐ ﻋﻠﻰ ﺃﻫﻠﻬﺎ. ﯾﻌﻨﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﮐﺮﮦ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺪﻧﺎﻣﯽ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﮯ ۔ ﭼﻨﺎﭼﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ،ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻃﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻗﻮﻝ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮨﮯ ، ﻗﺎﻝ : ﻻ ﺗﻤﺘﻊ ﺑﺎﻟﻤﺆﻣﻨﺔ ﻓﺘﺬﻟﻬﺎ ﭘﮭﺮ ﻃﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺑﮭﺮﺣﺎ ﻝ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﻦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻧﯿﮑﯽ ﺑﺪﻥ ﮐﯽ ﻋﻔﺖ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻣﻼﺣﻀﮧ ﮨﻮﮐﺎﻓﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺏ ﻋﻔﺖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞﻤﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ، ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﻋﻦ ﺣﻨﺎﻥ ﺑﻦ ﺳﺪﻳﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ (ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ) : ﺇﻥ ﺃﻓﻀﻞ ﺍﻟﻌﺒﺎﺩﺓ ﻋﻔﺔ ﺍﻟﺒﻄﻦ ﻭﺍﻟﻔﺮﺝ ۔ یعنی ﺳﺐ ﺑﮍﯼ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﯾﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﭘﺮ ﺩﯾﻨﺎ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ﻧﮯ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺯﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﻣﻼﺣﻀﮧ ﮨﻮﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ﺳﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ : ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﯾﮧ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺯﻭﺟﮧ ﻣﻨﮑﻮﺣﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﺟﺮﺕ ﭘﺮ ﺧﺮﯾﺪﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﻤﺎﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ (ﻓﺮﻭﻉ ﮐﺎﻓﯽ) ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﮨﯽ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﻟﺬﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﺮﺍﺙ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﻠﻔﺮﺽ ﺍﮔﺮ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﻭﺍﺭﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ۔۔۔۔ ﻣﺘﻌﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﮯ ﻋﻼﻧﯿﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﯿﺎ ﺷﺮﻡ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﺩﺍﻏﺪﺍﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺷﯿﻌﮧ ﺑﺘﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺘﻨﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﺑﮍﮮ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﺜﺎﻝ ۔ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺟﻮ ﻣﺘﻌﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮐﮑﭩﺎ ﺍﭨﮭﮯ ﮔﺎﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺯﻧﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ۔۔۔۔ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﮔﺮ ﺑﻘﻮﻝ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﻭﺍﻟﯽ ﺷﺮﻋﯽ ﺷﺮﻃﯿﮟ ﻻﺯﻣﻦ ﮨﻮﻧﮯ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﮨﻮﻧﮯ ﭼﺎﮨﺌﮯ ۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ، ﮔﻮﺍﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻻﺯﻣﻦ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ، ﻣﯿﺮﺍﺙ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﮨﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺩیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﯾﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻃﻼﻕ ﺧﻮﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺎ ﮐﺎ ﻣﻮﺍﺯﻧﮧ ﮐﺮ لیں زﻧﺎ ۔۔۔۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺯﺍﻧﯿﮧ ﮐﻮ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻌﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ، ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺯﻧﺎ ﻣﯿﮟ تنہاﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔ ﺯﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﻮ ﺯﻧﺎ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔ ﺯﻧﺎ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﻟﺬﺕ ﮐﮯلیے ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺯﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﻘﺮﺭ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ علیحدﮔﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﻼﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﺯﺍﻧﯿﮧ ﻭﺍﺭﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ، ﻧﮧ ﮨﯽ ﻧﺎﻥ ﻧﻔﻘﮧ ﺯﺍﻧﯽ ﮐﮯ ذﻣﮧ ﮨﮯ ۔ ﺍﺏ آﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﻟﻔﻆ ﺯﻧﺎ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮟ ﺑﻠﮑﻞ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﻓﺮﻕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺯﻧﺎ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺳﮯ متعہ ۔ بالکل ﯾﮩﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﻠﮑﻞ ﻭﺍﺿﻊ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ایک ایسی ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﻔﺎﺡ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﻧﮯ ﻟﻔﻆ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﮐﺮﺩﯼ ﮨﮯ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...