Thursday 12 August 2021

پیشہ ور نعت خواں و خطیب

0 comments

 پیشہ ور نعت خواں و خطیب

محترم قارئینِ کرام : دو سال قبل فقیر  نے اس موضوع پر لکھا تھا اب مزید اضافہ کے ساتھ پیشِ خدمت ہے ۔ آخرت کے نام پر جب دنیا کمائی جائے گی تو تاثیر نہ رہے گی ۔ یہ ہلاکت ہمارے عقیدے میں زیادہ ہے کہ جس کو دیکھو کوئی بھی دین کا علمبردار پیسے لیے بغیر تقریر کرنے اور نعت پڑھنے کو تیار نہیں ، دین کا علم دینے کو تیار نہیں (الا ما شاء اللہ) ۔ ان سے دین کی بات سننی سمجھنی ہو تو پہلے ایکٹروں اور ناچ گانے والوں کی طرح ریٹ طے ہوتے ہیں ۔


میرے ذاتی مشاہدہ میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں ۔ دین کے ان علمبرداروں نے باقاعدہ سیکرٹری رکھے ہوئے ہیں جو ایڈوانس روپۓ لینے کے بعد ’’حضرت صاحب‘‘ کا وقت دیتے ہیں جن میں ان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ سروں پر عمامے باندھے ہوئے ہیں ، گلے میں رنگ برنگے پٹے ہیں ، عربی جبے پہنتے ہیں اور فیشن ایبل سوٹ ہیں ، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور دین کا نام لیتے ہیں ، پیر ، علماء اور نعت خوان کہلاتے ہیں ، مگر ٹکے ٹکے کے ساتھ خطبہ جمعہ اور دین کی تقریریں بیچتے اور اسٹیجوں پر ایکٹنگ و ڈانس کرتے ہوۓ ان لوگوں کو شرم نہیں آتی ۔ اگر دین کا نام لینے والوں کا عمل یہ ہو گا تو پھر لوگ انہیں بلائیں گے یا گلوکاروں کو بلائیں گے ۔ گانے والوں اور ان کے درمیان کیا فرق رہ گیا ۔ اس نے گانا سنانے سے پہلے پیسے طے کئے اور تم نے قرآن و سنت اور نعت شریف سنانا تھا ، مگر پہلے ریٹ طے کر رہے ہو ۔ افسوس ! یہ وبا ہمارے مسلک اہل سنت و جماعت میں زیادہ پھیلی ہے ۔ دوسرے مسالک کے لوگ بھی لیتے ہوں گے لیکن شاید اتنا نیچے نہیں گرے ہوں گے اب تو دوسرے مسالک کے لوگ بھی اہلسنت کا لبادہ اوڑھے نعت کے نام پر یہ فیشن اپناۓ ہوۓ ہیں ۔ پردہ داری میں لیتے ہوں گے ۔ افسوس ہم لوگ تو منگتے بن گئے ہیں ۔ ریٹ طے کرتے ہیں ۔ جتنا بڑا نعت خواں ہے پہلے ریٹ طے کرتا ہے ، پھر نعتیں سنا کر عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتا ہے ۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ۔


یہ کون سا عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سنانے کےلیے تم ایک گھنٹے دو گھنٹے  کے ہزاروں ، لاکھوں روپے لیتے ہو ۔ مرنے کے بعد ان سطحی اعمال کی حیثیت معلوم ہوگی جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ سامنے ہو گا ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں گے کہ بدبخت میری نعت سنانے اور میرے دین کو پھیلانے کے لئے لوگوں سے پیسے مانگتا تھا ۔ افسوس! ہمارے مسلک میں اس عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلقین ہو رہی ہے۔ حتی کہ قرآن کی قرات کے ریٹ بھی لگتے ہیں ۔ کیا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہی تلقین کی تھی ؟ کیا صحابہ کرام کا طرزِ عمل یہ تھا ؟ تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم کا یہ طریق تھا ؟ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں ۔ اس وجہ سے ہمارے اندر سے برکتیں اٹھ گئی ہیں ۔ ہم نے لباس کے ڈھونگ رچا رکھے ہیں۔ پٹکے دوہرے کر کے گلے میں ڈال لیے ہیں ۔ داڑھیاں لمبی رکھ لیتے ہیں ۔ ان بڑی سائز کی داڑھیوں سے کیا ملے گا کہ داڑھی کا دکھلاوا بھی پیسے کا ریٹ بنانے کے لیے ہے ۔ اس گلے سے کیا لو گے جو فری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت نہیں پڑھتا ۔ اس تقریر سے کیا لو گے جو پیسے لیے بغیر نہیں ہوتی ۔


وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا


حتی کہ تقریریں کرنے والوں ، نعت پڑھنے والوں نے سیکرٹری اور مینیجر رکھے ہوئے ہیں ۔ جن کے پردے میں یہ اپنے مالی معاملات طے کرتے ہیں ۔ سیکرٹری کے کنفرم کرنے کے بعد ’’صاحب بہادر‘‘ اللہ اور اس کے رسول کے نام کی اشاعت کے لئے چلتے ہیں ۔ کیا یہ اولیاء و صوفیاء کی پیروکاری ہے ؟ کیا یہ اللہ والوں کا طرز عمل ہے ؟ اس چیز نے مسلک کو برباد کر دیا ہے اور نوجوان نسلوں کو بیزار کر دیا ہے ۔ وہ عقیدے چھوڑ کر جا رہے ہیں اور ہم کبھی غور نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جس کا نام لو وہی دین کا سوداگر ہے ۔ ان حالات میں قوم اور نوجوان نسل کو دین کی حقیقی تعلیم کی طرف متوجہ کرنا ہوگا ۔ (چشتی)


جن کا دعویٰ یہ تھا کہ ہمیں دنیا سے کیا مطلب دعوتِ دین ہے مشن اپنا ۔ اللہ نے کسی کو مال و و زر تو ہمیں علم وفقہ بخشا ، ہمارا شغل ہے شب و روز تعلیم و  تعلم کا ۔ نہیں مقصد ہمارا کسب دولت دین و ملت سے ، لگانا ہے رفاہ عام میں یہ علم و فن اپنا ۔


لیکن‌ حقیقت یہ ہے کہ آج دین کے نام پہ کیا جانے والا عمل صرف اور صرف حصول مال و زر اور اور حصول جاہ و منصب کےلیے ہونے لگا ہے ۔ وہ تقریر کرتے ہیں ، تحریک چلاتے ہیں یا تبلیغ و ارشاد کا کام کرتے ہیں ، حتی کہ وہ بیعت بھی کرتے ہیں تو پیسوں کے لیے ۔إلاماشاءالله ۔


مقصود ہے اس بزم میں اصلاحِ مفاسد

نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن‌ نہیں ہوتا


اگر میں غلط ہوں تو معذرت خواہ ہوں ، لیکن حقیقت حال اگر میرے شک کو یقینی بناتی ہے تو سب سے پہلے اصلاح ان کی ہی ہونی چاہیے ۔ اور یہ اعلان ہونا چاہیے کہ ائمۂ مساجد اور دین و ملت کا درد رکھنے والے علمائے کرام ان پیشہ ور نعت خوانوں جن میں اب اکثر بدمذھب و گویے مراثی شامل ہو گۓ ہیں اور جاہل پیروں کو ہرگز ہرگز دعوت نہ دیں جو عام مسلمانوں کا استحصال کرتے ہیں ۔ لیکن ایسا اعلان نہیں ہوتا ۔ کیا ایسا ہونا ممکن بھی ہے ؟ کہ سنی مسلمان ایسا کریں اور ہماری آنکھیں یہ دیکھیں ۔


جب قرآن و سنّت کی روشنی میں یہ سچ ہے کہ پیشگی رقم لے کر یا رقم کی ڈیمانڈ کے ساتھ مقرروں اور نعت خوانوں کا جلسہ کرنا اور پیروں کا مشرق و مغرب کا پیٹ پرور دورہ کرنا اور ان سب کا گروپ در گروپ اشتہار چلانا تاکہ زیادہ سے زیادہ قوم کو اپنے پالے میں لایا جاسکے ۔ آخر یہ سب دنیاوی مفاد کے کام بھی تو ناجائز وحرام ہیں پھر اعلان یہ بھی ہونا چاہیے کہ جلسہ کرانے والے ، تیجہ ، چالیسواں وغیرہ کا اہتمام کرنے والے ائمۂ مساجد ہوں کہ علمائے کرام ، ان مقررین و نعت خواں اور پیرانِ طریقت کا یک لخت بائیکاٹ کریں جن کی نظر عوام کی جیب پہ ہوتی ہے ، اور اصلاح معاشرہ کے نام پر وہ لوگوں کو لوٹتے ہیں ۔ جبکہ بہت ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کیا جائے اور عوام ان جلسوں میں نہ جائیں جہاں اس طرح کے دنیا دار مبلغ اور نام نہاد پیر تشریف لاتے ہوں ۔


 موجودہ حالات اور ان دنیادار مبلغین کے بارے میں نبی کرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشادِ پاک پڑھیں : عن عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ منْ عِنْدَهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ. كما أورده ابن عدي في الكامل 4/227، وغيرهما ۔ (شعب الإيمان جلد نمبر ١ صفحہ نمبر 317،چشتی)

ترجمہ : حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ کہ لوگوں پہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ حقیقی اسلام (لوگوں میں) باقی نہیں ہوگا مگر صرف اس کا نام ہوگا ۔ اور قرآن میں سے بھی کچھ باقی نہیں رہے گا (یعنی مقصد قرآن جو سمجھنا اور عمل کرنا تھا) بلکہ صرف اس کا رسم الخط باقی رہے گا ۔ (یعنی رسم الخط دیکھ کر صرف پڑھنا ہے ، نہ سمجھنا ہے اور نہ ہی عمل کرنا ہے) ۔ مسجد یں آباد ہوں گی ۔ مگر ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے سب سے زیادہ برے لوگ ہوں گے ۔ انہیں سے فتنے اٹھیں گے اور انہیں کی طرف لوٹیں گے ۔


ابن عدی نے الکامل جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر ٢٢٧ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ زیادہ کیا ہے : السنة فیھم بدعة والبدعة فیھم سنة ۔ یعنی سنت کو بدعت کی طرح لوگ چھوڑیں گے اور بدعت کو سنت کی طرح اصرار کے ساتھ عمل کریں گے ۔


الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ کچھ اور ائمہ حدیث نے اس کی روایت کی ہے جبکہ کچھ محدثین نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔ تاہم مفہوم کے اعتبار سے یہ حدیث موجودہ زمانے کے اکثر علمائے ، پیرانِ عظام اور نعت خوان حضرات پر منطبق ہوتی ہے کہ ان کی زندگیاں زہد و تقوی سے خالی ہیں ، ان کے زبان و قلم سے فتنہ و فساد ہی پیدا ہوتے ہیں ، اور وہ سنتوں کے تارک ہیں ۔ بدعتوں اور فسق و فجور پہ ان کا اصرار ہوتا ہے -


دیلمی نے اپنی مسند میں اور ابن حجر عسقلانی نے مسند الفردوس میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے : يأتی علی الناس زمان ھمهم بطونھم، شرفھم متاعھم، قبلتھم نساؤھم، ودینھم دراھمهم ۔

ترجمہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب ان کی زندگی کا اہم مقصد شکم پروری ہوگا ۔ ان کے نزدیک شرف وبزرگی دنیا کی دولت ہوگی ۔ ان کی بیویاں ان کی آقا ہوں گی ۔ اور ان کا مذہب درہم و دینار ہوگا ۔


 یعنی روپے کے عوض میں نیکیاں بیچیں گے ۔ ہمارے اندریہ بیماریاں آچکی ہیں ۔ قریب قریب علماء ، پیر و گدی نشین اور نعت خوان اس مرض میں مبتلا ہیں ۔ إلاماشاء الله!)


کیا یہ ممکن ہے کہ خالص دنیا دار مقرر ، نعت خوان اور  پیرانِ طریقت کا بائیکاٹ کیا جائے ؟  اور ایسے لوگوں کے جلسوں کے اشتہار کو بھی گروپ یا کہیں بھی شیر نہ کیا جائے ؟ اور اپنی محافل میں نہ بلایا جاۓ ۔ کیا ایسا ہوگا شاید بہت مشکل ہے ، لیکن ایسا ہونا چاہیے کہ یہی اسلام کا تقاضا ہے ۔


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : زید نے جو اپنی مجلس خوانی خُصوصاً را گ سے پڑھنے کی اُجرت مقرّر کر رکھی ہے ناجائز وحرام ہے اس کا لینا اسے ہر گز جائز نہیں ، اس کا کھاناصَراحۃً حرام کھانا ہے  ۔ اس پر واجِب ہے کہ جن جن سے فیس لی ہے یاد کرکے سب کو واپَس دے ، وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارِثوں کو پھیرے ، پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پر تصدُّق کرے اور آیَندہ اس حرام خوری سے توبہ کرے تو گناہ سے پاک ہو ۔ اول تو سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر ِپاک خود عمدہ طاعات واَجَلّ عبادات سے ہے اور طاعت وعبادت پر فیس لینی حرام  ۔ ۔ ۔ ۔  ۔  ثانِیاً بیانِ سائل سے ظاہر کہ وہ اپنی شعِر خوانی وزَمْزَمہ سَنْجی (یعنی راگ اور تَرَنُّم سے پڑھنے) کی فیس لیتا ہے یہ بھی محض حرام ۔ فتاوٰی عالمگیری میں ہے  :  گانا اور اشعار پڑھنا ایسے اعمال ہیں کہ ان میں کسی پر اُجرت لینا جائز نہیں  ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۷۲۴ ۔  ۷۲۵ رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)


جو نعت خوان و مقرر طۓ کر کے T.V. یا محفلِ نعت میں نعت شریف پڑھنے یا بیان کرنے کی فیس وُصول کرتے ہیں اُن کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہا ، اہلسنّت کے امام ، ولیٔ کامِل اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عاشقِ صادِق کا فتویٰ جو کہ یقینا حکمِ شریعت پر مَبنی ہے ، وہ آپ تک پہنچانے کی جَسارت کی ہے ، حبِّ جاہ و مال کے باعث طیش میں آکر ، تِیُوری چڑھا کر ، بل کھا کر الٹی سیدھی زبان چلا کر عُلَمائے اہلسنّت کی مخالَفت کرنے سے جو حرام ہے ، وہ حلال ہونے سے رہا ، بلکہ یہ تو آخِرت کی تباہی کا مزید سامان ہے ۔


ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ بات آئے کہ یہ فتویٰ تو اُن کیلئے ہے جو پہلے سے طے کر لیتے ہیں ، ہم تو طے نہیں کرتے ، جو کچھ ملتا ہے وہ تبرُّکاً لے لیتے ہیں ، اس لئے ہمارے لئے جائز ہے ۔ اُن کی خدمت میں سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا ایک اور فتویٰ حاضِر ہے ، سمجھ میں نہ آئے تو تین بار پڑھ لیجئے : تلاوتِ قراٰنِ عظیم بغرضِ ایصالِ ثواب وذِکر شریف میلادِ پاک حُضُور سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ضَر ور مِنْجملہ عبادات وطاعت ہیں تو ان پر اِجارہ بھی ضَرور حرام ومَحْذُور(یعنی ناجائز) ۔ اور اِجارہ جس طرح صَریح عَقْدِ زَبان (یعنی واضِح قول و قرار) سے ہوتا ہے ، عُرفاًشَرْطِ مَعْرُوف ومَعْہُود (یعنی رائج شدہ انداز) سے بھی ہوجاتا ہے مَثَلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دیناہوگا (اور) وہ (پڑھنے والے بھی) سمجھ رہے ہیں کہ ’’کچھ ‘‘ ملے گا ، اُنہوں نے اس طور پر پڑھا ، اِنہوں نے اس نیَّت سے پڑھوایا ، اجارہ ہوگیا ، اور اب دو وجہ سے حرام ہوا ، (۱) ایک تو طاعت (یعنی عبادت) پر اِجارہ یہ خود حرام ، (۲) دوسرے اُجرت اگر عُرفاً مُعَیَّن نہیں تو اس کی جَہالت سے اجارہ فاسِد ، یہ دوسرا حرام ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۹ص ۴۸۶ ، ۴۸۷،چشتی) ۔ لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوں گے ۔ (فتاوٰی رضویہ ص۴۹۵) 


 اِس مبارَک فتوے سے روزِ روشن کی طرح ظاہِر ہو گیا کہ صاف لفظوں میں طے نہ بھی ہو تب بھی جہاں UNDERSTOOD ہو کہ چل کرمحفل میں قراٰنِ پاک ، آیتِ کریمہ ، دُرُود شریف یا نعت شریف  پڑھتے ہیں ، کچھ نہ کچھ ملے گا رقم نہ سہی’’ سوٹ پیس‘‘ وغیرہ کا تحفہ ہی مل جائے گا اور بانیِ محفل بھی جانتا ہے کہ پڑھنے والے کو کچھ نہ کچھ دینا ہی ہے ۔  بس ناجائز و حرام ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ یہ ’’ اُجرت ‘‘ ہی ہے اور فَریقَین (یعنی دینے اور لینے والے ) دونوں گنہگار ۔

 

سوال :  بے نمازی مسلمان کے گھر میلاد شریف کی محفل میں شریک ہونا یا پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب : مجلس میلاد شریف نیک کام ہے اور نیک کام میں شرکت بری نہیں ، ہاں اگر اس کی تنبیہہ کیلئے اس سے میل جول یک لخت چھوڑ دیا ہو تونہ شریک ہوں یہی بہتر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر23صفحہ736،چشتی)

اس فتوی میں’’بے نمازی‘‘ کوسبق سکھانے کے لئے اُس سے میل جول چھوڑنے کا حُکم دیا جا رہا ہے کیونکہ بے نمازی میلادی کا ’’میلاد‘‘ منانے کا حق نہیں بنتا ۔


بے نمازی ، داڑھی کتروانے یا منڈوانے والے سے نعت نہیں پڑھوانی چاہئے اور نہ ہی منبر رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اس کو بٹھانا چاہئے بلکہ اس کی توہین کرنی چاہئے ۔


سوال : مخالفِ شرع مثلاََ ڈاڑھی کترواتا یا منڈواتا ہو ، تارکِ صلوۃ ہو اس سے میلاد (نعت) پڑھوانا کیسا ہے ؟

جواب ارشاد فرمایا : افعال مذکورہ سخت کبائر ہیں اور ان کا مرتکب اشد فاسق و فاجر مستحق عذاب یزداں و غضب رحمن اور دنیا میں مستوجب ہزاراں ذلت و ہوان ، خوش آوازی خواہ کسی علتِ نفسانی کے باعث اسے منبر و مسند پر کہ حقیقتہََ مسندِ حضور پُر نور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے تعظیماََ بٹھانا اس سے مجلس مبارک پڑھو انا حرام ہے ، فاسق (گندے) کو آگے کرنے میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ بوجہ فسق (گناہ) لوگوں پر شرعاََ اس کی توہین (ذلیل) کرنا واجب اور ضرور ی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 734)

اس شرط پر بھی عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ عوام معروف نعت خوانوں کی آواز پر جھومتی ہے اور کسی کو اُس کی نماز یا داڑھی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا سینکڑوں ، ہزاروں ایسے نعت خوان ہیں جنہوں نے داڑھی نہیں رکھی ہوئی ، کیا کوئی ان معزز ہستیوں کو ذلیل کرنے کا سوچ سکتا ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ میں لکھا ہے ۔


پیسے لینے والے نعت خواں کو اور کھانے کا لالچ دے کر میلاد کرانے کا ثواب نہیں ہوتا


سوال : میلاد شریف جس کے یہاں ہو وہ پڑھنے والے کی دعوت کرے تو پڑھنے والے کو (کھانا) چاہئے یا نہیں ؟ اور اگر کھایا تو پڑھنے والے کو کچھ ثواب ملے گا یا نہیں ؟

 آپ نے فرمایا : پڑھنے کے عوض کھانا کھلاتا ہے تو یہ کھانا نہ کھلانا چاہئے ، نہ کھانا چاہئے اور اگر کھائے گا تو یہی کھانا اس کا ثواب ہو گیا اور ثواب کیا چاہتا ہے بلکہ جاہلوں میں جو یہ دستور ہے کہ پڑھنے والوں کو عام حصوں سے دونا دیتے ہیں اور بعض احمق پڑھنے والے اگر ان کو اوروں سے دو نانہ دیا جائے تو اس پر جھگڑتے ہیں یہ زیادہ لینا دینا بھی منع ہے اور یہی اس کا ثواب ہوگیا ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر21صفحہ نمبر662،چشتی)


اس فتوی پر عمل کرتے ہوئے اگر ’’لنگر کا وسیع انتظام ہے‘‘ نہ لکھا جائے ، عُمرے کے ٹکٹ نہ رکھے جائیں ، نعت خوانوں کو پیسے نہ دئے جائیں (دینے کے انداز پر بھی اعتراض ہے) تو ’’میلاد‘‘ کیسے ہو گا جس کا مطلب ہے کہ کھانا ، عُمرے کے ٹکٹ وغیرہ نہ ہوں تو عوام کو میلاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔


نعت خواں اکثر نعتیں کفریہ پڑھتے ہیں جس پر گناہ ہوتا ہے ثواب نہیں


سوال : منکراتِ شرعیہ پر مشتمل میلاد کیسا ہے ؟

جواب : وہ پڑھناسننا جو منکراتِ شرعیہ پر مشتمل ہو ، ناجائز ہے جیسے روایات باطلہ و حکایاتِ موضوعہ و اشعار خلاف شرع خصوصاََ جن میں توہینِ انبیاء و ملائکہ علیھم الصلٰوۃ و السلام ہو کہ آجکل کے جاہل نعت گویوں کے کلام میں یہ بلائے عظیم بکثرت ہے حالانکہ وہ صریح کلمہ کفر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر23صفحہ722،چشتی)


اس لیے نعت کے رُوپ میں کُفر بھی بَک کر گناہ کمایا جا رہا ہے اورعوام کےلیے یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کونسی نعت کے اشعار کُفر پر مبنی ہیں کیونکہ عوام حقیقی اور مجازی معنوں کو نہیں سمجھتی اوربہت سی جگہوں پر علماء کرام موجود ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی زیادہ ترعوام نے علماء کرام سے پوچھنا ہوتا ہے ۔


بے نمازی کا وظیفہ (درود ، کلمہ ، میلاد نعت خوانی) اس کے منہ پر ماراجائے گا


سوال : ایک شخص وظیفہ پڑھتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا ہے یہ جائز ہے یا نا جائز ؟

جواب ارشاد فرمایا : جو وظیفہ پڑھے اور نماز نہ پڑھے فاسق و فاجر مرتکب کبائر ہے اُس کا وظیفہ اس کے منہ پر مارا جائے گا ، ایسوں ہی کو حدیث میں فرمایا ہے ، بہتیرے قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن انہیں لعنت کرتا ہے و العیاذ باللہ ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 223)


اللہ عزّوجلّ ہمیں توہین شریعت اور شریعت کی توہین کرنے والوں کے شر و فتنہ سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔