Thursday, 26 August 2021

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض پیٹ نہ بھرے کا جواب

 حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض پیٹ نہ بھرے کا جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : رافضی ، ان کے ہمنوا نیم رافضی اور مرزا جہلمی اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بددعا دی‘ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث لاتے ہیں کہ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بلاٶ ‘ میں بلانے گیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے ۔ میں نے عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کھا رہے ہیں تو فرمایا ان کا پیٹ نہ بھرے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا بھی قبول ہے اور خلاف دعا بھی چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے خلاف دعا کی ۔


جواب : پہلے مکمل حدیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں وہ یہ ہے : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ ۔

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ : میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لے آئے ، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا ، کہا : آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی (مقصود پیار کا اظہار تھا) اور فرمایا : جاؤ ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ ۔  میں نے آپ سے آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا : جاؤ ، معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے پھر آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ، تو آپ نے فرمایا : اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 6628)


اس حدیث کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعمی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :


(1) ۔ ظاہر یہ ہے کہ عہد سے مراد دعا ہے اور یہ کلام اخبار نہیں بلکہ انشاء ہے یعنی اے مولیٰ میں تجھ سے دعا کرتا ہوں مجھے یقین ہے کہ تو میری دعا رد نہ فرمائے گا کیونکہ نبی کی دعا رد نہیں ہوتی ان کی دعا مثل عہدِ الٰہی کے ہے جس کے خلاف کا احتمال نہیں مرقات ۔


(2) ۔ یعنی چونکہ تو نے مجھ میں بشریت بھی ودیعت رکھی ہے اور بشریت کے لیے غصہ بھی لازم ہے اگر میں کسی وقت غصہ میں کسی کو زبانی یا بدنی تکلیف پہنچادوں تو تو میری بددعا یا میری مار کو اس شخص کے لیے رحمت بنادینا میری بددعا کو الٹی کرکے لگانا اس فرمان پاک سے دو مسئلے معلوم ہوئے : ایک یہ کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بددعاؤں کو جو کسی امتی کے لیے ہوجائیں خود دعا بنادیا کہ عرض کیا خدایا وہ بددعائیں میری قبول نہ فرما بلکہ ان کے برعکس کر دے ، دوسرے یہ کہ نبی اگر کسی پر بلا وجہ سختی فرمادیں برا کہہ دیں ، مار دیں تو ان پر قصاص نہیں ۔ دیکھو موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کی داڑھی بھی پکڑ لی اور بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا بھی مگر قصاص نہیں دیا ۔ تیسرے یہ کہ حضرت امیر معاویہ کو حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ﷲ ان کا پیٹ نہ بھرے یہ بددعا یقینًا ان کو دعا ہو کر لگی کہ غریب تھے پھر اتنے بڑے مالدار ہوئے کہ اما حسن و حسین علیہما السلام اور حضرت علی کے بھائی عقیل کو لاکھوں روپے نذرانے دیتے رہتے تھے دیکھو ہماری کتاب امیر معاویہ ۔ خیال رہے کہ ان تمام سے وہ بد دعائیں و سزائیں مراد ہیں جو غیر مستحق کو دی جائیں اور ممکن ہے کہ عام بد دعائیں و سزائیں مراد ہوں ، مستحق کو دی جائیں یا غیر مستحق کو بشرطیکہ وہ مسلمان ہوں (اشعة المعات) یہاں مرقات نے فرمایا کہ ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ نے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی چیز بہت اصرار سے مانگی اور سرکار کا دامن پیچھے سے پکڑ کر کھینچا کہ مجھے وہ چیز دے کر جائیے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منہ سے نکلا کہ تمہارے ہاتھ ٹو ٹ جائیں حضرت ام المؤمنین غمگین بیٹھ گئیں ، تب حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دعا مانگی بعض سے فرمادیا عقرٰی حلقٰی بعض کو فرمایا رغم انف ابی ذر ۔ (مراة شرح مشکواة جلد نمبر 8 حدیث نمبر 2224)


اعتراض کرنے والے نے اس حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی‘ کم از کم اتنی ہی بات سمجھ لی ہوتی کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گالیاں دینے والوں کو معاف کر دیتے وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کیوں دعا کرتے ۔


دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ سے یہ کہا بھی نہیں کہ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا رہے ہیں ۔ صرف دیکھ کر خاموش واپس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقعہ عرض کیا ۔


تیسری بات یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کا نہ کوئی قصور تھا نہ کوئی خطا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے خلاف دعا کریں ‘ یہ ناممکن ہے ۔


عرب میں محاورۃ اس قسم کے الفاظ پیار و محبت کے موقع پر بھی بولے جاتے ہیں ان سے بد دعا مقصود نہیں ہوتی ۔


مثلاً : تیرا پیٹ نہ بھرے ‘ تجھے تیری ماں روئے ‘ وغیرہ کلمات غضب کےلیے نہیں بلکہ کرم کےلیے ارشاد ہوئے ہیں اور اگر مان بھی لیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کےلیے یہ کلمات ارشاد فرماۓ تو یہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے حق میں رحمت بنی‘ ﷲ تعالیٰ نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو اتنا بھرا اور اتنا مال دیا کہ انہوں نے سینکڑوں کا پیٹ بھر دیا ۔ ایک ایک شخص کو بات بات پر لاکھوں لاکھوں انعام دیتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے عہد لیا تھا کہ اے ﷲ تعالیٰ اگر میں کسی مسلمان کو بلاوجہ لعنت یا اس کے خلاف دعا کروں تو اسے رحمت اجر اور پاکی کا ذریعہ بنا دینا ۔


اس روایت میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں(اللہ اس کے پیٹ کو نہ بھرے) اس سے کچھ ہواء پرست لوگ یہ دلیل لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ الفاظ معاویہ کی مذمت اور ان کے بد دعا ہے ۔ حالانکہ حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ الفاظ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ امام مسلم رحمة اللہ علیہ بھی اس حدیث سے فضلِ معاویہ سمجھے ہیں تبھی تو اس روایت کو ان احادیث کے ساتھ لائے ہیں جن کے الفاظ ہیں ۔

اللَّهُمَّ إنَّما أنا بَشَرٌ، فأيُّما رَجُلٍ مِنَ المُسْلِمِينَ سَبَبْتُهُ، أوْ لَعَنْتُهُ، أوْ جَلَدْتُهُ، فاجْعَلْها له زَكاةً ورَحْمَةً. وفي روايةٍ: عَنِ النبيِّ ﷺ، مِثْلَهُ، إلّا أنَّ فيه زَكاةً وأَجْرًا ۔ (صحيح مسلم2601)

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ میں انسان ہوں جس بھی مسلمان شخص کومیں نےبرا بھلا بولا ؛ یا اس پر لعنت کی یا اسے سزا دی تو اس کو اس کے لئے گناہوں سے کفارہ اور رحمت بنا دے ایک روایت میں ہے کہ اس کے لیے اجر بنا دے ۔


اسی طرح یہ واقعہ بھی مسلم شریف میں اسی ضمن میں موجود ہے : قال حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ كَانَتْ عِنْدَ أُمِّ سُلَيْمٍ يَتِيمَةٌ وَهِيَ أُمُّ أَنَسٍ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَتِيمَةَ فَقَالَ آنْتِ هِيَهْ لَقَدْ كَبِرْتِ لَا كَبِرَ سِنُّكِ فَرَجَعَتْ الْيَتِيمَةُ إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَبْكِي فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مَا لَكِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ الْجَارِيَةُ دَعَا عَلَيَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِنِّي فَالْآنَ لَا يَكْبَرُ سِنِّي أَبَدًا أَوْ قَالَتْ قَرْنِي فَخَرَجَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مُسْتَعْجِلَةً تَلُوثُ خِمَارَهَا حَتَّى لَقِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَدَعَوْتَ عَلَى يَتِيمَتِي قَالَ وَمَا ذَاكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَتْ زَعَمَتْ أَنَّكَ دَعَوْتَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِنُّهَا وَلَا يَكْبَرَ قَرْنُهَا قَالَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ أَمَا تَعْلَمِينَ أَنَّ شَرْطِي عَلَى رَبِّي أَنِّي اشْتَرَطْتُ عَلَى رَبِّي فَقُلْتُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَرْضَى كَمَا يَرْضَى الْبَشَرُ وَأَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ فَأَيُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَيْهِ مِنْ أُمَّتِي بِدَعْوَةٍ لَيْسَ لَهَا بِأَهْلٍ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ طَهُورًا وَزَكَاةً وَقُرْبَةً يُقَرِّبُهُ بِهَا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔ (صحیح مسلم 6627)

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی اور یہی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) ام انس بھی کہلاتی تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا : تو وہی لڑکی ہے ، تو بڑی ہو گئی ہے ! تیری عمر بڑی نہ ہو ۔ وہ لڑکی روتی ہوئی واپس حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس گئی ، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا : بیٹی ! تجھے کیا ہوا ؟ اس نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے خلاف دعا فرما دی ہے کہ میری عمر زیادہ نہ ہو ، اب میری عمر کسی صورت زیادہ نہ ہو گی ، یا کہا : اب میرا زمانہ ہرگز زیادہ نہیں ہو گا ، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے دوپٹہ لپیٹتے ہوئے نکلیں ، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ام سلیم ! کیا بات ہے ؟ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ نے میری (پالی ہوئی) یتیم لڑکی کے خلاف دعا کی ہے ؟ آپ نے پوچھا : یہ کیا بات ہے ؟ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : وہ کہتی ہے : آپ نے دعا فرمائی ہے کہ اس کی عمر زیادہ نہ ہو ، اور اس کا زمانہ لمبا نہ ہو ، (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنسے ، پھر فرمایا : ام سلیم کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے پختہ عہد لیا ہے ، میں نے کہا : میں ایک بشر ہی ہوں ، جس طرح ایک بشر خوش ہوتا ہے ، میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جس طرح بشر ناراض ہوتے ہیں میں بھی ناراض ہوتا ہوں ۔ تو میری امت میں سے کوئی بھی آدمی جس کے خلاف میں نے دعا کی اور وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس دعا کو قیامت کے دن اس کے لیے پاکیزگی ، گناہوں سے صفائی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنے قریب فرما لے ۔


اس حدیث کے حوالے سے امام نووی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : قد فهم مسلم رحمه الله من هذا الحديث أن معاوية لم يكن مستحقا للدعاء عليه ، فلهذا أدخله في هذا الباب ۔

ترجمہ : امام مسلم رحمة اللہ علیہ اس حدیث سے یہی سمجھے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس بد دعا کے کبھی بھی مستحق نہیں تھے تبھی اس روایت کو اس باب کے اندر ذکر فرمایا ہے ۔


علامہ ابن كثير لکھتے ہیں : (وكان من خصائصه أنه إذا سب رجلا ليس بذلك حقيقًا، يُجعلُ سَبُّ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كفارة عنه) ۔

ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ اگر کسی کو (سب) یعنی برا بھلا بولتے ہیں یہ اس کے لئے حقیقی معنی میں مراد نہیں ہوتا بلکہ یہ سب اس کے لیے ( گناہوں کا )کفار ہو جائے گا ۔

(الفصول في سيرة الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 385)


علامہ ابن بطال رحمة اللہ علیہ اس طرح کی ایک عبارت کے بارے میں فرماتے ہیں : ہِيَ کَلِمَۃٌ لَّا یُرَادُ بِہَا الدُّعَائُ، وَإِنَّمَا تُسْتَعْمَلُ فِي الْمَدْحِ، کَمَا قَالُوا لِلشَّاعِرِ، إِذَا أَجَادَ، : قَاتَلَہُ اللّٰہُ، لَقَدْ أَجَادَ ۔

ترجمہ : یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے بددعا مراد نہیں ہوتی اسے صرف تعریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ جب کوئی شاعر عمدہ شعر کہے تو عرب لوگ کہتے ہیں : قَاتَلَہُ اللّٰہُ (اللہ تعالیٰ اسے مارے) ، اس نے عمدہ شعر کہا ہے ۔ (شرح صحیح البخاري : 329/9)


اسی طرح علامہ ابن كثير  " البداية والنهاية " میں حضرت معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنهما کے ترجمے میں بہت ہی خوبصورت ترین بات فرماتے ہیں : وقد انتفع معاوية بهذه الدعوة في دنياه وأخراه ؛ أما في دنياه : فإنه لما صار إلى الشام أميراً، كان يأكل في اليوم سبع مرات يجاء بقصعة فيها لحم كثير وبصل فيأكل منها ، ويأكل في اليوم سبع أكلات بلحم ، ومن الحلوى والفاكهة شيئاً كثيراً ، ويقول : والله ما أشبع وإنما أعيا، وهذه نعمة ومعدة يرغب فيها كل الملوك ۔

ترجمہ : یقیناً معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس دعا سے دنیا اور آخرت میں فائدہ لیا ہے ۔ دنیا میں فائدہ یوں لیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ جب شام کے امیر بنے تھے تو آپ ایک دن میں سات مرتبہ کھاتے تھے ؛ ان کے سامنے ایک بہت بڑا تھال لایا جاتا تھا جس میں بہت زیادہ گوشت اور پیاز ہوتا تھا پھر آپ اس سے کھاتے تھے اور آپ دن میں سات مرتبہ گوشت کھاتے تھے اور بہت زیادہ مٹھائی اور پھل کھاتے تھے اور کہتے تھے : اللہ کی قسم میرا پیٹ نہیں بھرتا میں کھا کھا کے تھک جاتا ہوں اور یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس طرح کا معدہ انسان کے پاس ہو جس کے لیے بادشاہ شوق رکھتے اور ترستے ہیں ۔


اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس دعا سے اخروی فائدہ بھی حاصل کیا علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : وأما في الآخرة : فقد أتبع مسلم هذا الحديث بالحديث الذي رواه البخاري وغيرهما من غير وجه عن جماعة من الصحابة .أن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : اللهم إنما أنا بشر فأيما عبد سببته أو جلدته أو دعوتہ عليه وليس لذلك أهلاً فاجعل ذلك كفارةً وقربة تقربه بها عندك يوم القيامة ۔ یعنی آخرت میں فائدہ اس طرح لیا کہ امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس حدیث کے بعد ذکر کیا ہے جس کو بخاری وغیرہ نے بھی کئی اسناد سے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ میں ایک انسان ہوں جس کو بھی میں نے دنیا میں برا بھلا کہا ہے یا سزا دی ہے یا بد دعا دی ہے اور وہ اس کا اہل نہیں ہے تو اس

بد دعا کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دے اور اس کو قیامت کے دن تیرے پاس قریب ہونے کا سبب بنا دینا ۔


اسی طرح یہ بات یاد رکھیں عرب ان الفاظ کو غیر ارادی طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ جیسا کہ امام نووی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : إِنَّ مَا وَقَعَ مِنْ سَبِّہٖ وَدُعَائِہٖ وَنَحْوِہٖ، لَیْسَ بِمَقْصُودٍ، بَلْ ہُوَ مِمَّا جَرَتْ بِہٖ عَادَۃُ الْعَرَبِ فِي وَصْلِ کَلَامِہَا بِلَا نِیَّۃٍ، کَقَوْلِہٖ : ’تَرِبَتْ یَمِینُکَ‘، ’وعَقْرٰی حَلْقٰی‘، وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ : ’لَا کَبِرَتْ سِنُّکِ‘، وَفِي حَدِیثِ مُعَاوِیَۃَ : ’لَا أَشْبَعَ اللّٰہُ بَطْنَہٗ‘، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، لَا یَقْصُدُونَ بِشَيئٍ مِّنْ ذٰلِکَ حَقِیقَۃَ الدُّعَائِ ۔

ترجمہ : بعض احادیث میں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو بددعا وغیرہ منقول ہے ، وہ حقیقت میں بددعا نہیں ، بلکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جو عرب لوگ بغیر نیت کے بطورِ تکیۂ کلام کے طور پر بول دیتے ہیں ۔ (بعض احادیث میں کسی صحابی کو تعلیم دیتے ہوئے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’تَرِبَتْ یَمِینُکَ‘ (تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو) ، (ام لمومنن حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا کہ) ’عَقْرٰی حَلْقٰی‘ (تُو بانجھ ہو اور تیرے حلق میں بیماری ہو) ، ایک حدیث میں یہ فرمان کہ ’لَا کَبِرَتْ سِنُّکِ‘ (تیری عمر زیادہ نہ ہو) اور حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ ’لَا أَشْبَعَ اللّٰہُ بَطْنَہٗ‘ (اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے) ، یہ ساری باتیں اسی قبیل سے ہیں ۔ ایسی باتوں سے اہل عرب بددعا مراد نہیں لیتے ۔


یعنی یہاں اصل معنی مراد نہیں ہوتا جس کےلیے کئی مثالیں احادیث میں موجود ہیں ۔ ہم دو مثالیں ذکر کرتے ہیں ۔


(1) ۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اجْتَمَعَتْ غُنَيْمَةٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏ابْدُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَوْتُ إِلَى الرَّبَذَةِ فَكَانَتْ تُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأَمْكُثُ الْخَمْسَ وَالسِّتَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُو ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتُّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَبَا ذَرٍّ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا لِي بِجَارِيَةٍ سَوْدَاءَ فَجَاءَتْ بِعُسٍّ فِيهِ مَاءٌ فَسَتَرَتْنِي بِثَوْبٍ وَاسْتَتَرْتُ بِالرَّاحِلَةِ وَاغْتَسَلْتُ فَكَأَنِّي أَلْقَيْتُ عَنِّي جَبَلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَلَوْ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏رواہ ابوداؤد:332

ترجمہ : ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ بکریاں جمع ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوذر! تم ان بکریوں کو جنگل میں لے جاؤ ، چنانچہ میں انہیں ہانک کر مقام ربذہ کی طرف لے گیا ، وہاں مجھے جنابت لاحق ہو جایا کرتی تھی اور میں پانچ پانچ چھ چھ روز یوں ہی رہا کرتا ، پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا ، آپ نے فرمایا: ابوذر! ، میں خاموش رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہاری ماں تم پر روئے ، ابوذر ! تمہاری ماں کے لیے بربادی ہو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لیے ایک کالی لونڈی بلائی ، وہ ایک بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی ، اس نے میرے لیے ایک کپڑے کی آڑ کی اور ( دوسری طرف سے ) میں نے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا ، ( غسل کر کے مجھے ایسا لگا ) گویا کہ میں نے اپنے اوپر سے کوئی پہاڑ ہٹا دیا ہو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو ( کے پانی کے حکم میں ) ہے ، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے ، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو ، اس لیے کہ یہ بہتر ہے ۔


اس روایت میں جو بد دعا ہے وہ غیر ارادی طور پر ہے ۔ اس طرح کئ ایک مثال کتب احادیث میں موجود ہیں ۔


(2) ۔ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نُرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ فَلَمَّا قَدِمْنَا تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَحِلَّ فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ وَنِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ فَأَحْلَلْنَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَحِضْتُ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ قَالَ وَمَا طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ قُلْتُ لَا قَالَ فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ ثُمَّ مَوْعِدُكِ كَذَا وَكَذَا قَالَتْ صَفِيَّةُ مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَهُمْ قَالَ عَقْرَى حَلْقَى أَوَ مَا طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَتْ قُلْتُ بَلَى قَالَ لَا بَأْسَ انْفِرِي قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُصْعِدٌ مِنْ مَكَّةَ وَأَنَا مُنْهَبِطَةٌ عَلَيْهَا أَوْ أَنَا مُصْعِدَةٌ وَهُوَ مُنْهَبِطٌ مِنْهَا ۔

ترجمہ : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے ، ان سے اسود نے اور ان سے حضر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہم حج کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے ۔ ہماری نیت حج کے سوااور کچھ نہ تھی ۔ جب ہم مکہ پہنچے تو (اور لوگوں نے) بیت اللہ کا طواف کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم تھا کہ جو قربانی اپنے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال ہو جائے ۔ چنانچہ جن کے پاس ہدی نہ تھی وہ حلال ہوگئے ۔ (افعال عمرہ کے بعد) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات ہدی نہیں لے گئی تھیں ، اس لئے انہوں نے بھی احرام کھول ڈالے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں حائضہ ہوگئی تھیں س لیے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی (یعنی عمرہ چھوٹ گیا اورحج کرتی چلی گئی) جب محصب کی رات آئی ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہو رہے ہیں لیکن میں صرف حج کر سکی ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ جب ہم مکہ آئے تھے تو تم طواف نہ کرسکی تھی ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم تک چلی جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ (پھر عمرہ ادا کر) ہم لوگ تمہارا فلاں جگہ انتظار کریں گے اور صفیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے میں بھی آپ (لوگوں) کو روکنے کا سبب بن جاوں گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عقری حلقی (تو بانجھ ہو اور تیرے حلق میں بیماری ہو) کیا تو نے یوم نحرکا طواف نہیں کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں میں تو طواف کر چکی ہوں ۔ آپ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں چل کوچ کر ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میری ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی تو آپ مکہ سے جاتے ہوئے اوپر کے حصہ پر چڑھ رہے تھے اور میں نشیب میں اتر رہی تھی یا یہ کہا کہ میں اوپر چڑھ رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس چڑھاٶ کے بعد اتر رہے تھے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 1561)


رافضی ، ان کے ہمنوا نیم رافضی اور مرزا جہلمی اعتراض یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلایا پھر بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں آئے ۔


جواب


(1) ۔ اس روایت میں یہ نہیں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو بلا رہے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جانے سے جواب دے دیا ہو بلکہ روایت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آئے تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کھاتے دیکھا اور چلے گئے اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کھانا کھا رہے ہیں ۔


(2) ۔ اگر بالفرض مان لیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہوگا پھر بھی فورا نہیں آئے کیونکہ آپ کھانا کھارہے تھے اور اسلام نے تو یہاں تک اصول بیان کیا ہے کہ انسان اگر بھوکا ہو تو پہلے کھانا کھائے اور فرض نماز بعد میں پڑھے ، ہمیں کیا حق بنتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کا حکم لگائیں ۔


رافضی ، ان کے ہمنوا نیم رافضی اور مرزا جہلمی صاحبان اگر آپ لوگ اتنے معتدل مزاج انسان ہیں اور اپنے آپ کو بڑے حق پرست تصور کرتے ہیں تو درج ذیل میں ایک حدیث پڑھیں اور نتائج پر غور کریں پھر وہ حکم لگائیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر آپ نے لگایا ہے ؟


حدثنا ابو اليمان , قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري , قال: اخبرني علي بن حسين ان حسين بن علي اخبره، ان علي بن ابي طالب اخبره،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم طرقه وفاطمة بنت النبي عليه السلام ليلة فقال: الا تصليان؟ , فقلت: يا رسول الله انفسنا بيد الله فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، فانصرف حين قلنا ذلك ولم يرجع إلي شيئا، ثم سمعته وهو مول يضرب فخذه , وهو يقول: وكان الإنسان اكثر شيء جدلا".

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، اور انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک رات ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ (تہجد کی) نماز نہیں پڑھو گے؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ ہماری اس عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ران پر ہاتھ مار کر (سورۃ الکہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 1127  ، بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ)


حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني علي بن حسين، ان حسين بن علي اخبره، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طرقه وفاطمة، قال:" الا تصليان؟". رجما بالغيب: لم يستبن، فرطا: يقال ندما، سرادقها: مثل السرادق والحجرة التي تطيف بالفساطيط يحاوره من المحاورة، لكنا هو الله ربي: اي لكن انا هو الله ربي، ثم حذف الالف وادغم إحدى النونين في الاخرى، وفجرنا خلالهما نهرا، يقول: بينهما، زلقا: لا يثبت فيه قدم، هنالك الولاية: مصدر الولي، عقبا: عاقبة، وعقبى وعقبة واحد وهي الآخرة قبلا، وقبلا وقبلا استئنافا، ليدحضوا: ليزيلوا الدحض الزلق ۔

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھے علی بن حسین نے خبر دی، انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں علی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور فرمایا۔ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے (آخر حدیث تک)۔ «رجما بالغيب‏» یعنی سنی سنائی اور ان کو خود کچھ علم نہیں۔ «فرطا‏» ندامت، شرمندگی۔ «سرادقها‏» یعنی قناتوں کی طرح سب طرف سے ان کو آگ گھیر لے گی جیسے کوٹھری کو سب طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ «يحاوره‏»، «محاورة» سے نکلا ہے یعنی گفتگو کرنا، تکرار کرنا۔ «لكنا هو الله ربي‏» اصل میں «لكن أنا هو الله ربي» تھا «أنا» کا ہمزہ حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا «لكنا» ہو گیا۔ «خلالهما نهرا» یعنی «بينهما» ان کے بیچ میں۔ «زلقا» چکنا، صاف جس پر پاؤں پھسلے (جمے نہیں)۔ «هنالك الولاية‏»، «ولايت‏»، «ولي» کا مصدر ہے۔ «عقبا‏»، «عاقبت» اسی طرح «عقبى» اور «عقبة» سب کا ایک ہی معنی ہے یعنی آخرت۔ «قبلا» اور «قبلا» اور «قبلا» (تینوں طرح پڑھا ہے) یعنی سامنے آنا۔ «ليدحضوا‏»، «دحض» سے نکلا ہے یعنی پھسلانا (مطلب یہ ہے کہ حق بات کو ناحق کریں) ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر  حدیث نمبر 4724)


حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري. ح حدثني محمد بن سلام، اخبرنا عتاب بن بشير، عن إسحاق، عن الزهري، اخبرني علي بن حسين، ان حسين بن علي رضي الله عنهما اخبره، ان علي بن ابي طالب قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" طرقه وفاطمة عليها السلام بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهم: الا تصلون؟، فقال علي: فقلت: يا رسول الله، إنما انفسنا بيد الله فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال له ذلك ولم يرجع إليه شيئا، ثم سمعه وهو مدبر يضرب، فخذه وهو يقول: وكان الإنسان اكثر شيء جدلا سورة الكهف آية 54"، قال ابو عبد الله: يقال ما اتاك ليلا فهو طارق، ويقال الطارق: النجم، والثاقب: المضيء، يقال: اثقب نارك للموقد ۔

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عتاب بن بشیر نے خبر دی، انہیں اسحاق ابن ابی راشد نے، انہیں زہری نے، انہیں زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے اور فاطمہ بنت رسول اللہ علیم السلام والصلٰوۃ کے گھر ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا۔ جوں ہی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ کہا تو آپ پیٹھ موڑ کر واپس جانے لگے اور کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» ”اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے“ اگر کوئی تمہارے پاس رات میں آئے تو «طارق» کہلائے گا اور قرآن میں جو «والطارق» کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ستارہ ہے اور «ثاقب» بمعنی چمکتا ہوا۔ عرب لوگ آگ جلانے والے سے کہتے ہیں «ثقب نارك» یعنی آگ روشن کر۔ اس سے لفظ «ثاقب» ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر  حدیث نمبر 7347)


حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري. ح وحدثنا إسماعيل، حدثني اخي عبد الحميد، عن سليمان، عن محمد بن ابي عتيق، عن ابن شهاب، عن علي بن حسين، ان حسين بن علي عليهما السلام اخبره، ان علي بن ابي طالب اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" طرقه وفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة، فقال لهم: الا تصلون؟، قال علي: فقلت يا رسول الله، إنما انفسنا بيد الله، فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قلت ذلك ولم يرجع إلي شيئا، ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه، ويقول: وكان الإنسان اكثر شيء جدلا سورة الكهف آية 54 ۔

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے علی بن حسین نے بیان کیا، حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی اور نہیں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات میں تشریف لائے اور ان سے کہا کیا تم لوگ نماز تہجد نہیں پڑھتے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا۔ جب میں نے یہ بات کہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس چلے گے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ میں نے آپ کو واپس جاتے وقت یہ کہتے سنا۔ آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ فرما رہے تھے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» کہ ”انسان بڑا ہی بحث کرنے والا ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر  حدیث نمبر 7465)


حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ , قَالَ : أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام لَيْلَةً فَقَالَ : أَلَا تُصَلِّيَانِ ؟ , فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا ، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ , وَهُوَ يَقُولُ : وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ۔

ترجمہ : حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک رات ان کے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ (تہجد کی) نماز نہیں پڑھو گے ؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں ، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا ۔ ہماری اس عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ران پر ہاتھ مار کر (سورۃ الکہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 1127،چشتی)


مذکورہ حدیث پر غور کریں معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رات کے ٹائم تہجد کے لیے اٹھنے کا حکم دیا لیکن سامنے سے انہوں نے بشری تقاضہ کے مطابق اس بات کو اس وقت قبول کرنےسے کوتاہی کرلی کیونکہ ان کا خیال یہی ہوگا کہ تہجد فرض نہیں لہٰذا اللہ نے جب توفیق دی تو اٹھ کر پڑھیں گے ۔


رافضی ، ان کے ہمنوا نیم رافضی اور مرزا جہلمی صاحبان : اگر کوئی ناصبی کھڑا ہو جائے اور کہنے لگ جائے کہ معاذاللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کر دی ؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افسوس میں آیت پڑھ دی ، تو آپ لوگ کیا جواب دینگے ؟


ہم تو اس شخص کو منہ توڑ جواب دیں گے حضرت علی اور حضر فاطمہ رضی اللہ عنہما کی گستاخی مت کر ان جنتی انسانوں کا ارادہ یہی تھا کہ تہجد فرض نہیں ہم بعد میں اٹھ کر لیں گے ۔


رافضی ، ان کے ہمنوا نیم رافضی اور مرزا جہلمی صاحبان لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف تو آپ لوگ جگہ جگہ چیخ چیخ کر زبان درازی اور پوسٹر کرتے ہیں اور باطل کو حق بنانے کی ناکام کاوش کرتے ہیں لیکن اس مذکور حدیث پر آپ لوگ خاموش کیوں ؟


آپ لوگوں کی عدل پرستی و حدیث کہاں گئی ؟


فقیر کو پتہ ہے اگر آپ لوگوں نے یہ حدیث اور اس کا وہ باطل مفہوم عوام کے سامنے بیان کر دیا جس طرح کا مفہوم آب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف نکالتے ہیں تو رافضی ، ان کے ہمنوا نیم رافضی اور مرزا جہلمی صاحبان لوگ گریباں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے  ان شاء اللہ ۔ یا اللہ ہمیں رافضی ، نیم رافضی تفضیلی ، ناصبی ، خارجی ، مرزاٸی اور جملہ فتنوں سے محفوظ فرما آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...