Saturday 21 August 2021

اسلام میں سوگ اور اُس کی شرعی حیثیت

0 comments

اسلام میں سوگ اور اُس کی شرعی حیثیت

محترم قارئینِ کرام : اسلام میں سوگ منانا جائز ہے اور تین دن تک سوگ منایا جا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں ۔ لوگ آئیں فاتحہ پڑھیں ، اظہارِ تعزیت کریں اس سے سوگوار خاندان کو ہمدردی و محبت کا احساس ہوتا ہے ۔ سوگ تین دن تک ہے ، تین دن کے بعد سوگ منانا جائز نہیں ، البتہ عورت عِدّت میں ہے تو عدت کے تمام دن عورت کےلیے سوگ کے ہیں ، ان دنوں میں عورت کو زیب و زینت اختیار کرنا منع ہے ۔ عورت کے علاوہ دیگر گھر والے عید کے دن نئے کپڑے یا پُرانے کپڑوں میں سے جو عمدہ کپڑے ہیں وہ پہنیں ، عید منائیں اور مبارک باد پیش کر کے خوشی کا اظہار کریں ۔ سوگ کے دن گزر جانے کے بعد پہلی عید پر سوگ یعنی غم منانا اور اس وجہ سے نئے کپڑے یا عمدہ کپڑے نہ پہننا گناہ ہے ۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں یا ایسا کرنے کا کہتے ہیں ان کو توبہ کرنی چاہیے ۔


عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ : ” كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ، وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَتَطَيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ ۔ (صحيح البخاري : 5341 ، الطلاق)(صحيح مسلم :938 ، الطلاق :67)

ترجمہ : حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم مسلمان عورتوں کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے) منع کیا گیا ہے کہ ہم کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائیں ، ہاں ! اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن کا سوگ ہے ، اور اس درمیان نہ تو ہم سرمہ لگائیں نہ خوشبو لگائیں ، نہ رنگا ہوا کپڑا پہنیں ، مگر وہ کپڑا جس کی بناوٹ رنگین دھاگوں سے ہو ، البتہ ہمیں یہ رخصت دی گئی کہ حیض سے طہارت کے وقت معمولی قسط یا ظفار کی خوشبو استعمال کرلیں ۔


حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کوئی عورت کسی میّت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے ، مگر شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ کرے ۔ (مسلم ،کتاب الطلاق، باب وجوب الاحداد فی عدۃ الوفاۃ۔۔۔الخ  صفحہ ۷۹۹ حدیث نمبر ۱۴۹۱،چشتی)


قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَی اُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ حِينَ تُوُفِّيَ اَبُوهَا اَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ اُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ اَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۔

ترجمہ : حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی  زوجہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ اُن کے والد ماجد حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی۔ انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر بھی مل لی، اور فرمایا کہ خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے اُس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے ۔ (بخاري الصحیح 5: 2042، رقم: 5024، دار ابن کثیر الیمامة بیروت)(مسلم، الصحیح، 2: 1123، رقم: 1486، دار احیاء التراث العربي بیروت)


قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ اَخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ اَمَا وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۔

ترجمہ : حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اُم المؤمنین زینب بنتِ حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ ان کے بھائی کاانتقال ہوگیا تھا ۔ انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں تھوڑی سی لگا کر فرمایا : خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں ہے، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عورت کے لیے یہ حلال نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے ، سوائے اپنے خاوند کے کہ وہ چار ماہ دس دن ہے ۔ (بخاري، الصحیح، 1: 430، رقم: 1222،چشتی)۔(مسلم، الصحیح، 2: 1124، رقم: 1484)


ام المو منین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس عورت کا شوہر مر گیا ہے ، وہ نہ کُسُم کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور نہ گیرو کا رنگا ہوا اور نہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سُرمہ ۔ (سنن ابوداود کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۲۵، حدیث۲۳۰۴) ۔ (بہار شریعت،حصہ ۸، ۲ / ۲۴۱)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوہر کےعلاوہ دیگر رِشتہ داروں کے (اِنتقال پر) سوگ کےلیے تین (3) دن مُقرَّر فرمائے ۔ (صحابۂ کرام کا عشقِ رسول صفحہ ۲۳۰)


جبکہ بیوی اپنے شوہر کی وَفات پر عِدَّت کی مُدّت (چار مہینے دس دن) تک سوگ میں رہے گی ۔ اَلبتّہ کسی قریبی (رِشْتہ دار) کے مرجانے پر عورت کو تین دن (3) تک سوگ کرنے کی اِجازت ہے اس سے زائد کی (اِجازت) نہیں ۔ (ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، جلد ۵ صفحہ ۲۲۳،چشتی)


تین (3) دن سے زِیادہ سوگ مَنانے کی یہ رَسم زمانۂ جاہِلیَّت میں اگرچہ طویل عرصے سے رائج تھی لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا ، تو صحابیات رضی اللہ عنہن کا اس پرعمل کرنا مثالی تھا ۔چُنانچہ جب حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا اِنتقال ہوگیا ، توچوتھے دن اُنہوں نے خوشبو لگائی اور کہا کہ مجھ کو خُوشبو کی ضرورت نہ تھی ، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مِنْبَر پر سُنا ہے کہ کسی مُسَلمان عورت کو شوہر کے سِوا تین (3) دن سے زِیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں ، اس لیے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی ۔(سنن ابی داود کتاب الطلاق باب احدادالمتوفی عنہا زوجھا، الحدیث:۲۲۹۹، ج۲،ص۴۲۲)


اسی طرح جب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والدکا  انتقال ہوا تو اُنہوں نے تین (3) روز کے بعد اپنے رُخساروں پر خُوشبو ملی اور کہا مجھے اس کی ضرورت نہ تھی ، صرف اس حکم کی تعمیل مقصود تھی ۔ (سنن ابی داود،  کتاب الطلاق،باب احدادالمتوفی عنہا زوجھا الحدیث:۲۲۹۹، ج۲،ص۴۲۲)


اسلام میں سوگ منانا جائز ہے اور تین دن تک سوگ منایا جا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں ۔ سوگ کے معنی یہ ہیں کہ زِینت کو ترک کرے ۔ (درالمختار معہ ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، ۵ / ۲۲۱)۔(بہار شریعت،حصہ۸ ،۲ / ۲۴۲)


سوگ فوت ہونے کے دن سے شروع ہوتا ہے ، نہ کہ تدفین کے دن سے ۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ  الرحمہ فتاوی رضویہ  میں فرماتے ہیں : شریعت نے عورت کو شوہرکی موت پر چارمہینے دس دن سوگ کاحکم دیاہے اوروں کی موت کے تیسرے دن تک اجازت دی ہے باقی حرام ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 495 رضا فاؤنڈیشن لاہور)


یکم محرم الحرام تا دس محرم الحرام سوگ کے متعلق فرماتے ہیں کہ: محرم شریف میں دس روز تک سوگوار رہنا ممنوع وناجائز ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 508)


مزید فرماتے ہیں : شریعت نے عورت کو شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن سوگ کا حکم دیا ہے ، اوروں کی موت کے تیسرے دن تک اجازت دی ہے ، باقی حرام ہے ، اور ہر سال سوگ کی تجدید تو کسی کےلیے اصلاً حلال نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 495)


بیوہ عدت تک سوگ کرے گی جب کہ باقی لوگ صرف تین دن سوگ کر سکتے ہیں ۔ (سنن الترمذی 1/143)(الفتاویٰ الہندیہ  1/167)(ردالمحتار علی الدر المختار 2/ 240)


درمختارمیں ہے : الحداد …… لغۃ کما فی القاموس ترک الزینۃ للعدۃ و شرعا ترک الزینۃ ونحوھا لمعتدۃ بائن او موت ۔ (درمختار باب العدۃ فصل فی الحداد)

ترجمہ : سوگ ، لغت میں …… جیسا کہ قاموس میں ہے …… عدت کےلیے زینت چھوڑنے کو کہتے ہیں اور شریعت مطہرہ کی اصطلاح میں طلاقِ بائن یا شوہر کی موت سے عدت بیٹھنے والی عورت کے زینت اوراس کی مثل کو چھوڑنے کو کہتے ہیں ۔


حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی علیہ لرحمہ بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ : میّت کے گھر والوں کو تین دن تک اس لیے بیٹھنا کہ لوگ آئیں اور تعزیت کر جائیں جائز ہے مگر ترک بہتر اور یہ اس وقت ہے کہ فروش اور دیگر آرائش نہ کرنا ہو ورنہ ناجائز ۔ یہ دس دن سوگ منانا آلتو فالتو باتیں کرنا صریح جہالت ہے ۔ لوگوں کو اس  سے بچنا چاہیے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 1 حصہ چہارم صفحہ نمبر 854،چشتی)


معلوم ہوا کہ صحابیات رضی اللہ عنہن اِطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جذبے سے سرشار اوردل وجاں سے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اِطاعت گُزار تھیں ، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں سوگ کی مُدّت تین (3) دن ہے ، مگر جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو وہ چار (4) ماہ دس (10) دن تک سوگ میں رہے گی ۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ آج اگر کسی گھر میں میّت ہوجائے تو  افسوس صَد افسوس ! علمِ دین سے دُوری کے سبب بہت سے غیر شرعی کا موں کا اِرْتکاب کیا جاتا ہے ، جیسے نوحہ یعنی میِّت کے اَوصاف (خوبیاں) مُبالَغہ کے ساتھ (خُوب بڑھا چڑھا کر) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو بَین (بھی) کہتے ہیں ، بِالاِ جماع حَرام ہے ۔ یُونہیں واوَیلا ، وَامُصِیْبَتَاہ (یعنی ہائے مُصیبت) کہہ کر چلّانا ، گَرِبیان پھاڑنا ، مُنہ نوچنا ، بال کھولنا ، سر پر خاک ڈالنا ، سینہ کُوٹنا ، ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہِلیَّت کے کام ہیں اورحرام (ہیں اسی طرح) آواز سے رونا منع ہے ۔ (بہارشریعت جلد ۱ صفحہ ۸۵۴ ، ۸۵۵)


حالانکہ ایسی صُورت میں صبر سے کام لینا چاہیے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر اس پر راضی رہنا چاہیے ۔ مگر افسوس ! گھر والے اور آس پڑوس کے لوگ بالخصوص خواتین زور زور سے روتی چِلّاتی ہیں ۔ اگر کوئی صَبْر و ضَبْط سے کام لیتے ہوئے ان کا ساتھ نہ دے تو اس پر طَعْن وتَشْنِیْع کے تِیر برساتے ہوئے اس طرح کی گفتگو کی جاتی ہے کہ اس کو دیکھو کیسی سخت دل ہے’’ جَوان‘‘ میّت پر بھی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں آیا ۔ یُوں ایک مُسلمان کے بارے میں بَد گمانی اور اس کی دِل آزاری کاگُناہ بھی سرلیتی ہیں ۔ بَتقاضائے بَشریَّت وفات پر غمگین ہو جانا ، چہرے سےغم کا ظاہر ہونا ، اسی طرح بِلا آواز رونا وغیرہ منع نہیں ہے ۔ ہاں ایسے میں شریعتِ مُطَہِّرہ کی خِلاف وَرزی منع ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی آخرت بہتر بنانے کی توفیق عطافرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔