Tuesday, 24 August 2021

عبداللہ بن سبا یہودی اور شیعہ مذھب (چہارم)

 عبداللہ بن سبا یہودی اور شیعہ مذھب (چہارم)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : بانی مذہب شیعہ عبدﷲ بن سبا یہودی کے عقائد کے بیان میں اہل سنت کی مذکورہ کتب کی تائید شیعہ تواریخ سے بھی ہوتی ہے ۔ یہاں چند ایک شیعہ کتب کی عبارات پیش کی جاتی ہیں :


شیعہ کتاب روضۃ الصفاء


شیعہ عقائد کی مشہور تاریخ روضۃ الصفاء میں موجدِ رفضہ یعنی اہل تشیع عبدﷲ بن سبا کے عقائدکی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے : ابن السواد کہ در کتب مورخان عجم بعبدﷲ ابن سبا اشتہار یافتہ جہری بوداز احبار یہود صنعا بسودای آنکہ عثمان اور امعزز ومحترم دار دبمدینہ آمدہ ایمان آوردہ ورسلک ارباب اسلام انتظام یافت چوں جمال مطلوب اواز حجاب نقاب منکشف نگشت باطائفہ از اصحاب کہ از عثمان نقاری در دل داشتند اختلاط وانبساط آغاز نہادہ قواعد محبت و الفت استحکام دادند وبہ بدگوئی و عیب جوئی عثمان باایشاں ہمداستاں شدہ باب فتنہ و فساد بکشاد چوں عثمان از اینحال آگاہ گشت گفت ایں جہود بارے کیست کہ ازوی ایں ہمہ تحمل باید کردوباخراج او آخر از مدینہ فرمانداد چوں عبدﷲ چوں میدانست کہ مخالفان عثمان در مصر بسیار اندر وی توجہ بداں دیار نہاد بمصریاں ملحق گشتہ باظہار تقویٰ و علم خویش بسیاری از اہل مصر را بفریت بعد از رسوخ عقیدہ از طائفہ بالیشیاں درمیان نہاد کہ نصاری میگویند کہ عیسٰی مراجعت غودہ از آسمان بزمین نازل خواہد شد و ہمگنان راشن است کہ حضرت خاتم الانبیاء افضل از عیسٰی است پس اوبرجعت اولیٰ باشد و خدائے عزو علاے رانیز بایں وعدہ فرمو چنانچہ میفر مائدکہ ’’ان الذین فرض علیک القرآن لرادک الیٰ معاد‘‘ وبعد از آنکہ سفہائے مصر بر ایں مفی عبدﷲ را مصداق دا شتند باایشان گفت کہ ہر پیغمبر یرا خلیفہ ووصی مے بودہ است و خلیفہ رسول علی است کہ بحلیہ زہد و تقویٰ و علم فتویٰ آراستہ است و بشمہ کرم وشجاعت و شیوہ امانت ودیانت و تقویٰ و علم وفتویٰ آراستہ دامت بخلاف نص محمد صلی ﷲ علیہ وسلم بر علی رضی ﷲ عنہ ظلم روا داشتند وخلافت حق دے بودیا دنگذا شتند اکنوں نصرت و معاونت آنحضرت برجہانیاں واجب و لازم است واتباع اقوال وافعال اوبر ذمت ہمت عالمیان امر تحتم ویساراز مردم مصر کلمات ابن السوا درادر خاطر جائے دادہ پائے از دائرہ متابعت مطاوعت عثمان بروں نہادند ۔ (روضۃ الصفا جلد دوم ص 470 ذکر خلافت عثمان رضی ﷲ عنہ،چشتی)

ترجمہ : ابن اسواد جوکہ غیر عرب مورخین میں عبدﷲ بن سبا کے نام سی مشہور ہے، صنعا کے یہودیوں میں سے ایک بڑا عالم تھا۔ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ چونکہ اسے عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ ان کے اس رویہ کی بناء پر مدینہ میں آکر جماعت مسلمین میں شامل ہوگیا۔ جب ان کا مقصد ناکامیابی کے پردوں سے باہر نہ نکل سکا یعنی اس کا دلی مقصد پورا نہ ہوا تو اس نے ان لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھانا شروع کردیا جو حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے ساتھ دلی کدورت رکھتے تھے۔ باہمی محبت و پیار کے عہدوپیمان باندھے۔ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کی عیب جوئی اور بدگوئی میں ان کا ساتھ دینا شروع کردیا۔ اس طرح فتنہ و فساد کا دروازہ کھولا۔ جب حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ حالات سے آگاہ ہوئے تو خیال فرمایا کہ یہ شخص کون ہے جو اتنے بڑے فتنہ کا باعث بن رہا ہے۔ اسے کیوں برداشت کیاجارہا ہے۔ آپ نے اسے مدینہ سے نکالنے کا فیصلہ فرمالیا جب عبدﷲ بن سبا کو یہ معلوم ہوا کہ مصر میں حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے مخالفین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے تو جانب مصر روانہ ہوگیا۔ وہاں جاکر اپنے تقویٰ اور علم کی بہتات سے لوگوں کو اپنا فریفتہ کرلیا جب بہت سے لوگوں نے اس کے خیالات و عقائد کو قبول کرلیا تو فورا ایک نیا عقیدہ ان کے سامنے پیش کردیا۔ وہ یہ کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمانوں سے اتر کر دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عیسٰی علیہ السلام سے افضل ہیں لہذا آپ کو دوبارہ تشریف لانے کا زیادہ حق ہے۔ خود ﷲ تعالیٰ نے بھی آپ سے دوبارہ واپسی کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد ۔ جس نے آپ پر قرآن نازل فرمایا وہ یقیناًآپ کو لوٹنے کی جگہ کی طرف لوٹائے گا۔


جب عبدﷲ بن سبا کی اس کوشش اور عقیدہ کو مصریوں نے قبول کرلیا تو اس نے ان سے کہا کہ دیکھو ہر پیغمبر کا ایک نہ ایک خلیفہ اور وصی ہوتا رہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ اور وصی حضرت علی رضی ﷲ عنہ ہیں جو زہد و تقویٰ اور علم و فتویٰ سے مزین ہیں اور کرم و سخاوت ، شجاعت و امانت اور تقویٰ و دیانت سے آراستہ ہیں لیکن امت (لوگوں) نے آپ کی واضح ہدایت کے خلاف چل کر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو خلافت نہ دے کر ظلم کیا ہے۔ اب تمام لوگوں پر یہ لازم و واجب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کے اجراء میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی معاونت و نصرت کریں اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اقوال و افعال کی تعمیل سب لوگوں پر واجب ہے ۔ ان کلمات کو سنکر بہت سے مصری لوگ ان کے شیدائی ہوگئے اور ان کی باتوں کو دل سے قبول کرلیا اور حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کی متابعت و اطاعت سے روگردان ہوگئے : وحکٰی جماعۃ من اہل العلم من اصحاب علی علیہ السلام ان عبدﷲ بن سبا کان یہودیاً فاسلم ووالیٰ علیاً علیہ السلام وکان یقول وہو علی یہودییتہ فی یوشع بن نون بعد موسیٰ علیہ السلام بہذہ المقالۃ فقال فی اسلامہ بعد وفاۃ النبی صلی ﷲ علیہ وآلہ فی علی علیہ السلام بمثل ذلک وہوا ول من اشہر القول بفرض امامۃ علی علیہ السلام واظہرا البرآء ۃ من اعداۂ وکاشف مخالفیہ فمن ہناک قال من خالف الشیعۃ ان اصل الرفض ماخوذ من الیہودیۃ ۔ (کتاب فرق الشیعۃ لابی محمد بن موسیٰ النو نجتی ص 22 مطبوعہ حیدریہ نجف اشرف من علماء قرن الثالث تحت فرقۃ السبائیۃ)

ترجمہ: حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اہل علم ساتھیوں نے بیان کیا ہے کہ عبدﷲ بن سبا یہودی تھا۔ پھر مسلمان ہوگیا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے محبت کا دعویدار ہوا۔ یہودیت کے دوران وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انتقال کے بعد حضرت یوشع بن نون کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتا تھا (یعنی حضرت یوشع بن نون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور وصی تھے) مسلمان ہونے کے بعد حضور علیہ السلام کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے بارے میں بھی وہی باتیں کہیں۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی امامت کی فرضیت کو مشہور کیا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور آپ کے مخالفین کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا۔ اسی وجہ سے شیعہ لوگوں کے مخالفین کہتے ہیں کہ رفض (شیعیت) کی جڑ یہودیت سے (یعنی یہودیت نے ہی ظہور اسلام کے بعد شیعیت کا روپ دھار لیا ہے) ۔


مذہب تشیع کی بنیاد یہود نے رکھی شیعہ مورخین کا اعتراف


شیعہ کتاب ناسخ التواریخ


عبدﷲ بن سبا مرد جہود بود در زمان عثمان بن عفان مسلمانی گرفت داواز کتب پیشین ومصاحب سابقین نیک دانا بودچوں مسلمان شد خلافت عثمان در خاطر او پسندیدہ نیفتاد پس در مجالس و محافل اصحاب بنشتے وقبائح اعمال و مثالب عثمان راہبرچہ توانستے باز گفتے، ایں خبر بعثمان بروند گفت بارے ایں جمہود کیست وفرمان کردتا اورا از مدینہ اخراج نمودند، عبدﷲ بمصر آمد وچوں مرد عالم و دانا بود مردم بردے گرد آمدند وکلمات اور اباورداشتند، گفت ہاں اے مردم مگر نشنیدہ اید کہ نصاریٰ گوبند عیسٰی علیہ السلام بدیں جہاں رجعت کندوباز آید چنانکہ در شریعت مانیز ایں سخن استوار است چوں عیسٰی رجعت تواں کرد محمد کہ بیگماں فاضلتر از وست چگونہ رجعت نکند وخدا وندنیز در قرآن کریم میفر ماید ان الذی فرض علیک القرآن لرادک ۔ الی معاد ۔ چوں ایں خن در خاطر ہاجائے گیر ساخت گفت خداوند صدوبیست وچہار ہزار پیغمبر بدیں زمین فروفر ستاد دہر پیغمبرے را وزیرے وخلیفتے بود چگونہ یشود پیغمبرے ازجہاں برود خاصہ وقتیکہ صاحب شریعت باشد ونائبے وخلیفتے بخلق نگمار دو کارامت رامہمل بزارد؟ ہمانا محمد صلی ﷲ علیہ وسلم راعلی علیہ السلام وصی وخلیفہ بود چنانکہ خود فرمود انت منی بمتزلۃ ہارون من موسیٰ، ازیں میتواں دانست کہ علی علیہ السلام خلیفہ محمد صلی ﷲ علیہ وسلم است و عثمان ایں منصب را غصب کردہ وباخود بستہ عمر نیز بناحق ایں کار بشوریٰ افگسند وعبدالرحمن بن عوف بہوائے نفس دست بردست عثمان زدودست علی را کہ گرفتہ بودبا او بیعت کند رہا داد ۔ اکنوں برما کہ در شریعت محمدیم واجب میکند کہ از امر بالمعروف و نبی از منکر خویشتن داری نکنیم، چنانکہ خدا فرماید کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر۔ پس بامردم خویش گفت مارا ہستوز آں نیز ونیست کہ بتوانیم عثمان رادفع داد واجب میکند کہ چندانکہ بتوانیم عمال عثمان را کہ آتش جوروستم رادامن ہمیز نند ضعیف داریم وقبائح اعمال ایشاں رابر عالمیاں روشن سازیم ودلہائے مردم را از عثمان و عمال اوبگردانیم، پس نامہ ہانوشتند واز عبدﷲ بن سعد بن ابی سرح کہ امارت مصر داشت باطراف جہاں شکایت فرستادند ومردم رایکدل ویکجہت کردند کہ در مدینہ گر دآیند وبرعثمان امر بالمعروف کنند واورا از خلیفتے خلع فرمایند ۔ عثمان ایں معنی را تفرس ہمیلکر دو مردان بن الحکم جاسوسال بشہر ہا فرستاد تاخبر باز آور دند کہ بزرگان ہربلد در خلع عثمان ہمدانستاں اندلاجرم عثمان ضعیف ودرکار خود فروماند ۔ (ناسخ التواریخ تاریخ خلفاء جلد سوم صفحہ238,237 طبع جدید مطبوعہ تہران دوران خلافت عثمان بن عفان،چشتی)

ترجمہ : عبدﷲ بن سبا ایک یہودی آدمی تھا۔ عہد عثمانی میں اسلام لایا اور کتب سابقہ اور مصاحف گزشتہ سے خوف واقف تھا۔ جب مسلمان ہوا تو حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کی خلافت اس کو اچھی نہ لگی چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ محافل میں بیٹھتا اور حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے خلافت جتنا کچھ قبیح افعال کا ذکر کرسکتا کرتا رہتا تھا۔ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کو یہ خبر ملی تو کہا الٰہی یہ یہودی کون ہے ؟ چنانچہ حکم دیا کہ اسے مدینہ شریف سے نکال دیا جائے ۔ عبدﷲ بن سبا مصر آپہنچا چونکہ عالم و دانا آدمی تھا۔ اس لئے لوگ اس کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے اور اس کی باتیں قبول کرنے لگے۔ تب اس نے کہا! اے لوگو! تم نے سنا نہیں کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسٰی علیہ السلام دنیا میں واپس آئیں گے اور ہماری شریعت کے مطابق بھی یہ بات درست ہے۔ اگر عیسٰی واپس آسکتے ہیں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جوان سے افضل ہیں، کیوں واپس نہیں آسکتے ۔ ﷲ تعالی ٰبھی قرآن کریم میں فرماتا ہے (ترجمہ) جس خدا نے تجھے قرآن دیا وہ تجھے لوٹنے کے وقت پر لوٹائے گا۔ جب یہ بات لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوگئی (رجعت کا عقیدہ پختہ ہوگیا) تو اب ابن سبا نے کہا کہ ﷲ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس زمین پربھیجے اور ہر پیغمبرکا ایک وزیر اور خلیفہ ہوا ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے جائے جبکہ وہ صاحب شریعت نبی ہو مگر اپنا خلیفہ و نائب لوگوں میں نہ چھوڑ جائے۔ اپنی امت کا معاملہ (مسئلہ خلافت) مہمل چھوڑ جائے۔لہذا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے علی علیہ السلام وصی ہیں اور خلیفہ ہیں۔جیسا کہ آپ نے علی کو خود فرمایا تو میرے لئے یوں ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ علی علیہ السلام ہی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ ہیں اور عثمان نے یہ منصب (خلافت) غصب کرکے اپنے اوپر چسپاں کررکھا ہے۔ عمر نے بھی کسی حق کے بغیر یہ شوریٰ پر ڈال دیا اور عبدالرحمن بن عوف نے نفسانی ہوس سے عثمان کی بیعت کرلی اور علی کا ہاتھ بھی اس نے پکڑ رکھا تھا جب علی نے بیعت کرلی تو اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔اب جو ہم شریعت محمدی میں ہیں ہم پر واجب آتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے سستی نہ کریں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے (ترجمہ) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے لائی گئی تاکہ انہیں نیکی کا حکم کرے، برائی سے روکے۔پھر ابن سبا نے لوگوں سے کہا بھی ہم میں یہ طاقت نہیں کہ عثمان کو خلافت سے اتار سکیں ۔ البتہ یہ ہم پر ضروری ہے کہ جتنا ہوسکے عثمان کے عمال (گورنروں) کو جو ظلم و ستم روا رکھے ہیں، کمزور کر ڈالیں۔ ان کے قبیح اعمال اہل دنیا پر واضح کریں اور لوگوں کے دل عثمان اور اس کے عمال سے متنفر کر ڈالیں۔ چنانچہ انہوں نے کئی خطوط لکھے اور والی مصر عبدﷲ بن سعد (کے ظلم) کی شکایت کرتے ہوئے جہاں میں ہر طرف ارسال کردیئے اس طرح انہوں نے لوگوں کو اس بات پر یکدل بنایا کہ وہ مدینہ میں جمع ہوکر عثمان کو امر بالمعروف کریں اور اسے خلافت سے اتاردیں۔عثمان یہ معاملہ سمجھتے تھے اور مروان بن حکم نے ہر شہر میں جاسوس بھیجے چنانچہ وہ یہ خبر لے کر واپس آئے کہ ہر شہر کے بڑے لوگ عثمان کو اتار دینے میں یک زبان ہیں ناچار عثمان کمزور ہوگئے اور اپنے معاملہ میں عاجز آگئے ، قتل ہوگئے ۔


معتبر شیعہ مورخ مرزا تقی کی مذکورہ عبارت سے یہ امور ثابت ہوگئے ۔


(1) : عبدﷲ بن سبا پکا یہودی تھا جو عہد عثمانی میں اسلام لایا۔ مگر درپردہ یہودی ہی رہا جیسا کہ فرقہ رافضہ یعنی شیعہ کی عبارت مذکوہ نے اس پر نص کردی ہے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوا کہ وہ ایک فاضل و دانائے کتب سابقہ شخص تھا۔


(2) : اس نے شیعہ مسلک کی بنیاد یوں ڈالی کہ سب سے اول مسئلہ رجعت پیدا کیا اور لوگوں کو ذہن نشین کرایا جوکہ شیعہ عقائد کی جڑ ہے۔


(3) : مسئلہ رجعت کے ایجاد کے بعد لوگوں کو یہ ذہن نشین کرایا کہ علی رضی ﷲ عنہ ہی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صحیح خلیفہ اور وصی ہے اور خلفاۓ ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے یہ حق ان سے غصب کیا۔


 (4) : یہ دو عقیدے ایجاد کرنے کے بعد اس نے چاہا کہ انہیں لوگوں میں عام ترویج دی جائے چنانچہ اس نے مختلف ممالک میں ہر طرف خطوط روانہ کئے اور حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کو خلافت سے اتارنے کے لئے سازش کا ایک وسیع جال پھیلا دیا جس میں وہ کامیاب ہوا اور نتیجتاً حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ شہید ہوگئے اور فرقے شیعہ کی بنیاد مضبوط ہوگئی۔


خلاصہ یہ ہوا کہ اہل رافضہ یعنی شیعہ فرقے کی بنیاد رکھنے والا بہت بڑا یہودی عالم تھا جو بظاہر اسلام لانے کے باوجود درپردہ یہودی ہی رہا جیسا کہ تاریخ روضۃ الصفاء اور فرق شیعہ جیسی معتبر شیعہ کتب سے اس کی نہایت وقباحت ہوچکی اور آئندہ مزید شواہد آرہے ہیں، اس یہودی عالم نے اسلام کے متعلق اپنی قلبی شقاوت و عداوت کو تسکین دینے کے لئے شیعہ مذہب کی بنیاد رکھی اور اسلام کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہوا اور قتل حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ میں کامیاب ہوکر فساد کا وہ دروازہ کھولا جو آج تک بند نہیں ہو سکا ۔


شیعہ کتاب انوار نعمانیہ


قال عبدﷲ بن سبا لعلی انت الا لہ حقاً فنفاہ علی علیہ السلام الی المدآئن وقیل انہ کان یہودیاً فاسلم وکان فی الیہودیۃ یقول فی یوشع بن نون وفی موسیٰ مثل ما قال فی علی علیہ السلام وقیل انہ اول من اظہر القول بوجوب امامۃ علی ۔ (انوار نعمانیہ مصنفہ نعمت ﷲ جزائری ص197، طبع قدیم مطبوعہ ایران طبع جدید جلد 2، ص 234،چشتی)

ترجمہ : عبدﷲ بن سبا نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے بارے میں ’’الہ‘‘ ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اس پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے اسے جلاوطن کردیا اور کہا گیا ہے کہ یہ اصل میں یہودی تھا پھر مسلمان ہوگیا۔ یہودیت کے دوران حضرت یوشع بن نون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے بارے میں اسی قسم کی باتیں کیا کرتا تھا جیسی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے متعلق کیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’وجوب امامت‘‘ کا عقیدہ اسی کی اختراع و ایجاد ہے ۔


شیعہ کتاب رجال کشی


وذکر بعض اہل العلم ان عبدﷲ بن سبا کان یہودیاً فاسلم ووالی علیاً علیہ السلام وکان یقول وہو علی یہودیتہ فی یوشع بن نون وصی موسیٰ بالغلو فقال فی اسلامہ بعد وفاۃ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فی علی علیہ السلام مثل ذلک وکان اول من اشہر بالقول بفرض امامۃ علی و اظہر البراءۃ من اعدآۂ وکاشف مخالفیہ وکفرہم فمن ہنا قال من خالف الشیعۃ ان اصل التشیع والرفض ماخوذ من الیہودیۃ ۔ (رجال کشی مصنفہ عمر بن عبدالعزیز الکشی ص 101 تذکرہ عبدﷲ بن سبا مطبوعہ کربلا،چشتی)

ترجمہ : بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ عبدﷲ بن سبا یہودی تھا، پھر مسلمان ہوا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے دوستی کی۔ دوران یہودیت حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصی بطور غلو کہا کرتا تھا۔ اسلام لانے کے بعد حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے بارے میں بھی اس نے اسی طرح کی بات کہی۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کا عقیدہ مشہور کیا۔اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے مخالفوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور انہیں عوام میں مشتہر کیا۔ اسی وجہ سے شیعہ لوگوں کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ شیعیت اور رافضیت کی اصل اور جڑ یہودیت ہے اور یہ مذہب یہودیت سے اخذ کیا گیا ہے ۔

عن ابان بن عثمان قال سمعت ابا عبدﷲ علیہ السلام یقول لعن ﷲ عبدﷲ بن سبا انہ ادعی الربو بیتہ فی امیر المومنین علیہ السلام وکان وﷲ امیر المومنین علیہ السلام عبدﷲ طائعاً الویل لمن کذب علینا وان قوما یقولون قینا مالا نقولہ فی انفسنا نبرا الی ﷲ منہم نبرا الی ﷲ منہم ۔ (رجال کشی صفحہ 100 مطبوعہ کربلا تذکرہ عبدﷲ بن سبا)

ترجمہ : ابان بن عثمان سے مروی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر رضی ﷲ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ ﷲ تعالیٰ عبدﷲ بن سبا پر لعنت کرے کہ اس نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے متعلق خدا ہونے کا دعویٰ کیا ۔ حالانکہ قسم بخدا حضرت امیر المومنین خدا کے اطاعت گزار بندے تھے ۔ ہم پر افترا بازی کرنے والے کےلیے ہلاکت ہو۔ تحقیق جو قوم ہمارے متعلق وہ بات کہتی ہے جو ہم خود اپنے لئے کہنا روا نہیں سمجھتے۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں ۔


مذکورہ شیعہ عبارات سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے :


(1) : مملکت اسلامیہ میں پھوٹ ڈالنے والا پہلا شخص دور عثمانی میں عبدﷲ بن سبا (منافق) تھا اور یہی آدمی شہادت حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کا باعث تھا۔


(2) : سب سے پہلے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کےلیے ربوبیت اور فرض امامت کا دعویٰ عبدﷲ بن سبا نے کیا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے مخالفین پر تبرا بازی اور لعن طعن کی ابتدا بھی اسی نے کی۔


(3) : حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرح وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رجعت دوبارہ تشریف آوری کا قائل تھا۔


(4) : حضرت علی رضی ﷲ عنہ اور امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ ان عقائد باطلہ کی بناء پر ہی عبدﷲ بن سبا کو خارج از اسلام قرار دیتے تھے۔


(5) : عبدﷲ بن سبا اصل میں یہودی تھا اور بظاہر اسلام لایا تھا لیکن دل سے پہلے کی طرح دشمن اسلام و مسلمین تھا ۔ شہادت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کے اسباب اس کے مہیا کئے ہوئے تھے ۔ (مزید وقت ملا تو اس موضوع پر لکھیں گے ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...