بنو امیہ اور بنو ہاشم کے تعلقات و رشتہ داریاں حصہ اول
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : آج کل روافض اور ان کے ہمنوا تفضیلی نیم رافضی چند شرپسندوں باتوں کو لے کر تمام بنی امیہ کو برا بھلا کہتے ہیں فقیر کافی عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ اس پر کچھ لکھا جاۓ مگر کم علمی آڑے جاتی اب فقیر کوشش کر کے کچھ لکھا ہے اہلِ علم اس طرف توجہ فرماٸیں تاکہ شرپسندوں کے فتنہ سے سیدھے سادھے مسلمانانِ اہلسنت کو بچایا جاۓ ۔ اہلِ علم کی خدمت میں مٶدبانہ التجا ہے کہیں غلطی پاٸیں تو از راہِ کرم اصلاح فرادیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔
امیہ اور ہاشم دونوں کوئی غیر نہیں بلکہ چچا بھتیجے تھے اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔
عبد مناف سے
1-عبدالشمس 2- ہاشم، تھے
آگے عبد الشمس سے امیہ
اور ہاشم سے عبدالمطلب تھے،
پھر امیہ سے آگے عرب اور ابو العاص تھے
1_عرب⬅️ابو سفیان- معاویہ-یزید
2_ابو العاص⬅️-حکم -عفان
اور پھر عفان سے عثمان اور حکم سے مروان ،عبدالملک، اور انہی سے بنو امیہ کے اکثر خلفاء تھے ۔
اور عبدالمطب کے خاندان سے آگے عبداللہ ،ابو طالب اور عباس تھے ۔
1_عبداللہ رضی اللہ عنہ ⬅️ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
2_ابوطالب⬅️ علی ، حسن و حسین
3_عباس⬅️عبداللہ، عبیداللہ -علی، اور انہی سے بنو عباس کے خلفاء تھے)
بنو هاشم اور بنو امیہ كے درمیان ازدواجی روابط كا آغاز عہد جاہلیت میں تقریباً چھٹی صدی عیسوی كے وسط سے ہوا اور عہد عباسی تک یعنی نویں صدی عیسوی كے وسط تک برابر اس كی مثالیں ملتی رہیں ۔ موجوده مطالعہ میں اس طرح اسلامی معاشرتی تاریخ كے پانچ ادوار عہد جاهلیت ، عہد نبوی ، خلافت راشده ، بنی امیہ اور دولت بنی عباس میں ان دونوں خاندانوں كے درمیان قائم ہونے والے ازدواجی روابط كی تاریخی تحقیق ہے جو بہت اہم دلچسپ اور فكر انگیز ہے ۔
هاشم بن عبد مناف (تقریبا ۱۰۲۔۱۴۷قبل هجری مطابق ۸۴۰۔۵۲۴ عیسوی) اور بنوامیہ كے جد امجد عبد شمس (تقریباً ۱۰۵۔۱۵۵ھ مطابق ۴۷۶۔ ۵۶۷ عیسوی ) كے فرزندوں اور دختروں میں كوئی ازدواجی تعلق نہیں ہوا تھا (زبیری كتاب نسب قریش، مرتبہ لیفی بروفنال ، مصر ۱۹۵۳ءص۱۵،۱۷،۹۷) البتہ بعد كی پیڑھی میں اس كا پہلا ثبوت ملتاہے ۔
عبد المطلب كی بڑی صاحبزادی ام حكیم بیضاء كا عقد اموی خاندان كے ایك ممتاز فرد كرزبن ربیعہ سے ہوا تھا ۔ (زبیری ، ص۱۸)
عبد المطلب كی دوسری بیٹی سیده صفیہ كا پہلا عقد حرب بن امیہ كے بیٹے حارث سے ہوا تھا ۔ (ابن سعد الطبقات الكبری بیروت ۱۹۵۸ء ہشتم ص ۴۵)
عبد المطلب كی تیسری بیٹی امیمہ كا عقد اموی خاندان كے ایك حلیف جحش بن رئاب اسدی سے ہوا تھا ۔ (زبیری ص ۹۱)
یہاں یہ امر ملحوظ ہے کہ عرب كے قبائلی سماج میں حلیف اسی خاندان كا ركن شمار ہوتا تھا ۔ عبد المطلب كے ایك صاحبزادے ابو لہب كا عقد حرب بن امیہ كی بیٹی ام جمیل سے ہوا تھا ۔( زبیری ص ۸۹،چشتی)
نبی كریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسلام سے قبل اپنی صاحبزادی سیده زینب كا عقد ابو العاص اموی سے كیا۔ (طبقات ابن سعد ہشتم ۲۶۔۳۰)
نبی كریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی دوسری بیٹی سیده رقیہ كا دوسرا عقد سیدنا عثمان بن عفان اموی كے ساتھ ہوا ۔ (زبیری ص ۲۲)
سیده رقیہ كے انتقال كے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی ایك اور بیٹی سیده ام كلثوم بھی سیدنا عثمان بن عفان كے حبالہ نكاح میں آئیں ۔ رض اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد صفحہ ۳۸)
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی ایک شادی ابو سفیان بن حرب اموی كی صاحبزادی سیده ام حبیبہ سے ہوئی ۔ (تاریخ طبری دوم ۱۵۳۔۱۵۴)
بنو هاشم كے ایک اور فرد حارث بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب نے ابو سفیان كی دوسری دختر ہند سے عقد كیا تھا ۔ (احمد بن یحیی بلا ذری،انساب الاشراف ، مرتبہ محمد حمید اللہ قاهره ۱۹۵۹ء اول ۴۴۰)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے بڑے بھائی عقیل بن ابی طالب هاشمی كا عقد ولید بن عتبہ بن ربیعہ كی بیٹی فاطمہ سے ہوا تھا ۔ (واقدی، كتاب المغازی ، مارسدن جونس ، آكسفورڈ ۱۹۶۶ء صفحہ ۹۱۸،چشتی)
سیدنا زید بن حارثہ مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كا نكاح خاندان بنو امیہ كی ایك معزز خاتون ام كلثوم بنت عتبہ بن ابی معیط اموی سے ہوا ۔ (طبقات ابن سعد ہشتم صفحہ نمبر ۲۳۰)
سیدنا عقیل رض اللہ عنہ بن ابی طالب كا ایک عقد ان كی پهلی بیوی فاطمہ بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ كی ہم نام پھوپھی فاطمہ بنت عتبہ سے ہوا تھا ۔ (طبقات ابن سعد چهارم ص ۲۳)
بنو امیہ اور بنو ہاشم کے سبھی لوگ ایک دوسرے کے کزن تھے ۔ عربوں میں جلد شادیوں کی وجہ سے یہ کیفیت ہو جاتی تھی کہ کبھی چچا بھتیجا ہم عمر ہوتے تھے اور کبھی بھتیجا چچا سے زیادہ عمر کا ہوا کرتا تھا ، یہ بات تو واضح ہے کہ حضرات عثمان، علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم سبھی ایک دوسرے کے کزن تھے ۔ فرق صرف یہ تھا کہ کسی کا رشتہ قریب کا تھا اور کسی کا دور کا لیکن ان رشتوں کو مزید قربت اس طرح ملی کہ ان حضرات نے آپس میں ایک دوسرے کی اولادوں سے اپنی بیٹیوں کے رشتے کیے ۔
بنو امیہ کے السابقون الاولون صحابہ میں حضرت عثمان ، ام حبیبہ ، خالد بن سعید ، عمرو بن سعید رضی اللہ عنہم کا نام پیش کیا جا سکتا ہے ۔ ان میں سے بہت سے حضرات نے حبشہ ہجرت کی ۔ اگر بنو امیہ اور بنو ہاشم میں دشمنی ہوتی تو بنو امیہ کے اتنے لوگ ایک ہاشمی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان نہ لاتے ۔
أم محمد بنت عبدالله بن جعفر بن أبي طالب إبن عبدالمطلب بن هاشم ۔ یزید بن معاویہ کی بیوی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کی بیٹی تھی ، عبداللہ بن جعفر جو جعفر بن ابی طالب کے بیٹے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چاچا زاد بھائی تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جن لوگوں کو عہدے دیے ، وہ زیادہ تر بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کا گورنر بھی ایک اموی نوجوان حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو نجران اور ان کے بیٹے یزید کو تیماء کا گورنر مقرر فرمایا ۔ حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ، جو ان دونوں خانوادوں سے ہٹ کر بالترتیب بنو تیم اور بنو عدی (قریش کے دیگر خاندان) سے تعلق رکھتے تھے ، نے بھی بنو امیہ کے لوگوں کو زیادہ عہدے دیے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے ان اموی صحابہ رضی اللہ عنہم پر کامل اعتماد تھا ۔ بنو امیہ کو زیادہ عہدے دینے کی وجہ یہی تھی کہ ان کے خاندان میں ایڈمنسٹریشن کا ٹیلنٹ پایا جاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 130 برس تک عالمِ اسلام پر بہترین انداز میں حکومت کی اور کوئی فتنہ و فساد نہ پھیلنے دیا ۔ پھر جب بنو عباس نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اسپین میں یہی بنو امیہ مزید 300 سال تک حکومت کرتے رہے ۔
بنو امیہ اور بنو ہاشم میں باہمی محبت کا سب سے بڑا ثبوت بنو امیہ کے دور کے اوائل میں بنو ہاشم کا طرز عمل ہے : حضرت علی (ہاشمی) حضرت عثمان (اموی) رضی اللہ عنہما کے دست راست رہے اور باغیوں کے خلاف ان کا بھرپور ساتھ دیا ۔
حضرت امام حسن (ہاشمی) حضرت معاویہ (اموی) رضی اللہ عنہما کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔ تمام بنو ہاشم نے ان کی بیعت کی ۔
حضرت عبداللہ بن عباس (ہاشمی) رضی اللہ عنہما نے عبد الملک بن مروان (اموی) کی بیعت کی اور اس پر اپنے آخری دم تک قائم رہے ۔
حضرت امام زین العابدین (ہاشمی) رضی اللہ عنہ نے پانچ اموی خلفاء یزید ، مروان ، عبدالملک ، ولید اور سلیمان کا زمانہ پایا اور ان سب کے ساتھ ان کے بہترین تعلقات رہے ۔ یہی طرز عمل ان کے بیٹوں اور پوتوں میں منتقل ہوا جن میں حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما نمایاں ہیں ۔
متعصب رافضی مٶرخین ابو مخنف اور ہشام کلبی نے بنو امیہ اور بنو ہاشم کے اختلافات کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے حالانکہ خود انہیں کی روایتیں اس کی تردید کرتی ہیں ۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں :
متعصب راویوں کے مطابق حضرت ابوبکر کی بیعت کے موقع پر حضرت ابو سفیان (بنو امیہ) نے حضرت علی (بنو ہاشم) رضی اللہ عنہم کو خلافت کا دعوی کرنے کی ترغیب دی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے سختی سے منع کر دیا تھا ۔
حضرت عثمان (بنو امیہ) رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو خلیفہ نہ بنایا جائے تو آپ کی رائے کس کے حق میں ہو گی؟ انہوں نے جواب دیا : علی (بنو ہاشم)کے حق میں ۔ اسی طرح حضرت علی (بنو ہاشم) رضی اللہ عنہ سے یہی سوال کیا گیا کہ اگر آپ کو خلیفہ نہ بنایا جائے تو آپ کی رائے کس کے حق میں ہو گی ؟ انہوں نے جواب دیا: عثمان (بنو امیہ) رضی اللہ عنہ کے حق میں ۔
حضرت امام حسن (بنو ہاشم) حضرت معاویہ (بنو امیہ) رضی اللہ عنہما کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے ۔ حضرت معاویہ اپنے پورے دور خلافت میں حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہم کے ساتھ بہترین سلوک کرتے رہے ۔
اموی افواج جب حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی جاگیر کے پاس سے گزریں تو انہوں نے انہیں چارہ پانی فراہم کیا ۔ (تاریخ طبری 4/1-268،چشتی)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی بنو امیہ کے بارے میں کیا رائے تھی ، ملاحظہ فرمائیے :
أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر بن أيوب عن ابن سيرين : امام ابن سیرین علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : مجھے قریش کے بارے میں بتائیے ؟ فرمایا : ہم میں سب سے زیادہ صاحب عقل اور صاحب تحمل ، ہمارے بھائی بنو امیہ ہیں اور بنو ہاشم جنگ کے وقت سب سے بہادر ہیں اور جو ان کی ملکیت ہو ، اس میں سب سے زیادہ سخی ہیں ۔ قریش کا پھول بنو مغیرہ ہیں جس سے ہم خوشبو حاصل کرتے ہیں ۔ (عبد الرزاق۔ المصنف۔ روایت نمبر 9768، 5/451۔ بیروت: مکتب اسلامی،چشتی)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو ہاشم کے مابین عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں کوئی اختلافات نہ تھے ۔
عہدِ جاہلیت میں نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دادا عبدالمطلب نے اپنی دو بیٹیاں جنابہ صفیہ بنت عبدالمطلب اور جنابہ ام حکم کی شادیاں بنوامیہ میں حارث بن حرب اور کریز بن ربیعہ سے کیں ۔ یہ حارث بن حرب سیدنا ابوسفیان بن حرب کے بھائی تھے ۔ یوں سیدنا معاویہ بن ابو سفیان کی ایک چچی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پھوپھی تھی ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۱۸-۱۹، طبقات ابن سعد، جلد ہشتم صفحہ ۴۱-۴۶، انساب الاشراف جلد اول صفحہ ۸۸-۹۰،چشتی)
اسی طرح جناب عبدالمطلب نے اپنے ایک بیٹے ابو لہب بن عبدالمطلب کی شادی بنو امیہ میں اُمِ جمیل بنت حرب سے کی تھی جو کہ سیدنا ابو سفیان کی بہن تھی ۔ یہی یہ وہی ابو لہب ہاشمی اور امِ جمیل اموی ہیں جن کو سورۃ لہب میں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۸۹، طبقات ابن سعد جلد چہارم صفحہ ۵۹)
اس ابو لہب کے مسلمان پڑ پوتے فضل بن عباس بن عتبہ بن ابو الہب کو اپنی اس ننھیالی اموی نسبت پر اس قدر فخر تھا کہ انہوں نے باقاعدہ اپنے اشعار میں اپنی اس نسبت کا یہ کہہ کر فخریہ تذکرہ کیا ہے کہ :
عبدشمس ابی ، فان کنتِ غضبی
فاملئی وجھک الجمیل خموشا ۔ (طبقات فحول الشعراء صفحہ ۶۲)
عربوں میں ایک دستور ندیمی اور دوستی کا ہوتا تھا جس میں دو خاندانوں کے بڑے آپس میں گہرے ندیم و دوست ہوتے تھے ۔ ایسی ہی ایک دوستی سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما اور سدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی تھی ، اسی وجہ سے فتح مکہ سے ایک دن قبل سیدنا عباس بن عبدالمطلب سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھا کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں قبولِ اسلام کے لئے لے گئے تھے ۔ (کتاب المحبر صفحہ۱۷۴)
اسی طرح انہیں ابو سفیان بن حرب کے بھائی حارث بن حرب اور انہیں عباس بن عبدالمطلب کے بھائی حارث بن عبدالمطلب بھی آپس میں گہرے دوست اور ندیم تھے ۔ حارث بن حرب کے انتقال کے بعد حارث بن عبدالمطلب نے سیدنا زبیر کے والد اور سیدہ خدیجہ کے بھائی عوام بن خویلد اسدی سے رشتہ منادمت قائم کرلیا تھا ۔ (کتاب المحبر صفحہ ۱۷۷) (رضی اللہ عنہم)
بعینہٖ اسی طور سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اموی کی مذکورہ بالا حارث بن عبدالمطلب کے فرزند جناب ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہم ہاشمی سے اسلام سے قبل سے لیکر عہدِ عثمانی تک گہری دوستی اور منادمت تھی ۔ (انساب الاشراف جلد ۵ صفحہ ۳۹)
عہدِ جاہلیت میں حارث بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب نے سیدنا ابو سفیان کی ایک صاحبزادی جنابہ ہند بنت ابو سفیان سے نکاح کیا تھا ۔ یہ ہند ام المومنین سیدہ امِ حبیبہ کی بہن تھیں ۔ (رضی اللہ عنہم) (انساب الاشراف جلد ۱ صفحہ۴۴،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے بڑی صاحبزادی سیدہ زینب بنت محمد کا نکاح اپنے اموی خالہ زاد بھائی سیدنا ابو العاص بن ربیع سے قبلِ اسلام ہی ہوا تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بعد ہجرت بھی برقرار رکھا اور اسی نکاح کے تحت سیدہ زینب کو سیدنا ابو العاص کے پاس واپس لوٹا دیا تھا ۔ (رضی اللہ عنہم) (طبری جلد دوم صفحہ ۴۷۲،چشتی)
بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی دو صاحبزادیوں سیدہ رقیہ اور سیدہ امِ کلثوم کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان بن عفان اموی رضی اللہ عنہم سے کیا اور یہاں تک فرمایا کہ اگر میری دس لڑکیاں بھی ہوتی تو میں ان کو ایک کے بعد عثمان کی زوجیت میں دے دیتا ۔ (طبری و ابن سعد : قصہ مشہورۃ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب بڑے اموی داماد سیدنا ابو العاص بن ربیع کا جب انتقال ہونے لگا تو انہوں نے سیدنا زبیر بن العوام کو اپنا وصی بنایا اور اپنی بیٹی امامہ بنت ابو العاص کی بابت ان کو تاکید کی کہ ان کا کسی اچھے خاندان میں رشتہ کردیں ۔ اسی اثناء میں سیدہ فاطمہ کا انتقال بھی ہوگیا ۔ سیدنا زبیر بن العوام نے اپنا حقِ ولایت استعمال کرتے ہوئے تو امامہ بنت ابو العاص اموی کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہم ہاشمی سے کردیا ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۲۲)(طبقات ابن سعد جلد ۶ صفحہ ۲۳۳،چشتی)(انساب الاشراف جلد ۱ صفحہ ۴۰۰)
سیدنا علی کی صاحبزادی رملہ رضی اللہ عنہمما مروان بن الحکم کے فرزند معاویہ بن مروان کو بیاہی تھی جو کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے حقیقی بھائی تھے ۔ (جمہرۃ الانساب ابن حزم، ص ۸۰)
اسی طرح سیدنا مولا علی رضی اللہ عن کی دوسری صاحبزادی انہی مروان بن الحکم کے بیٹے عبدالملک بن مروان جو کہ خلیفہ تھے اپنے زمانہ میں ان کو بیاہی تھی ۔ (البدایہ و النہایہ ج ۹، ص ۶۹،چشتی)
حضرت مولا سیدنا علی کی تیسری صاحبزادی خدیجہ بنت علی رضی اللہ عنہم امیر عامر بن کریز اموی کے فرزند عبدالرحمٰن بن عامر اموی کو بیاہی گئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب ص ۶۸)
اسی طرح حضرت سیدنا مولا علی کے بڑے بیٹے سیدنا امام حسن کی ایک نہیں بلکہ 6 پوتیاں اموی خاندان میں بیاہی گئی تھیں رضی اللہ عنہم ۔
سیدہ نفسیہ بنت زید بن حسن رضی اللہ عنہم کی شادی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوئی ۔ (عمدۃ الطالب صفحہ ۴۴)
ان حضرت نفسیہ کی چچا زاد بہن زینب بنت حسن مثنیٰ بن حسن رضی اللہ عنہم کی شادی بھی ولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۳۶،چشتی)
حضرت سیدنا امام حسن بن علی کی تیسری پوتی ام قاسم بنت حسن مثنیٰ بن حسن کی شادی سیدنا عثمان کے پوتے مروان بن ابان بن عثمان سے ہوئی ۔ مروان بن عثمان کے انتقال کے بعد یہ ام قاسم علی بن حسین (زین العابدین) رضی اللہ عنہم کے عقد میں آئیں ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۳۷)
حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی چوتھی پوتی مروان کے ایک فرزند معاویہ بن مروان بن الحکم کے عقد میں آئیں جن کے بطن سے حسن کے اموی نواسہ ولید بن معاویہ متولد ہوئے ۔(جمہرۃ الانساب ص ۸۰، ۱۰۰)
سیدنا امام حسن بن علی کی پانچویں پوتی حمادہ بنت حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہم ۔ مروان کے ایک بھتیجے کے فرزند ، اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم کو بیاہی گئی تھیں ۔ (جمرۃالانساب ص ۱۰۰)
حضرت سیدنا امام حسن کی چھٹی پوتی خدیجہ بنت الحسین بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کی شادی بھی اپنی چچیری بہن حمادہ کے نکاح سے پہلے اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم سے ہوئی تھی جن کے بطن سے امام حسن رضی اللہ عنہ کے چار اموی نواسے محمد الاکبر و حسین و اسحٰق و مسلمہ پیدا ہوئے ۔ ( جمہرۃ الانساب ص ۱۰۰)
حضرت سیدنا امام حسن بن علی کی طرح حضرت سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہم کے گھر کی خواتین بھی کثرت سے بنو امیہ میں بیاہی گئی تھیں ۔
حضرت سیدنا امام حسین بن علی کی صاحبزادی سکینہ نے اپنے شوہر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہم کے شہید ہوجانے کے بعد مروان کے پوتے الاصبغ بن عبدالعزیز بن مروان سے نکاح کیا جو کہ اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے ۔ ان الاصبغ کی دوسری بیوی یزید بن معاویہ کی بیٹی ام یزید تھیں ۔ (کتاب نسب قریش صفحہ ۵۹،چشتی)(المعارف ابن قیتبہ صفحہ ۹۴)
حضرت سکینہ بنت امام حسین کا ایک اور نکاح عثمان بن عفان کے پوتے زید بن عمرہ بن عثمان اموی (رضی اللہ عنہم) سے ہوا تھا ، بعد میں ان سے علحیدگی ہوگئی تھی ۔ (المعارف ابن قتیبہ صفحہ نمبر ۹۳)(جمہرۃ الانساب صفحہ نمبر ۷۹)
حضرت سیدنا امام حسین کی نواسی ربیحہ بنت سکینہ جو ان کے شوہر عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم رضی اللہ عنہم سے تھیں ، مروان کے پڑپوتے العباس بن ولید بن عبدالملک بن مروان کو بیاہی تھیں ۔ (کتاب نسب قریش مصعب زبیری صفحہ ۵۹)
حضرت سیدنا امام حسین کی دوسری صاحبزادی سیدہ فاطمہ کا نکاح ثانی اپنے شوہر حسن مثنیٰ کے بعد اموی خاندان میں عبداللہ بن عمرو بن عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہم سے ہوا ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۷۶)
حضرت سیدنا امام حسین کے ایک پڑپوتے حسن بن حسین بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کی شادی اموی خاندان میں خلیدہ بنت مروان بن عنبسہ بن سعد بن العاص بن امیہ سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۷۵)
حضرت سیدنا امام حسین کے ایک اور پڑ پوتے اسحٰق بن عبداللہ بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کی شادی اموی و عثمانی خاندان میں عائشہ بنت عمر بن عاصم بن عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہم سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب ص ۴۷)
اس کے علاوہ بنو ہاشم و بنو امیہ میں دیگر رشتہ داریاں بھی ہوتی رہیں جیسا کہ :
حضرت سیدنا امام حسین بن علی کے بھائی عباس بن علی کی پوتی نفیسہ بنت عبیداللہ بن عباس بن علی رضی اللہ عنہم کی شادی یزید بن معاویہ کے پوتے عبداللہ بن خالد بن یزید سے ہوئی ۔ (جمہرۃا لانساب صفحہ ۱۰۳)(کتاب نسب قریش صفحہ ۷۹)
حضرت سیدنا مولا علی کے بھتیجے محمد بن جعفر طیار رضی اللہ عنہم بن ابی طالب کی صاحبزادی رملہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مروان کے پڑ پوتے سلیمان بن خلیفہ ہشام بن خلیفہ عبدالملک بن خلیفہ مروان سے ہوا تھا ۔ ان کے انتقال کے بعد ان ہاشمیہ خاتون کا نکاح ثانی ابو سفیان بن حرب کے پڑ پوتے ابو القاسم بن ولید بن عتبہ بن ابو سفیان سے ہوا تھا ۔ ان ابو القاسم بن ولید کی والدہ لبابہ بنت عبیداللہ بن عباس بن عبدالمطلب یعنی حسین بن علی کی رشتہ میں چچیری بہن تھیں اور ان کے اموی شوہر ولید بن عتبہ بن ابو سفیان امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہم کے بھتیجے تھے ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۱۰۲،چشتی)
حضرت سیدنا امام حسین کی بھانجی ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر طیار جو کہ زینب بنت علی کے بطن سے تھیں ، اول اپنے چچا زاد قاسم بن محمد بن جعفر رضی اللہ عنہم کے عقد میں آئیں ۔ ان کے بعد ان کا نکاح ثانی اموی گورنر حجاج بن یوسف ثقفی سے ہوا جن سے ایک بیٹی ہوئی ، پھر زوجین میں علحیدگی ہوگئی ۔ ان کا تیسرا نکاح اموی خاندان میں عثمان کے فرزند ابان بن عثمان سے ہوا یعنی یہ ام کلثوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم کی بہو ہوتی تھیں ۔ (المعارف ابن قتیبہ صفحہ ۹۰،چشتی)(جمہرۃ الانساب ص ۶۱، ۱۱۴)
حضرت سیدنا امام حسین بن علی کے حقیقی چچیرے بھائی اور بہنوئی عبداللہ بن جعفر طیار کی دوسری صاحبزادی ام محمد رضی اللہ عنہ کا نکاح یزید بن (معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما) سے ہوا ۔ اس حساب سے یزید بن معاویہ ، اما حسین بن علی کے بھتیج داماد تھے ۔ سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بہن زینب بنت علی ان ام محمد کی سوتیلی والدہ تھیں اور اس ناطے یزید بن معاویہ سیدہ زینب بنت علی کے داماد تھے ۔
حضرت سیدنا امام حسین بن علی کا ایک نکاح سیدنا معاویہ کی بہن سیدہ میمونہ بنت ابو سفیان کی بیٹی لیلیٰ بنت ابو مّرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی سے ہوا تھا ، جن سے جناب علی اکبر رضی اللہ عنہم متولد ہوئے تھے ۔ (مصعب زبیری کتاب نسب قریش صفحہ ۵۷، ۱۲۶)
گویا اس رشتہ سے سیدنا امام حسین سیدنا معاویہ کے بھانجے داماد تھے ۔ ان لیلیٰ کی ایک چچازاد بہن فارعہ بنت ہمام بن عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہم تھیں جو کہ حجاج بن یوسف ثقفی کی والدہ تھیں ۔ یوں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کے خالو لگتے تھے اور حضر علی اکبر رضی اللہ عنہ اور امیر حجاج بن یوسف آپس میں خالہ زاد بھائی تھے ۔
نفيسة بنت عبيدالله بن العباس إبن علي بن أبي طالب بن عبدالمطلب ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی پڑپوتی نفیسہ یزید کے پوتے کی بیوی تھی ، جس سے عبداللہ بن خالد کے دو بیٹے علی اور عباس ہوئے ۔ یہ اور اس طرح کی اور بہت سی رشتہ داریاں ہیں جو کہ بنو امیہ و بنو ہاشم میں ہوتی رہیں ، ہم طوالت کے خوف سے انہیں یہاں نقل نہیں کررہے ہیں ۔ ان رشتہ داریوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بنی امیہ اور بنی ہاشم کے مابین دشمنی و عداوت کی حکاتیں تو سراسر بے سروپا ہیں ۔ تاہم غور طلب امر یہ ہے کہ کچھ کو چھوڑ کر مذکورہ بالا تمام رشتہ داریاں واقعہ صفین و کربلا کے بعد کی ہیں ۔ اللہ عز و جل فتنہ ابنِ سبا کے پھیلاۓ شر سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے آمین ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment