Wednesday 4 August 2021

پنجتن پاک رضی اللہ عنہم

0 comments

پنجتن پاک رضی اللہ عنہم

محترم قارئینِ کرام : پنجتن پاک سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و مولا علی اور حضرت بی بی فاطمہ زہرا و حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ ۔ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 33)
ترجمہ : اے نبی کے گھر والو اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے ۔

یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر والو اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو ۔ (تفسیر مدارک ، الاحزاب : ۳۳، ص۹۴۰)

یعنی اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے دامن ، سیرت ، کردار اور اعمال کے ظاہر و باطن کو ہر نجس اور ناپاکی سے اس طرح پاک فرما دے کہ تم طہارت اور پاکیزگی کا قابل تقلید نمونہ بن جاؤ اور قیامت تک طہارت اور پاکیزگی تم سے جنم لیتی رہے ۔

اِس آیت میں  اہلِ بیت سے نبیٔ  کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہعنہن سب سے پہلے مراد ہیں  کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہورہا ہے ۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمَین رضی اللہ عنہم کا اہلِ بیت میں  داخل ہونا بھی دلائل سے ثابت ہے ۔

صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’سوانح کربلا‘‘ میں  یہ آیت لکھ کر اہلِ بیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مِصداق کے بارے میں  مفسرین کے اَقوال اور اَحادیث نقل فرمائیں ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : ’’خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں  داخل ہیں  (یعنی ازواجِ مُطَہَّرات) کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں  (اور) چونکہ اہلِ بیتِ نسب (نسبی تعلق والوں ) کا مر اد ہونا مخفی تھا، اس لئے آں  سَرور ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں  پنجتن پاک کو چادر میں  لے کر ان کے لئے دعا فرمائی) سے بیان فرمادیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں  ۔ خواہ بیت ِمسکن کے اہل ہوں  جیسے کہ اَزواج یا بیت ِنسب کے اہل (جیسے کہ) بنی ہاشم و مُطّلب ۔ (سوانح کربلا، اہل بیت نبوت صفحہ نمبر ۸۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت پانچ (افراد)کی شان میں نازل ہوئی ہے میری شان میں اور علی اور حسن و حسین اور حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ عنہم کی شان میں ۔۔۔۔ جز ایں نیست اللہ تعالی ارادہ فرماتا ہے اے اہل بیت کہ تم سے ناپاکی کو دور کر دے اور تمہیں پاک کردے خوب پاک کردے  ۔
پنجتن کے معنی ہیں پانچ افراد ، اور ان سے مراد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حسنین کریمین ، سیدہ فاطمہ الزہرا اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں اور آیت تطہیر ان پانچوں مقدسین کے بارے میں نازل ہوئی جس میں و یطہرکم تطہیرا موجود ہے یعنی اللہ تعالی پاک کردے پاک کرنا ، جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ پنجتن واقعی پاک ہیں  ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب خود اپنی مبارک زبان سے خمسۃ کا لفظ فرما دیا اور خمسہ سے اپنی مراد کو ظاہر فرمانے کےلیے تفصیل ارشاد فرمادی اور صاف صاف ارشاد فرمادیا کہ آیت تطہیر کی شان نزول یہ پانچ ہیں جن کو اللہ تعالی نے پاک قرار دیا ، تو اب اس کے بعد کسی شقی القلب کا یہ کہنا کہ معاذاللہ پنجتن کو پاک کہنا جائز نہیں اور پنجتن آیہ تطہیر میں داخل نہیں بارگاہ رسالت سے بغاوت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تکذیب نہیں تو اور کیا ہے ؟ نعوذ باللہ من ذلک  ۔
اس کا مقصد یہ نہیں کہ معاذ اللہ ان پانچ کے سوا ہم کسی کو پاک نہیں مانتے ہمارے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی آیہ تطہیر میں داخل ہیں اسی لیے ہم ان کے ساتھ مطہرات کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ان کے علاوہ اللہ تعالی کے بے شمار مقدس محبوب بندے اور بندیاں یقینا پاک ہیں اور ہم ان کی  پاکی کا اعتقاد رکھتے ہیں لیکن پنجتن پاک بولنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ حدیث منقولہ بالا (مکمل احادیث مضمون میں آگے آ رہی ہیں) میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے خمسہ کا کلمہ مقدسہ ادا ہوا پھر ان کی تفصیل بھی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمائی اور ان کی شان میں ایہ تطہیر کا نزول کا ذکر فرمایا ۔
اگر پنجتن پاک لے لفظ کا مفہوم یہ لیا جائے کہ معتقدمین پنجتن کے نزدیک ان پنجتن کے سوا کوئی پاک ہی نہیں تو معاذ اللہ یہ الزام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ پر بھی عائد ہوگا کیونکہ خمسۃ کا لفظ زبان رسالت کا ارشاد معلوم ہے معلوم ہوا کہ پنجتن کو پاک کہنے والے سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور اس کلمہ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکی انہیں پانچ میں منحصر ہے اور معاذ اللہ ان پانچ کے سوا کوئی اور پاک نہیں بلکہ یہ بھی پاک ہیں اور ان کے سوا وہ سب پاک ہیں جن کی پاکی پر کتاب و سنت پر دلیل قائم ہے  ۔ (ماہنامہ السعید ملتان شمارہ اکتوبر 1962 صفحہ 22،23)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی ﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا ، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے ، پھر سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا ، پھر حضرت علی کرم ﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1883، 2424، والحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707. 4709، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، الرقم : 2680، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32102،چشتی)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی ﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔‘‘ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام ﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے ﷲ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے ۔ سیدہ اُم سلمہ رضی ﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں ، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔ (الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم : 3205، وفي کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 699، الرقم : 3871، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 134، الرقم : 3799،چشتی)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا ، پھر فرمایا : یا ﷲ ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، وفي کتاب : المناقب عن رسول ﷲ ﷺ ، باب : (21)، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم : 8399، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13169 – 13170، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719،چشتی)

لفظ پنجتن پاک اس حدیث سے لیا گیا ہے

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیثِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوۓ فرماتے ہیں :

(1) ۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب کہ آیتِ کریمہ"یُرِیۡدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجْسَ اَہۡلَ الْبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیۡرًا" نازل ہوئی ۔

(2) ۔ خیال رہے کہ یہ آیت کریمہ ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اوپر سے انہیں کا ذکر ہے اور خود اس آیت کے اول میں انہیں سے خطاب ہے اور بعد میں بھی انہیں سے خطاب،اگر اتنے ٹکڑے میں یہ حضرات مراد ہوں تو آیاتِ بلکہ ایک آیت کے اجزاء میں سخت بے ربطی ہوجاوے گی مگر چونکہ انہیں ازواج پاک اہلِ بیت کے لفظ سے یاد فرمایا گیا لہذا یطھرکم ضمیر جمع مذکر ارشاد ہوئی کہ لفظ اہل بیت مذکر ہے جیسے فرشتوں نے حضرت سارہ زوجہ ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا تھا "اَتَعْجَبِیۡنَ مِنْ اَمْرِ اللہِ رَحْمَتُ اللہِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمْ اَہۡلَ الْبَیۡتِ"وہاں بھی علیکم جمع مذکر کی ضمیر ارشاد ہوئی ہے۔حضور انور نے چاہا کہ ان حضرات کو بھی اس میں داخل فرمالیں لہذا دعا فرمائی کہ الٰہی یہ بھی میرے گھر والے ہی ہیں انہیں بھی خوب پاک فرمادے اسی لیے روایات میں ہے کہ جناب ام سلمہ نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے بھی اس کمبل شریف میں داخل فرمالیں فرمایا انت علی خیر تم تو اس آیت خیر میں ہو ہی تمہارے لیے دعا کرکے داخل کرنے کی کیا ضرورت ہے،ہم تو ان کو داخل کرنے کی دعا کررہے ہیں جو اس میں داخل نہیں ۔

(3) ۔ ان ساری آیات میں حضور کی ازواج پاک سے خطاب ہے"یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ"فرماکر انہیں حکم دیا گیا کہ پردے میں رہو، تلاوت قرآن کرو،نماز کی پابندی کرو۔اس جملہ یعنی"لِیُـذْہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجْسَ"الخ میں ان احکام کی حکمت کا ذکر ہے کہ ہم نے تم کو یہ احکام اس لیے دیئے کہ اللہ چاہتا ہے کہ تم سے زمانہ جاہلیت کی گھنونی عادات کی گندگی دور رکھے اور تم کو پاک و صاف رکھے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے یہ حضرات پاک و صاف نہ تھے اب پاک ہوں گے۔خیال رہے کہ سواء انبیاء کرام اور فرشتوں کے معصوم کوئی نہیں ہاں حضرت صحابہ اور بعض اولیاء اللہ محفوظ ہیں۔اس آیت سے ان حضرات کی معصومیت ثابت نہیں ہوتی جیساکہ روافض نے سمجھا۔مصوم وہ جو گناہ نہ کرسکے،محفوظ وہ جو گناہ نہ کرے۔بعض روایات میں ہے کہ حضرت ام سلمہ نے حضور سے اس موقعہ پر عرض کیا حضور میں بھی آپ کی اہل بیت ہوں فرمایا تم بھی اہلِ بیت ہو،بعض روایات میں ہے کہ حضور انور نے ام سلمہ کو بھی کمبل میں لے لیا پھر یہ دعا فرمائی ۔ (مرقات) خیال رہے کہ لفظ پنجتن پاک اس حدیث سے لیا گیا ہے اور یہ واقعہ بہت بار ہوا کبھی ام سلمہ کو کمبل شریف میں داخل نہیں کیا اور کبھی داخل فرمالیا ہے ۔ (مراة شرح مشکواة حدیث نمبر 6136،چشتی)

حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ پنج تن پاک کے وسیلے سے قبول ہوئی روایت کی تحقیق ۔ بصد شکریہ محترم علامہ فرحان رفیق قادری صاحب کچھ الفاظ کی تبدیلی فقیر کی طرف سے ہے : ⬇

بعض نیم شیعہ خطیب حضرات رافضیت کدے کی طرف بڑھتے جارہے ہیں تبھی رافضیوں کی بیان کردہ روایت نہ صرف ڈنکے کی چوٹ پر بیان کرتے بلکہ ان من گھڑت روایات سے استدلال کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے اگرچہ معاذ اللہ توہین انبیاء علیہم السلام کا وہم ہی کیوں نہ ہوتا ہو ۔ نیم شیعہ خطیب حضرات کی بیان کردہ روایت کو امام سیوطی رحمة اللہ علیہ نے الالي المصنوعه میں دارقطنی کی حوالے سے نقل فرمایا ملاحظہ کیجیے :

الدارقطني) حدثنا أبو ذر أحمد بن محمد بن أبي بكر الواسطي حدثنا محمد بن علي بن خلف العطار حدثنا حسين الأشقر حدثنا عمرو بن ثابت عن أبيه عن سعيد بن جبير ۔
عن ابن عباس : سألت النبي عن الكلمات التي تلقاها آدم من ربه؟ فقال : قال سأل بحق محمد وعلي وفاطمة ۔
اس کی ایک اور سند ابن نجار کے حوالے سے موجود ہے جو کہ محمد بن علی بن خلف العطار سے ایک ہی ہو جاتی ہے ۔

رواۃ کے حالات ملاحظہ کیجیے

الاسم : الحسين بن الحسن الأشقر الفزارى ، أبو عبد الله الكوفى ۔

الطبقة : 10 : كبار الآخذين عن تبع الأتباع

الوفاة : 208 هـ

روى له : س ( النسائي )

رتبته عند ابن حجر : صدوق يهم ، و يغلو فى التشيع ۔

رتبته عند الذهبي : واه ، قال البخارى : فيه نظر ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله كے نزدیك صدوق وہمی اور غالی شیعه ہے ۔

جبكه امام ذهبی كے نزدیك واهِ ہے ۔ نیز امام بخاری رحمه الله نے فرمایا : اس میں نظر ہے ۔

فیضی یافته رافضی محقق فیضی كی كتاب سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ كے فیه نظر كا معنی دیكه لیجیے شكریه ۔

عمرو بن ثابت :

قال ابن معين: ليس بشئ.وقال مرة: ليس بثقة ولا مأمون ۔

وقال النسائي : متروك الحديث.وقال ابن حبان: يروي الموضوعات.وقال أبو داود: رافضي.وقال البخاري: ليس بالقوى عندهم ۔ میزان اعتدال 3/249 ۔ عمرو بن ثابت رافضی ،متروك الحدیث اور موضوع روایات بیان كرنے والا ہے ملخصاً ۔

ابن حبان فرماتے ہیں یه ثبت راویوں سے موضوعات روایت كرتا ہے ۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال 21/258
ایك بات قابل غور ہے نبی كریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كے وصال كے بعد چار بندوں كے سوا باقی سب كافر هوگئے تهے (معاذالله) روایت بیان كرنے والا بهی یهی خبیث هے ۔
تهذيب الكمال في أسماء الرجال 21/257
لیکن کیا کیا جائے بد بختی کا ۔رافضیت بیماری ہی ایسی ہے جس پر تھوڑا سا بھی سایہ کر جائے وہ اسلاف پر بھونکنے والوں یا ان کی بیان کردہ روایات کو سینے سے لگا لیتا ہے جیسا کہ مذکورہ مولوی صاحب!
مذکورہ روایت کو نقل کرنے کے فوراً بعد امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تفرد به عمرو عن أبيه أبي المقدام وتفرد به حسين عنه وعمر وقال يحيى لا ثقة ولا مأمون وقال ابن حبان يروي الموضوعات عن الإثبات ۔ (اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعہ 1/369)
عمرو نے اپنے والد ابو المقدام سے متفرد طور پر بیان کیا اور پھر حسین اشقر نے عمرو سے متفردا اس روایت کو بیان کیا یحییٰ کہتے ہیں حسین ثقہ ہے نہ ہی مامون ابن حبان کہتے ہیں ثبت راویوں سے موضوع روایات بیان کرتا ہے

فتدبر ! پنج تن پاک ، صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، رضی اللہ عنہم ، کے صدقے اللہ تعالیٰ ہم سب کو رافضیت و ناصبیت سے ہمیں محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔