Thursday, 5 August 2021

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لقب فاروقِ اعظم

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لقب فاروقِ اعظم

محترم قارئینِ کرام : فاروق اسے کہتے ہیں   جو حق و باطل کے درمیان فرق کر دے ۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا علامہ عبد الرؤف مناوی رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : قِیْلَ لِعُمَرَ فَارُوْقُ لِفُرْقَانِہٖ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ بِاِحْكَامٍ وَاِتْقَانٍ ، یعنی کہا گیا ہے کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو فاروق اس لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے حق و باطل کے درمیان پختگی اور یقین کے ذریعے فرق فرمایا ۔ (فیض القدیر ،  جلد ۵ صفحہ ۵۸۸ شرح حدیث نمبر ۷۹۶۰)


حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : اےامیر المومنین ہمیں حضر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں   جنہیں اللہ نے فاروق لقب عطا فرمایا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے حق کو باطل سے جدا کر دکھایا ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد ۴۴ صفحہ ۵۰)

 

ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دیا ۔ (اسد الغابۃ جلد ۴ صفحہ ۱۶۲،چشتی)


حضرت جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا : زمین میں ان کا نام عمر اور آسمانوں میں فاروق ہے (رضی اللہ عنہ) ۔ (ریاض النضرۃ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳)


ایک روایت کے مطابق آپ جب اسلام لائے تو بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : اب ہم چھپ کرعبادت نہیں کریں گے اور پھر تمام مسلمانوں نے کعبۃ اللہ شریف میں جا کر نماز ادا کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا ۔ (تاریخ الخلفا صفحہ ۹۰)


حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو فاروق کیوں کہا جاتا ہے ؟ اِرشاد فرمایا :  حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ مجھ سے تین روز قبل اِسلام لائے ۔ اللہ نے میرا سینہ اِسلام کےلیے کھول دیا اور میں بے ساختہ پکار اُٹھا : اَللہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ لَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کے ہیں سب اچھے نام ۔ اس وقت ساری روئے زمین پر نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بڑھ کر کوئی شخصیت میرے لیے محبوب نہ تھی ۔ میں   نے پوچھا : اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کہاں تشریف فرماہیں ؟ میری ہمشیرہ نے کہا : دارِ اَرقم بن ابی اَرقم میں جو صفا پہاڑ ی کے نزدیک ہے ۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گھر کے اندر صحن میں اور نبی کریم سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آگے کمرے میں تشریف فرما تھے ۔میں نے دروازہ پر دستک دی تو میری آمد پر سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوگئے ۔حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بولے : کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگے : عمر آگیا ہے ۔ یہ سن کر خود نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  باہر تشریف لے آئےاور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میرا گریبان پکڑا اور زور سے جھنجھوڑ کر فرمایا : عمر ! تم باز نہیں آٶ گے تو میں بے ساختہ پکار اُٹھا : اَشْھَدُاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا  اللہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہ ، یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ یہ سن کر دارِ اَرقم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ اس کی آواز کعبۃ اللہ شریف میں   سنی گئی ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا حیات اور موت دونوں صورتوں میں ہم حق پر نہیں ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : کیوں نہیں ، اللہ کی قسم ! تم لوگ حق پر ہو ، زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! پھر ہم چھپ چھپ کر کیوں   رہ رہے ہیں ؟ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہم ضرور باہر نکلیں گے ۔  چنانچہ ہم نبی کرہم سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو اس طرح باہر لے آئے کہ ہماری دو صفیں تھیں ، اگلی صف میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور پچھلی صف مِیں   مَیں تھا اور میری حالت یہ تھی کہ میرے اوپر آٹے جیسا غبار تھا ۔ ہم مسجدِ حرام میں داخل ہوئے تو کفار قریش نے ایک نظر مجھے اور دوسری نظر حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان پر ایسا خوف  طاری ہوا جو اس سے قبل کبھی نہ ہوا تھا ۔ اس دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے میرا نام فاروق رکھ دیا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے سبب سے حق و باطل میں امتیاز فرمادیا ۔ (حلیۃ الاولیاء ،  عمر بن الخطاب ،  ج۱ ،  ص۷۵ ،  الرقم:  ۹۳)


حضرت ابو عمرو و ذکوان علیہما الرحمہ نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : مَنْ سَمَّی عُمَرَ الْفَارُوْقَ ؟ ، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا ؟ فرمایا : ،،اَلنَّبِیُّ،، یعنی غیب کی خبریں دینے والے (نبی ) نے ۔ (اسد الغابۃ ،  عمر بن الخطاب ،  ج۴ ،  ص۱۶۲)


حضرت امام شعبی عَلَیْہِ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے مابین جھگڑا ہوگیا ۔ یہودی نے کہا : فیصلے کےلیے تمہارے نبی محمد بن عبداللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس چلتے ہیں ۔ منافق بولا : نہیں بلکہ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف کے پاس جانا چاہیے ۔ یہود ی نے یہ بات نہ مانی اور نبی کریم ، صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس چلا آیا اور بارگاہِ رسالت میں پہنچ کر سارا ماجرا بیان کردیا ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا ۔ جب دونوں باہر آئے تو منافق کہنے لگا : عمر بن خطاب کے پاس چلتے ہیں ۔ دونوں حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے اور سارا ماجرا بیان کردیا اور یہودی نے یہ بھی وضاحت کردی کہ ہمارے اس جھگڑے کا فیصلہ آپ کے نبی محمد بن عبد اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے حق میں کر دیا ہے اور اس فیصلے کے بعد یہ شخص آپ کے پاس آنے پر اصرار کرنے لگا تو ہم یہاں آگئے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے جب یہ سارا معاملہ سنا تو ارشاد فرمایا : تم دونوں ذرا یہیں ٹھہرو ، میں ابھی آتا ہوں ۔ آپ اندرتشریف لے گئے اور تلوار نیام سے باہر نکالتے ہوئے واپس آئے اور فوراً اس منافق کا سر تن سے جدا کر دیا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا : ھٰکَذَا اَقْضِیْ بَیْنَ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَاءِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ، یعنی جو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فیصلے سے راضی نہیں میں اس کا فیصلہ یوں   کروں گا ۔ (انوار الحرمین علی تفسیر الجلالین ،  پ ۵ النساء :  ۵۹ ، ج۱ ص۱۴،چشتی)(تفسیر مدارک پ ۵ النساء :  ۵۹ ص۲۳۴)


حضرت عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا : میں مسجد میں   بیٹھا جبریل امین سے باتیں کرر ہا تھا کہ اچانک عمر بن خطاب آگئے ۔ جبریل امین نے کہا : یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا یہ آپ کے بھائی عمر تو نہیں ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ اور اے جبریل کیا زمین کی طرح آسمانوں میں بھی ان کا کوئی خاص نام ہے ؟ جبریل بولے : اِنَّ اِسْمَہُ فِی السَّمَاءِ اَشْھَرُ مِنْ اِسْمِہٖ فِی الْاَرْضِ اِسْمُہُ فِی السَّمَاءِ فَارُوْقٌ وَ فِی الْاَرْضِ عُمَرُ ، یعنی یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آسمانوں میں جو ان کا نام ہے وہ زمین کی نسبت زیادہ مشہور ہے ،  زمین میں ان کا نام عمر ہے اور آسمانوں میں   ان کا نام فاروق ہے ۔ (ریاض النضرۃ  جلد ۱  صفحہ ۲۷۳،چشتی)


حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : فِی الْجَنَّۃِ  شَجَرَۃٌ مَا عَلَیْھَا وَرَقَۃٌ اِلَّا مَكْتُوْبٌ عَلَيْھَا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ اَبُوْ بَكْرِ نِ الصِّدِّیْقُ عُمَرُ الْفَارُوْقُ عُثْمَانُ ذُوْ النُّورَیْنِ ، یعنی جنت میں ایک درخت ہے جس کے ہر پتے پر یہ لکھا ہے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ کے رسول ہیں ، ابوبکر صدیق ہیں ، عمر فاروق ہیں ، عثمان ذوالنورین ہیں ۔ (معجم کبیر مجاھد  عن ابن عباس رضی اللہ عنہما  جلد ۱۱ صفحہ ۶۳  حدیث : ۱۱۰۹۳)


حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قیامت کے دن اپنا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام بیان فرمایا ۔ پھر ارشاد فرمایا : قیامت میں یوں ندا آئے گی عمر فاروق کہاں ہیں ؟ چنانچہ انہیں حاضر کیا جائے گا تو   اللہ ارشاد فرمائے گا : اے ابو حفص ! تمہیں   مبارک ہو ، یہ ہے تمہارا اعمال نامہ ، چاہو تو اسے پڑھ لو یا نہ پڑھو کیونکہ میں نے تمہاری مغفرت فرمادی ہے ۔ (ریاض النضرۃ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳،چشتی)


فارق کا معنی ہے فرق کرنے والا قطع نظر اس کے کہ وہ حق و باطل دونوں میں فرق کرے یا کوئی سی بھی دو اشیاء میں فرق کرے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بھی اس لیے فارق کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جس طرح حق و باطل کے درمیان فرق فرمایا اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافتِ راشدہ میں ہر ہر شے کو اس کی متبادل اشیاء سے جدا کر کے بالکل واضح کردیا ۔


امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں  :


فارق حق وباطل امام الھدی

تیغ مسلول شدت پہ لاکھوں   سلام


شرح : حق کوباطل وگمراہی سے جدا کرنے اور ہدایت دینے والے امام برحق حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اس تلوار کی مثل ہیں   جو اسلام کی حمایت میں سختی سے بلند کی جاتی ہے آپ رضی اللہ عنہ پر لاکھوں سلام ہوں  ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جب اسلام لے آئے تو رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں  عرض کی کہ : یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اب ہم چھپ کر نماز وغیرہ ادا نہیں کریں گے ۔ لہٰذا تمام مسلمانوں نے کعبۃ اللہ شریف میں جا کر نماز ادا کی تو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حق کو باطل سے جدا کرنے کے سبب آپ کو فاروق لقب عطا فرمایا ۔ (تاریخ الخلفاء  صفحہ ۹۰،چشتی)


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا اور کفر و شرک کی گمراہیوں   کے خلاف اور دین اسلام کی روشنیوں و رعنائیوں کی حمایت میں سختی سے تلوار بلند فرمائی جس سے چہار سو اسلام کا بول بالا ہوگیا ۔ اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ  نے ان ہی تمام واقعات کی طرف اشارہ فرمایا ہے :


ترجمانِ نبی ہم زبانِ نبی

جانِ شانِ عدالت پہ لاکھوں   سلام


شرح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے ہم زبان ہیں   کہ کئی بار آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے سنے بغیر کوئی بات کہی اور وہ بعینہ ویسی ہی نکلی جیسا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا تھا ۔ اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے ترجمان ہیں کہ کوئی مسئلہ بیان فرمایا اور بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جب اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ کو نب کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی بعینہ وہی حدیث مبارکہ ملی جیسا آپ رضی اللہ عنہ نے مسئلہ بیان فرمایا تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے عدل و انصاف کی روح کو شان و شوکت حاصل ہوئی بلکہ اپنے خلافت میں ایسا عدل و انصاف قائم فرمایا جو قیامت تک آنے والے حکمرانوں کےلیے مشعل راہ ہے ، آپ رضی اللہ عنہ پر لاکھوں سلام ہوں  ۔


 فاروقی کا مطلب ہے فاروق والا ۔ جس شخص کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہو اسے فاروقی کہتے ہیں جس طرح کسی کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین خلیفہ رسول اللہ حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہو تو اسے صدیقی کہتے ہیں  ۔


 فاروقِ اعظم


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ حق و باطل کے درمیان فارق  یعنی فرق کرنے والا ہے ، لیکن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو فاروقِ اعظم  اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے زیادہ اس فریضے کو سرانجام دیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی حق و باطل کے درمیان یہ فرق کرنے کی صلاحیت بارگاہِ رسالت سے خاص طور پر عطا ہوئی تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ جس دن اسلام لائے اسی دن آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اعلانیہ کعبۃ اللہ شریف میں نماز ادا کی اور طواف بیت اللہ بھی کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ : اس دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے خود میرا نام فاروق رکھ دیا ،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے سبب سے حق و باطل میں امتیاز فرمادیا ۔ (حلیۃ الاولیاء عمر بن الخطاب  جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۷۵ الرقم :  ۹۳) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...