Tuesday, 31 August 2021

دعوتِ اسلامی کی تاریخ و بانیان حصہ دوم

 دعوتِ اسلامی کی تاریخ و بانیان حصہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے حصہ اول پڑھ لیا ہو گا جس میں فقیر نے عرض کیا تھا کہ اس تحریک کو بنانے میں ہمارے اکابرینِ اہلسنت کا اہم کردار ہے جس میں سرِ فہرست جس عظیم المرتبت شخصیت کا نام شامل ہے وہ رئیس القلم مناظر اسلام مصنف کتب کثیرہ حضرتِ علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ ذات بابرکات ہے علاوہ ازیں دیگر بھی کئی بزرگ شامل ہیں جن کا تذکرہ ہم ذیل میں کرتے ہیں :


خلیفہ قطب مدینہ،تلمیذ صدر الشریعہ، قائد ملت، رئیس القلم ،مناظر اسلام علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ


 نام


غلام رشید تخلص ارشد ہے اور یہ تخلص اتنا  مشہور ہوا کہ لوگوں اصل نام ہی نہ جان سکے


 ولادت باسعادت


آپ کی پیدائش بتاریخ 5/مارچ1925ءضلع بلیا اترپردیش کے ایک معمولی مگر بزرگوں کا عقیدت مند گاؤں “رشید پورہ” کےایک دینداراورعلم  دوست گھرانے میں ہوئی.والد بزرگ وار حضرت مولانا شاہ عبد اللطیف رشیدی علیہ الرحمہ کی آغوش محبت میں پروان چڑھے .جد امجد حضرت مولانا عظیم اللّٰہ علیہ الرحمہ کی تربیتوں کی گھنیری چھاوں میں آپ کا علمی جوہر خوب نکھرا


والد ماجد سلسلہ رشیدیہ کے بزرگ حضرت شاہ عبد العلیم آسی علیہ الرحمہ سے شرف ارادت رکھتے تھے.شاید اسی وجہ سے آپ نے اپنے فرزند ارجمند کانام غلام رشید رکھا جو بعد میں ارشد القادری بن کر خلق خدا کی رشد وہدایت کا روشن منارہ ثابت ہوا


 تعلیم و تربیت


۔1930ء میں رسم بسم اللّٰہ خوانی ہوئی.ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی .اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے الٰہ آباد, بریلی شریف اور ناگپور کا سفر کیا .علمی اضطراب بڑھا تو مرکز علم وفن ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا رخ کیا اور تقریبا آٹھ سالوں تک بڑی عرق ریزی ,جگر کاوی اور جاں سوزی کے ساتھ ابو الفیض حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ,حضرت علامہ سلیمان بھاگل پوری علیہ الرحمہ ,علامہ عبد المصطفٰی ازہری علیہ الرحمہ اور دوسرے متبحر علما کے خرمن علم وفضل سےخوشہ چینی کی


  دستاربندی


۔1944ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سالانہ جلسہ میں عباقر اہل سنت کے مقدس ہاتھوں آپ کے سر پر دستار فضیلت باندھی گئی.


   درس وتدریس


چشمہ علم وحکمت سے اپنی علمی پیاس بجھانے کے بعد آپ نے تدریسی میدان میں قدم رنجہ فرمایا اور باستثناے تبلیغی اسفار 1945ءتا2001ء مختلف مدارس میں نہایت ذمہ داری,تندہی اور کمال مہارت کے ساتھ تشنگان علوم نبوت کو سیراب کرتے رہے.جن درس گاہوں کی مسند درس وتدریس پر جلوہ فگن ہوکر آپ نے علم وحکمت کے موتی لٹاے ان میں سرفہرست شمس العلوم ناگ پور،مہاراشٹر اور مدرسہ فیض العلوم جمشید پور،جھارکھنڈ ہیں


    شہر آہن جمشید پور کو جب سے آپ کی قدم بوسی نصیب ہوئی ،دین وسنت اور علم وفضل کے لحاظ سےاس کا بخت خفتہ بیدار ہوا.آپ کی نگاہ کیمیا اثر نے اس کی تقدیر ہی بدل دی.جہاں لادینیت اور بد مذہبیت پنپ رہی تھی,آپ کی مساعی جمیلہ اور بے پناہ تگ ودو کی برکتوں سے ہر طرف سنیت کی بہاریں قائم ہو گئیں . آپ کی محنتوں کا ثمرہ مدرسہ فیض العلوم دانش وبینش کا ایسا درخشندہ سورج ہے جس کی تجلیوں سے بے شمار افراد کی جہالتوں کے پردے چاک ہوے اور تا ہنوز ہو رہے ہیں


اس کے خوان علم وعرفان سے مستفیض افراد ملک وبیرون ملک میں پورے علمی طنطنہ اورفنی ہمہمہ کے ساتھ تدریسی ,تنظیمی اور دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں اور علم وعمل کی کرنوں سے حیات سنیت اور کائنات محبت وعقیدت کو منور وتاباں کر رہے ہیں


 تلامذہ     


نصف صدی سے زائد پر محیط تدریسی دور میں حضور قائد اہل سنت علیہ الرحمہ کی بافیض بارگاہ سے شعور وآگہی اور فکروفن کی دولت حاصل کرنے والے تلامذہ کی تعداد بقول خلیل احمد رانا آٹھ ہزار کے قریب ہے.فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ جیسی عبقری اورقد آورشخصیت آپ کے تلامذہ کی صف میں شامل ہیں


بیعت وخلافت


خلیفہ اعلی حضرت صدر الشریعہ مصنف بہار شریعت علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے آپ کو ارادت کا شرف حاصل ہوا.قطب مدینہ خلیفہ اعلی حضرت حضرت مولانا ضیاء الدین مہاجر مدنی علیہ الرحمہ اور سرکار پٹنہ حضرت سید شاہ فدا حسین علیہ الرحمہ سے اجازت وخلافت ملی.


مساجد ومدارس اور تنظیموں کا قیام


خالق کائنات ومالک شش جہات نے آپ کو بے پناہ تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا تھا.دین وملت کے فروغ واستحکام اور بکھری ہوئی قوم مسلم کی شیرازہ بندی کا جذبہ بے کراں آپ کی شریانوں میں لہو کے ساتھ گردش کرتا تھا۔


آپ آفاقی فکر ونظر کے حامل ,پرعزم حرکت وعمل کی چلتی پھرتی تصویر,جہد مسلسل کے خوگر,سعی پیہم کے عادی ,اخلاص و وفا کے پیکر جمیل ,علم وحکمت کے بحر نا پیدا کناراور عمل وکردار کے سیل رواں تھے.آپ کے دل میں مسلک حق کی ترویج واشاعت اور دین پاک کی دعوت وتبلیغ کا جذبہ فراواں موجزن تھا


ہر وقت اسلام کے ارتقا اور مسلمانوں کی زبوں حالی کوخوش حالی میں بدلنےکی فکر میں مصروف رہتے.آٹھوں پہر اپنوں کے لیے سوچتے رہتے.ملت کی تعمیر وترقی کے لیے لائحہ عمل تیار کرتے.جماعت کی حالت زار پر آٹھ آٹھ آنسو روتے اور مذہب ومسلک کی زلف برہم کی مشاطگی کے لیے ہمیشہ فکرمند اور سرگرم عمل رہتے


    آپ نے قوم وملت کی تعمیر وترقی کے لیے نہ صرف افکار ونظریات پیش کیے بلکہ مختلف ممالک کا سفر کرکے تعلیمی اور تبلیغی ضروریات کی تکمیل کے لیےمتعدد مساجد ومدارس اور تنظیوں کی طرح ڈالی اور ہچکولے کھاتی کشتی ملت کو ساحل مراد سے ہم کنار کرایا


آپ کا شمار ان سربر آوردہ شخصیات میں ہوتا تھا جھنوں نے بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں اپنی لازوال اور بے لوث خدمات سے گلشن ملت کو سرسبز وشاداب بنایا اور جن کی سعی جمیل اور خدمات جلیلہ کے بطن سے ملک وبیرون ملک میں کئی ایک تبلیغی مراکز اور ایسے مدارس ومساجد وجود میں آئیں جن کی عطر بیز  خوشبووں سےروح اسلام وجد کر اٹھی اور جن کی خدمات دین متین کی رعنائیوں کو دیکھ کر دنیاے اہل سنت جھوم اٹھی


آپ کے قائم کردہ مدارس ومساجد اور تنظیوں کی مجموعی تعداد تین درجن سے زائد ہے .ان میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی,جامعہ مدینة الاسلام ہالینڈ,اسلامک مشنری کالج انگلینڈ,دارالعلوم علیمیہ ,سرینام امریلکا,مدرسہ فیض العلوم,جمشید پور,دارالعلوم ضیاء الاسلام ہوڑہ کولکاتا,الجامعةالقادریہ اسلامی مرکز رانچی ,ادارہ شرعیہ پٹنہ,ادارہ شرعیہ رانچی,ورلڈ اسلامک مشن انگلینڈ,علمی دعوتی واصلاحی تحریک دعوت اسلامی ,مکہ مسجد,مدینہ مسجد ,جمشید پور,مسجد غوثیہ رانچی سرفہرست ہیں


     تالیف وتصنیف


قسام ازل نے جہاں آپ کو خطابت,ردومناظرہ,درس وتدریس اور تدبیروتنظیم کا ملکہ عطا فرمایا تھا وہیں انشاپردازی اور تالیف وتصنیف کا جوہر بھی عطا فرمایا تھا.آپ ایک عدیم النظیر مفکر,بے مثال مناظر,عظیم دانشوراور باشعور قائد ہونے کےساتھ ساتھ بلند پایہ ناقد,مستند ادیب,دیدہ ور محقق اور صاحب طرز انشا پرداز تھے


آپ کے قلم حق رقم سے علوم ومعارف کے ایسےچشمے ابلے جن سے فکر وآگہی کے پژمردہ چمن” لالہ زار”بن گئے.باطل پرستوں کے  ایوانوں میں”زلزلہ” “آیااورشان الوہیت ورسالت میں گستاخیاں کرنے والوں کی بنیادیں “زیرو زبر”ہوگئیں”دہلی سے سہارن پور کا سفر”کر کے بد عقیدوں کی قلعی کھول دی.” جماعت اسلامی”اور” تبلیغی جماعت”کے چہروں سے تلبیس کی چادر ہٹاکر قوم مسلم کو” دعوت انصاف “دیا۔


عقیدہ توحید”,” عقیدہ علم غیب”اور” رسالت محمدی” کے ثبوت پر نقلی و عقلی دلائل کا انبار لگاکر ” دور حاضر کےمنکرین رسالت*”کا ناطقہ بند کردیا.قرآن کی روشنی میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ورفعت کے بیان پر مشتمل رسالہ محمد رسول اللّٰہ قرآن میں”لکھ کر سچے عاشق رسول ہونے کا ثبوت پیش کیا


۔” تفسیر ام القرآن”اور فن تفسیر میں امام احمد رضا کا مقام”تحریرفرما کر اس فن شریف میں دل چسپی رکھنے والوں کےلیے معلومات کا بیش بہا خزانہ پیش کیا. تاریخ فقہ حنفی”اور” تاریخ فن حدیث”کی صورت میں تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو گراں قدر علمی سرمایہ عطاکیا


مختصر یہ کہ آپ کے قلم سیال نے جس وادی کارخ کیا اسے خوب عمدگی سے سیر کیا.جس حق کو چاہا اس کا چہرہ نکھار کر رکھ دیا اور جس باطل پر کمند ڈالی اس کے پرخچے اڑادیے.زلف وزنجیر,انوار احمدی,دل کی مراد,جلوہ حق,نقش کربلا,لسان الفردوس,مصباح القرآن,سرکار کا جسم بے سایہ اور تعزیرات قلم کے پیکر میں علوم ومعارف کا گنجینہ قوم کو عطا کیا


آپ کی نگارشات علم وادب کی شاہکار,فکروآگہی کا سنگم,پرکشش زبان وبیان کا مخزن,تنقیدو تبصرہ کی دستاویز,تحقیق وتدقیق کا سر چشمہ,ملی دردو کرب کا آئینہ,احقاق حق اور ابطال باطل کا خوب صورت نمونہ ہیں


انشا پردازی میں آپ کا وہ ہنر جس نے علمی اور ادبی حلقوں میں آپ کو نمایاں مقام عطاکیا اور ارباب علم ودانش سے خوب دادو تحسین کے تمغے حاصل کیے,وہ ہے آپ کی سحر انگیز ,جاب فکر ونظر اور دلربا طرز تحریر.آپ کے رشحات قلم اس قدردل کش اور ادبی محاسن وکمالات سے آرستہ ہوتے ہیں کہ پڑھیے تو پڑھتے ہی رہیے,اکتاہٹ ارو اچاٹ پن کا احساس ہی نہیں ہوتا۔


آپ نے معانی ومفاہیم کو اس دل آویزی اور ادبی پیراے میں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے کہ خشک سے خشک مضمون بھی دل برداشتگی اور تنگئ خاطر کا سبب نہیں بنتاہے.قوت استدلال ,بلندئ فکر,اسلوب نگارش,شعور کی پختگی,مذہب وملت کے تئیں اخلاص ووفا اور معانی ومفاہیم کی کثرت وفراوانی کے لحاظ سے آپ کا زرنگار قلم اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے.آپ کی تحریریں جہاں اپنوں کے لیے نسیم سحر کی سی ٹھنڈک فراہم کرتیں وہیں دشمنوں کے لیے شمشیر براں,برق تپاں اور سوہان روح ہوا کرتی تھیں.


نعتیہ شاعری


 حضور قائد اہل سنت کی شخصیت گوناگوں خوبیوں کی حامل تھی.جہاں آپ فقید المثال نثر نگار,نادر روزگار انشاپرداز اور صاحب طرز ادیب تھے وہیں آسمان شعروسخن کے بدر منیر بھی تھے.جہاں آپ نے نثری صنف سخن کے زلف برہم کو سنوارااور اس کے عارض تاباں پر غازہ ملا وہیں اپنی قندیل شعور وآگہی سے جہان شعروسخن کو بھی روشنی بخشی اور شریعت طاہرہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شاعری کے ذریعہ گم گشتگان راہ کو نشان منزل اور شمع ہدایت عطا کی


عشق رسول آپ کا طرہ امتیاز اور نشان افتخار تھا.محبت مصطفوی کی آپ نے ایسی بادہ خوری کی تھی کہ ہر وقت اس کی سرمستیوں سے  سرشاراور بے خودرہا کررتے تھے.اسی بے لوث محبت اور عشق صادق کا فیضان تھا کہ آپ ہر محاذ پر نہایت پامردی اور ثبات قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے.سد سکندری بن کر باطل قوتوں سے پنجہ آزمائی کی اور ہر جگہ فتح وکامرانی کا پرچم لہرایا


آپ نےعشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شاعری کا مرکز ومحور قراردیاتھا.آپ کاقلم عشق رسول صلی اللہ علیہ  کے شعلہ سوزاں میں تپ کر کندن ہوچکا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے نوک قلم سے نکلا ہوا ایک ایک شعر بزم عشاق کی جھلملاتی شمع کو فروزاں کرتاہے.آپ نے اپنی شاعری میں جذبہ محبت وعقیدت کا ایسا پھول کھلایا جس کی نکہت اور دل کشی نے تشنہ کام محبت کے لیے متاع تسکین فراہم کیا


آپ نے ایک عاشق دل گیر کے پیکر میں سرور عاشقاں علیہ التحیة والثناء کی بارگاہ میں نذرانہ محبت وگلہاے عقیدت نچھاور کرتے ہوے عشق وایمان کی ایسی جوت جگائی ہے کہ ایک ایک شعر کو پڑھنے اورسننے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم مدینہ طیبہ کی پر بہار فضاوں میں سانس رہے ہیں.ہر طرف رحمت ونور کی جھماجھم بارش ہو رہی ہے اور ہم  جلوہ محبوب کی یادوں میں نہارہے ہیں


آپ کی شاعری زبان وبیان کی نزاکت ولطافت,خوب صورت الفاظ کی بندش,سحر طرازی,طلاقت لسانی,سلاست زبانی,تغزل کا بانکپن,طرزادا کی دل آویزی,اسلوب بیان کی دل کشی,مضامین کی آوردگی وروانی,اور مطالب کی شگفتی وبرجستگی جیسی اعلی خصوصیات کی حامل ہے.آپ کی نعتوں کا مجموعہ آپ کے فرزند علامہ غلام زرقانی مدظلہ العالی کی کاوش سے بنام” اظہار عقیدت”زیور طبع سے آراستہ ہوچکا ہے


ردومناظرہ


یوں تو رئیس القلم علیہ الرحمہ کو شاعری ,درس وتدریس ,تصنیف وتالیف,تبلیغ وارشاد سب میں اعلی دست گاہ حاصل تھی مگر فن مناظرہ میں آپ کو جو نشان امتیازاور نمایاں مقام حاصل تھاماضی قریب میں اس کی نظیر نہیں ملتی.اس فن میں آپ یکتاےروزگار اور درنایاب تھے.حضور حافظ ملت,حضور مجاہدملت اور دیگر بزرگوں کی دعاے سحرگاہی اور نگاہ پر تاثیر نے آپ کو اس میدان کا ماہر شہ سوار بنادیاتھا


فن مناظرہ سے تعلق رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی خارداراور دل سوز وادی کی آبلہ پائی کے لیے صرف علوم اسلامیہ  اورفنون دینیہ میں مہارت کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تجربہ کاری,دقیق نظری,حاضردماغی,حاضر جوابی ,ژرف نگاہی,وسعت مطالعہ,غیر معمولی قوت حافظہ,تاریخ واحوال زمانہ سے آگہی,اپنے اور مد مقابل کے علما کی تصانیف پر گہری نظر,معقولات ومنقولات میں تبحر,زبان وبیان پر کامل قدرت,حریف کی شاطرانہ چالوں سے باخبری,اس کی کمزوری پر نظر,تحقیقی والزامی جواب کا ملکہ,حملہ ودفاع کا بر وقت فیصلہ ,استحضار علمی اور بیدار قلبی جیسے اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے


مناظر اہل سنت علامہ موصوف علیہ الرحمہ کی کتاب حیات میں یہ تمام اوصاف وکمالات بدرجہ اتم موجود تھے.یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہر محاذ پر جماعت اہل سنت کی کامیاب نمائندگی اور پر زور وکالت کرتے ہوے میدان مناظرہ کے جاں گسل اور جاں گداز مراحل کونہایت کامرانی اور شیر دلی کے ساتھ طے کیا


باطل قوتوں کے مقابل سینہ سپر ہوکر ان کے ہفوات,گمراہ کن افکارونظریات اوران کےمزعومات باطلہ کا دنداں شکن جواب دیا اور بتوفیق ایزدی حق کا چہرہ آفتاب سے زیادہ روشن کیا.مسلک حق مسلک اعلی حضرت پر کیے جانے والے اعتراضات اور حملوں کا نہ صرف دفاع اور مقابلہ کیا بلکہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوے مخالفین ومعترضین کو ان کے گھر کا آئینہ بھی دکھایا


فقیر کی معلومات کے مطابق آپ نے آٹھ مناظرے کیے اور سب میں فتح مبیں کا تاج آپ کے سر پر سجا.باطل جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی اور راہ فرار کے علاوہ کوئی صورت نظر نہ آئی.


آپ کے مناظرےکی اجمالی فہرست درج ذیل ہے


۔(1)1954ءمیں مناظرہ جمشید پور


۔(2)مناظرہ چھپرہ,بہار


۔(3)مناظرہ  امراوتی,مہاراشٹر


۔(4)1966ء میں مناظرہ بولیا,راحستھان


۔(5)22,23,24/اپریل 1978ء میں مناظرہ جھریا,دھنباد


۔(6)23/دسمبر1978میں مناظرہ کٹک ,اڑیسہ


۔(7)مناظرہ برار,ضلع ایوت,مہاراشٹر


۔(8)مناظرہ اربڑا,ضلع مالدہ,بنگال.


 وصال پر ملال


15/صفر1423ھ مطابق29/اپریل2002ءبروز پیر دہلی میں شام 4/بج کر 35/منٹ پر علم وفن اورعزیمت واستقامت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا.


ممتاز قادرالکلام شاعر محمد عبد القیوم طارق نے” جمیل گلشن رضا”سے عیسوی سن وصال (2002ء)اخذ کیاہے اور قطعہ کے پیکر میں ہجری سن وصال یوں بیان کیا ہے:


وہ خوش نصیب تھا,اخلاص تام سے اس نے

تمام عمر گزاری بہ پاس فکر رضا


اس ارشد چمن رضویت کا طارق نے

سن وصال کہا ہے”اساس فکر رضا”(1423ھ)۔

بحوالہ( رئیس القلم نمبر جام نور دہلی)۔


استاذ المکرم غزالیِ زماں، رازی دوراں ، مترجم قرآں حضرت علامہ  سید احمد سعید شاہ کاظمی علیہ الرحمہ


نام و نسب


اسم گرامی: سید احمد سعید شاہ کاظمی۔


کنیت :ابوالنجم۔


لقب : غزالیِ زماں، رازی دوراں، امام اہل سنت۔


سلسلۂ نسب : اس طرح ہے: غزالیِ زماں سید احمد سعید شاہ کاظمی بن حضرت سید مختار احمد کاظمی بن حافظ    سید یوسف علی شاہ چشتی قادری بن مولانا سید وصی نقشبندی مجددی قادری بن محمد مولانا سید شاہ صبغت اللہ نقشبندی مجددی چشتی صابری بن مولانا سید شاہ سیف اللہ چشتی قادری بن مولانا سید میرمحمد اشرف دہلوی ثم امروہی۔الیٰ آخرہ۔ علیہم الرحمہ۔


آپ کا سلسلہ نسب 44 واسطوں سے سرورعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے ۔ (حیاتِ غزالیِ زماں:33)۔


آپ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللّٰه عنہ کی اولاد سے ہیں۔ اس لئے’’کاظمی‘‘ کہلاتے ہیں۔


غزالیِ زماں، رازی ِدوراں کی وجہ تسمیہ


 محدث اعظم ہند ، وحید العصر، قدوۃ العلماء حضرت سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللّٰه علیہ نےعلماء کرام کی مجلس جس میں کثیر علماء کرام و دانشوران کی تعداد، اور عوام کا ایک جم غفیر موجودتھا، میں ’’غزالیِ زماں، رازیِ دوراں‘‘ کا خطاب عطاء فرمایا۔ علماء کرام اور عوام نے فلگ شگاف نعروں  کے ساتھ حضرت محدث کچھوچھوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے قول کی تصدیق کی، اس وقت سے آج تک یہ القاب حضرت  علامہ کاظمی  رحمۃ اللّٰه علیہ کا عرف قرار پائے ہیں ۔ (حیاتِ غزالیِ زماں صفحہ 86،چشتی)


تاریخِ ولادت


 آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 4؍ربیع الثانی 1331ھ،مطابق 13؍مارچ 1913ء ،بوقت صبح چار بجے، محلہ کٹکوئی شہر امروہہ، ضلع مرادآباد (انڈیا) میں ہوئی۔ (اب امروہہ ایک مستقل ضلع بن چکا ہے ۔ (انسائیکلوپیڈیا)


تحصیلِ علم


آپ ایک علمی خاندان کے روشن چراغ ہیں۔ آپ  کا خاندان علم و فضل، زہد و تقویٰ میں پورے ہندوستان میں معروف تھا۔ بچپن میں والد گرامی کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔ تمام تر تعلیم وتربیت اپنے برادر بزرگ، محدث جلیل حضرت علامہ مولانا سید محمد خلیل محدث امروہوی علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ وہ مدرسہ بحرالعلوم شاہ جہاں پور میں مدرس تھے، اور حضرت  علامہ کاظمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ امام اہل سنت نے 16سال کی عمر میں 1348ھ مطابق 1929ء میں مدرسہ محمدیہ حنفیہ امروہہ سے سند فراغ حاصل کی۔ شیخ المشائخ، ہم شکل غوث الاعظم حضرت شاہ علی حسین اشرفی رحمۃ اللّٰه علیہ نے دستار فضیلت باندھی، اس تقریبِ سعید میں حضرت صدرالافاضل حضرت مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللّٰه علیہ، مناظر اسلام حضرت مولانا نثاراحمد کانپوری بن علامۂ زماں مولانا احمد حسن کانپوری رحمہ اللّٰه ودیگر جید علماء شریک تھے۔جنہوں نے آپ کو خصوصی دعاؤں سے نوازا۔


بیعت و خلافت


اپنے برادر بزرگ، محدثِ شہیر، عالمِ  کبیر، استاذ العلما الراسخین حضرت مولانا سید محمد خلیل چشتی صابری محدث امروہوی رحمۃ اللّٰه علیہ کے دستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے


تصنیف و تالیف


آپ کی مایہ ناز تصانیف میں سے


میلادالنبی


توحید اور شرک


حیات النبی


خطبات کاظمی


مقالات کاظمی ۳ جلد


گستاخ رسول کی سزا کو آج بھی نقش دوام کا درجہ حاصل ہیں ۔


اس کے علاوہ آپ کا قرآن کریم کا ترجمہ بنام ترجمہ البیان آپ کی علمی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے


قومی ملی خدمات


ملت اسلامیہ کو جب بھی کوئی مشکل مرحلہ پیش آیا۔غزالئی زماں نور اللہ مرقدہ نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا


۔1946ء میں “آل انڈیا کانفرنس“میں علما و مشائخ کے وفد کے ساتھ شریک ہوئے اور مطالبہ پاکستان پر پرزور حمایت کی علما و مشائخ اہل سنت کی حمایت پر پاکستان معرض وجود میں آیا قائد اعظم محمد علی جناح سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا


آپ نے تحریک پاکستان ،تحریک آزادی ،تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حصہ لیا ۔تمام عمر مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفط اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نفاذ کے لیے کوشاں رہے


 وصال


بروز بدھ  ۲۵ رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ بمطابق 4 جون 1986ء کو افطاری کے بعد واصل باللہ


مزار گوہربار


شاہی عیدگاہ مدینہ الاولیاء ملتان شریف میں مرجع خلائق


استاذ المکرم شہزادہ و جانشین صدر الشریعہ ،خلیفہ مفتی اعظم ہند، استاذ العلماء ،شیخ الحدیث والتفسیر علامہ مفتی عبد المصطفی الازہری قادری رضوی علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث جامعہ امجدیہ کراچی پاکستان


 اسمِ گرامی


علامہ محمد عبد المصطفیٰ الازہری۔


القاب شیخ الحدیث، نائبِ صدر الشریعہ تخلص : ماجد۔


سلسلہ نسب اس طرح ہے:  فاضلِ اجل حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ  الازہری بن صدر الشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی  (صاحبِ بہارِ شریعت) بن علامہ جمال الدین  بن مولانا خدا بخش (رحمہم اللہ)


تاریخِ ولادت


  آپ کی ولادت باسعادت  ابتداءِ ماہِ محرم الحرام 1334ھ مطابق ماہِ نومبر1915ء کو’’بریلی شریف‘‘ انڈیا میں ہوئی۔


بارگاہ  اعلیٰ حضرت میں 


جب آپ کی ولادت ہوئی اس وقت حضرت صدر الشریعہ ’’منظرِ اسلام‘‘ بریلی میں مدرس تھے۔ولادت کے ساتویں دن عقیقے کے موقع پر حضرت صدرالشریعہ آپ کو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں لےگئے،نام تجویز کرنے اور دعا کی درخواست کی۔اعلیٰ حضرت نے نومولود کو دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا۔آپ نے بچے کی پیشانی پر بوسہ دیااور دم فرمایا۔بچے کےنام میں ’’عبد المصطفیٰ‘‘ کا اضافہ تجویز فرمایا، اور حضرت صدرالشریعہ کو پیش گوئی فرمائی کہ تمھارا یہ بیٹا بہت ہی ذہین اور بہت ہی عظیم ہوگا،اور انشاء اللہ یہ تمھارا نائب،عالم وفاضل بنے گا،اور جہاں تک نام کا تعلق ہے تو میں اپنا نام آپ کے بیٹے کو دیتا ہوں۔(شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ الازہری: 105)


تحصیلِ علم


آپ نے قرآن مجید اپنے مولِد بریلی شریف کے دارالعلوم منظرِ اسلام میں مولانا محدث احسان علی مظفر  پوری علیہ الرحمہ سے پڑھا۔پھر والد ماجد علیہ الرحمہ کے جامعہ عثمانیہ  اجمیر شریف میں مدرس مقرر ہونے پر علامہ ازہری نے اپنے آبائی وطن قصبہ گھوسی اعظم گڑھ میں محلہ کریم الدین کے مکتب  میں اُردو سیکھی۔


حضرت علامہ ازہری علیہ الرحمہ کو 1926ء میں آپ کے والد مکرم نے جامعہ عثمانیہ (اجمیر شریف) بلالیا۔ جہاں آپ نے کتب فارسی مولانا عارف بدایونی سے پڑھیں۔علومِ عربیہ اسی مدرسہ میں مولانا حکیم عبدالمجید، مفتی امتیاز احمد اور مولانا عبدالحئی سواتی  سے حاصل کی، اور اکثر علوم و فنون ابتدا سے انتہا تک اپنےوالد مکرم سے پڑھے۔ جب حضرت صدر الشریعۃ علیہ الرحمہ دوبارہ بریلی شریف جانے لگے تو علامہ ازہری علیہ الرحمہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ ازہر قاہرہ (مصر) بھیج دیا۔ چنانچہ حج کی ادائیگی اور زیارت روضۂ رسول علیٰ الصلوٰۃ والسلام سے فراغت کے بعد جامعہ ازہر تشریف لے گئے، اور تین سال جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے جامعہ کی طرف سے دو سندیں  ’’شہادۃ الاہلیۃ،  وشہادۃ العالیہ‘‘ حاصل  کیں۔(مفتیِ اعظم  اور ان کے خلفاء:462)۔


بیعت وخلافت


 علامہ ازہری نے بچپن میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان محدث بریلوی نور اللہ مرقدہ کے دست پاک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیاتھا اور جوانی میں مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان بریلوی اور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی کی طرف سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں اجازت و خلافت حاصل کی۔


سیرت وخصائص


آپ یادگارِ اسلاف،اور شریعتِ محمدیہ کا نمونہ تھے۔آپ کے تمام امور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سانچے میں ہوتےتھے۔ عظیم باپ کے عظیم فرزند ِ ارجمند تھے۔آپ نے حضرت ِ صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی نور اللہ مرقدہ کی نیابت و جانشینی کا صحیح حق ادا کیا۔حضرت شیخ الحدیث مملکتِ پاکستان کے بطلِ جلیل، اسلام کے عظیم سپاہی،دین ومسلک کے شاندار قائد، قرآن وحدیث، فقہ، علوم ِ عربیہ، اور فنونِ اسلامیہ کے بحرِ ذخار، صوفی و درویش صفت، فاضلِ مدینہ، بغداد،اجمیر، بریلی اور جامعہ ازہر کی بارگاہوں اور درس گاہوں کے طالب ِ علم  و خوشہ چیں،سلفِ صالحین کے کردار کا عکسِ جمیل، عاشقِ محبوبِ خدا،شیدائے غوث اعظم، و امام اعظم،محبِ اعلیٰ حضرت،محبوبِ مفتیِ اعظم تھے۔


پچاس سال تک مسندِ درس وتدریس پرقال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے رہے (فقیر چشتی کو تین سال تک شرفِ تلمذ کی سعادت نصیب ہوٸی) ۔اسی طرح آپ دارالعلوم امجدیہ کے شیخ الحدیث، جماعتِ اہل سنت پاکستان کے صدر،جماعتِ اہل سنت اور جمعیت علماء پاکستان کے بانی رکن،ممبر قومی اسمبلی، رکن مجلس شوریٰ، اور بے شمار دینی ومذہبی انجمنوں، اداروں کے سرپرستِ اعلیٰ تھے۔آپ کی پوری زندگی ہوش سنبھالنے سے حیاتِ مستعار کی آخری سانس تک ایک تحریک، ایک انجمن، انقلابِ مصطفوی،  عشقِ محمدی، اور ترویج و اشاعت مذہبِ حق کی ایک عظیم کاوش اور جہد ِ مسلسل سے عبارت ہے۔


عادات و خصائل


خوش مزاج، ظریف الطبع، سادگی، تواضع، وقار علمی،مگر درویشی و استغنا لیے ہوئے، قناعت پذیر، ہر دم مسلک کی اشاعت کی دھن، کوہِ استقامت، باہمت، اور بڑے باحوصلہ،خود نمائی سے گریز مگر علم کی بے عزتی ناگوار،گھریلو معاملات کے ہر جز سے با خبر،اور اہل خانہ کی ضروریات کا انتظام خود فرماتے،مہمان نواز،بات میں بات پیدا کرنا اور وہ بھی ندرت کے انداز میں حاضر جوابی کےساتھ ان کی ذہانت کا زندہ ثبوت تھا۔بہت ہی با اخلاق شریف النفس، بڑوں میں بڑے،چھوٹوں میں چھوٹے،لیکن خود دار ایسے کہ اپنے علم و کردار،فضل وکمال ، اور دین ومسلک کو کبھی چند ٹکوں میں فروخت نہیں کیا۔


آپ علما کے قدردان،  چھوٹوں پر مشفق و مہربان ، سادگی میں سلفِ صالحین کے نقش قدم پر تھے۔ مساکین کے دکھ درد ، خوشی و غمی میں ساتھی تھے ۔ حقوق العباد کی فکر تھی ، پڑوسیوں سے اخلاق و مروت سے پیش آتے تھے۔ سماجی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ تدریس کو عبادت سمجھتے تھے۔ لہذا طلبہ کی تعلیم و تربیت پر نہایت توجہ فرماتے تھے۔ وقت کی قدر ٹائم کی پابندی رکھتے تھے ۔ درس تدریس میں ناغہ نہیں کرتے روزانہ بلا ناغہ وقت سے پہلے پہلے پہنچ جاتے تاکہ پورا وقت طلبہ کی تعلیم پر صرف کیا جائے ۔


سیاسی کردار


 آپ ساری زندگی نفاذِ نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے کوشاں رہے۔عام علما کی طرح صرف مسجد ودرس گاہ تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کوتخت پر لانے کےلئے مصروفِ عمل رہے۔حضرت مذہب کی طرح سیاست اور ملکی وبین الاقوامی حالات و معاملات پر گہری نظر رکھتےتھے۔ایک مرتبہ دورانِ تقریر فرمایا: ’’سیاست ہمارے لئے کوئی اجنبی یا انوکھا شعبہ نہیں،یہ تو دین ہی کا ایک شعبہ ہے،جس کی طرف ہم نے عملی توجہ کی ضرورت نہیں سمجھی،لیکن اس شعبۂ زندگی کے جو قائد بنے تھےوہ دین سے بیزار ی اور دوری کے باعث ناکام ہوچکے ہیں۔لہذا اب ہمیں اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا، اور دستور ساز اسمبلی میں پہنچ کر نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا درس دینا ہوگا‘‘۔


دینی خدمات


قائدِ ملتِ اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ نے 1978ء کی ملتان سنی کانفرنس میں خطاب کرتےہوئے علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کے متعلق فرمایا: ’’حضرت شیخ الحدیث،جانشین ِ صدرالشریعہ، سیاسی ہیں۔شکل و صورت دیکھ لیں، لمبا کرتا دیکھ لیں،عمامہ دیکھ لیں، اگر دل دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بھی دیکھ لیجئے،ان کے جسم کے ہر حصے سے عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نکلے گا۔بلکہ ان کے خون کے ہر قطرے میں محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روانگی ہوگی۔اگر یہ سیاست ہے تو ہم اس الزام کو قبول کرتےہیں‘‘۔(روئداد سنی کانفرنس)۔


آپ دومرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ملک و قوم کے لئے عظیم خدمات انجام دیں۔جن میں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردلوانے، قانون توہینِ رسالت،اور قانون شہادت، اسی طرح جمعۃ المبارک کی تعطیل اہم ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ممبر قومی اسمبلی بننے کے بعد بھی آپ کے رہن سہن میں کوئی فرق نہیں آیا۔آج بھی لوگ گواہ ہیں،جس مکان میں حضرت پہلے رہتےتھے ،بعد میں بھی اسے میں رہے۔اسی طرح آپ نے کسی قسم کی رعایت،کسی قسم کا لین دین،اور نہ ہی مراعات حاصل کیں۔ہمیشہ کی طرح  روزانہ سعود آباد سے بذریعہ بس یا وگن دارالعلوم امجدیہ آیا کرتےتھے۔


تاریخِ وصال


 16/ربیع الاول 1410ھ مطابق 18/اکتوبر 1989ء،بروز منگل،بوقتِ فجر، یہ جلالۃ العلم واصل باللہ ہوئے۔دارالعلوم امجدیہ کراچی میں آپ کا مزار مقدس ہے ۔ (بحوالہ حیات محدث کبیر)


استاذ المکرم خلیفہ صدرالشریعہ یادگار اسلاف مفتی اہل سنت استاذ العلما علامہ مفتی ظفر علی نعمانی بانی جامعہ امجدیہ علیہ الرحمہ


  ولادت باسعادت


حضرت علامہ مفتی ظفر علی نعمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  سید پور ضلع بلیا (بھارت) میں تولد ہوئے ۔


وجہ تسمیہ نعمانی


امام الامہ کاشف الغمہ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ قدس سرہ سے محبت و نسبت کے سبب ’’ نعمانی ‘‘ اپنے نام کے ساتھ لکھتے تھے جو کہ نام کا حصہ بن گیا۔


خاندانی وجاہت


 آپ کا خاندان متوسط درجہ کا علمی گھرانہ تھا اور مشغلہ تجارت رکھتے تھے ۔


تعلیم و تربیت


  آپ نے پرائمری تعلیم سید پور میں حاصل کی ۔ اس کے بعد خلیفہ اعلی حضرت مولانا رحیم بخش رضوی علیہ الرحمہ کے مدرسہ فیض الغرباء شاہ پور صوبہ بہار میں داخلہ لیا ، قابل ترین اساتذہ سے اکتساب فیض کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں شرح جامی تک کتابیں پڑھ لیں ، اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے اہل سنت و جماعت کی نامور دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ مصباحالعلوم مبارکپورضلعاعظم گڑھ کا رخ کیا، وہیں داخلہ لے کر نصابی کتب کی تکمیل کے بعد ۱۳۵۱ھ ؍ ۱۹۴۲ء کو فارغ التحصیل ہوئے ۔ اس درسگاہ میں دیگر علماء کے علاوہ حافظ ملت علامہ حافظ عبدالعزیز محدث مرادآبادی قدس سرہ  سے خصوصی طور پر استفادہ کیا۔


بیعت و خلافت


 آپ خلیفہ اعلی حضرت ، صدر الشریعۃ، علامہ مفتی امجد علی اعظمی ( صاحب بہار شریعت )  سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں دست بیعت ہوئے اور بعد میں خلافت سے نوازے گئے ۔


دارالعلوم امجدیہ کا قیام


 حضرت صدر الشریعۃ (متوفی ۱۹۴۹ء ) کے حکم پر ۱۹۴۸ء کو کراچی تشریف لے آئے یہاں امامت و خطابت درس و تدریس اور اشاعت دین کے اہم کام میں مصروف و مشغول ہوگئے ۔ اس کے ساتھ اسی سال گاڑی کھاتہ فیروز اسٹریٹ آرام باغ میں ایک مکان خرید کر مرشد کی یاد میں مدرسہ قائم کر کے  دارالعلومامجدیہ” کا ایک بورڈ لگا دیا، چنانچہ ابتدا میں ااپ خود ہی مہتمم ، مدرس ، منتظم اور نگران سب کچھ تھے ۔


ایک عرصہ تک یہ مدرسہ اسی مکان میں مذہبی خدمات انجام دیتا رہا مگر یہ جگہ نا کافی ہونے کی وجہ سے مفتی صاحب نے حاجی ہارون میمن صاحب سے عالمگیر روڈ جگہ حاصل کر کے دارالعلوم امجد یہ وہاں منتقل کر دیا، بعد میں مزید جگہ لی گئی ، جستہ جستہ تعمیر ہوتی رہی۔ آج دارالعلوم کی پر شکوہ عمارت خوبصورت شکل میں مسجد امجدی کے متصل کراچی کے دل میں موجود ہے ۔


جہاں سے سینکڑوں علما خطبا حفاظ اور قراٗ حضرات فارغ ہو کر ملک اور بیرون ملک میں تبلیغ و اشاعت دین کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ آپ نے دارالعلوم امجدیہ کے علاوہ پنجاب کے شہر سانگلہ ہل (ضلع شیخو پورہ ) میں ایک بہت بڑی قطعہ اراضی لے کر مدرسہ اسلامیہ برکات القرآن‘‘ کی داغ بیل ڈال دی ، آج جس کی عمارت کئی کمروں اور کانفرنس ہال پر مشتمل ہے ۔ جہاں درس و تدریس کی شمع روشن ہے۔ مدرسہ کے تمام اخراجات مفتی صاحب اور آپ کے بھائی محترم مظہر علی نعمانی اپنی جیب سے برداشت کرتے رہے ۔


مدرسہ حافظ قاری فضل الرحمن نقشبندی کی نگرانی میںسر گرم عمل ہے ۔ مفتی ظفر علی نے لگایا ہے باغ جو کافی انہیں بہ پیش حق اس کا ثواب ہے مدرس کے علاوہ آپ اعلی منتطم بھی تھے آپ نے دارالعلوم امجدیہ کو چار چاند لگانے کے لیے ۱۹۶۱ء میں ہارون آباد ( ضلع بہاولنگر ) سے علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کو مدعو کیا اور دارالعلوم میں شیخ الحدیث مقرر کیا ۔ مولانا قاری رضا ء المصطفیٰ اعظمی اور حضرت مولانا قاری مصلح الدین صدیقی آپ ہی کی کوششو ں سے کراچی تشریف لائے ۔آپ کا ابتدائی عرصہ قیام پاکستان کے دور میں کراچی میں مسجد کے تعمیرات و حصول میں انتہائی اہم کردار رہا بیشتر مساجد اور مدرسوں کے سر پرست اور ٹرسٹی رہے۔ دارالعلوم امجد یہ کے سالانہ جلسہ دستار فضیلت میں ہندو پاک کے نامور علماء و مشائخ کو مدعو کیا جاتا تھا ابتدا میں ہر سال ’’ مجلس مشاعرہ ‘‘ کا بھی اہتمام ہوتا تھا اور اس میں پیش کردہ نعتیہ اشعار کے مجموعے بھی شائع ہوتے رہے ۔ پاکستان میں ’’عرس اعلی حضرت ‘‘ کی ابتدا ء کراچی میں مفتی صاحب نے فرمائی


درس و تدریس


فارغ التحصیل ہوتے ہی مادر علمی جامعہ اشرفیہ میں بحیثیت مدرس مقرر ہوئے ۔ تقریبا ڈیڑ سال اساتذہ کرام کی نگرانی میں تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ اس کے بعد پیر و مرشد حضرت صدر الشریعۃ کے حکم پر کاٹھیاواڑ چلے گئے جہاں مدرسہ دارالعلوم اہل سنت میں صدر مدرس اور مفتی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے لگے ۔ تقریبا ساڑ ھے چار سال کام یابی سے خدمات انجام دینے کے بعد پاکستان تشریف لے آئے۔ کراچی میں ساری زندگی ’’ دارالعلوم امجدیہ ’’ میں بحیثیت مہتمم خدمات عظیمہ سر انجام دیتے رہے ۔


 شادی و اولاد


علامہ مفتی ظفر علی نعمانی نور اللہ مرقدہ  کا نکاح صدر الشریعہ کے بڑے صاحبزادے مولانا حکیم شمس الہدیٰ اعظمی کی صاحبزادی سے ۱۹۵۱ء ؍ ۱۳۷۰ھ کو کراچی میں انعقاد پذیر ہوا ۔ قاضی نکاح خواں کے فرائض برادر نسبتی علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے انجام دیئے ۔ اس محفل میں


کراچی کے علماے کرام مشائخ عظام اور نامور شخصیات نے شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ نے آ پ کو پانچ صاحب زادے اور پانچ صاحب زادیاں عطا فرمائی جن میں سے تین صاحب زادے وفات پا چکے ہیں ۔ بحمدہ تعالیٰ دو صاحب زادے (۱) ریحان نعمانی فقیر چشتی کے ہم سبق (۲) ذیشان نعمانی بقید حیات ہیں اور بر سر روز گار ہیں ۔ حافظ سرور المصطفیٰ ابن مولانا قاری رضا ء المصطفیٰ اعظمی (خطیب نیو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ کراچی) ناظم اعلیٰ مکتبہ رضویہ کراچی آپ کے داماد ہیں ۔


ذریعہ معاش تمام دینی مصروفیات کے باوجود آپ کا رپٹ ایکسپو رٹر کا کاروبار اپنے بھائی کے ساتھ کرتے تھے ۔


 دینی وسیاسی سرگرمیاں


 تحریک پاکستان میں اپنے اساتذہ کے ساتھ خدمات انجام دیں بعد میں استحکام پاکستان کے لیے سر گرم رہے۔ فیصل آباد میں دارالعلوم رضویہ مظہر اسلام اور سنی رضوی جامع مسجد کی تعمیر و ترقی میں مفتی صاحب اور کراچی کے برکاتی رضوی میمن سیٹھ صاحبان نے بھر پور تعاون کیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد عظیم الشان سنی کانفرنس میں دامے قدمے سخنے تعاون فرمایا ۔ تحریک ختم نبوت کے دوران آپ نے علماءاہل سنت کے ساتھ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔


کراچی میں ’’ تنظیم ائمہ مساجد اہل سنت ‘‘ قائم فرمائی اس کے بعد تنظیم سازی کا عمل جاری رکھا۔ جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے دوبار انتخابا ت میں حصہ لیا ۔ ایک بار قومی اسمبلی کے حلقہ سانگلہ ہل پنجاب سے انتخابات میں حصہ لیا لیکن ۳۰ ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔ ۱۹۷۲ء میں ایک بار سینٹ کا انتخاب لڑا جس میں کامیابی ہوئی اور سینٹیر منتخب ہوئے ۔


سینٹ کے ریکارڈ میں ان کی تقار یر انتہائی جامع اور مدلل ہوا کرتی تھیں ، انتہائی خدا ترس انسان تھے دین کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی گہری نظر تھی ۔ اسلامی نظر یاتی کونسل آف پاکستان کے ممبر بھی رہے ۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین بھی رہے ۔ جماعت اہل سنت پاکستان ، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان ، تحریک نفاذ فقہ حنفیہ ، تحریک نظام مصطفی، نظام مصطفی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ۔


نشر و اشاعت


 آپ نے ابتدائی دنوں میں لٹر یچر کی اشاعت کی ضرورت محسوس کی جس کے سبب آپ نے کراچی سے مکتبہ رضویہ سے اعلی حضرت امام احمدرضا خان بریلوی کے مشہور زمانہ نعتیہ کلام پر مشتمل کتاب ’’حدائق بخشش ‘‘ کو پاکستان میں پہلی بار شائع کیا۔ فاضل بریلوی کے شہر آفاق ترجمہ قرآن کنز الا یمان پاکستان میں سب سے پہلے مفتی صاحب کو طبع کرانے سعادت حاصل ہوئی ۔ ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری کی تصنیف ’’ حیات اعلیٰ حضرت‘‘ (جلد اول،چشتی) بھی سب سے پہلے آپ نے ۱۹۶۰ء کو شائع کرائی ۔


صحافت


مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے ابتدائی دور میں ایک ماہنامہ الاسلام ‘‘ آرام باغ سے جاری کیا تھا جس میں ملک کے جید علماء اور قلم کار دانش وروں کے پر مغز تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے ۔ ملک بھر سے آنے والے استفار کے جوابات بھی الاسلام میں شائع ہوتے تھے۔ استفار کے جوابات وقت کے مایہ ناز عالم دین، مفتی اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی کے رشحات قلم کے مرہون منت تھے ۔


ارشد تلامذہ


 آپ کے تلامذہ میں سے بعض کے نام معلوم ہو سکے وہ درج ذیل ہیں


  مولانا مفتی ابوالخیر محمد حسین قادری مرحوم بانی جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر سندھ


مفتی ابوالحماد احمد میاں برکاتی مہتمم دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد سندھ


فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی آپ کے ادنیٰ خدام میں سے ہے اور بہت سے علما آپ کے فیض یافتہ ہیں ۔

وصال


مولانا مفتی ظفر علی نعمانی علیہ الرحمہ نے ۲۰ ، رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ بمطابق ۱۶، نومبر ۲۰۰۳ء بروز اتوار صبح ۵ بجے ۸۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اتوار ہی کے روز بعد نماز ظہر دارالعلوم امجد یہ کے شیخ الحدیث مولانا محمد عالمگیر روڈ کراچی میں آپ کی نماز جنازہ ہوئی ۔ نماز جنازہ دارالعلوم امجد یہ کے شیخ الحدیث فقیر کے شفیق استاد مولانا محمد اسماعیل رضوی میمن نے پڑھائی ۔ ماہ رمضان المبارک کے باوجود ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔


دارالعلوم امجد یہ میں علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ، مفتی وقار الدین قادری کی مزارات کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے ۔بروز منگل دارالعلوم امجد یہ میں فاتحہ سوئم کی تقریب منعقد ہوئی ۔ شہر بھر کے علماء مشائخ ، مشاہیر ، دانشور ، اور دینی سیاسی تنظیم کے ذمہ داران نے شرکت کی۔اور اس تقریب میں صاحبزادہ ریحان نعمانی کو ان کا جانشین اور دارالعلوم امجد یہ کا مہتمم مقرر کیا ۔ (انوار علما اہل سنت سندھ، مفتی ظفر علی نعمانی کا انٹرویو، رفیق علم سالنامہ جامعہ امجدیہ کراچی)۔(مزید حصہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

دعوتِ اسلامی کی تاریخ و بانیان حصہ اول

 دعوتِ اسلامی کی تاریخ و بانیان حصہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : دعوتِ اسلامی کسی ایک فرد و شخصیت کا نام نہیں بلکہ یہ سبھی اہلسنت کی جماعت اور اکابرینِ اہلسنت کی مشترکہ فکر و سوچ کا نتیجہ و ثمر ہے فقیر کو اچھی طرح یاد ہے دو 2 ستمبر 1981ء سے ایک تاریخی اور سنہرا باب وابسطہ ہے وہ بایں طور کہ اس مبارک تاریخ کو دنیاے سنیت کی عظیم الشان عالم گیر تحریک دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور تا حین حال یہ تنظیم اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں ہے ۔ اس تحریک کو بنانے میں ہمارے اکابر کا اہم کردار ہے ۔ اجتماعی طور پر ایک ایسی تنظیم کی شدت سے ضرورت تھی جو تمام امتیازات سے بالاتر ہوکر تبلیغی طرز پر مسلمانوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دے ، ان میں فکرِ آخرت اوراتباعِ رسول کا جذبہ بیدار کرے ، اسلام کی تعلیمات اور اس کے عملی و انقلابی پہلو پر زور دے اور دین کی دعوت کو، مسلکی کشمکش پر غالب رکھے ۔


ان مقاصد کے حصول کےلیے دو 2 ستمبر 1981ء میں بھارت کے ممتاز عالم دین اور ورلڈ اسلامک مشن کے سیکریٹری جنرل علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ (مارچ1925ء۔اپریل2002ء) کی تحریک پر کراچی میں ”دعوتِ اسلامی“ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس کےلیے علامہ ارشد القادری اگست1981ء میں پاکستان تشریف لائے ۔ اس موقع پر اُن کے اعزاز میں مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے استقبالیے دیئے گئے (ان میں یہ فقیر چشتی بھی بطور طالبِعلم شامل تھا) ، جن میں بھارت کے ممتاز عالم محدثِ کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ بھی شریک ہوئے ۔ ( روزنامہ امن، کراچی 22 اگست 1981 روزنامہ جنگ کراچی، 23اگست1981ء)


21 اگست 1981ء کو دارالعلوم امجدیہ کراچی میں دیئے گئے استقبالیے میں علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ نے اپنے خطاب میں اس بات کا اظہار کیاکہ ”پاکستان میں ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو صرف تبلیغی مشن کو جاری رکھے ۔ (روزنامہ امن کراچی 22 اگست 1981ء)


اِس تقریب سے علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی، علی گڑھ یونی ورسٹی کے پرفیسر سید ظہیر احمد زیدی، دارالعلوم امجدیہ کے شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری اور مہتمم علامہ محمد حسن حقانی نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں مفتی ظفر علی نعمانی، مفتی محمد وقار الدین، علامہ قاری مصلح الدین صدیقی، قاری رضا ء المصطفیٰ اعظمی، پروفیسر شاہ فرید الحق ، سندھ کے وزیرِ اطلاعات، سید احد یوسف، وزیر ٹرانسپورٹ دوست محمد فیضی، حاجی محمد حنیف طیب، مولانا سید شاہ تراب الحق قادری، مفتی محبوب رضا بریلوی، پیر مخدوم نیک محمد، ڈاکٹر اشرف شیخ، سید محمد حسن قادری، مولانا ابراراحمد رحمانی، مفتی شجاعت علی قادری، مولانا جمیل احمد نعیمی، مفتی منیب الرحمن اور دیگر علماء کرام اور ممتاز شخصیات نے شرکت کی ۔(روزنامہ امن کراچی،22اگست1981ء،چشتی)


23اگست 1981ء کو بزم غلامانِ رسول،برنس روڈ، کی جانب سے ورلڈ اسلامک مشن کے صدر علامہ شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کو کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں استقبالیہ دیا گیا، جس سے علامہ نورانی سمیت، مولانا عبدالستار خان نیازی، شبیر احمد اظہری علیہم الرحمہ اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ ”لادینیت کے خاتمے کے لیے جامع تبلیغی کاوشوں کی ضرورت ہے ۔ (روزنامہ جنگ کراچی،24اگست1981ء)۔ مولانا نورانی کا یہ خطاب بھی اشاعتِ دین کےلیے ایک تبلیغی جماعت کی طرف ایک واضح اشارہ تھا ۔


اِن ہی دنوں علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے دارالعلوم امجدیہ کے ایک کمرے میں کئی روز قیام کرکے ”دعوتِ اسلامی“کا ”لائحہ عمل“ تیار کیا ۔ ڈاکٹر محمد مسعود احمد رقم طراز ہیں، ”دارالعلوم امجدیہ کراچی میں اُن (علامہ ارشد القادری) سے پہلی بار شرفِ نیاز حاصل ہوا جب کہ وہ اہلسنّت کےلیے ایک تبلیغی جماعت کا لائحہ عمل تیار فرما رہے تھے ، وہ دستور العمل آج ”دعوت ِ اسلامی“ کے روپ میں ہمارے سامنے ہے ۔ (حجاز ِ جدید، ستمبر1991ء، صفحہ 50، عکس دستور، بقلم علامہ ارشد القادری، ماہنامہ جام نور، دہلی، مارچ تا مئی2012ء، صفحہ59،چشتی)


تبلیغی تنظیم کے قیام کے سلسلے میں علماء کا ایک اور اجلاس 2 ستمبر1981ء کو ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی کی قیام گاہ، صدر کراچی میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہما الرحمہ نے کی ۔ اجلاس کی خبر مع تصویر کراچی کے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوئی۔


روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ نوائے وقت کراچی کی،3 ستمبر کی اشاعت میں مذکورہ اجلاس کے شرکا کے جو نام شائع ہوئے وہ یہ ہیں: ۔ ”علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ سید احمد سعید کاظمی، علامہ ارشد القادری، مولانا عبدالستار خاں نیازی، پیر صوفی فاروق رحمانی، علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری،مفتی وقار الدین، مفتی ظفر علی نعمانی،مولانا جمیل احمد نعیمی (بانی رکن انجمن طلبہ اسلام)، مفتی محمد حسین قادری (سکھر)، مولانا محمد حسن حقانی، ابوالخیرمحمد زبیر (حیدر آباد)،مفتی احمد میاں برکاتی(حیدر آباد)، مفتی غلام قادر کشمیری، مفتی سید شجاعت علی قادری، مولانا قاری نثار الحق، مولانا محمد حسن قادری، مولانا شبیر احمد اظہری،مولانا عبدالتواب اچھروی(لاہور) اور مولانا محمد یوسف ۔ (ان میں سے اکثر فقیر چشتی کے اساتذہ کرام ہیں)


اخبارات نے اس اجلاس کی خبرمع تصویر اس سرخی کے ساتھ شائع کی، ”لادینیت کے سیلاب کو روکنے کےلیے عالمی پیمانے پر تبلیغ کی ضرورت ہے“، ”علامہ ارشد القادری، مولانا شاہ احمد نورانی اور علامہ عبد المصطفیٰ ازہری کا عشائیے سے خطاب ۔ (روزنامہ جنگ، کراچی،3ستمبر1981ء، روزنامہ نوائے وقت کراچی، 3ستمبر1981ء،چشتی)


مولانا شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کے گھر منعقد ہونے والے مذکورہ اجلاس کو دعوتِ اسلامی کا تاسیسی اجلاس قرار دیا جاتا ہے ۔


علامہ ارشد القادری ، علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہما الرحمہ کے تذکرے میں رقم طراز ہیں، ”پہلی بار حضرت علامہ شاہ احمد نورانی کے دولت کدے پر اُس تاریخی اجتماع میں اُن (علامہ سید احمد سعید کاظمی) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا،جس میں ”دعوتِ اسلامی“ کے نام سے اہلسنّت کی ایک تبلیغی اور اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی گئی ۔ اور جس میں پاکستا ن کے اکثراکابر ِ اہلسنت تشریف فرما تھے ۔ ان کے سامنے مجھے ”دعوتِ اسلامی“ کا لائحہ عمل پیش کرنا تھا، جسے میں نے استاذ العلماء حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، بحر العلوم حضرت علامہ مفتی وقار الدین رضوی اور رئیس الا فاضل حضرت علامہ مفتی ظفر علی نعمانی کے اصرار پر مرتب کیا تھا۔ مفتی صاحب موصو ف کی نظر میں لائحہئ عمل کی اتنی زبردست اہمیت تھی کہ انھوں نے مجھے اس کام کی تکمیل کے لیے دارالعلوم امجدیہ کے ایک کمرے میں کئی دنوں تک نظر بند کر دیا تھا ۔ (ماہنامہ جامِ نور، دہلی مارچ تا مئی 2012ء صفحہ53 بحوالہ”شخصیات“از علامہ ارشد القادری ، مرتب ڈاکٹر غلام زرقانی، صفحہ نمبر 79،چشتی)


پروفیسر شاہ فرید الحق علیہ الرحمہ کہتے ہیں، ”اِس اجلاس میں مولانا رجب علی نعیمی، مولانا محمد الیاس قادری کو لائے تھے اور مولانا نورانی نے ”دعوتِ اسلامی“ کا نام تجویز کیا تھا ۔ ( انٹرویو: پروفیسر شاہ فرید الحق، ماہنامہ افق، کراچی، مئی 2008ء) ۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ مولانا محمد الیاس قادری شاید اس اجلاس میں شر یک نہ تھے ۔


ورلڈ اسلامک مشن پاکستان کے صدر قاری رضا المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ اس تبلیغی تنظیم کا نام ”ورلڈ اسلامک مشن“ (الدعوۃ الاسلامیہ العالمیہ) کے اردو ترجمے سے اخذ کرکے ”دعوت ِ اسلامی“ رکھا گیا ۔ (ذاتی انٹرویو: قاری رضا المصطفیٰ اعظمی، صدر ورلڈ اسلامک مشن پاکستان، کراچی،چشتی)


اجلاس کی رپور ٹ جلال الدین احمد نوری کے قلم سے ورلڈ اسلامک مشن کے ماہانہ رسالے The Message، الدعوۃ کے شمارے اکتوبر 1981ء بمطابق ذوالحجہ1401ھ میں بھی مع تصویر موجود ہے ۔ (International,Karachi, October, 1981 TheMessage ۔ الدعوۃ، ذوالحجہ1401ھ،چشتی)


مولانا شاہ حسین گردیزی بتا تے ہیں کہ اس اجلاس میں، ”سب سے پہلے علامہ ارشد القادری صاحب کھڑے ہوئے اور ایک عالمی تبلیغی تحریک ”دعوتِ اسلامی“ کا مکمل منصوبہ پیش کیا۔ اس تحریک کا نام بھی انہوں نے ہی رکھا اور ”اسلامی بھائی“کی اصطلاح بھی انہوں نے ہی پیش کی۔ ان کے بعد علامہ سید احمد سعید کاظمی کھڑے ہوئے اور کہا کہ ”یہ فقیر دعوتِ اسلامی کا تبلیغی نصاب تیار کرے گا۔“ پھر علامہ ازہری نے اس کی تائید کی اور عوام اہلسنّت سے اس تبلیغی پروگرام کو کامیاب بنانے میں تعاون کرنے کی اپیل کی۔ آخیر میں علامہ شاہ احمد نورانی نے فرمایا کہ ”دعوت اسلامی کو میری پوری تائید و حمایت حاصل رہے گی،لیکن بظاہر میں اس سے دور رہوں گا“۔ شاہ حسین گردیزی کے بقول،”اس اجلاس میں دعوت اسلامی کے امیر کا فیصلہ نہیں ہوا تھا، یہ فیصلہ بعد میں ہوا ہوگا“۔(انٹرویو: مولانا شاہ حسین گردیزی، ماہنامہ جامِ نور دہلی، جون 2011ء ،صفحہ42)


بعدازاں علماء کرام کا ایک اجلاس دارالعلوم امجدیہ میں ہوا، جس میں علامہ ارشد القادری، علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، مفتی ظفر علی نعمانی، مفتی محمد وقار الدین، قاری رضا المصطفیٰ اعظمی اور قاری مصلح الدین صدیقی نے کافی غور وخوض کے بعد مولانا محمد الیاس قادری کو دعوت اسلامی کا امیر منتخب کیا(مضمون: ”علامہ ارشد القادری اور دعوتِ اسلامی“، ڈاکٹر غلام زر قانی، مشمولہ: ماہنامہ جام ِ نور،دہلی، شمارہ مارچ تامئی2012ء، صفحہ55،چشتی)


دعوت اسلامی کا سرپرست استاذ المکرم مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ کو اور نگران مولانا محمد الیاس قادری کو مقرر کیا گیا ۔ نگراں کےلیے مولانا محمد الیاس قادری کا نام مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ کا ہی تجویزکردہ تھا ۔ اس ضمن میں مولانا محمد الیاس قادری بیان کرتے ہیں ”جب علامہ ارشد القادری نے مجھے امارت سونپنی چاہی تو میں نے عرض کیا ”میں اِس قابل نہیں ہوں“، جس پر علامہ ارشد القادری نے از راہِ تفنن فرمایا ”مجھے زیادہ قابل آدمی کی ضرورت نہیں“ ۔ (مضمون: دعوت اسلامی کا بانی کون ؟، مولانا محمد الیاس قادری، ماہنامہ جہانِ رضا،لاہور،دعوتِ اسلامی نمبر، اپریل2011ء،صفحہ182،چشتی)


بقول علامہ ارشد القادری”مولانا محمد الیاس قادری کی بطور امیر نامزدگی میں تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کا نام سبب نہ تھا ۔ ناموں کی یہ مماثلت محض اتفاق تھی ۔ (ذاتی انٹر ویو: علامہ ارشد القادری 29 جنوری 2001 ء، کراچی ہمراہ عبدالصمد مجاہد، کراچی،چشتی)


اُس وقت مولانا محمد الیاس قادری نور مسجد، کاغذی بازار،اولڈ ٹاؤن کراچی کے خطیب اور ایک تنظیم انجمن اشاعتِ اسلام سے وابستہ تھے۔ اپنے دور طالب علمی میں وہ انجمن طلبہ اسلام کے بھی کارکن رہے تھے،جس کا ذکر اُن کی کتاب ”نماز کا جائزہ“کے ابتدائی ایڈیشن میں شامل، اُن کے تعارف میں اِن الفاظ کے ساتھ موجودہے : کچھ عرصے تک انجمن طلبہ اسلام کے اہم کارکن کی حیثیت سے نوجوانوں میں مسلک ِ اہلسنّت کی اشاعت میں مصروف رہے“۔ مورخہ 7 ذیقعدہ1401ھ (6 ستمبر 1981ء) کومفتی محمد وقار الدین اور علامہ ارشد القادری نے اس کتاب کےلیے اپنی تقاریظ تحریر کیں، جو اس کتاب میں موجود ہیں (نماز کا جائزہ“، امیر دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس قادری، خطیب نور مسجد اولڈ ٹاؤن، کراچی، شائع کردہ دعوت ِ اسلامی، 1982ء،چشتی) ۔ دعوت اسلامی سے قبل مولانا محمد الیاس قادری سبز مسجد میٹھادر کراچی میں انجمن طلبہ اسلام کے اجتماعات سے بھی خطاب کیا کرتے تھے اور کئی افراد سے کی جانے والی گفتگو کی روشنی میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ُانہوں نے تقریر کرنا ہی انجمن طلبہ اسلام کے اجتماعات کے ذریعے سیکھا ۔


دعوتِ اسلامی کا امیر منتخب ہونے کے بعد ابتداء میں مولانا محمد الیاس قادری نے علامہ ارشد القادری کے ساتھ رابطہ رکھا اور اُنہیں تحریر ی طورپر دعوت اسلامی کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہے (خطوط: مولانا محمد الیاس قادری، مشمولہ: ماہنامہ جام نور، دہلی، شمارہ مارچ تا مئی2012ء، صفحہ59-55) ۔ دعوت اسلامی کےلیے علامہ ارشد القادری نے لاہور میں بھی علماء کرام کا اجتماع کیا ، جس میں پیر زادہ اقبال احمد فاروقی علیہ الرحمہ (متوفی19دسمبر2013ء) (جن سے فقیر چشتی کی کٸی طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں) کو دعوتِ اسلامی پنجاب کا امیر منتخب کیا گیا تاہم وہ اس امارت کے فرائض سر انجام نہ دے سکے ۔ (ماہنامہ جہانِ رِضا،لاہور، اپریل 2011ء صفحہ نمبر 12)


علماء ومشائخ اور عوام الناس نے دعوت اسلامی کو وقت کی اہم ضرورت خیال کیا اور اس کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ۔ علامہ شاہ احمد نورانی نے مساجد میں دعوتِ اسلامی کا اجتماع منعقد کرانے کے لیے اہلسنّت کے آئمہ مساجد کے نام خط تحریر کیا ۔ علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی علیہما الرحمہ اور دیگر علماء نے اجتماع کےلیے اپنی مساجد کو پیش کیا ۔ دعوتِ اسلامی کے پہلے مرکزی اجتماع منعقدہ 26-25نومبر1982ء بمقام ککری گراؤنڈ،کا اشتہار 26نومبر1982ء کے روزنامہ جنگ کراچی میں تحریکِ عوام اہلسنّت، انجمن اشاعتِ اسلام، بزمِ قاسمیہ رضویہ اور کراچی یارن مرچنٹس کے مشترکہ تعاون سے شائع ہوا۔


انجمن طلبہ اسلام نے دعوت اسلامی کے سینئر رفیق عبدالقادر باپو شریف کو ملک گیر رابطے کےلیے اپنے ریکارڈ سے نام اور پتہ جات فراہم کیے اور ملک بھر میں دعوتِ اسلامی کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ دعوت اسلامی کے ایک مرکزی اجتماع کے موقع پر اخبارات میں مضمون چھپوانے کےلیے اے ٹی آئی کراچی کے ناظم (1982-1981ء) عبدالجبار اور کارکنان نے اخبارات میں رابطہ کیا اور عبدالجبار کا تحریر کردہ مضمون اخبارات میں شائع کرایا (ذاتی انٹرویو : ڈاکٹر عبدالرحیم (ناظم اے ٹی آئی کراچی 1985-1984ء)، 8ستمبر2013ء، کراچی) ۔ دعوتِ اسلامی کے امیرمولانا محمد الیاس قادری نے انجمن کے بانی رکن محمد حنیف حاجی طیب سے اس بات کا اعتراف کیا کہ”دعوت ِ اسلامی کے فروغ میں سب سے زیادہ تعاون اے ٹی آئی نے کیا ہے ۔ (ذاتی انٹرویو محمد حنیف حاجی طیب 21 جون 2010ء کراچی،چشتی)


انجمن طلبہ اسلام و دیگر علماۓ اہلسنت کی جانب سے دعوتِ اسلامی کو کامیاب بنانے کےلیے وقتاً فوقتاً سرکلر اور اخبارات کو جاری کردہ پریس ریلیز کے ذریعے کارکنان کو ہدایات جاری کی گئیں۔1985ء میں جب سرکاری سطح پر گروپ کے تحت حج اسکیم متعارف ہوئی تو دعوتِ اسلامی کے پہلے حج گروپ میں انجمن طلبہ اسلام کراچی کے ناظم (1985-1984) ڈاکٹر حاجی عبدالرحیم نے اہم ذمہ داری انجام دی۔


دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور میں انجمن طلباء اسلام اور دیگر ہم خیال تنظیموں کو دعوتِ اسلامی کی اجتماعات گاہوں پر اپنے کیمپ لگانے کی اجازت تھی ۔ دعوت اسلامی کی اپنی ابتدائی تنظیمی پریس ریلیز میں بھی انجمن طلبہ اسلام کا ذکر ملتا ہے ۔ (روزنامہ جنگ،کراچی، 14نومبر 1983ء) ۔ انجمن طلبہ اسلام نے کئی مرتبہ اخبارات کے ذریعے بھی دعوت اسلامی کے اجتماعات کا خیر مقد م کیا ۔ (روزنامہ جنگ، کراچی،20اکتوبر1991ء)


دعوتِ اسلامی کے فروغ کےلیے مختلف تنظیموں ، علماۓ کرام اور شخصیات کا یہ مخلصانہ تعاون شخصیت پرستی اور پیر پرستی سے بالاتر ، ایک اجتماعی کاز کی بنیاد پر تھا ۔ کاش دونوں طرف سے یہ سلسلہ جاری رہتا ۔


ابتدا ء میں مولانا محمد الیاس قادری کےلیے ”امیر دعوت اسلامی“کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا (نمازکاجائزہ، 1982ء؛ روزنامہ جنگ کراچی 24 اور 26 نومبر1982ء)۔ بعد میں دیگر القابات کا اضافہ ہوتا گیا اور غالباً 2006- 2005ء میں اُنہیں دعوت اسلامی کا بانی قرار دینے کا آغاز ہوا ۔ اس حوالے سے مولانا محمد الیاس قادری لکھتے ہیں، ”ظاہر ہے سنار کو انگوٹھی بنانے کا حکم کرنے والے کو ”بانی“ نہیں بلکہ سنار کو ”بانی انگوٹھی“ قرار دیا جائے گا“ ۔ (ماہنامہ جہانِ رِضا، لاہور، اپریل2011 ء، صفحہ 189،چشتی)


علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے فرزند ڈاکٹر غلام زرقانی القادری اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”یہ عبارت میری نا قص سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر اسی فلسفہ قیام و بناء کو تسلیم کر لیا جائے تو نہ ”تاج محل“ کا بانی شاہجہاں کو قرار دیا جاسکے گا اور نہ ”لال قلعہ“ کا ، بلکہ اس سے بڑی مصیبت تو ہم اہلِ ہند کو پیش آئے گی کہ یہاں مساجد کی تعمیر میں جن مزدوروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ، وہ زیادہ تر غیر مسلم ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس فکر کو اگر بعینہٖ تسلیم کر لیا جائے تو پھر تعمیرِ مسجد کے حوالے سے ساری بشارتوں کے اہل وہ (غیر مسلم) ہوجائیں گے ۔ (مضمون: ”علامہ ارشد القادری اور دعوتِ اسلامی“، ڈاکٹر غلام زر قانی، مشمولہ: ماہنامہ جام ِ نور، دہلی، شمارہ مارچ تامئی2012ء،چشتی)


دعوت ِ اسلامی پر بعض علماۓ کرام کے تحفظات اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اپنی جگہ ، مگر یہ حقیقت ہے کہ مولانا محمد الیاس قادری کی سربراہی میں دعوتِ اسلامی نے خاصی بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں پیدا کی ہیں ۔ اس وقت یہ تنظیم اہلسنّت و جماعت کا ایک مؤثر اور بڑا ادارہ بن چکی ہے ۔ بلاشبہ پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ اہلسنّت کی بڑی ممتازاور فعال تنظیم ہے جو اپنے طریقہ کار اور وسیع نیٹ ورک کے ذریعے شب و روز سرگرمِ عمل ہے ۔ (مزید تعارف بانیان دعوتِ اسلامی حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

آل و اصحاب رضی اللہ عنہم پر درود پڑھنا

 آل و اصحاب رضی اللہ عنہم پر درود پڑھنا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود کےلیے لفظ ’’ صلاۃ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔ (پارہ 22 سورہ الاحزاب:56)

ترجمہ : بے شک اللہ اور اس کے فر شتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتا نے وا لے (نبی) پر اے ایما ن والو! ان پر در ود اور خوب سلام بھیجو ۔


درود شریف میں  آل و اَصحاب رضی اللہ عنہم کا ذکر شروع سے چلتا آ رہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر درود مقبول نہیں  یعنی درود شریف میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلِ بیت کو بھی شامل کیا جائے ۔ (تفسیر مدارک سورہ الاحزاب ، ۵۶، ص۹۵۰)(تفسیرات احمدیہ، الاحزاب ، ۵۶، ص۶۳۵،چشتی)


اور اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہی حکم صحابہ کرام کےلیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا ہے : خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔

ترجمہ : آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے ، اور ﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔ (سورہ التَّوْبَة، 9: 103)


بات واضح ہے کہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لئے بھی قرآن میں (صَلِّ عَلَيْهِ) کا حکم ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے بھی (صَلِّ عَلَيْهِمْ) کے الفاظ سے حکم ہے ۔


نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اہلِ ایمان پر درود و سلام بھیجنا جائز ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ ارشاداتِ باری تعالیٰ ہیں :


خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔

تجمہ : آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے ، اور ﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔ (سورہ التَّوْبَة، 9: 103)


هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ۔

ترجمہ : وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے ۔ (سورہ الْأَحْزَاب، 33: 43)


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ۔

تجمہ : اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو ، یہ تمہارے لیے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو ۔ (سورہ النُّوْر، 24: 27)


فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون ۔

ترجمہ : پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے۔ (سورہ النُّوْر، 24: 61)


امام بخاری رحمة ﷲ علیہ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ یوں قائم کیا ہے : هَلْ يُصَلَّی عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ؟

ترجمہ : کیا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسروں پر درود بھیجے ؟


اور پھر اس باب کے تحت یہ حدیثِ مبارکہ لائے ہیں : عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ کَانَ إِذَا أَتَی رَجُلٌ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم بِصَدَقَتِهِ قَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ أَبِي أَوْفَی ۔

ترجمہ : حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صدقہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : اے اللہ! اس پرصلوٰۃ (رحمت) نازل فرما ۔ میرے والد ماجد صدقہ (ہدیہ) لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : اے اللہ! آل ابی اوفیٰ پر درود (رحمت) بھیج۔ (بخاري، الصحيح، 5: 2339، رقم: 5998، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة،چشتی)(مسلم، الصحيح، 2: 756، رقم: 1078، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)


امام ابو داؤد رحمة ﷲعلیہ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ قائم کیا ہے : الصَّلَاةِ عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ۔

ترجمہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسرے پر درود بھیجنا ۔


اور اس باب کے ضمن میں درج ذیل حدیث مبارکہ نقل کی ہے : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِرضی الله عنهما  أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَی زَوْجِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلَّی ﷲُ عَلَيْکِ وَعَلَی زَوْجِکِ ۔

ترجمہ : حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوئی کہ میرے لیے اور میرے خاوند کےلیے دعا فرمائیں تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ تم پر اور تمہارے خاوند پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرمائے ۔ (أبي داؤد، السنن، 2: 88، رقم: 1533، دار الفکر،چشتی)(ابن حبان الصحيح، 3: 197، رقم: 916، مؤسسة الرسالة بيروت)


لہٰذا یہ بات تو طے ہوئی کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور پر درود وسلام بھیج سکتے ہیں لیکن ہمیں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے کے ناطے کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ آقا  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پوری امت کے صالحین کو شامل کرنا چاہیے تاکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے سب کو زیادہ سے زیادہ برکتیں حاصل ہوں ۔ جیسے ہم پڑھتے ہیں : اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِهِ وَصَحْبِهِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ ۔


یعنی جوبھی درود وسلام بھیجیں اُن میں جب ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود وسلام بھیجیں گے تو آل محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں امت کے سارے صالحین آ جائیں گے، جو درج ذیل حدیث مبارکہ سے ثابت ہے : عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم مَنْ آلُ مُحَمَّدٍ؟ فَقَالَ: کُلُّ تَقِيٍّ ۔

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا ، آل محمد کون ہیں ؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری امت کا) ہر پرہیزگار میری آل ہے ۔ (المعجم الأوسط، 3: 338، رقم: 3332، دار الحرمين القاهرة،چشتی)(مجمع الزوائد، 10: 269، بيروت، القاهرة: دار الکتاب)


حضرت صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : سیِّدعالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم پر دُرود و سلام بھیجنا واجب ہے، ہر ایک مجلس میں آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا ذکر کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ایک مرتبہ، اور اس سے زیادہ مستحب ہے۔ یہی قول معتمد ہے اور اس پر جمہور ہیں، اور نماز کے قعدہ اَخیرہ میں بعد تشہد درود شریف پڑھنا سنت ہے، اور آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے تابع کرکے آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے آل و اصحاب ودُوسرے مؤمنین پر بھی دُرود بھیجا جاسکتا ہے یعنی درود شریف میں آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ و سلَّم کے نامِ اَقدَس کے بعد ان کو شامل کیا جاسکتا ہے اور مستقل طور پر حضورکے سوا ان میں سے کِسی پر درود بھیجنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ : درود شریف میں آل و اصحاب کا ذکر متوارث ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر مقبول نہیں۔ درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبئ کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی تکریم ہے۔ علماء نے اَللّٰہُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ کے معنٰی یہ بیان کئے ہیں کہ یا ربّ! محمد ِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو عظمت عطا فرما،دنیا میں ان کا دین بلند اوران کی دعوت غالب فرما کر اوران کی شریعت کو بقا عنایت کرکے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کرکے اور اوّلین و آخرین پر اُن کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور انبیاء مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر اُن کی شان بلند کرکے ۔مسئلہ: درود شریف کی بہت برکتیں اور فضیلتیں ہیں، حدیث شریف میں ہے: سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا کہ جب درود بھیجنے والا مُجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔مسلم کی حدیث شریف میں ہے:جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار بھیجتا ہے۔ ترمذی کی حدیث شریف میں ہے: بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے ۔ (تفسیر خزائن العرفان)


اَنبیاء عَلَیْھِمُ السَّلام اور فِرِشتوں کے علاوہ کسی اور کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام اِسْتِقْلالاً یا اِبتداءً لکھنا یابولنا شرعاً دُرُست نہیں ہے ۔ عُلما نے اسے اَنبیاء کرام عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص لکھا ہے ۔ چُنانچہ صَدْرُ الشَّریعہ مُفْتی امجد علی اَعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  : کسی کے  نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام کہنا ، یہ انبیا و ملائکہ عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص ہے ۔ مثلاً موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام ، جبریل عَلَیْہِ السَّلام ۔  نبی اور فِرِشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے ۔ (بہار شریعت ، ۳  /  ص۴۶۵)


اَلبتَّہان کی تَبْعِیَّت میں غیر نبی پر دُرُود و سلام بھیجا گیا ہو تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ چُنانچہ فقیہ مِلَّت حضرت علاَّمہ مولانا مُفْتی جلالُ الدِّین اَمجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمہور علماء کا مَذہَب یہ کہ اِسْتِقْلالاً واِبتداءً نہیں جائز اور اِتباعا جائز ہے یعنی امام حسین عَلَیْہِ السَّلام کہنا جائز نہیں ہے اور امام حسین عَلٰی نَبِینا وَعَلَیْہِ السَّلام جائز ہے ۔ (فتاوی فیض الرسول ، ۱ / ۲۶۷)


حضرت امام بدرُ الدِّین عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وَقَالَ أبُوْ حَنِیْفَۃَ وَ اَصْحَابُہٗ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِیُّ وَالْاَکْثَرُوْنَ اِنَّہٗ لاَ یُصَلّٰی عَلٰی غَیْرِ اْلَانْبِیَاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ اِسْتِقْلاَلاً، فَلاَ یُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ بَکر اَوْ عَلٰی اٰلِ عُمَرَ اَوْ غَیْرِھِمَا و لٰکِن یُّصَلّٰی عَلَیْہِمْ تَبْعاً ‘‘ (عمدۃ القاری ، کتاب الزکاۃ ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ وقولہ، ۶ / ۵۵۶،چشتی)


مشہور شافعی بُزُرگ حضرت امام مُحی الدِّین نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : لاَ یُصَلّ عَلٰی غَیْرِ الْأَنْبِیَائِ اِلَّا تَبْعاً لِاَنَّ الصَّلاَۃَ فِیْ لِسَانِ السَّلَفِ مَخْصُوْصَۃٌ بِالْاَنْبِیَاء صَلَواتُ اللّٰہ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ کَمَا اَنَّ قَوْلَنَا ’’عَزَّوَجَلَّ‘‘ مَخْصُوْصٌ بِاللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی فَکَمَا لَایُقَالُ مُحَمَّدٌ عَزَّوَجَلَّ وَاِنْ کَان عَزِیْزاً جَلِیْلًا لَا یُقَالُ اَبُوْ بَکْرٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِنْ صَحَّ الْمَعْنٰی (اِلٰی اَنْ قَال) وَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّہٗ یَجُوْزُ اَنْ یُّجْعَلَ غَیْرَ اْلَانْبِیَائِ تَبْعَاً لَّھُمْ فِیْ ذٰلِکَ فَیُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہ وَاَتْبَاعِہٖ لِاَنَّ السَّلَفَ لَمْ یَمْنَعُوْا مِنْہُ وَقَدْ اُمِرْنَا بِہٖ فِی التَّشَہُّدِ وَغَیْرِہ قَالَ الشَّیْخُ اَبُوْمُحَمَّدِ الجُوَیْنِیْ مِنْ اَئِمَّۃِ اَصْحَابِنَا اَلسَّلَامُ فِیْ مَعْنَی الصَّلَاۃِ وَلَایُفْرَدُ بِہٖ غَیْرُ الْاَنْبِیَائِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَرَنَ بَیْنَہُمَا وَلَا یُفْرَدُ بِہٖ غَائِبٌ وَلَا یُقَالُ قَالَ فُلَانٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ۔ (شرح مسلم للنووی، باب الدعاء لمن اتی بصدقتہ، ۴ / ۱۸۵، الجزء السابع)


ان دونوں عبارتوں کا خُلاصہ یہ ہے کہ اِمام ابُو حَنیفہ ، اُن کے اَصحاب ، امام مالک ، امام شافعی اور اکثر عُلماء علٕہم الرحمہ کا قول یہ ہے کہ غَیرِ نبی پر اِسْتِقْلالاً صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی ، اَلبتَّہ تَبْعاً پڑھی جا سکتی ہے ۔ یعنی یوں نہیں کہا جائے گا :  اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍاَلبتَّہ یوں کہا جا سکتا ہے : اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلی اَبِیْ بَکْرٍ ۔ اس کے جَواز اور عَدمِ جَواز کی دلیل سلف صالحین کا عمل ہے ، اور جَواز باِلتَّبع کی دلیل تَشَہُّد وغیرہ دیگر مَقامات بھی ہیں جہاں باِلتَّبع پڑھنے کا حکم ہے ۔ اِمامُ الْحَرَمَیْن حضرت امام جُوَیْنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سلام بھی اس حکم میں صَلاۃ کے مَعْنی میں ہے ۔

 

اِمام احمد رضاخان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کےلیے روانہیں ، ہاں بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم کےلیے رضی اللہ عنہم کہا جائے ، اَولیائے وعُلماء کو رحمة اللہعلیہم  یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رضی اللہ عنہم کہے جب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ (فتاوی رضویہ ۲۳ / ۳۹۰)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday, 30 August 2021

حضرت ميسون بنت بحدل رضی اللہ عنہا

 حضرت ميسون بنت بحدل رضی اللہ عنہا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ میسون بنت بحدل کلبی نہ صرف مسلمان بلکہ تابعیت کے مرتبہ پر فائز تھیں جس پر کثیر شواہد و دلائل موجود ہیں  جبکہ ان کے نصرانی ہونے پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں ۔


حدیث فقہ اور لغت کے امام حسن بن محمد صغانی لاہوری رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب العباب الزاخر میں ان کو تابعیات میں شمار کیا ہے ۔ اسی طرح امام فقیہ حنفی محدث مرتضی زبیدی رحمة اللہ علیہ نے تاج العروس میں حافظ صغانی رحمة اللہ علیہ کے حوالے ان کو تابعیات میں سے لکھا ہے ۔


حافظ ابو بکر بن ماکولا ، حافظ ابن نقطہ ، حافظ ابن عساکر ، حافظ ناصر الدین الدمشقی ، حافظ ابن حجر عسقلانی علیہم الرحمہ نے آپ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتی ہیں ، حافظ ابن عدی رحمة اللہ علیہ نے الکامل میں جب کہ حافظ ابن طاہر المقدسی رحمة اللہ علیہ نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک حدیث ضعیف کو ذکر کیا ہے ۔ (الإكمال لابن ماكولا ج٧ ص ١٩٣)(تاج العروس ج ١٦ ص ٥٢٩،چشتی)(تاريخ دمشق ج ٧٠ ص ١٣٠ رقم ٩٤٣٢)(تبصير المتنبه بتحرير المشتبه ج ٢ ص ١٢٨٠)(الكامل في ضعفاء الرجال ج ٤ ص ٢٦٦ رقم ٦٠٧٠)(ذخيرة الحفاظ ج ٣ ص ١٤٨٥ رقم ٣٢٨٠)


ميسون ابنة بحدل الكلبية ..... قال الصاغاني: وهي من التابعيات ۔ (تاج العروس، ج 16، ص 528)


قال رضي الدين الحنفي (المتوفى 650ھ) : ميسون ابنة بحدل .... أم يزيد بن معاوية : من التابعيات ۔ (العباب الزاخر، ج 1، ص 200)


ميسون بنت بحدل .... شاعرة إسلامية ۔ (معجم الشعراء العرب، جلد 1)


ان ائمہ اسلام کی تصریحات سے ان کا تابعیہ ہونا واضح ہے ، ان کے کفر پر تو دور کی بات فسق و فجور پر کوئی بات صحیح سند سے ثابت نہیں ۔


تاريخ دمشق میں ان سے ایک روایت بھی مروی ہے : عَنْ مَيْسُونَ بِنْتِ بَحْدَلٍ ، زَادَ عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ : امْرَأَةِ مُعَاوِيَةَ ، ثُمَّ قَالا : عَنْ مُعَاوِيَةَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : "سَيَكُونُ قَوْمٌ يَنَالُهُمُ الإِخْصَاءُ ، فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر)


نیم رافضی حضرات یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ کیا نصرانی سے روایت لی جا سکتی ہے ؟


علمائے محدثین کا آپ کی روایات لینا اور انہیں قبول رکھنا بھی آپ کے ایمان پر دلالت کرتا ہے ۔


تفسير البحر المحیط وغيرہ کتب میں بھی ایک روایت آپ کے متعلق مذکور ہے جس سے میسون بنت بحدل کے مسلمان ہونے کی تائید ملتی ہے : ﻭﻋﻦ ﻣﻴﺴﻮﻥ ﺑﻨﺖ ﺑﺤﺪﻝ اﻟﻜﻼﺑﻴﺔ : ﺇﻥ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻭﻣﻌﻪ ﺧﺼﻲ ﻓﺘﻘﻨﻌﺖ ﻣﻨﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻫﻮ ﺧﺼﻲ ﻓﻘﺎﻟﺖ : ﻳﺎ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺃﺗﺮﻯ اﻟﻤﺜﻠﺔ ﺗﺤﻠﻞ ﻣﺎ ﺣﺮﻡ اﻟﻠﻪ ۔


یہ روایت اگرچہ مسلمان ہونے کی دلیل نہیں لیکن مسلمان ہونے کی تائید ضرور کرتی ہے اس طرح کہ خدا خوفی کی وجہ سے حلال و حرام کا امتیاز رکھنا اور پردہ کا اتنا اہتمام کرنا شریعت اسلامیہ ہی کا خاصہ ہے ۔


تابعی اس مسلمان کو کہتے ہیں جس نے کسی بھی صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی صحبت اختیار کی یا ان سے ملاقات کی ۔ علامہ سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : التابعي كل مسلم صحب صحابيا وقيل من لقيه وهو الأظهر ۔

ترجمہ : تابعی ہر اس مسلمان کو کہتے ہیں جس نے کسی صحابی کی صحبت اختیار کی ہو ، اور ایک قول یہ ہے کہ تابعی وہ مسلمان ہے جس نے کسی صحابی سے ملاقات کی ہو اور یہی زیادہ ظاہر ہے ۔


علامہ حافظ عبد الحی لکھنوی رحمة اللہ علیہ دوسری تعریف کے تحت لکھتے ہیں : اي التعريف الثاني للتابعي أظهر وأقوى قد اختاره جمع من أرباب التقوى والفتوى یعنی تابعی کی دوسری زیادہ ظاہر زیادہ قوی ہے اسی کو ارباب تقوی وفتوی کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے ۔(ظفر الأماني بشرح مختصر السيد الجرجاني ص ٥٤٠)(وانظر : المنهل الروي في مختصر علوم الحديث النبوي لابن جماعة ص ٣٧٩)(الخلاصة في أصول الحديث للطيبي ص ١٢٥)


حافظ سیوطی رحمة اللہ علیہ تدریب الراوی میں دوسری تعریف کے بارے میں لکھتے ہیں : قال العراقي وعليه عمل الأكثرين من أهل الحديث حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : اسی پر اکثر محدثین کا عمل ہے ۔ (تدريب الراوي ج ٥ ص ٢٤٠)

Friday, 27 August 2021

شیعہ کافر ہیں کہ نہیں حصہ دوم

 شیعہ کافر ہیں کہ نہیں حصہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے حصہ اول پڑھ لیا ہوگا اب  حصہ دوم پڑھیں : اُن تمام پیروں ، مریدوں ، خطیبوں ، نعت خوانوں ، نقیبوں اور قاریوں سے جو شیعوں کے ساتھ مجالس پڑھتے اور ان کے ہمنوا بنتے ہیں گذارش ہے دوسرا حصہ وقت نکال ٹھنڈے دل سے مکمل پڑھ کر فیصلہ کریں کہ آپ لوگ کہاں کھڑے ہیں اور آپ کی غیرتِ ایمانی کہاں دفن ہو چکی ہے ؟


تحریفِ قرآن : قرآن پاک جس پر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے، اس میں تحریف نہیں ہے ، قرآن پاک میں سے ایک لفظ کا بھی انکار کفر ہے ، اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ اس میں کوئی لفظ زیادہ ہے نہ کم ہے ، لیکن شیعہ قرآن پاک میں کمی کے قائل ہی نہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ ’’موجودہ قرآن میں سے بہت سےالفاظ نکال لئے ہیں‘‘، شیخ طوسی نے روایت کیا ہے کہ :


شیعہ کی تحریفا ت


(۱)  ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحاً و اٰل ابراھیم و اٰل عمران و اٰل محمد علی العالمین میں اٰل محمد کے لفظ کو نکال لیا گیا ہے۔


معلوم ہوا کہ موجودہ قرآن میں لفظ اٰل محمد نہیں ہے۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۱۲۳)


(۲) قرآن پاک کی صحیح آیت: اِنَّ عَلَیْنَا لَلھُدیٰ۔


تحریف شدہ آیت: وَ اِنَّ عَلِیًّا لَلھُدٰی، یعنی علی اور ان کی ولایت ہدایت ہے۔


یہ لفظ عَلَیْنَا نہیں عَلِیًّا ہے، (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ (حیات القلوب:۲،۱۲۳)


(۳) قرآن پاک کی صحیح آیت: فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا۔ (الاسراء:۴۸، الفرقان:۹)


 تحریف شدہ آیت: فلا یستطیعون ولایۃ علی سبیلاً۔


قرآن سے شعیہ عقیدہ کےمطابق یہ الفاظ ولایۃ علیّ نکال دئے گئے ہیں۔


(نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ (حیات القلوب:۲،۱۲۳)


(۴) قرآن پاک کی صحیح آیت: وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا۔ (الاسراء:۴۷)


 تحریف شدہ آیت: و قال الظالمون اٰل محمد حقھم۔


 (۹)  قرآن پاک کی صحیح آیت: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ۔ (البقرۃ:۱۴۳)


تحریف شدہ آیت: و کذالک جعلناکم ائمتہ و سطا عدلا تکونوا شھداء علی الناس۔ (ترجمہ حیات القلوب:۳،۲۳۴،چشتی)


(۱۰) قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۔ (الکھف:۲۹)


تحریف شدہ قرآنی آیت: انا اعتدنا للظالمین اٰل محمد ناراً احاط بھم سرادقھا۔


(۱۱) قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: وَالْعَصْرِ ۔ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ (سورۃ العصر)


تحریف شدہ قرآنی آیت: ان الانسان لفی خسر، انہ فیہ من الدھر الا الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات وأتمروا بالتقویٰ وأتمروا بالصبر۔ (حیات القلوب:۳،۳۷۸)


قرآن پاک کی پوری سورۃ العصر کو بدل دیا۔


(۱۲)  قرآن پاک کی صحیح آیت مبارکہ: وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۔ (الکھف:۲۹)


تحریف شدہ قرآنی آیت: قل الحق من ربکم فی ولایۃ علی انا اعتدنا للظالمین اٰل محمد ناراً احاط بھم سرادقھا۔ (حیات القلوب:۳،۳۸۵)


(۱۳) قرآن کریم کی صحیح آیتِ مبارکہ: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ۔ (البقرۃ:۵۹)


تحریف شدہ قرآنی آیت: فبدل الذین ظلموا اٰل محمد حقھم قولاً غیر الذی قیل لھم فانزلنا علی الذین ظلموا اَٰ محمد حقھم رجزا من السماء۔

اس میں اٰل محمد کے الفاظ اپنی طرف سے درج کئے ہیں۔ (حیات القلوب)


(۱۴) قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَكُمْ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔ (النساء:۱۷۰)


تحریف شدہ قرآنی آیت: يا أيها الناس قد جاءكم الرسول بالحق من ربكم فی ولایۃ علی فآمنوا خيرا لكم وإن تكفروا بولایۃ علی فإن لله ما في السماوات والأرض۔ (ترجمہ حیات القلوب بشارتی مترجم باقر مجلسی:۳۸۹،چشتی)


فی ولایۃ علی اور بولایۃ علی کا اضافہ ہے۔


(۱۵) قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ۔ (النساء:۱۶۸)


تحریف شدہ قرآنی آیت: ان الذین ظلموا اٰل محمد حقھم۔ (حیات القلوب:۳،۳۸۹)


ان پندرہ آیاتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ شیعہ عقائد میں موجود قرآن مبارک نامکمل اور صحیح نہیں ہے، قرآن و سنت کے مطابق اور قرآنی قانون کے مطابق کلمۂ طیبہ کو تبدیل کرنے والا مرتد واجب القتل ہے، ان تمام آیات کی تبدیلی کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے اور ان کی کتاب جس مںی یہ آیات لکھی گئی ہیں ایک حوالہ بھی غلط نہیں لکھا گیا ہے۔


رسالت سے متعلق شیعہ کے کفریہ عقائد


(۱) سرور دو عالم، رحمتِ کائنات حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عقیدہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی گئی ہے، جاہل بے علم کتاب کے مصنف نے ترمذی شریف کا حوالہ دیتےہوئے باب الحج کی ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حج تمتع کے بارے میں لکھا ہے کہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ نبیؐ نے کیا، حج تمتع کی وضاحت کتاب میں موجود ہے کہ عمرہ اور حج کو اکٹھا ادا کرنا یعنی ایک دوسرے کے بعد ، لیکن افسوس کہ شیعہ نے عربی عبارت کو تبدیل کیا اور تمتع کا ترجمہ متعہ کیا اور صاف طور پر اپنی کتاب ’’خصائلِ معاویہ:۴۳۱‘‘ میں لکھ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذ باللہ) متعہ کیا۔

صحیح حدیث: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ۔ (سنن ترمذی:باب ماجاء فی التمتع)

ترجمہ:۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے حجِ تمتع کیا۔

عمرہ اور حج ایک ہی احرام سے بلافصل جمع کرنے کو حجِ تمتع کہتے ہیں، لیکن شیعہ مصنف غلام حسین نجفی نے ترجمہ کیا: (نعوذ باللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے متعہ کیا، یہ شانِ رسالت میں گستاخی نہیں تو اور کیا ہے؟ روایت کا ترجمہ کرنا، لکھنا اور امام الانبیاء فخرِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ انہوں نے متعہ کیا! نعوذ باللہ ۔


(۲) شرک فی الرسالۃ: کتاب نام ’’خورشدی خاور‘‘، ترجمہ شبہائے پشاور، مترجم محمد باقر مجلسی رئیس جوارس، کتب خانہ شاہ نجف لاہور میں یہ لکھتا ہے کہ ’’شیعہ وہ ہے جن کے نزدیک علیؓ تمام انبیاء سے افضل ہیں‘‘۔


چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں، لہٰذا علیؓ ان سے بھی افضل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انبیاء سےافضل ہونے کے ثبوت میں دلائل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کوفہ کا مشہور خطیب ہے، اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا : اخبرنی انت افضل اَم آدم؟


حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جوابات: ۱۔ انا افضل من آدم۔۲۔ انا افضل من ابراھیم۔ ۳۔ انا افضل من موسیٰ۔ ۴۔انا افضل من عیسیٰ۔ (خورشید خاور:۲۹۴)


ان پانچ عبارتوں پر شیعہ عقیدہ کی بنیاد ہے جو کہ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے، صحیح عقیدہ کے مطابق امتی کسی پیغمبر کا بھی ہو وہ نبی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا، صحابی کا مقام اور ہے اور نبی کا مقام اور ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابہ میں گو کتنا بڑا مقام رکھتے ہیں لیکن وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یا اور کسی بھی نبی سے مرتبہ میں زیادہ ہرگز نہیں ہوسکتے، لیکن شیعہ نے صحابی کو نبوت کا مقام دے کر شرکت فی الرسالۃ کیا ہے، جو کہ شیعہ کے کفر کا واضح ثبوت ہے۔


ان پانچ عبارتوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اس عبارت کو منسوب کرنا کفر و شرک سے بڑھ کر ہے، پھر اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتا ہے کہ ’’امیر المؤمنین حضرت علی تمام فضائل و کمالات اور صفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے‘‘۔ نعوذ باللّٰہ من ذالک (خورشید خاور:۲۸۵)


ذرا انصاف کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کے ساتھ متصف کرنا شرک فی الرسالۃ نہیں تو اور کیا ہے۔


کیا قرآن و سنت کی کھلی خلاف وروزی نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا، لہٰذا شیعہ فرقہ باطلہ ہے اور ان کو کافر و مشرک کہنا ان کو غیر مسلم قرار دینا وقت کا فریضہ ہے، اور ایسی کتابیں جن کی اشاعت ہورہی ہے ان کو فی الفور ضبط کرنا ایسے مجرموں اور ایسے جہنمیوں کو سزاد دینا ہر مسلم کا فرض ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روزہ کسی کام کے لئے (حضرت) زید بن حارثہ (رضی اللہ عنہ) کے گھر تشریف لے گئے، زید کی بیوی (حضرت) زینب (رضی اللہ عنہا) غسل کر رہی تھیں ..... آپ نے زینب کا غسل کی حالت میں مشاہدہ فرمایا۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک) (ترجمہ حیات القلوب:۲،۸۹۱،چشتی)


اس عبارت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگائی گئی ہے ۔


(۳) شیعہ کی تیسری  روایت : حضرت جعفر صادق سے روایت ہے کہ ایک روز ابوبکر و عمر، ام سلمہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ جناب رسولِ خدا سے پہلے دوسرے مرد کی زوجہ تھیں، بتائیے کہ رسول خدا اس شخص کےمقابلہ میں قوتِ مجامعت میں کیسے ہیں؟ تو ام المؤمنین ام سلمہؓ نے جواب دیا: وہ بھی دوسرے مردوں کے مثل ہیں، اسی کے آخر میں لکھا ہے کہ جبرئیل بہشت سے ایک ہریہ ..... لایا اور جناب رسول خدا، علی، فاطمہ، حسن اور حسین نے اس کو تناول فرمایا، اس کے سبب سے رسول خدا کو چالیس مردوں کی قوتِ مجامعت مرحمت فرمائی، اس کے بعد ایسا تھا کہ جب حضرت چاہتے ہیں ایک شب میں تمام بیویوں سے مقاربت فرماتے ہیں۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۸۹۶،چشتی)


اسی طرح الشافی ترجمہ اصول کافی میں توہینِ نبی کرتے ہوئے ملعون لکھتا ہے : لوگ روایت کرتے ہیں کہ آگ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے (نعوذ باللہ) حضرت رسولِ خدا تھے ۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۱۷)


ایسا عقیدہ رکھنے والا واجب القتل ، جہنمی اور فرعون سے بڑھ کر ہے، شیعہ آج کے دور کا ہو یا پہلے کا ابولہب سے بڑھ کر ہے ۔


آلِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین


(۴) شیعہ رافضی اپنی بدنامِ زمانہ تصنیف ’’قولِ مقبول‘‘ کے صفحہ:۴۷۹ پر لکھتا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم جوکہ حضرت عثمان کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئیں تھیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں تھیں‘‘۔


جس طرح جناب ابوہریرہ کے باپ کا فیصلہ یا عبد القادر جیلانی کے باپ کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا ، اسی طرح عثمان غنی صاحب کی بیویوں کے باپ کا فیصلہ نہیں ہوسکا ، ان کے باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً نہیں ہیں ۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک)


(۵) ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شیعہ اثنا عشریہ کے عقائد ملاحظہ ہوں :


’’ابن بابویہ امام محمد باقر سے روایت ہے کہ جب حضرت قائم اٰل محمد ظاہر ہوں گے تو (نعوذ باللہ) عائشہ صدیقہ کو زندہ کریں گے اور ان پر حد جاری کریں گے‘‘۔ (حیات القلوب:۲،۹۰۱)


(۷) غلام حسین نجفی ملعون ’’قولِ مقبول‘‘ میں لکھتا ہے ’’حضور پاک نے غضبناک خروج کرنا ہے جو عائشہ سے صادر ہوا‘‘۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین


(۸) نجفی و مجلسی لکھتے ہیں کہ : حضرت جعفر صادق سے روایت ہے کہ عائشہ و حفصہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا اور اسی زہر سے حضور شہید ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک) (حیات القلوب:۲،۱۰۲۶)


کیا یہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما پر الزام نہیں ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں جن کا خود اس نے اقرار کیا ہے، ان کو ایسے الفاظ سے یاد کرنا اور انکار کرنا بے حیائی والے الفاظ ادا کرنا کہاں کی مسلمانی ہے ؟


’’قولِ مقبول‘‘ میں لکھا ہے کہ : آج تک یہ فیصلہ اہل سنت نہیں کرسکے، حضرت ابراہیم کا باپ کون تھا؟ آذر تھا یا تارخ؟ پس جس طرح جناب ابوہریرہ کے باپ کا فیصلہ یا عبد القادر جیلانی کے باپ کا فیصلہ نہیں ہوسکا، اسی طرح عثمان صاحب کی بیویوں کے باپ کا فیصلہ بھی نہیں ہوسکا، ان کے باپ نبی کریم تو یقیناً نہیں ہے ۔ (العیاذ باللہ) (از غلام حسین نجفی:۴۷۹،چشتی)


حضراتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے متعلق شیعہ اثنا عشریہ کے کفریہ عقائد :


(۱) امام باقر سے روایت ہے کہ جب جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رحلت فرمائی، چار اشخاص علی ابن ابی طالب، مقداد، سلمان فارسی اور ابوذر کے سواء سب مرتد ہوگئے‘‘۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۹۲۳)


اس عبارت میں لفظ سب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف چار کے علاوہ باقی تمام صحابہ مرتد ہوگئے، جن میں حضرات حسنین یعنی حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کا ذکر نہیں کیا، معلوم ہوا کہ شیعہ کافروں اور رافضیوں کے نزدیک یہ حضرات بھی مسلمان نہیں تھے۔ نعوذ باللہ


(۲) شیعہ کا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی ناموس پر حملہ :


’’خلفاء خاطی اور غیر معصوم تھے، ان پر شیطان تسلط کرتا تھا۔‘‘ (نورِ ایمان، مصنف خیرات احمد:۸۸)


(۳) حیات القلوب دوم میں ملا باقر مجلسی ملعون نے لکھا ہے کہ ’’اگر سب (صحابہؓ) ابوبکر کی بیعت کرلیتے تو خداوند عالم اہل زمین پر عذاب نازل کردیتا اور کوئی زمین پر زندہ نہ رہتا۔ (نورِ ایمان:۹۲۰)


(۴) حضرت عمر فاروق نے بعد اسلام شراب نوشی کی ۔ (نورِ ایمان:۸۲۰)


(۵) خیرات احمد شیعہ لکھتا ہے کہ ’’قرآن کی روح سے مراد فرعون اور ہامان کا دل خلیفہ ثانی عمر ہوتے ہیں، پس جو شحص قرآن کی روح سے فرعون، ہامان اور قارون کا دل ثابت ہوا اس سے ہم لوگوں یعنی شیعہ کا دلی نفرت کرنا ہرگز خلافِ قیاس نہیں بلکہ عینِ فطرت ہے ۔ نعوذ باللہ ۔ (نورِایمان:۲۹۵)


(۶) سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نجفی کی ایک اور تحریر کہ ’’عثمان ذوالنورین نے اپنی بیوی ام کلثوم کی موت کے بعد ان کے مردہ جسم سے ہمبستری کی ہے‘‘۔  (قولِ مقبول:۴۲۰) ۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک، لعنۃ اللہ علی الکاذبین)


(۷) اسی کتاب میں اہل سنت پر الزام لگاتے ہوئے لکھتا ہے : امام مسجد افضل ہے، جس کا سربڑا ہو اور آلۂ تناسل چھوٹا ہو، چھوٹے آلۂ تناسل کی فضیلت اس لئے ہے کہ وہ زیادہ ہمبستری کے قابل ہوتا ہے اور جناب عثمان میں مذکورہ خوبی موجود تھی، اسی لئے تو مردہ بیوی کو بھی معاف نہیں کیا، اس کے مردہ جسم سے ہمبستری کی‘‘۔ (قول مقبول:۴۳۰)


معلون نجفی بے شرم و بے حیاء فربیا کے زناء کی اولاد کو شرم نہ آئی، یہ بات کہاں تک پہنچتی ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والے مجلسی گروہ کو خدا واصلِ جہنم کرے آمین ۔


(۸) اسی کتاب قولِ مقبول:۴۱۸ پر لکھتا ہے کہ ’’حضرت عثمان غنی نے بغیر غسل کئے نماز جنازہ میں شرکت کی اور نماز جنازہ پڑھی‘‘۔ (لعنۃ اللہ علی الکاذبین)


(۹) اسی کتاب ’’قولِ مقبول:۴۳۵‘‘ پر لکھتا ہے کہ ’’عثمان عورتوں کے عاشق زار تھے، اسی لئے رقیہ کو حاصل کرنے کی لالچ میں مسلمان ہوگئے تھے‘‘۔


اس بے حیاء و بے شرم نے یہ تحریر کہاں سے لی ہے ؟


(۱۰) حضرت عثمان غنی اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما اور اس عبارت میں حضور اکرم علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے غلام حسین نجفی فاضل عراقی اپنی کتاب قول مقبول:۴۲۵ میں لکھتا ہے کہ ’’جب آدمی کا ذَکر ایستادہ ہوتا ہے تو دو حصے عقل کے ختم ہوجاتے ہیں، پس جناب عثمان کا یہی حشر ہوا کہ شہوت کا غلبہ ہوا اور بیمار زوجہ یعنی ام کلثوم کو ہمبستری سے قتل کردیا‘‘۔


(۱۱) ’’امام جعفر نے امام ابوحنیفہ کی ماں سے متعہ کیا اور علی نے عمر کی بہن عضرا سے متعہ کیا، حضور نے ابوبکر و عمر کی لڑکیوں عائشہ و حفصہ سے نکاح کیا تھا تاکہ شیخین میرے اسلام میں گڑبڑ نہ کریں، لیکن نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی ہمارے امام جعفر صادق اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے‘‘۔ (قول مقبول:۳۹۵) ۔ (لعنۃ اللہ علی الرافضیہ)


(۱۲) غلام حسین نجفی ’’خصائلِ معاویہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’حضرت معاویہ نے حضرت عائشہ کو قتل کیا ہے‘‘۔ (خصائل معاویہ:۲۴۹)


نجفی کافر اسی کتاب میں لکھتا ہے ’’حضرت عثمان غنی کی بیوی حضرت نائلہ نے ڈانس کیا‘‘۔ (خصائل معاویہ:۱۴۳)


اسی کتاب میں نجفی غلام حسین لکھتا ہے : حضرت خالد بن ولید نے ایک مسلمان کو شہید کیا اور پہلی ہی رات میں اس کی خوبصورت بیوی سے تمام رات زنا کرتا رہا۔ (نعوذ باللہ) (خصائل کا مصنف:غلام حسین نجفی)


(۱۳) اسی کتاب کے صفحہ:۳۹۱ میں حضرت معاویہ کے بارے میں لکھتا ہے ’’زانی باپ کا شرابی بیٹا خلیفہ نہیں ہوسکتا‘‘۔


(نعوذ باللہ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شرابی لکھا گیا ہے ۔


(۱۴) ’’ہندہ مشہور زناکار تھی ، حضرت یہ سن کر مسکرائے اس کو پہچان کر فرمایا: تو ہی ہندہ ہے؟ عقبہ کی لڑکی ہندہ نے کہ: ہاں! پھر حضرت نے فرمایا: زنا مت کرنا، ہندہ نے کہا کہ آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے، یہ سن کر عمر مسکرائے اس لئے کہ ایامِ جاہلیت میں اس سے زنا کرچکے تھے اور ہندہ مشہور زنا کار تھی، اور معاویہ زنا ہی سے پیدا ہوا تھا‘‘۔ (حیات القلوب:۲،۷۰۰)


(۱۵) خصائل معاویہ میں غلام حسین نجفی لکھتا ہے کہ : ’’ابوسفیان آخر عمر تک زندیق اور منافق رہا‘‘۔ (خصائل معاویہ:۲۹)


(۱۶) شیعہ اثناعشریہ فرعونوں اور یہودیوں کا عقیدہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ پر الزام اور توہینِ خلفائے راشدین و امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم ، فارسی کا ترجمہ، اصل عبرت ملاحظہ ہو : ’امام جعفر از جاے نماز خود برنمی خاستند تا چپار معلون و چہار معلونہ دا لعنت نمی کردند، پس باید از ہر نماز بگوید اللھم العن (نعوذ باللہ) ابابکر و عمر و عثمان و معاویہ و عائشہ و حفصہ وھتدو ام لحکم‘‘۔

ترجمہ:۔ امام جعفر صادق اپنی جائے نماز سے نہیں اٹھتے تھے جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ، عائشہ اور حفصہ پر لعنت بھیجتے۔


(۱۷) شیعہ کی بدنامِ زمانہ کتاب ’’عین الحیوۃ‘‘ کے صفحہ:۴ پر لکھا ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب صحابہ مرتد ہوگئے تھے‘‘۔ (نعوذ باللہ)


خلفائے راشدین کے بارے میں شیعہ کا عقیدہ : ’’ابوبکر اور عمر کو امام غائب آکر قبروں سے نکال کر ان کو سزاء دیں گے‘‘۔ (حق الیقین:۳۸۵) ۔ (نعوذ باللہ)


میرا عقیدہ ہے اہل تشیع اور ان کو ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ڈالے گا ، کیونکہ ایسے شیطانی عقائد رکھنے والے قطعی جہنمی ہیں ۔


شیعہ اثنا عشریہ کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی کتابوں میں گالیاں :


(۱)  کہ مراد از فرعون و ہامان ..... ابوبکر و عمر است۔

 ترجمہ : فرعون اور ہامان سے مراد ابوبکر و عمر ہیں ۔ (حق الیقین:۳۱۸)


(۲)  ابوبکر خلیفہ نہیں مرتد ہے ، مستحق قتل ہے۔ (نعوذ باللہ) ۔ (حق الیقین:۲۲۲)


(۳) عبارت ہے ’’مرادش از شیطان عمر باشد‘‘۔ یعنی شیطان سے مراد عمر ہے ۔ (حق الیقین:۲۲۹)


(۴) ’’حضرت طلحہ و زبیر مرتد شوند’’۔ یعنی حضرت طلحہ و زبیر مرتد تھے ۔ (حق الیقین:۲۳۱)


(۵)  ابو لؤلؤ عمر را زخم زد وخبزم کرد لعہفتم واصل خواہد شد ۔ (حق الیقین:۲۵۲)


(۶) عثمان لعین او را ۔ (حق الیقین:۲۲۰)


(۷) عثمان کا قتل کفر پر ہوا ۔ (حق الیقین:۲۸۰)


(۸) عثمان کو یہودیوں کے مقبرے میں دفن کیا ۔ (حق الیقین:۲۸۳)


(۹) حضرت خالد بن ولید نے زنا کیا ۔ (نجفی ملعون کی کتاب خصائل معاویہ:۲۷۶)


(۱۰) حضرت عثمان کی بیوی نائلہ نے ڈانس کیا، خون آلود قمیص پہن کر ۔ (خصائل معاویہ:۱۴۳)


(۱۱) ابوہریرہ کا مردود ہونا ثابت ہے ۔ (خورشید خاور:۱۹۵)


(۱۲) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والا ابوہریرہ ہے ۔


مذکورہ عبارات سے ثابت ہوا کہ شیعہ شجرۂ ملعونہ خبیثہ ہیں ۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی کے بارے میں لکھتے ہیں ۔


(۱) ہندہ نے معاویہ کو نکاح جماعت سے جنا ہے ۔ أَسْتَغْفِرُ اللّٰه ۔


(۲) معاویہ نے چالیس سال ظالمانہ حکومت کی ہے ۔ (خورشید خاور:۳۹)


(۳) اگر معاویہ جنگِ صفین میں ہلاک ہوتا تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا حرام تھا ۔ (خورشید خاور:۴۹)


سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام :


(۴) معاویہ سوّر کھانے کو حلال جانتا تھا ۔ (خورشید خاور:۴۳۳) ۔ أَسْتَغْفِرُ اللّٰه ۔


(۵) حکومت اسلامی بنو اُمیّہ کے ایک بدکار کے بعد دوسرے بدکار کو ملی ۔ (خورشید خاور:۴۳۷)


(۶) یہ کونڈے مرگ معاویہ کی خوشی میں ہیں ۔ (خورشید خاور:۵۲۰)


(۷) اصحابِ نبی میں دو قسم کے لوگ تھے، مومن و منافق، نیک و بد، اہل و جاہل ۔ (خورشید خاور:۵۷۰،چشتی)


(۸) شیعوں کے امام متعہ کی بہت تعریفیں کرتے ہیں، تحفۃ العوام میں اس کی تفصیل لکھی گئی ہے، متعہ کرنے والا بہشتی ہے، متعہ کی قسموں میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ ایک لڑکا لڑکی کو بغیر گواہوں کے پسند کرکے یہ کہے کہ میں نے متعہ کے لئے اپنے جسم کو تیرے حوالے کیا ۔


اسلام میں متعہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ؛ بلکہ یہ زنا ہے ۔


شیعہ پیشوا کہتے ہیں ’’عفیفہ باکرہ لڑکی سے متعہ کرنے والا بہشتی ہے‘‘۔


اس کے علاوہ شیعہ کی کتاب ’’چودہ ستیارے‘‘ صفحہ:۲۲۱ پر لکھا ہے کہ ’’عمر فاروق ساری عمر کفر و شرک میں مبتلا رہے‘‘۔


اسی کتاب کے صفحہ:۲۰۴ میں لکھا ہے کہ ’’حضرت معاویہ زنا کی پیداوار تھے‘‘،


اور مصنفِ کتاب نجم الحسن کراروی نے اپنی اسی کتاب میں لکھا ہے ’’حضرت عائشہ کو حضرت علی سے پرانا بغض و عناد تھا۔ (چودہ ستارے:۱۲۳،چشتی)


اسی کتاب کے صفحہ:۴۸ پر لکھا ہے کہ ’’حلیمہ سعدیہؓ اور ثوبیہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ نہیں پلایا‘‘۔


(۹) شیعہ کی معتبر کتاب جو کہ فارسی زبان میں ہے، اس میں لکھا ہے : ’’بلاشبہ ابی بکر و عمر اتباع ایشاں کافر و ظالم بودہ اند، لعنت خدا و رسول و ملائکہ و غضبِ الٰہی متوجہ ایشاں است‘‘۔ (حلیۃ الیقین، جلد دوم فارسی)

ترجمہ : بلاشبہ ابوبکر و عمراور ان کے متبعین کافر و ظالم تھے، اور خدا، رسول اور ملائکہ کی لعنت اور غضب الٰہی ان پر ہے۔


(۱۰) حلیۃ المتقین کی دوسری عبارت ہے : ’’آنکہ عمر بن خطاب و خالد ابن ولید و جمیع از منافقان بنی امیہ باعلی عداوت فطری بود‘‘۔(حلیۃ الیقین:۲،۴۴،چشتی)

ترجمہ : عمر بن خطاب اور خالد بن ولید دونوں اور تمام منافقین بنو امیہ علی سے دشمنی رکھتے تھے۔


(۱۱) عمر ایک بڑا بے حیاء اور بے غیرت شخص ہے ۔ (نورِ ایماں:۷۵)


(۱۲) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ایسا کونسا بے حیاء و بے غیرت گذار ہے ۔ (نورِ ایماں:۷۱)


(۱۳) اسی طرح خلفائے ثلاثہ ہم تم مسلمان کے بزرگانِ دین ہو ہی نہیں سکتے ۔ (نورِ ایماں:۱۶۲)


(۱۴) ازواجِ مطہرات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت عمر فاروق مارا کرتے تھے ۔ (نورِ ایماں:۲۰۹)


(۱۵) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تینوں بیٹیاں صلبی نہیں تھی، عثمان کے معنیٰ سانپ، معاویہ کے معنیٰ کتیا ہے ۔ (قولِ مقبول،از غلام حسین نجفی)


(۱۶) حضرت فاروق کی نسبی خرابی کو ہم سرآنکھوں پر رکھتے ہیں ۔ (قولِ مقبول:۵۳۲)


(۱۷) امام بخاری مجوسی النسل ہے، یہودیوں کا یا سبائیوں کا نطفہ ہے ۔ (قولِ مقبول:۵۳۴)


(۱۸) عائشہ نے وفات پر جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی افسوسناک ہے، حجرۂ نبیؐ کو جنابِ عائشہ ابوبکر و عمر کو اس میں دفن کرواکر قبرستان تو بناچکی تھی، جناب حسن وہاں دفن ہوتے تو کیا تھا، لیکن عائشہ بھی معاویہ سے کم نہ تھیں، بلکہ دوسرا معاویہ تھیں ۔ (خصائل معاویہ:۸۳)


(۱۹) حضرت معاویہ نے حضرت حسن کی وفات پر سجدۂ شکر ادا کیا ۔ (خصائل معاویہ:۸۲)


(۲۰) یزید اپنی ماؤں سے بہنوں اور بیٹیوں سے ہمبستری کرتا تھا اور ہارون رشید نے اپنی ماں سے ہمبستری کی تھی ۔


(۲۱) جناب ابوبکر اور عمر اور عثمان نہ تو عوام مسلمانوں کے چُنے ہوئے لیڈر تھے اور نہ ہی خدا و رسول کے چنے ہوئے تھے، بلکہ چور دروازے سے آئے تھے۔


محترم قارئین کرام : ذرا انصاف فرمائیں


’’امام جعفر نے امام ابوحنیفہ کی ماں سے متعہ کیا اور علی نے عمر کی بہن عضرا سے متعہ کیا، حضور نے ابوبکر و عمر کی لڑکیوں عائشہ و حفصہ سے نکاح کیا تھا تاکہ شیخین میرے اسلام میں گڑبڑ نہ کریں، لیکن نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی ہمارے امام جعفر صادق اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے‘‘۔ (قول مقبول:۳۹۵) ۔ (لعنۃ اللہ علی الرافضیہ)


ان اکیس (۲۱) حوالہ جات میں شیعہ کے کفریہ عقائد صاف اور واضح ہوچکے ہیں، ان عقائد کفریہ میں تمام شیعہ، روافض اور اثنا عشریہ شامل ہیں، اسی وجہ سے شیعہ کافر اور مرتد ہیں ، تمام اہل سنت کے علماء کرام سے درخواست ہے کہ شیعہ کے کفر کو عوام الناس تک پہنچانے میں پوری صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کریں ۔


(۲۲) خلفائے راشدین، خلفائے ثلاثہ اور سیدنا علی المرتضیٰ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں شیعہ ملعونوں کا عقیدہ ہے :


ترجمہ : حیات القلوب میں ملا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ ’’بسندِ حسن امام باقر سے راویت ہے کہ یہ جناب رسول خدا کے بعد مرتد ہوگئے، سوائے تین اشخاص سلمان، ابوذر اور مقداد کے۔


جو شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت علی، حضرات حسنین، حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم مسلمان نہیں تھے وہ ہمارے نزدیک جہنمی، واجب القتل، مرتد اور بد ترین کافر ہیں۔ (حیات القلوب:۲،۹۹۲)


جناب رسول خدا نے بیٹی دو منافقوں کو دی، اس میں ایک ابوالعاص دوسرے عثمان، لیکن حضرت نے تقیہ کی وجہ سے ان کے نام نہ لئے ۔ (حیات القلوب:۲،۸۱۵)


آپ نے اس عبارت کو غور سے پڑھا ہے ، آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ الزام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا گیا ہے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد پر الزام لگانے والا اور آپ کو منافق کہنے والا دنیا کا بدترین کافر ہے ۔


(۲۳) حضرت عثمان غنی نے وہ تمام کام کئے جو موجبِ کفر ہیں اور کافر و مرتد ہوگئے ۔ (حیات القلوب:۲،۸۷۱)


حصور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد کو جو کہ ذو النورین ہیں، جوکہ قرآن پاک کی سورۃ الفتح کے مطابق قطعی جنتی ہیں، ان کو کافر لکھنے والا کون ہے؟ ان کو مسلمانوں کا فرقہ سمجھنے والا خود کیا ہے؟


(۲۴) فیصلہ آپ کریں، حیات القلوب میں لکھا ہے : ابوسفیان،عکرمہ، صفوان، خالد ابن ولید وغیرہ تمام صحابہ دین سے پھر گئے، ان کے خبیث دلوں میں اور گہرائیوں میں ابوبکر کی محبت تھی، جس طرح بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے اور سامری کی محبت جگہ کئے ہوئے تھی ۔ (حیات القلوب:۲،۸۳۲)


(۲۵) تمام انبیاء علیہم السلام کی صریح توہین :


علمائے شیعہ کا اعتقاد ہے کہ جناب علی رضی اللہ عنہ اور تمام ائمہ تمام انبیاء سے افضل ہیں ۔ (حیات القلوب:۲،۷۸۷)


ذرا انصاف فرمائیں کہ انبیاء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدرجۂ اتم ہمارے نزدیک پوری مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہیں ۔ لیکن ملعون مجلسی نے اس تحریر میں سب انبیاء اور خاتم النبیین کی توہین نہیں کی؟ ایسی تو ہین کرنے والا کافر نہیں تو اور کیا ہے ؟

(۲۶) قولِ مقبول میں لکھا ہے بقولِ عمر کے عائشہ بہت گوری چِٹّی تھیں، اللہ نے عائشہ مںی حلول کیا تھا، تو پھر جناب عائشہ سے حضور ہمبستری کیسے کرتے تھے ۔ (قولِ مقبول:۴۷۶)


سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ، حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی نانی امّاں کے بارے میں جو غلیظ عبارت تحریر کی ہے، جس سے اہل سنت کا ہر فرد کانپ جائے، ملاحظہ ہو۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو شیشے سرمہ والی بات حضرت عائشہ سے کہی تھی اس کا نتیجہ معلوم ہے، شیشہ و سرمی والی عبارت حضرت عائشہ کی طرف منسوب کرکے ان پر الزام لگانا کہاں کی شرافت ہے ؟ پھر ہم لکھنے پر مجبور ہیں کہ اُسے اہل سنت و جماعت ایک ہوکر مقابلہ کریں تاکہ رافضیت ختم ہوسکے ۔


(۲۷) شیعہ ملعون نجم الحسن کراروی لکھا ہے ’’ائمۂ کفر سے مراد طلحہ، زبیر، عکرمہ اور ابوسفیان ہیں ۔ (نعوذ باللہ) (روح القرآن:۱۱۷)


کراروی اسی کتاب میں لکھتا ہے کہ جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی بن ابی طالب پر ظلم کیا، چھوٹا ہو یا بڑا، کوفہ و شام میں رہنے والا ہو یا مکہ و مدینہ کا، دین سے خارج ہوجائے گا، جو دین سے خارج ہو وہ ائمہ کفر ہے ان سے جنگ مباح ہے ۔ (روح القرآن:۱۱۸)


قرآن پاک میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف کا منکر کافر ہے


(۱) لفظ قرآن اِنَّ اللہَ مَعَنَا (التوبہ:۴۰) کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔


(۲) قرآن کی اس آیت: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ (التوبہ:۴۰) کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔


(۳) لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ۔ (الفتح:۱۸)


اس آیت کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔


(۴) فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا۔ (البقرۃ:۱۳۷) شیعہ منکر قرآن ہے، اس آیت کا بھی وہ انکار کرتا ہے، لہٰذا ایسا کافر دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔


(۵) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ۔ (البقرۃ:۱۳)


اس آیت کا انکار کرنے والے سب سے پہلے منافقین ہیں، انہی کی اولاد شیعہ ہیں، جن سے جہاد کرنے کا حکم ہے، لہٰذا شیعہ دنیا کا بدترین کافر ہے۔


(۶) فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ۔ (النساء:۶۹)


اس آیت میں نبیوں کے بعد صدیقِ اکبر کو ماننے کا حکم قطعی ہے، اس قطعی حکم کا انکار کرنے والا معلون، مردود شیعہ ہے جو کہ قطعی کافر ہے۔


(۷) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ۔ جنتی لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔


اس آیت کا انکار کفر ہے جو کہ شیعہ کرتے ہیں، لہذا شیعہ کافر ہیں۔


(۸) فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ (الاعراف:۱۵۷)

ترجمہ:۔ وہ لوگ پیغمبر پر ایمان لائے اور انہوں نے عزت اور نصرت کی اور نورِ ایمان کی اتباع کی وہی لوگ کامیاب ہوئے۔


اس آیت میں صحابہ کرام کو دین کی مدد کرنے والے فرمایا گیا ہے، شیعہ نے اس کا اس آیت میں انکار کیا، لہٰذا وہ کافر ہوگئے۔


(۹) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ۔ (الانفال:۲)

ترجمہ:۔ ایمان والے وہ لوگ ہیں جس کے سامنے خدا کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے قلوب روشن ہوتے ہیں۔


اس آیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عظمت بیان ہوئی ہے، اس کا شیعہ انکار کرتا ہے، تو شیعہ کافر ہیں۔


(۱۰) إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ۔ (التوبۃ:۱۱۹)

ترجمہ:۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے جنت کے بدلہ میں۔


اس آیتِ مبارکہ میں جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں وہاں علی المرتضیٰ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی شامل ہیں۔تو جو شخص اس آیتِ مبارکہ میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو خارج کرے وہ کافر و زندیق ہے۔


شیعہ کراروی اور مجلسی اور نجفی نے انکار کیا ہے، لہٰذا وہ قطعی کافر و زندیق ہیں۔


(۱۱) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔ (التوبۃ:۱۱۹)

اس آیت کریمہ میں تمام صحابہ کرام کے علاوہ خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے، آپ کی صداقت کو اس سے خارج کرنا کفر ہے، جس کا انکار شیعہ کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں۔


(۱۲) أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (یونس:۶۲)

اس آیتِ مبارکہ میں لفظ اولیاء میں صحابہ کرام کا امت کے ولی ہونا ثابت ہے، جس طرح حضرت علی کی ولایت اس میں موجود ہے اسی طرح خلفائے ثلاثہ کی ولایت بھی موجود ہے، بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ ولایت کا مقام صحابیت کے مقام سے کم ہے، لہٰذا اولیاء صحابیت ہی ہوسکتا ہے، اور یہی ترجمہ صحیح ہے، کیونکہ اولیاء اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کا مقام رکھتے ہیں، جوکہ مقامِ صحابیت کے فیضِ صحبت سے حاصل ہوتا ہے، امت کے تمام اولیاء ایک صحابی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔


(۱۳) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔ (سورۃ الفاتحۃ:۶)

اس آیت مبارکہ کو قرآن کے شروع میں اور ہر نماز میں پڑھتے ہیں، اس میں جنت، کوثر، رضائے الٰہی اور رضائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مقامات اور انعامات حاصل ہونے والے اللہ کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں، جس صحابیت کی ابتداء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتی ہے ان کا انکار کفر ہے۔


شیعہ کافر اس آیتِ کریمہ کا انکار کرکے درجہ کفر پہنچ گئے، صحابہ کرام خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے والا در اصل قرآنی آیات کو گالیاں دیتا ہے جسی وجہ سے شیعہ اثنا عشریہ دنیا کے بدترین کافر ہیں۔


(۱۴) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ۔ (الحج:۷۷)

ترجمہ:۔ اے ایمان والو رکوع کرو، سجدہ کرو، اپنے رب کی عبادت کرو۔


اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔


سب سے پہلے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے اپنے رب کی عبادت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق ہیں، جب حضرت علی نے فرضیت صلوٰۃ پر عمل کیا، اس وقت تک حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز مکمل کرچکے تھے، سجدۂ نماز عبادتِ خدا حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرچکے تھے، ایسی نماز جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا تھا۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عبادت اور رضائے الٰہی جوکہ ان کو حاصل ہوچکی تھی، ان کا انکار کرنا کفر ہے۔


(۱۵) یہ کافرانہ عقیدہ ہے کہ قرآن پاک کے قطعی فیصلہ کا انکار کیا جائے، شیعہ کفر میں بہت ضدی ہیں، ان کے کفر میں شدت ہے، اسی لئے شیعہ کے ایمان بگاڑے زنا خانے بنے ہوئے ہیں، شیعہ نے قرآنی آیت رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا صریحاً انکار کیا ہے، کیونکہ یہ الفاظ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان ذوالنورین، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت فاطمہ، حضرات حسنین، حضرت زبیر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر صادق آتے ہیں، وہ اللہ سے اور اللہ ان سے راضی ہے۔


جو رضاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مل چکی ہے وہ قرآن پاک میں موجود ہے، شیعہ اس کے منکر ہیں، لہٰذا شیعہ گروہ قطعی جہنمی کافر مردود ہے، شیعہ کا انکارِ قرآن کفر پر دلالت کرتا ہے۔


(۱۶) والذین معہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں، لفظ مع نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدینؓ ساتھی ہیں، ان کے ساتھی ہونے کا انکار قرآن کا انکار ہے، جس کا انکار کرنے والا کافر ہے، شیعہ ان کے ساتھی ہونے کا انکار کرتے ہیں، بوجہِ انکارِ قرآن شیعہ کافر ہیں۔


(۱۷) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ۔ (التوبۃ:۲۰)

ترجمہ:۔ وہ لوگ جو ایمان لانے کے ساتھ ساتھ جنہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں ان کے درجات بلند ہیں اللہ کے نزدیک اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ایمان، جہاد اور ہجرت کا انکار کرنے والے تمام شیعہ کافر ہیں، کیونکہ جنہوں نے انکار کیا صحابہ کی جماعت کے ان تین کاموں کا اس نے قرآن کا انکار کیا ہے، صحابہ کرامؓ کے درجات جو کہ اللہ کی طرف سے ان کو ملے ہیں ان کا انکار کفر ہے، شیعہ اس کا بھی انکار کرتے ہیں۔


لہٰذا تمام بوجہِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کے انکار کرنے کے دنیا کے بدترین کافر ہیں۔


(۱۸) أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ۔ (السجدۃ:۱۸)

ترجمہ:۔ جو شخص ایمان دار ہے اس کے برابر بدکار نہیں ہوسکتے۔


بدکار شیعہ ہیں، کیونکہ شیعوں کی بدکاری ان کی کتابوں سے ثابت ہے، ان کے مدہب میں ہے، مثلاً متعہ بازار کی زنا کرنے والی عورتیں تمام شیعہ ہیں، ان کے نزدیک تبراء کرنا یعنی صحابہ کرامؓ کو گالیاں دیناان کے مذہب میں شامل ہے، شیعہ مجلسی، نجفی اور کراروی کا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرو جس کو اسلام جھوٹ کہتا ہے ایسے عقائد رکھنے والا کافر ہے۔


(۱۹) مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا۔ (الاحزاب:۲۳)

اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا واضح ذکر موجود ہے، صحابہ کرام نے اپنے عہد کو پورا کیا ہے، ان کے وعدہ کو پورا کرنے پر اللہ تعالیٰ کی گواہی موجود ہے، اللہ گواہ ہے کہ حضرات خلفائے راشدینؓ نے کلمہ پڑھنے کے بعد جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا اس کو پورا کر دکھایا ہے، وعدہ وفا کرنے والے صحابہ کرامؓ کو گالیاں دینے والے قرآن و سنت کے مطابق شیعہ لعین کافر ہیں۔


(۲۰) إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ (الاحزاب:۵۷)

ترجمہ:۔ وہ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت دونوں میں۔


یعنی ابدی لعنت ہے، یہ لعنتی و جہنمی ہے کافر ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ اور آپؐ کے اہل خانہ کو گالیاں دینے والے بدترین کافر ہیں۔


(۲۱) وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔ (الاحزاب:۵۷)


اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ مومنین مرد خلفائے راشدین اور مومنین عورتوں کو گالیاں دیتے ہیں، یعنی وہ صحابیات ہوں یا مومنین کی مائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہوں یا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، ان کو گالیاں دینے والے یا بُرا کہنے والے سب کے سب جہنمی ہیں، شیعہ ملعونوں نے خصوصاً خمینی، مجلسی، نجفی، کراروی، خیرات برکاتی وکیل یہ سب کافر ہیں، کیونکہ یہ آیت کریمہ کا انکار کرتے ہوئے صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں، ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔


(۲۲) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ۔ (الزمر:۳۳)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے تصدیق ہے جو سچائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر ان کی طرف آئے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے سب سے پہلے تصدیق کی ہے اور اس میں اول تصدیق کرنے والے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرکے اللہ کے نزدیک اول نمبر حاصل کیا ہے اور یہی تصدیق کرنے والے متقی ہیں، قرآن کے اس حکم کو نہ ماننا کفر ہے، شیعہ رافضی نے اس کا انکار کیا ہے، لہٰذا اس آیت قرآنی کا انکار کرنےوالا مسلمان نہیں شیطان کافر شیعہ ہے۔


(۲۳) وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ۔ (التوبۃ:۷۱)

ترجمہ:۔ مومن مرد آپس میں دوست ہیں، مومن عورتیں آپس میں دوست ہیں۔


اس آیت کریمہ میں مومن مرد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی دوستی و تعلق کا ذکر ہے اور حضرت فاطمہ اور حضرت نائلہ زوجۂ حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کا ذکر ہے، قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ کو مومنین مردوں اور عورتوں کی مائیں کہا گیا ہے کہ وہ امہات المؤمنین ہیں، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء کی والدہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما ہیں، پس ماں کو بیٹی سے مومن مردوں کو ماؤں سے کوئی جدا نہیں کرسکتا، حضرت کا تعلق حضرت عائشہ صدیقہ سے ہے، کیونکہ حضرت علی خود حضرت عائشہ کو اپنی والدہ کہتے تھے، قرآن کریم نے حضرت عائشہ صدیقہ کو مومنین کی ماں کہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کو ماں کا مقام دیتے تھے، یہ بات نہج البلاغہ میں موجود ہے، جس کو حضرت علی اپنی والدہ کہیں شیعہ ان پر (نعوذ باللہ) کفر کا الزام لگائیں، حضرت علی کی والدہ کو کافرہ لکھیں تو وہ شیعہ کافر ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔


(۲۴) وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ۔أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ۔ (الواقعۃ:۱۰و۱۱)

سبقت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل کرنے والے ہیں، حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سب سے پہلے تصدیق کی ہے۔


لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام لانے کی سبقت کا انکار قرآنی آیت کا انکار ہے، شیعہ کافر اس کا انکار رکتے ہیں، لہٰذا شیعہ قطعی کافر جہنمی ہیں۔


(۲۵) وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ۔ (الحدید:۱۹)

اس آیت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور شہداء میں حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں، ان حضرات کی گواہی صداق ہے اور ان کی گواہی قابلِ قبول ہے، یہ اپنے آپ کے نزدیک قطعی جنتی ہیں، جو شخص حضرات خلفائے ثلاثہ کی صداقت و شہادت کو تسلیم نہیں کرتا وہ جہنمی کافر ابدی سزاء پانے والا ہے، جو شیعہ صحابہ کرام اور قرآن کی ان آیات کا انکار کرتے ہیں وہ کافر ہے، اس کے کفر میں شک نہیں ہے۔


(۲۶) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور خصوصاً خلفائے اربعہ کو امت میں بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ۔ (البینۃ:۷) یہ مخلوق میں سب سے اچھے اور افضل اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، نیک اعمال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق کا جو رشتہ اور تعلق بچپن سے ہے وہ ہمارے سامنے ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے، لہٰذا شیعہ نے ہمیشہ حضرت ابوبکر صدیق کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا انکار کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں کافر کہا ہے، یہی ان کا عقیدہ ہے، لہٰذا شیعہ کے کفر میں کوئی شک نہیں رہتا، شیعہ دنیا کا غلیظ ترین کافر ہے۔


شیعہ اثنا عشریہ کا انکارِ حدیث : شیعہ اثنا عشریہ کفریہ ملعونیہ جہنمیہ کا احادیث صحیحہ کا انکار کرنا اور احادیث و اقوالِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنا کفر ہے، جس کی بناء پر تمام اہل تشیع کافر ہیں۔


(۱) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر میرے بھائی ہیں۔


اس حدیث کا انکار کرنا قولِ نبی کا انکار کرنا ہے، لہٰذا شیعہ کافر ہے جو کہ اس کا انکار کرتے ہیں۔


(۲) اس شخص پر اللہ کی لعنت ہے جو صحابی کو گالی دیتا ہے۔


یہ قول حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے، لہٰذا صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں جس کی بناء پر کافر ہیں۔


(۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: و ان صاحبکم خلیل اللہ، اس قول کا انکار کرنا کفر ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا، شیعہ ملعون اس کا انکار کرکے کافر ہوا۔


(۴) جس قوم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوں ان کے علاوہ کوئی اور امامت نہ کرے، اس حکم کو نہ ماننے والا کافر ہے، اس کے کفر میں کو شک نہیں ہے۔


اس روایت میں امامتِ حضرت ابوبکر صدیق کا حکم موجود ہے، یہ حکمِ امامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاہے اور حضرت ابوبکر صدیق کا آپؐ کے ہوتے ہوئے نبی کے مصلی پر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا تمام کتب میں ثابت ہے۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق کے پیچھے آپ کی زندگی میں نماز پڑھ کر آپ کے حکم کی تعمیل کی، یہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مثال ہے کہ تمام آنے والی امت کو سبق دے دیا کہ میں نے اس حکم کو مانا ہے، امت کو بھی ایسے ہی تسلیم کرنا چاہئے، لہٰذا جو شخص اس قولِ علی، فعلِ علی اور حکمِ علی رضی اللہ عنہ کو نہ مانے وہ کافر ہے۔


شیعہ چونکہ فعلِ علی رضی اللہ عنہ کو نہیں مانتے لہٰذا فہ کافر ہیں، جس طرح شیطان کافر ہے، شیطان کی طرح نجفی ہو یا خمینی، مجلسی ہو یا کوئی اور ہو سب کافر ہیں۔


(۵) فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي۔ (ابوداؤد)

ترجمہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے ہو۔


جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار کرے وہ کافر ہے، لہٰذا شیعہ اس کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔


(۶) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔ (سنن ترمذی)

ترجمہ:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میری بعد کوئی نبی ہوتا تو یقیناً و عمر ہوتے۔


یہ شان حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور علیہ السلام کی حدیث ہے، چونکہ یہ فرمانِ نبیؐ ہے، لہٰذا اس کا انکار کرنا دائرۂ اسلام سے خارج ہونا ہے، شیعہ کافر اس کا انکار کرتا ہے بوجہِ انکار وہ مردود کافر ہے۔


(۷) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سچا قول ہے، آپ ؓ نے فرمایا:


مَا كُنَّا نُبْعِدُ أَنَّ السَّكِينَةَ تَنْطِقُ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ۔ (مشکوٰۃ، کنز العمال،چشتی)

ہم یہ بات بعید نہیں کہ سکینہ عمر کی زبان پر جاری ہوتی ہے۔


یہ فرمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے، اہل اسلام کے نزدیک حضرت علی کا انکار کفر ہے، شیعہ کفار اس کے انکار کی وجہ سے قطعی کافر جہنمی ہیں۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کا انکار کرنا اور آپ کی بات پر اعتماد نہ کرنا اور آپ کی بات میں طرح طرح کی تاویل کرنا کفر ہے۔


(۸) قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ وَرَفِيقِي يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ عُثْمَانُ۔ (ترمذی)

ترجمہ:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور میرے رفیق جنت میں عثمان ہیں۔


اس ارشاد کا انکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار ہے جو کفر ہے، لہٰذا شیعہ چونکہ اس کا انکار کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں۔


(۹) جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوست نہ رکھے وہ دشمنِ خدا اور دشمنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔


شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوست نہیں رکھتے، اس لئے کہ حضرت علی نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے پیچھے ۲۳،سال نمازیں ادا کی ہیں، جو شخص حضرت علی کے اماموں کو اور حضرت علی کے اقوال و افعال کو نہیں مانتا وہ قیامت کے دن جہنم میں جائے گا، چونکہ حضرت علی خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتے تھے، اس لیے جو خلفائے ثلاثہ کی حضرت علی سےمحبت تسلیم نہ کرےوہ کافر ہے ۔ اللہ پاک سباٸی نسل شیعہ جیسے غلیظ عقاٸد رکھنے والوں کی صحبت و شر سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...