Saturday, 6 April 2019

حضرت مولا علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کا موازنہ کرنے والوں کے نام

حضرت مولا علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کا موازنہ کرنے والوں کے نام

محترم قارئین : اگر ہم حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہم انکو حضرت مولا علی مشکل کُشا شیر خُدا خیبر شکن رضی اللہ عنہ سے افضل یا برابر جانتے ہیں ہرگز نہیں ، اللہ عزوجل مولائے کائنات سیدنا علی المرتضی فداہ روحی کرم اللہ تعالی وجھہ کے صدقے ہمارے ایمان و سنیت کی حفاظت فرمائے فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔ کتب عقائد اہلسنت میں اس بات کی دو ٹوک صراحت ہے کہ مشاجرات صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سکوت کیا جائے گا ۔ اس معاملے میں ہمارا وہی عقیدہ ہے جو اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ :

امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تو ان کا درجہ ان سب (عشرہ مبشرہ وغیرہ) کے بعد ہے ۔ اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقام رفیع (مراتب بلند وبالا) و شان منیع (عظمت ومنزلت) تک تو ان سے وہ دور دراز منزلیں ہیں جن ہزاروں ہزار رہوار برق کردار (ایسے کشادہ فراخ قدم گھوڑے جیسے بجلی کا کوندا) صبا رفتار ( ہوا سے بات کرنے والے ، تیز رو، تیز گام ) تھک رہیں اور قطع (مسافت) نہ کرسکیں ۔ مگر فضل صحبت (و شرف صحابیت وفضل) و شرف سعادت خدائی دین ہے ۔ ( جس سے مسلمان آنکھ بند نہیں کرسکتے تو ان پر لعن طعن یا ان کی توہین تنقیص کیسے گوارا رکھیں ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 29، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ حضرت مولا علی مشکل کُشا شیر خُدا خیبر شکن رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کے درمیان بجلی کی رفتار کا گھوڑا ہزروں سال دوڑتا رہے دوڑتا رہے تو بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے ـ کیونکہ اس دور میں رافضی لوگ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام لیکر تبرا و بکواسات کرتے ہیں تو ہم پر بھی لازم ہے کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا تخصیص کیساتھ دفاع کریں بلکہ جس صحابی کی بھی ناموس پر حملہ ہو اسی صحابی کی تخیصیص کیساتھ شان و عظمت بیان کی جائے ۔ ان کے مقام ومرتبہ میں فرق وہی جس کو اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انداز میں بیان فرمایا کہ :

فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار

مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار

جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اھلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توھین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاھلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔

محترم قارئین : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے ۔ صحابہ کا آپسی اختلاف اجتہاد پر مبنی تھا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کےدرمیان ہونے والے اختلاف میں زبان بند رکھی جائے ۔ اور ان کے فضائل بیان کیے جائیں ۔ ناکہ جیسا کہ بعض جاہلوں نے سمجھ لیا کہ فضائل کے بارے میں کف لسان کیا جائے ۔ اللہ ان سب سے راضی ہے اور ان کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے آئمہ اہلسنّت علیہم الرّحمہ کیا فرماتے ہیں آیئے پڑھتے ہیں :

اما م اہلسنت ابو الحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324ھجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیرو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے ، اسی طرح جو جنگ حضرت سیدنا علی اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل واجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 624۔625۔626،چشتی)

قاضی ابو بکر الباقلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں : واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کرے ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ‘ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ 64،چشتی)

حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 561ھجری) فرماتے ہیں : اہل سنت صحابہ علیہم الرضوان کے آپس کے معاملات میں کف لسان ، ان کی خطاؤں کے بیان سے رکنے اور ان کے فضائل ومحاسن کا اظہار کرنے پر اور جو معاملہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرات طلحہ وعائشہ ومعاویہ رضی اللہ تعالی عنہم کے مابین اختلاف ہوا اس کو اللہ تعالی کے سپرد کرنے پر متفق ہیں جیسا کہ ہم ماقبل میں بیان کرچکے ہیں اور ان میں ہر فضل والے کو اس کا فضل دینے پر متفق ہیں ۔ (الغنية لطالبي طريق الحق عز وجل صفحہ 163)

احباب اہل سنت سے گزاراش ہے آپ کو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی محبت آپ کی تعریف بیان کرنا ہی اہلسنت کا عقیدہ ہے ۔ یہی عقیدہ متکلمین ، فقہا اور صوفیہ کے اکابر آئمہ علیہم الرّحمہ کا رہا ہے ۔ اسی پر گامزن رہیں ۔

کف لسان کے فریب کا جواب اس سلسے میں عرض ہے کہ :

کف لسان کاحکم صرف مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے نہ کہ فضائل بیان کرنے میں نہیں ! اگر فضائل بیان کرنے میں کف لسان کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام علیھم الرضوان سے لے کرآج تک کوئی بھی آپ کے فضائل بیان نہ کرتا ۔ جب کہ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، فقہا و متکلمین ، مجددین ، صوفیہ و صالحین اور علمائے ربانیین علیہم الرّحمہ نے آپ کے فضائل بیان کیئے ۔ آپ کی شان میں مستقل کتابیں لکھیں گئیں ، اورکتب اسلامیہ میں ابواب باندھے گئے ۔

بعض لوگوں جوش خطابت میں بات بات پرتیرہ سو سال اور چودہ سو سال کےعلمی سرمائے کا حوالہ دیتے ہیں ؛ لیکن ..... اتنا نہیں سوچا کہ : مخلوط دھرنے ، کرسمس ڈے ، طاہری قصیدے اور جملہ اعراس و ایام ایک طرف ............. ، اگر کسی نے " شہر اعتکاف" کا ہی سوال کرلیا تو تیرہ سو سالہ علمی ذخیرے سے اس کی ایک بھی مثال پیش نہیں کرسکیں گے ۔

ادارہ منہاج القرآن کے عظیم مفتی جناب مفتی عبد القیوم خان قادری صاحب لکھتے : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے جلیل القدر صحابی ، کاتب وحی اور اس امت کے ماموں ہیں ان کی شان میں کوئی مسلمان گستاخی نہیں کر سکتا ناصبی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اور رافضی حضرت امیر معاویہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں دونوں غلط ہیں ۔ ( ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013 ،چشتی) منہاج کے پردے میں چھپے بعض سنی نما رافضیوں کےلیئے مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ قابل غور ہے ۔

معترضین کے جلسے جلوسوں میں تصویریں اور جھنڈے بلند کیے جاسکتے ہیں تو صحابی رسول کی تعظیم کے لیئے جھنڈا کیوں بلند نہیں کیا جاسکتا ؟

کیا ان کے جملہ اعمال و افعال قرون اولیٰ کی یاد گار ہیں ، اور صحابی رسول کے عرس ، جھنڈوں اور قصیدوں کا کہیں نام و نشان تک نہیں ؟

وہ کون ساسُنی ہے جو سیدنا علی کریم کے مقام رفیع سے آگاہ نہ ہو ........... ، بات صرف اتنی ہے کہ بعض لوگ سنیوں کو مولا علی پاک علیہ السّلام کے نام پر بلیک میل کرنا چاہتے ہیں ، جیسے کہ بعض لوگ اپنے دھرنے میں امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید ملعون کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرتے رہے ۔ ان کا مقصد صرف ذکر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روکنا اور صحاح کی اس حدیث : لاتذکروا معاویۃ الا بخیر " کی مخالفت کرنا ہے ؛ چاہے انہیں کفنوں کی نمائش کرنی پڑے ، یا گہرے گڑھے کھودنے پڑیں ۔

معترضین سے گزارش ہے کہ امام نبھانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اسالیب البدیعہ پڑھیں ، تاکہ ان کا زاویہ نظر درست ہوسکے ، اور یہ جان سکیں کہ علمائے امت نے صرف تکفیر وتفسیق سے ہی منع نہیں کیا ، کچھ اور بھی کہا ہے ۔

جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب فرماتے ہیں کہ : صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے ذکر پر جس کی پیشانی پر بَل پڑ جائیں تو یہ بھٹکے ہو ئے لوگوں کی پہچان ہے جو راہ اعتدال چھوڑ چکے ہیں ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 263 ، ڈاکٹر محمد طاہر القادری شیخ الاسلام منہاج القرآن،چشتی)

مزید بیان فرماتے ہیں کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کفر منسوب کرنے والا ان کو گالی دینے والا اشارہ یا کنایہ سےتو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 270 ) ۔

مزید بیان فرماتے ہیں کہ : فرمان حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہوشیار میرے حق میں دو گروہ ہلاک ہونگے ایک محبت میں میرا مرتبہ بڑھانے والے دوسرے بغض رکھنے والے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 262 ، شیخ الاسلام منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب) ۔

مزید بیان فرماتے ہیں کہ : ہمارا مطالبہ ہے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور گستاخِ صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کو پھانسی دی جائے ایسے شیطان کو جینے کا حق نہیں ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 271 ، شیخ الاسلام منہاج القرآن )

جنابِ من آج ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے بیانات کی روشنی میں ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کو پھانسیاں دی جائیں کیا فرماتے ہیں آپ جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اور آپ کے فلاورز اس سلسلہ میں ؟ یاد رہے آپ خود اور آپ کے ادارہ کے مفتی صاحب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جلیل القدر صحابی مانتے ہیں ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...