حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل میں صحابہ کرام شامل نہ تھے
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے اور مظلوم شہید ہوئے ۔ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بالفعل ان کے قتل کرنے سے محفوظ رکھا ، ان کو شہید کرنے والا متعنت شیطان تھا ، کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے قتل پر رضا مندی کا اظہار ثابت نہیں بلکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں انکار ثابت ہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مسئلہ اجتہادی تھا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ قصاص ضرور لیں گے لیکن تاخیر سے لیں گے اسی میں مصلحت ہے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ تھی کہ قصاص جلدی لینے میں مصلحت ہے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور ان شاء اللہ ان میں سے ہر ایک اجر کا مستحق ہوگا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ بر حق حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء تاویل کرتے تھے اور ان میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے فریقین سے علیحدہ رہے اور کسی ایک فریق کے ساتھ ملنے سے رک گئے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ۔ وہ تمام حضرات عادل تھے اور دین کو نقل کرنے والے تھے ۔ نیز وہ دین پر عمل کرے والے تھے ۔ انہی کی تلوار سے دین غالب ہوا اور انہی کی زبانوں سے دین پھیلا ۔ اگر ہم ان آیات کی تلاوت کریں اور ان احادیث کو بیان کریں جو ان کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں تو بات لمبی ہوجائے گی ۔ یہ چند کلمات ایسے ہیں کہ جو ان کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ گمراہی اور بدعت میں مبتلا ہوگا دیندار آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں اس بات کو پختہ کرے ، جو واقعات (مشاجرات) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان رونما ہوئے ہیں ان سے اپنی زبان کو روکے رکھے ، یہ وہ خون ہے کہ اس سے اللہ جل شانہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک و صاف رکھا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کو اس سے آلودہ نہ کریں ۔ (تحریر الاصول مع شرح تقدیر الاصول ج2ص2260)
امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م676 ہجری) شرح مسلم میں فرماتے ہیں : ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم والامساك عما شجر بينهم وتأويل قتالهم وأنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية ولامحض الدنيا بل اعتقد كل فريق أنه المحق ومخالفة باغ فوجب عليه قتاله ليرجع إلى أمر الله وكان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا فى الخطأ لأنه لاجتهاد والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه وكان على رضى الله عنه هو المحق المصيب فى تلك الحروب هذا مذهب أهل السنة ۔
ترجمہ : اہل سنت اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے ، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے ، وہ بلا شبہ مجتہد اور صاحب رائے تھے ، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ قتال ضروری ہے تاکہ وہ امر الہی کی طرف لوٹ آئے ۔ اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطاء پر تھے اور خطاء کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطاء پر بھی گنہگار نہیں ہوتا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہل سنت کا یہی موقف ہے ۔ (شرح صحیح مسلم ص390 ج2 کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما)
امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے تھوڑی سی تفصیل سے اہل سنت و جماعت کا یہی موقف انہوں نے کتاب فضائل الصحابہ کے اوائل میں بیان کیا جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع صحیح ہے ، اپنے وقت میں وہ خلیفہ تھے ان کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں تھی ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل فضلاء اور نجباء صحابہ میں سے تھے ۔ ان کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں اس کی وجہ یہ شبہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی حقانیت کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ یہ سبھی عادل ہیں ، جنگوں اور دیگر اس قسم کے معاملات میں متاول ہیں ان میں سے کوئی چیز ان میں سے کسی کو عدالت سے خارج نہیں کرتی اس لیے کہ وہ سب مجتہد تھے ۔ (شرح مسلم ص272 ج2)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment