فرق مراتب بے شمار ۔۔۔۔۔ اور حق بدست حیدر کرار
محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بالجملہ ہم اہلِ حق كے نزدیک حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے جو نسبت ہے وہی نسبت ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنه کو امیر المومنین مولی المسلمین سیدنا و مولانا علی المرتضی كرم الله تعالى وجهه الاسنی سے ہے کہ :
فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار
مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار
جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 قدیم ایڈیشن)،(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔
محترم قارئین : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے ۔ صحابہ کا آپسی اختلاف اجتہاد پر مبنی تھا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کےدرمیان ہونے والے اختلاف میں زبان بند رکھی جائے ۔ اور ان کے فضائل بیان کیے جائیں ۔ ناکہ جیسا کہ بعض جاہلوں نے سمجھ لیا کہ فضائل کے بارے میں کف لسان کیا جائے ۔ اللہ ان سب سے راضی ہے اور ان کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے آئمہ اہلسنّت علیہم الرّحمہ کیا فرماتے ہیں آیئے پڑھتے ہیں :
اما م اہلسنت ابو الحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324ھجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیرو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے ، اسی طرح جو جنگ حضرت سیدنا علی اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل واجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 624۔625۔626،چشتی)
قاضی ابو بکر الباقلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں : واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کرے ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ‘ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ 64،چشتی)
محترم قارئین : حضرت سیّدنا و مولانا مولا علی علی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کے خطرناک اور زہریلے عزائم کی اطلاع ملی تو بے حد پریشان ہوئے ؛ کیونکہ بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنا اور دو محاذوں پر جنگ جاری رکھنا ان کے لیئے بہت دشوار اور مشکل تھا ، مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس پریشانی اور اضطراب کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی للکار نے دور کردیا ۔
قیصرِ روم کے اس ارادے کی اطلاع جب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو وہ بے چین ہوگئے اور اسی وقت ایک خط قیصر روم کے نام تحریر فرمایاجس کے ذریعے انہوں نے قیصر روم کی غلط فہمیوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ دور کیا کہ خط لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ خط کیا تھا ؟ ایک مؤثر ہتھیار تھا ، پر مغز ، مؤثر اور جلال سے بھر پور، رعب و دہشت کا مجسمہ جسے پڑھ کر قیصر روم کے حواس اڑ گئے اور اوسان خطا ہوگئے ۔ قیصر روم پر ایسی دہشت اور ایسا رعب طاری ہوا کہ ا س کے قدم جہا ں تھے وہیں رک گئے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خط کامضمون اور طرز تحریر کس قدر ایمان افروز اور کفر سوز ہے یہ ایک الگ حقیقت ہے ، مگر خط کی ا بتداء میں آپ نے جس تیز و تلخ ، رعب دار اور جلال سے بھر پور لہجے میں قیصر روم کو مخاطب کیا ہے وہ انداز اپنی جگہ ’’اشداء علی الکفار ‘‘ کی عملی تصویر ہے ۔
خط کے آغاز میں تحریر فرمایا : اے لعنتی انسان ! مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے شہروں کی طرف واپس پلٹ نہ گیا تو کان کھول کر سن !!!پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی تیرے خلاف صلح کرلیں گے ۔ پھر تجھے تیرے ملک سے نکال دیں گے اور زمین باوجود وسعت کے تجھ پر تنگ کردیں گے ۔ (البدایہ و النہایہ جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 119)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراض کرنا ان پر سب وشتم کے تیر برسانا نعوذ باللہ قرآن پر اعتراض ، نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض اورحدیث نبویہ پر اعتراض کرنا ہوگا ۔ کیوں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی ہیں انہوں نے قرآن لکھا اگر ان پر اعتراض کرتے ہیں تو کتاب اللہ پر اعتراض ہے کہ جب وہ غلط تھے تونعوذ باللہ قرآن بھی غلط ہے ۔ ان پر اعتراض کرنے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اعتماد پر اعتراض کرنا ہے کیوں کہ آپ معتمد نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سینکڑوں احادیث نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں ، نعوذ باللہ تمام کی تمام احادیث محل غور ہوں گی ؛ کیونکہ ان کےمطابق معاویہ باغی ٹولہ کے حکمراں تھے ۔ بحری بیڑے کے تعلق سے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی کہ جو اس بیڑے میں شریک ہوگا مغفرت پاجائے گا ، یہ بحری بیڑہ والی پیشگوئی بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار میں پوری ہوئی ۔ اتنے عظیم صحابی رسول پر جو کہ 20 سال تک گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوکر اسلام کی آفاقیت کا جھنڈا بلند کرتا رہا ۔ اسلام کو عرب سے نکال کر روم تک پہنچادیا ، شام فتح کیا ، قبرص فتح کیا ، روم فتح کیا ، ایسے عظیم مجاہد پر انگلی اُٹھانا مناسب نہیں ، ان پر انگلی اُٹھا کر اسلام کی عظیم تاریخ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کارناموں کو سبوتاژ کرنا ہے ۔جن لوگوں نے انگلیاں اُٹھائی ہیں انہیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیئے ۔ یاد رکھیں بنا توبہ کیے ہوئے آپ دنیا میں ذلیل وخوار ہوں گے اور آخرت میں رسوائیاں ہی رسوائیاں ہیں ۔ حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما دونوں دنیا میں بھی دوست تھے اور جنت میں بھی دوست ہوں گے ۔ حبِّ علی رضی اللہ عنہ کی آڑ لے کر بغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ والے یہاں بھی ذلیل ہورہے ہیں اور آخرت میں بھی ذلیل ہوں گے ان شاء اللہ ۔
فرمان ِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی ہیں
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا :
جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ مشر ک نہیں ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا : کیا وہ منافق ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:وہ منا فق بھی نہیں ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا: پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟
جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ہم اخواننا بغواعلینا‘‘ وہ لوگ ہمارے بھائی ہیں ، انہوں نے ہمارے اوپر زیادتی کی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1013 عربی) ، (مصنف ابی شیبہ جلد 11 صفحہ 734 مترجم اردو)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ کا انکے متعلق کیا خیال ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے :”قتلانا وقتلاھم فی الجنۃ” ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1036)
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے جیسا ایماندار اور مسلمان بتا رہے ہیں ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقتولین کو جنتی قرار دے رہے ہیں اور دشمنانِ صحابہ، سبائی ان کو کافر اور منافق قرار دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، جنہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نہ منافق کہیں ، نہ مشرک کہیں بلکہ انہیں اپنا بھائی قرار دیں آج محبت حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے دعویدار کھلے رافضی اور سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی منافق ، کافر ، لعنتی نہ جانے کیا کیا کہیں کیا یہ حب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا تقاضا ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ اس طرح جہاں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی توہین کر رہے وہیں براہ راست حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو جھٹلا اور ان کی توہین کر رہے ذرا سوچو بغض معاویہ رضی اللہ عنہم تم کس حد تک گر چکے اور اندھے ہو چکے ہو تمہیں فرامین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بھی پاس نہیں رہا اللہ تمہیں ہدایت اور عقل سلیم عطاء فرمائے آمین اے نفرتیں پھیلانے والو ۔
معترضین حضرات سے گزارش ہے کہ اگر آپ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابی مانتے ہیں تو خدا را دشنام طرازی کا سلسلہ بند کیجیئے ۔ اگر صحابی نہیں مانتے ہیں تو ہر چہ خواہی کن ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment