جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذریعے پہنچی
محترم قارئین : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی وہ ذات گرامی ہیں جو بہت سے کمال وخوبیوں کے جامع ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ شیر خدا ہیں ، داماد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، صاحب ذوالفقار ہیں ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں سخاوت ، شجاعت ، عبادت ، ریاضت ، فصاحت ، بلاغت ، اور میدان خطابت کے شہسوار ہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں جہاں یہ تمام خوبیاں ہیں وہیں آپ ہر ایک میں ممتاز ویگانۂ روزگا ہیں شیر خدا مشکل رضی اللہ تعالی عنہ ۔
مرتضٰی شیرِ حق اشجع الاشجعین
بابِ فضل و ولایت پہ لاکھوں سلام
شیرِ شمشیر زن شاہِ خیبر شکن
پَر توِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات شریف فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستوں میں سے ایک راستہ قربِ ولایت سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے پیشوا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جسمانی پیدائش سے پہلے اس مقام کے ملجاء و ماویٰ تھے ۔ جیسا کہ آپ جسمانی پیدائش کے بعد ہیں ۔ ۔ ۔ اور جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی اس راہ سے پہنچی اور ان ہی کے ذریعے سے پہنچی کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نکتہ کے قریب ہیں ۔ (مکتوب 123، دفتر سوم ، حصہ دوم صفحہ 1425،چشتی)
ہو چشتی قادری یا نقشبندی سہروردی ہو
ملا سب کو ولایت کا انہی کے ہاتھ سے ٹکڑا
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب دفتر اول میں فرماتے ہیں : حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ ’’میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آسمانوں کا علم سکھاؤں‘‘۔ جب میں اچھی طرح متوجہ ہوا تو تمام خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اس مقام کو حضرت امیر (سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ مخصوص پایا ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب 251 دفتر اول میں فرماتے ہیں : چونکہ امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) ولایت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوجھ اٹھانے والے ہیں اس لئے اقطاب ، ابدال، اوتاد جو اولیائے عزلت میں سے ہیں ۔ قطب مدار کا سر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے قدم کے نیچے ہے ۔ قطب مدار ان ہی کی حمایت و رعایت (نگرانی) سے اپنے ضروری امور کو سرانجام دیتا ہے اور مداریت سے عہدہ برآ ہوتا ہے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور امامین رضی اللہ عنہما بھی اس مقام میں حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) کے ساتھ شریک ہیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ان اکابر جید علماء ربانیین اور صاحب کمال ہستیوں میں سے ہیں جن کی تمام مسالک (اہل سنت ، اہل حدیث اور دیوبندی) عزت و تکریم کرتے ہیں اور ان کے علم و فضل کے معترف ہیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک روز مقام قرب میں غور کی نگاہ کی گئی تو ہر چند نظر دور دور تک گئی لیکن جہت خاص جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں تھی اس سے زائد کسی میں نہ دیکھی گئی اور اس جہت میں کسی دوسرے کی ان پر فضیلت نہیں دکھائی دی۔ آپ اس جہت یعنی مقام قرب کے اعلیٰ مرکز کے اوپر ہیں اور اسی لئے آپ ہی مبداء عرفان ہوئے ہیں ۔ (القول الجلی فی ذکر آثار ولی صفحہ نمبر 522،چشتی)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الفاس العارفین میں اپنے چچا حضرت ابو الرضا محمد کی روایت درج کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بار بچشم حقیقت زیارت ہوئی، میں نے عرض کی : یاسیدی میری خواہش ہے کہ آپ کے طریقہ عالیہ کے فیض یافتہ کسی مردِ حق سے بیعت کروں تاکہ ان سے حقائق کی تفصیل پوچھ سکوں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیری بیعت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے ہوگی ۔ کچھ دنوں بعد دیکھا کہ گویا کسی راستے پر جارہا ہوں ۔ آس پاس کوئی شخص نظر نہیں آرہا۔ لیکن راستے پر گذرنے والوں کے نقوش موجود ہیں۔ تھوڑی دور راستے کے درمیان ایک شخص کو بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اس سے راستہ پوچھا، اس نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا ادھر آؤ۔ اس سے مجھے انشراحِ قلب حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا : اے سست رفتار، میں علی ہوں اور مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں ان کی بارگاہ میں لے چلوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دے کر کہا : يا رسول الله هذا يدی الرضا محمد یہ سن کر حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت لی ۔ اس موقع پر میرے دل میں ایک بات کھٹکی ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر مطلع ہو کر فرمایا کہ میں اسی طرح اولیاء اللہ کے حق میں وسیلہ بیعت رہتا ہوں ورنہ اصل میں تمام سلاسل کی بیعتوں کا مرکز اور مرجع حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے مجھے اشغال اور اذکار کی تلقین فرمائی اور علوم و اسرار سے نوازا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس تمام علوم ظاہری و باطنی کا محزن ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کی اس شان سے آگاہ اور معترف تھے اور شیخین کریمین مختلف مواقع پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تبحر علمی اور اصابت رائے سے استفادہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں کتب مناقب میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات منقول ہیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment