Wednesday 24 April 2019

نمازِ جنازہ کی صفوں کی ترتیب و فضیلت اور طریقہ ، احکام و مسائل

0 comments

نمازِ جنازہ کی صفوں کی ترتیب و فضیلت اور طریقہ ، احکام و مسائل

محترم قارئین : نماز پنجگانہ میں جماعت کی اگلی صفوں میں کھڑا ہونے کی فضیلت تو احادیث میں واضح طور پر بیان ہوئی ہے ، تاہم نماز جنازہ کی پچھلی صف میں کھڑا ہونے کی فضلیت سے متعلق کوئی نص ہمارے علم میں نہیں ہاں البتہ فتاویٰ شامی میں ہے جنازہ میں پچھلی صف کو تمام صفوں پر فضیلت ہے : في غیر جنازة“ أما فیہا فآخرہا إظہارًا للتواضع لأنہم شفعاء فہو أحری بقبول شفاعتہم، ولأن المطلوب فیہا تعدد الصفوف فلو فضل الأول امتنعوا عن التأخر عند قلتہم رحمتي ۔ (الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۱)

نمازِ جنازہ میں دوسری نمازوں کے برخلاف پچھلی صف کو تمام صفوں پر فضیلت ہے کیونکہ اس میں تواضع و انکساری زیادہ ہے ۔ (زبدة الفقہ کتاب الصلوٰة)

نماز جنازہ میں افضل وبہتر یہ ہے کہ کم ازکم تین صفیں بنائی جائیں بلکہ اگر نمازی صرف سات آدمی ہوں تو امام کے پیچھے تین آدمی پھر دو آدمیوں کی صف اور تیسری میں صف میں صرف ایک آدمی کھڑا ہوجائے: قال في مجمع الأنہر (۱:۲۷۰ ط دارالکتب العلمیہ بیروت) : واعلم أن الأفضل أن تکون الصفوف ثلاثة لقولہ علیہ الصلاة والسلام: ”من اصطف علیہ ثلاثة صفوف من المسلمین غفرلہ“ اھ وقال في الہندیة (۱: ۱۶۴) : إذا کان القوم سبعة قاموا ثلاثة صفوف یتقدم واحد وثلاثة بعدہ واثنان بعدہم وواحد بعدہما کذافي التتارخانیة اھ ومثلہ في رد المحتار (۳: ۱۱۲ ) ومراقي الفلاح (مع حاشیة الطحطاوي ص۵۹۲ ط دارالکتب العلمیہ بیروت) وحاشیة الطحطاوي علی المراقي (صفحہ ۵۸۳، ۵۸۴،چشتی) ۔ اورا گر نمازی زیادہ ہوں ، تین سے زائد صفیں بنانے کی ضرورت پڑجائے تو صفیں تین سے زائد بنالی جائیں ، البتہ طاق کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے یعنی : پانچ ، سات یا نو صفیں بنالی جائیں ۔

نمازِ جنازہ میں طاق صفیں رکھنے کی وجہ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ

ان الله وتر و يحب الوتر ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کا عدد اس کو پسند ہے ۔ (صحيح مسلم، جلد 4، صفحه 2062، حديث نمبر 2677)

حدیث میں ہے : ''جس کی نماز تین صفوں نے پڑھی ، اُس کی مغفرت ہو جائے گی ۔'' اور اگر کُل سات ہی شخص ہوں تو ایک امام ہو اور تین پہلی صف میں اور دو دوسری میں اور ایک تیسری میں ۔ (غنیۃ المتملي''، فصل في الجنائز، صفحہ ۵۸۸)

اس لیے صفوں کی تعداد طاق رکھی جاتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ شریعت میں ضروری نہیں کہ صفوں کی تعداد طاق ہی ہو ۔ جتنی بھی صفیں ہوں، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، لیکن طاق عدد اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ، اس لیے طاق کا عدد افضل اور بہتر ہے ۔

نمازِ جنازہ کا طریقہ و شرعی احکام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان ہے : جب کوئی جنّتی شخص فوت ہو جاتا ہے، تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ حیا فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو عذاب دے جو اس کاجنازہ لیکر چلے اور جو اِس کے پیچھے چلے اور جنہوں نے اِس کی نمازِ جنازہ ادا کی ۔
(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۱ص۲۸۲حدیث۱۱۰۸)

جنازے کا ساتھ دینے کا ثواب

حضرت داؤد علیہ السّلام نے بارگاہ الہٰی عَرض کی : یا اللہ جس نے مَحض تیری رِضا کے لئے جنازے کا ساتھ دیا، اُس کی جزا کیا ہے؟ اللہ تَعَالٰی نے فرمایا: جس دن وہ مرے گا تو فِرِشتے اُس کے جنازے کے ہمراہ چلیں گے اور میں اس کی مغفِرت کروں گا ۔ (شَرْحُ الصُّدُورص۹۷)

اُحُد پہاڑ جتنا ثواب

حضرت ابو ہریری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ہے : جو شخص (ایمان کا تقاضا سمجھ کر اور حُصولِ ثواب کی نیّت سے) اپنے گھر سے جنازے کے ساتھ چلے ،نَماز جنازہ پڑھے اور دَفن ہونے تک جنازے کے ساتھ رہے اُس کے لیے دو قِیراط ثواب ہے جس میں سے ہرقِیراط اُحُد ( پہاڑ) کے برابر ہے اور جو شخص صِرف جنازے کی نَماز پڑھ کر واپَس آ جائے تو اس کے لیے ایک قِیراط ثواب ہے ۔ ( صحیح مُسلِم صفحہ نمبر ۴۷۲حدیث۹۴۵)

نَمازِ جنازہ باعثِ عبرت ہے

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے : مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : قبروں کی زیارت کرو تاکہ آخِرت کی یاد آئے اور مُردے کو نہلاؤ کہ فانی جِسم( یعنی مُردہ جسم ) کا چُھونا بَہُت بڑی نصیحت ہے اور نَمازِجنازہ پڑھو تا کہ یہ تمہیں غمگین کرے کیوں کہ غمگین انسان اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سائے میں ہوتا ہے اور نیکی کا کام کرتا ہے ۔ (اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۱ص۷۱۱حدیث ۱۴۳۵)

میِّت کو نہلانے وغیرہ کی فضیلت

مولائے کائنات ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اِرشاد فرمایا کہ جو کسی میِّت کو نہلائے ، کفن پہنائے ، خوشبو لگائے ، جنازہ اُٹھائے ، نَماز پڑھے اور جو ناقِص بات نظر آئے اسے چُھپا ئے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسا جس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔
(اِبنِ ماجہ ج۲ص۲۰۱حدیث۱۴۶۲،چشتی)

جنازہ دیکھ کر پڑھنے کا وِرْد

حضرت مالِک بن اَنَس رضی اللہ عنہ کو بعدِوفات کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا : مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ ؟ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا سُلوک فرمایا ؟ کہا : ایک کلمے کی وجہ سے بخش دیا جو حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ جنازہ کو دیکھ کر کہا کرتے تھے ۔ (وہ کلمہ یہ ہے:) سُبْحٰنَ الْحَیِّ الَّذِی لا یَمُوت (یعنی وہ ذات پاک ہے جو زندہ ہے اُسے کبھی موت نہیں آئے گی) لہٰذا میں بھی جنازہ دیکھ کر یہی کہا کرتا تھا یہ کلمہ کہنے کے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے بَخْش دیا ۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۵ص۲۶۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے سب سے پہلا جنازہ کس کا پڑھا ؟

نمازِ جنازہ کی ابتدا حضرت آدم علیہ السّلام کے دور سے ہوئی ہے ، فر شتوں نے حضرت آدم علیہ السّلام کے جنازہ ٔ مبارَکہ پر چار تکبیریں پڑھی تھیں ۔ اسلام میں وجوبِ نمازِ جنازہ کا حکم مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں نازل ہوا ۔ حضرت اَسعَد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ کا وِصال مبارَک ہجرت کے بعد نویں مہینے کے آخر میں ہوااور یہ پہلے صَحابی کی میِّت تھی جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نماز جنازہ پڑھی ۔ (ماخوذ از فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۵ ص۳۷۵۔۳۷۶)

نَمازِ جنازہ فرضِ کِفایہ ہے

نمازِ جنازہ ’’فرضِ کفایہ ‘‘ہے یعنی کوئی ایک بھی ادا کر لے تو سب بَرِیُّ الذِّمَّہ ہو گئے ورنہ جن جن کو خبر پہنچی تھی اور نہیں آئے وہ سب گنہگار ہوں گے۔اِس کے لئے جماعت شَرط نہیں ،ایک شخص بھی پڑھ لے تو فرض ادا ہو گیا۔ اس کی فرضیَّت کا انکارکُفْر ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۲۵،عالمگیری ج۱ص۱۶۲،دُرِّمُختار ج۳ص۱۲۰)

نمازِ جنازہ میں دو رُکن اور تین سنّتیں ہیں

دو رُکن یہ ہیں : (1) چار بار’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘کہنا (2) قِیام ۔ (دُرِّمُختارج۳ص۱۲۴)
اس میں تین سنّتِ مُؤَکَّدہ یہ ہیں : (1) ثَناء (2) دُرُودشر یف (3) میِّت کیلئے دُعا ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۲۹)

نَمازِ جنازہ کا طریقہ

مُقتدی اِس طرح نیّت کرے : ’’میں نیّت کرتا ہوں اِس جنازے کی نَماز کی واسِطے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ، دُعا اِس میِّت کیلئے، پیچھے اِس امام کے‘‘(فتاوٰی تاتارْخانِیَہ ج۲ص۱۵۳) اب امام و مُقتدی پہلے کانوں تک ہاتھ اُٹھائیں اور ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہتے ہوئے فوراً حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لیں اور ثَناء پڑھیں ۔ اس میں ’’ وَتَعَالٰی جَدُّکَ ‘‘کے بعد ’’ وَجَلَّ ثَنَاؤُکَ وَلَا اِلٰـہَ غَیْرُکَ ‘‘پڑھیں پھربِغیرہاتھ اُٹھائے’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں ، پھر دُرُودِ ابراہیم پڑھیں ، پھربِغیر ہاتھ اٹھائے ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں اور دُعا پڑھیں ( امام تکبیریں بُلند آواز سے کہے اورمقتدی آہستہ ۔ باقی تمام اَذکار اما م ومقتدی سب آہِستہ پڑھیں ) دُعا کے بعد پھر ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں اور ہاتھ لٹکا دیں پھر دونوں طرف سلام پھیر دیں ۔ سلام میں میّت اور فرشتوں ورحاضِرین نماز کی نیّت کرے، اُسی طرح جیسے اور نَمازوں کے سلام میں نیَّت کی جاتی ہے یہاں اتنی بات زیادہ ہے کہ میّت کی بھی نیَّت کرے ۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۸۲۹ ، ۸۳۵،چشتی)

با لِغ مرد و عورَت کے جنازے کی دُ عا

اللھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا ط اللھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ ۔
ترجمہ : الٰہی! بخش دے ہمارے ہر زندہ کو اور ہمارے ہر فوت شدہ کو اور ہمارے ہر حاضر کو اور ہمارے ہر غائب کو اور ہمارے ہر چھوٹے کو اور ہمارے ہر بڑے کو اور ہمارے ہر مرد کو اور ہماری ہر عورت کو۔ الٰہی! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جس کو موت دے تو اس کو ایما ن پر موت دے ۔ (اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۱ص۶۸۴حدیث۱۳۶۶)

نابا لغ لڑ کے کی دُ عا

اللھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا ۔
ترجمہ : الٰہی!اس(لڑکے)کوہمارے لئے آگے پہنچ کر سامان کرنے والا بنا دے اور اس کو ہمارے لئے اَجر (کا مُوجِب) اور وقت پر کام آ نے والا بنا دے اور اس کو ہماری سفارش کر نے والا بنا دے اور وہ جس کی سفارش منظور ہو جائے ۔
(کنزُالدّقائق ص۵۲)

نا با لغہ لڑ کی کی دُ عا

اللھُمَّ اجْعَلْہا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً ۔
ترجمہ : الٰہی ! اس (لڑکی)کو ہمارے لئے آگے پہنچ کر سامان کر نے والی بنا دے اور اس کو ہمارے لئے اجر (کی مُوجِب) اور وقت پر کام آنے والی بنا دے اور اس کو ہمارے لئے سفارش کرنے والی بنا دے اور وہ جس کی سفارش منظور ہو جائے ۔

جُوتے پر کھڑے ہو کر جنازہ پڑھنا : جوتا پہن کر اگر نماز جنازہ پڑھیں تو جوتے اور زمین دونوں کا پاک ہونا ضَروری ہے اورجوتا اُتار کراُس پر کھڑے ہو کر پڑھیں تو جوتے کے تلے اور زمین کا پاک ہونا ضَروری نہیں ۔ امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں اِرشاد فرما تے ہیں : اگر وہ جگہ پیشاب وغیرہ سے ناپاک تھی یا جن کے جوتوں کے تلے ناپاک تھے اور اس حالت میں جوتا پہنے ہو ئے نماز پڑھی ان کی نماز نہ ہوئی ، احتیاط یہی ہے کہ جوتا اُتار کر اُس پر پاؤں رکھ کر نماز پڑھی جائے کہ زمین یا تَلا اگر ناپاک ہو تو نماز میں خلل نہ آئے ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۹ص۱۸۸،چشتی)

غائبانہ نَمازِ جنازہ نہیں ہو سکتی

میِّت کا سامنے ہونا ضَروری ہے ، غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں ہو سکتی ۔ مُستَحَب یہ ہے کہ امام میِّت کے سینے کے سامنے کھڑا ہو ۔ (دُرِّمُختار ج ۳ص۱۲۳،۱۳۴)

چند جنازوں کی اکٹّھی نَماز کا طریقہ

چند جنازے ایک ساتھ بھی پڑھے جاسکتے ہیں ، اس میں اِختیار ہے کہ سب کو آگے پیچھے رکھیں یعنی سب کا سینہ امام کے سامنے ہو یا قِطار بند ۔ یعنی ایک کے پاؤں کی سیدھ میں دوسرے کا سرہانا اور دوسرے کے پاؤں کی سیدھ میں تیسرے کا سرہانا وَعَلٰی ھٰذَا الْقِیَا س ( یعنی اسی پرقِیاس کیجئے) ۔ (بہارِشریعت ج۱ص۸۳۹،عالمگیری ج۱ص۱۶۵)

جنازے کی پوری جَماعت نہ ملے تو ؟

مَسبوق ( یعنی جس کی بعض تکبیریں فوت ہو گئیں وہ ) اپنی باقی تکبیریں امام کے سلام پھیرنے کے بعد کہے اور اگر یہ اَندیشہ ہو کہ دُعاء وغیرہ پڑھے گا تو پوری کرنے سے قَبل لوگ جنازے کو کندھے تک اُٹھالیں گے توصِرف تکبیریں کہہ لے دُعاء وغیرہ چھوڑ دے ۔ چوتھی تکبیر کے بعد جو شخص آیا تو جب تک امام نے سلام نہیں پھیرا شامِل ہو جائے اور امام کے سلام کے بعد تین بار ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہے ۔ پھر سلام پھیردے ۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۱۳۶)

پاگل یا خود کُشی والے کا جنازہ

جو پیدائشی پاگل ہو یا بالِغ ہونے سے پہلے پاگل ہو گیا ہو اور اسی پاگل پن میں موت واقِع ہوئی تو اُس کی نَمازِ جنازہ میں نابالِغ کی دعا پڑھیں گے ۔ (جوہرہ ص۱۳۸،غُنیہ ص ۵۸۷) ۔ جس نے خودکُشی کی اُس کی نَمازِ جنازہ پڑھی جائے گی ۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۱۲۷)

مُردہ بچّے کے احکام

مسلمان کا بچّہ زِندہ پیدا ہوا یعنی اکثر حصّہ باہَر ہونے کے وقت زندہ تھا پھر مر گیا تو اُس کوغُسل و کفن دیں گے اور اس کی نَماز پڑھیں گے ،ورنہ اُسے وَیسے ہی نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفْن کر دیں گے ۔ اس کیلئے سنّت کے مطابِق غسل و کفن نہیں ہے اورنَماز بھی اس کی نہیں پڑھی جائے گی ۔ سَر کی طرف سے اکثر کی مقدار سر سے لے کرسینے تک ہے ۔ لہٰذا اگر اس کا سر باہَر ہوا تھا اور چیختا تھا مگر سینے تک نکلنے سے پہلے ہی فوت ہو گیا تو اس کی نَماز نہیں پڑھیں گے۔ پاؤں کی جانِب سے اکثر کی مقدار کمر تک ہے۔ بچہ زندہ پیدا ہوا یا مُردہ یا کچّا گر گیا اس کا نام رکھا جائے اور وہ قِیامت کے دن اُٹھایا جائے گا ۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۳ص۱۵۲۔۱۵۴، بہارِ شریعت ج۱ص۸۴۱،چشتی)

جنازے کو کندھا دینے کا ثواب

حدیثِ پاک میں ہے : ’’جو جنازے کو چالیس قدم لے کر چلے اُ س کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔‘‘ نیز حدیث شریف میں ہے :جو جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کی حَتْمی (یعنی مُستَقِل ) مغفِرت فر ما دے گا ۔
(اَلْجَوْہَرَۃُ النَّیِّرَۃص۱۳۹،دُرِّمُختار ج۳ص۱۵۸۔۱۵۹، بہارِ شریعت ج۱ص۸۲۳)

جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ

جنازے کو کندھا دینا عبادت ہے۔سنّت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے ۔پوری سنّت یہ ہے کہ پہلے سیدھے سِرہانے کندھا دے پھر سیدھی پائنتی (یعنی سیدھے پاؤں کی طرف ) پھر اُلٹے سِرہا نے پھر اُلٹی پائِنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۶۲،بہارِ شریعت ج ۱ ص۸۲۲) بعض لوگ جنازے کے جُلوس میں اِعلان کرتے رہتے ہیں ، دو دو قدم چلو! ان کو چاہئے کہ اس طرح اعلان کیا کریں : دس دس قدم چلو ۔

بچّے کا جنازہ اُٹھانے کا طریقہ

چھوٹے بچّے کے جَنازے کو اگر ایک شَخص ہاتھ پر اُٹھا کر لے چلے تو حَرَج نہیں اور یکے بعد دیگرے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے رہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۶۲) عورَتوں کو ( بچّہ ہو یا بڑا کسی کے بھی) جنازے کے ساتھ جانا نا جائز و ممنوع ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۲۳،دُرِّمُختار ج۳ص۱۶۲)

نمازِ جنازہ کے بعد واپَسی کے مسائل

جو شخص جَنازے کے ساتھ ہو اُسے بِغیر نَماز پڑھے واپَس نہ ہونا چاہئے اورنَماز کے بعد اولیائے میِّت( یعنی مرنے والے کے سرپرستوں ) سے اجازت لے کر واپَس ہو سکتا ہے اور دَفن کے بعد اجازت کی حاجت نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۶۵)

کیا شوہر بیوی کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے ؟

شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے، قَبْر میں بھی اُتار سکتا ہے اورمُنہ بھی دیکھ سکتا ہے ۔ صِرف غسل دینے اوربِلا حائل بدن کو چھُونے کی مُمانَعَت ہے ۔ عورَت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۱۲،۸۱۳)

مُرتَد کی نَمازِ جنازہ کا حُکمِ شَرعی

مُرتد اور کافر کے جنازے کا ایک ہی حکم ہے۔مذہب تبدیل کرکے عیسائی (کرسچین) ہونے والے کا جنازہ پڑھنے والے کے بارے میں کئے گئے ایک سُوال کا جواب دیتے ہوئے امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ جلد 9 صَفْحَہ 170 پرارشاد فرماتے ہیں : اگر بہ ثُبوتِ شَرعی ثابِت ہو کہ میِّت ’’عِیاذًا بِاللہ‘‘ (یعنی خدا کی پناہ) تبدیلِ مذہب کرکے عیسائی (کرسچین) ہوچکا تھا تو بیشک اُس کے جنازے کی نماز اور مسلمانوں کی طرح اِس کی تَجہیز وتکفین سب حرامِ قَطعی تھی۔قالَ اللہُ (اللہ تَعَالٰیفرماتا ہے) : (وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ (پ۱۰،التوبہ:۸۴)
ترجَمہ : اور ان میں سے کسی کی میِّت پر کبھی نَماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قَبْر پر کھڑے ہونا ۔

مگر نماز پڑھنے والے اگر اس کی نصرانیت (یعنی کرسچین ہونے) پرمُطَّلَع نہ تھے اور بربِنائے علمِ سابِق (یعنی پچھلی معلومات کے سبب) اسے مسلمان سمجھتے تھے نہ اس کی تجہیز وتکفین و نَماز تک اُن کے نزدیک اس شخص کا نصرانی(یعنی کرسچین) ہوجانا ثابِت ہوا، توان اَفعال میں وہ اب بھی معذور وبے قُصُور ہیں کہ جب اُن کی دانِست(یعنی معلومات) میں وہ مسلمان تھا، اُن پر یہ اَفعال بجالانے بَزُعْمِ خود شَرعاً لازم تھے، ہاں اگر یہ بھی اس کی عیسائیت سے خبردار تھے پھرنَماز وتجہیز وتکفین کے مُرتکِب (مُر۔تَ ۔ کِب ) ہوئے قَطعاً سخت گنہگار اور وبالِ کبیرہ میں گرفتار ہوئے، جب تک توبہ نہ کریں نَماز ان کے پیچھے مکروہ ۔ مگرمُعامَلۂ مُرتَدین پھر بھی برتنا جائز نہیں کہ یہ لوگ بھی اس گناہ سے کافر نہ ہوں گے ۔ ہماری شَرعِ مُطَہَّرصِراطِ مُستقیم ہے ، اِفراط وتَفریط (یعنی حدِّ اعتِدال سے بڑھانا گھٹانا) کسی بات میں پسند نہیں فرماتی، البتّہ اگر ثابِت ہو جائے کہ اُنہوں نے اُسے نصرانی جان کر نہ صِرف بوجِہ حَماقت وجَہالت کسی غَرَضِ دُنیوی کی نیّت سے بلکہ خوداِسے بوجہِ نصرانیّت مستحقِ تعظیم وقابلِ تجہیز وتکفین ونَمازِ جنازہ تصوُّر کیا تو بیشک جس جس کا ایسا خیال ہوگا وہ سب بھی کافِر ومُرتَد ہیں اور ان سے وُہی مُعامَلہ برتناواجِب جو مُرتدین سےبرتا جائے ۔ (فتاوٰی رضویہ)

اللہ تَبارکَ وَتعالٰی پارہ 10 سُورَۃُ التوبۃ کی آیت نمبر 84 میں ارشاد فرماتا ہے : وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ اِنَّہُمْ کَفَرُوۡا بِاللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَمَاتُوۡا وَہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۸۴﴾
ترجَمہ : اور ان میں سے کسی کی میِّت پر کبھی نَماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قَبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور فسق (کفر) ہی میں مر گئے۔

عظیم مفسر قرآن علاّمہ سیّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تَحت فرماتے ہیں :اس آیت سے ثابِت ہوا کہ کافِر کے جنازے کی نَماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافِر کی قبر پر دفن وزیارت کے لیے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے ۔
(خَزا ئِنُ الْعِرفان ص۳۷۶ )

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اِرشاد فرمایا : اگر وہ بیمار پڑیں تو پوچھنے نہ جاؤ ، مر جائیں تو جنازے میں حاضِر نہ ہو ۔ ( اِبنِ ماجہ ج۱ص۷۰حدیث۹۲،چشتی)

میِّت نے وصیّت کی تھی کہ میری نَماز فُلاں پڑھائے یا مجھے فُلاں شخص غسل دے تو یہ وصیّت باطِل ہے یعنی اِس وصیّت سے (مرنے والے کے) ولی (یعنی سرپرست) کا حق جاتا نہ رہے گا، ہاں ولی کو اختیار ہے کہ خود نہ پڑھائے اُس سے پڑھوا دے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۳۷،عالمگیری ج۱ص۱۶۳ وغیرہ) اگر کسی متّقی بُزُرگ یا عالِم کے بارے میں وصیّت کی ہو تو وُرَثاء کو چاہیے کہ اِس پر عمل کریں ۔

امام میِّت کے سینے کی سیدھ میں کھڑا ہو : مُستَحب یہ ہے کہ میِّت کے سینے کے سامنے امام کھڑا ہو اور میِّت سے دُور نہ ہو میِّت خواہ مرد ہو یا عورت بالِغ ہو یا نابالِغ، یہ اُس وَقت ہے کہ ایک ہی میِّت کی نَماز پڑھانی ہو اور اگر چند ہوں تو ایک کے سینے کے مقابِل (یعنی سامنے) اورقریب کھڑا ہو۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۳ص۱۳۴)

نمازِ جنازہ پڑھے بِغیر دفنا دیا تو ؟ : میِّت کوبِغیرنَماز پڑھے دفن کر دیا اورمِٹّی بھی دے دی گئی تو اب اس کی قَبْر پر نَماز پڑھیں جب تک پھٹنے کا گمان نہ ہو، اور مِٹّی نہ دی گئی ہو تو نکالیں اور نَماز پڑھ کر دفن کریں ، اور قَبْر پرنَماز پڑھنے میں دنوں کی کوئی تعداد مقرَّر نہیں کہ کتنے دن تک پڑھی جائے کہ یہ موسِم اور زمین اور میِّت کے جسم و مَرَض کے اِختِلاف سے مختلف ہے، گرمی میں جلد پھٹے گا اور جاڑے(یعنی سردی) میں بدیر(یعنی دیر میں ) تر(یعنی گیلی) یا شور(یعنی کھاری) زمین میں جلد خشک اور غیرِ شَور میں بدیر، فَربہ(یعنی موٹا) جسم جلد لاغر (یعنی دُبلا پتلا)دیر میں ۔ ( دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۳ص ۱۴۶)

مکان میں دبے ہوئے کی نمازِ جنازہ : کوئیں میں گِرکر مر گیا یا اس کے اوپر مکان گِر پڑا اورمُردہ نکالا نہ جا سکا تو اُسی جگہ اُس کی نَماز پڑھیں ،اور دریا میں ڈوب گیا اور نکالا نہ جاسکا تو اُس کی نَماز نہیں ہو سکتی کہ میِّت کا مُصَلّی(یعنی نَماز پڑھنے والے) کے آگے ہونا معلوم نہیں ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۳ص۱۴۷)

نَمازِجنازہ میں تعداد بڑھانے کیلئے تاخیر : جُمُعہ کے دن کسی کا انتِقال ہوا تو اگر جُمُعہ سے پہلے تجہیز و تکفین ہو سکے تو پہلے ہی کر لیں ، اس خیال سے روک رکھنا کہ جُمُعہ کے بعد مجمع زیادہ ہوگا مکروہ ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۴۰، رَدُّالْمُحتار ج۳ص ۱۷۳ وغیرہ )

بالِغ کی نَمازِ جنازہ سے قَبْل یہ اِعلان کیجئے

مرحوم کے عزیز و اَحباب توجُّہ فرمائیں : مرحوم نے اگر زندَگی میں کبھی آپ کی دل آزاری یا حق تَلَفی کی ہو یا آپ کے مقروض ہوں تو ان کو رِضائے الٰہی کیلئے معاف کردیجئے ، اِنْ شَآءَ اللہ مرحوم کا بھی بھلا ہوگا اور آپ کو بھی ثواب ملے گا ۔ نَمازِ جنازہ کی نیّت اور اس کا طریقہ بھی سن لیجئے : میں نیّت کرتا ہوں اِس جنازے کی نَماز کی ، واسِطےاللہ تعالیٰ کے ،دُعا اِس میِّت کیلئے پیچھے اِس امام کے ۔ اگر یہ اَلفاظ یاد نہ رہیں تو کوئی حَرَج نہیں ، آپ کے دل میں یہ نیّت ہونی ضروری ہے کہ : میں اِس میِّت کی نَمازِ جنازہ پڑھ رہا ہوں ‘‘جب امام صاحب’’اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں تو کانوں تک ہاتھ اُٹھانے کے بعد ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہتے ہوئے فوراً حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لیجئے اور ثَناء پڑھئے ۔ دوسری بار امام صاحب ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں تو آپ بِغیرہاتھ اُٹھائے ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہئے، پھر نمازوالا دُرُودِ ابراہیم پڑھئے ۔ تیسری بار امام صاحب ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں توآپ بِغیر ہاتھ اُٹھائے ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘کہئے اور بالِغ کے جنازے کی دعا پڑھئے (اگر نابالغ یا نابالغہ کا جنازہ ہو تو اس کی دعا پڑھنے کا اعلان کیجئے) جب چو تھی بار امام صاحب’’اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں تو آپ’’اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہہ کر دونوں ہاتھوں کو کھول کر لٹکا دیجئے اور امام صاحب کے ساتھ قاعِدے کے مطابق سلام پھیر دیجئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔