Tuesday, 23 April 2019

مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم اور امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ

مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم اور امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ

امام حافظ ابو الفضل امام احمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی المتوفیٰ 852 ہجری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والظن بالصحابۃ فی تلک الحروب انہم کانوا فیہا متاولین وللمجتہد المخطی اجر واذا ثبت ھذا فی حق احادی الناس فثبوتہ للصحابۃ بالطریق الاولیٰ ۔
ترجمہ : ان لڑائیوں میں صحابہ کرام کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تاویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطاء کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لیے ثابت ہےتو صحابہ کرام کے حق میں یہ حکم بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ ا س لیے اگر کسی صحابی سے اجتہادی خطاء ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مواخذہ ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 312 الشاملہ ، چشتی)

امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اسی بحث کے ضمن میں ایک مقام پر فرماتے ہیں : واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن على أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك ولو عرف المحق منهم لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب الا عن اجتهاد وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد بل ثبت أنه يؤجر أجرا واحدا وان المصيب يؤجر أجرين ۔
ترجمہ : اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بناء پر ان میں کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے اگر چہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ کا موقف موقف حق تھا کیونکہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناء پر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا ۔ (فتح الباری جلد 13 صفحہ 43 کتاب الفتن باب ا اذا التقیٰ المسلمان) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...