حضرت امیر معاویہ کے حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم سے تعلقات ، اتحاد و بیعت
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں نے حضرت امیر معاویہ رضی عنہ کی بیعت کی اور شیعوں کے کہنے پر توڑنے سے انکا کر دیا ۔ (تذکرۃُ الاطہار صفحہ 247 شیعہ مذہب کی مستند کتاب)
نوٹ : اس موضوع پر مسلسل لکھنے اور حوالہ جات دینے کا ہمارا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم میں کوئی دشمنی نہیں تھی جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی تھیں وہ دور ہو گئی اور امامین کریمین رضی اللہ عنہما نے بیعت کر کے یہ ثابت فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت حق ہے ورنہ جو باطل کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور سب کچھ قربان کر دیتے ہیں تو اس کا بھی انکار فرما دیتے اللہ تعالیٰ فتنہ ، فساد اور شر ہھیلانے والوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے باہمی مشورے سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا۔ حضرت علی سے ان کی شہادت سے پہلے پوچھا گیا: ” کیا آپ کے بعد ہم حسن کی بیعت کر لیں ؟ ” آپ نے فرمایا: "میں نہ تو اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے منع کرتا ہوں۔”(تاریخ طبری ،چشتی)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے چھ ماہ کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اتحاد کر لیا اور خلافت کو ان کے سپرد کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو وصیت ہم نے جو ہم پہلے عرض کر چکے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا حکم انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نے دیا تھا ۔
اس طرح سے امت مسلمہ پھر اکٹھی ہوگئی اور باغی تحریک کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ حضرت حسن کو دبا کر ان سے اپنی باتیں منوا لیں گے لیکن آپ نے اس کے بالکل برعکس معاملہ کیا۔ باغی راویوں نے اس کا انتقام حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بھی لیا اور آپ کے متعلق کچھ ایسی روایات وضع کیں جن میں آپ کی کردار کشی کی گئی۔ اس باب میں ہم انہی روایات کا جائزہ لیں گے۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی خصوصی حیثیت کیا تھی ؟
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین نواسے ہیں۔ جب آپ خلیفہ بنے تو آپ کی عمر محض 38 برس تھی۔ باغیوں نے بھی اس امید پر آپ کی بیعت کر لی تھی کہ آپ ناتجربہ کار ہیں، اس طرح وہ آپ سے وہ اپنی بات آسانی سے منوا لیں گے۔ دوسری جانب اہل شام بھی آپ کا احترام کرتے تھے کیونکہ آپ آخری دم تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرتے رہے تھے اور جنگ صفین میں بھی آپ جنگ سے دور رہے تھے۔اس وجہ سے آپ کی شخصیت اتحاد کے اس مشن کے لیے انتہائی موزوں تھی۔ آپ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک پیش گوئی فرمائی تھی جو کہ صحیح بخاری میں بیان ہوئی ہے ۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اتحاد کیوں کیا ؟
یہ بات واضح ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی حکومت کی قیمت پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اتحاد اس لیے کیا تاکہ مخلص مسلمان متحد ہوں اور منافق باغیوں کی سرکوبی کی جا سکے۔ یہ حضرت حسن کے انتہا درجے کے خلوص کی نشانی تھی کہ آپ نے اپنے ذاتی مفاد پر امت مسلمہ کے مفاد کو ترجیح دی۔ باغی راویوں کو آپ کا یہ اتحاد ہضم نہیں ہو سکا اور انہوں نے تاریخی روایتوں میں اپنے جملے داخل کر کے اس اتحاد کو معاذ اللہ آپ کے لالچ ، مفاد پرستی ، بزدلی اور کمزوری سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ بات حقیقت سے بالکل ہی دور ہے ۔ طبری ہی نے بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن سے واقعے کی اصل صورت سامنے آ جاتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل عراق کا لشکر تیار کیا تھا جو آذر بائیجان اور اصفہان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک خاص لشکر عربوں کا تھا جس میں چالیس ہزار جنگجو تھے اور انہوں نے حضرت علی سے مرنے پر بیعت کی تھی۔ آپ نے ان پر قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کو مقرر کیا تھا اور قیس مہم میں کچھ تاخیر کر رہے تھے۔ اسی اثناء میں حضرت علی شہید ہوئے اور اہل عراق نے حسن بن علی کو خلیفہ مقرر کیا ۔ اہل عراق نے جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے خلافت کی بیعت کی تو حسن نے ان سے یہ شرط طے کی کہ آپ لوگ میری بات کو سنیں گے اور میری اطاعت کریں گے۔ میں جس سے صلح کروں، آپ اس سے صلح کریں گے اور میں جس سے جنگ کروں، اس سے جنگ کریں گے۔ اس شرط سے اہل عراق (یعنی باغی پارٹی) کے دلوں میں شک آ گیا۔ انہوں نے کہا: "یہ شخص ہمارے کام کا نہیں ، اس کا تو جنگ کا ارادہ لگتا نہیں ہے ۔” حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ ان پر برچھی کا وار کیا گیا جو اوچھا پڑا۔ اب ان لوگوں کے لیے حسن کے دل میں بغض بڑھ گیا اور وہ ان سے محتاط ہو گئے۔ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی اور اپنی شرائط لکھ بھیجیں کہ اگر آپ انہیں منظور کر لیں تو میں اطاعت کروں گا اور آپ پر اس وعدے کا پورا کرنا لازم ہو گا ۔ (تاریخ طبری ،چشتی)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے ذاتی نہیں بلکہ امت مسلمہ کے مفاد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اتحاد کیا تھا ۔ ایک شخص جس کے ساتھ چالیس ہزار جنگجو ہوں اور وہ بھی ایسے کہ جنہوں نے موت پر بیعت کی ہو، اسے کیا خوف لاحق ہو سکتا تھا۔ واضح ہے کہ حضرت حسن باغی پارٹی سے نفرت کرتے تھے اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے تھے ۔ دوسری طرف باغی پارٹی نے بھی بھانپ لیا تھا کہ آپ ان کے کام کے آدمی نہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے آپ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا اور آپ کے خیمے کو لوٹ لیا اور جس قالین پر آپ بیٹھے تھے، اسے بھی کھینچ لیا ۔
اس حملے کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کوفہ سے نکلے اور مدائن کے قریب مقصورۃ البیضاء کے مقام پر جا کر ٹھہرے۔ یہاں بھی آپ پر حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ کرنے والا مختار ثقفی تھا جس نے پچیس برس بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے انتقام کے نام پر اپنی تحریک شروع کی اور پھر نبوت کا دعوی بھی کیا۔ روایت یہ ہے:
سعد بن مسعود ، جو مختار کے چچا تھے اور یہ ابھی نوجوان لڑکا تھا، (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے ) مدائن کے گورنر تھے ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے کے بعد مدائن تشریف لائے تو اس نے اپنے چچا کو تجویز پیش کی کہ آپ کو باندھ کر حضرت معاویہ کے حوالے کر دیا جائے اور اس کے صلے میں امان مانگ لی جائے۔ چچا نے اسے جھڑک دیا اور کہا: "اللہ تجھ پر لعنت کرے۔ کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پر حملہ کر کے انہیں باندھ لوں ۔ کیا برے آدمی ہو تم ؟” حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ ان کے معاملات میں تفرقہ پڑ گیا ہے تو انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس صلح کا پیغام بھیجا ۔ معاویہ نے عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہم کو ان کے پاس روانہ کیا۔ دونوں شخص مدائن میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور جو مطالبہ حسن نے کیا، اسے منظو رکر لیا ۔ (تاریخ طبری ۔ 4/1-24،چشتی)
صلح کے معاملے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کردار بھی غیر معمولی ہے
روایت کے مطابق آپ ہی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر جنگ و جدال کا یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلمانوں ہی کو نقصان پہنچے گا۔ اس وجہ سے آپ نے صلح کی تحریک شروع کی اور ایک سادہ کاغذ پر دستخط کر کے اس پر مہر لگائی اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا ۔ صحیح بخاری کی روایت ہے : ابو موسی اسرائیل بیان کرتے ہیں کہ ان سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے خود بیان کیا کہ جب حسن بن علی ، معاویہ کے مقابلے کے لیے لشکر لے کر چلے تو عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا : "میں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس جو لشکر دیکھا ہے ، وہ اس وقت تک واپس جانے والا نہیں ہے جب تک کہ مقابل کی فوج کو بھگا نہ لے ۔” حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : "(اگر یہ جنگ ہو گئی اور فریقین کے بہت سے لوگ مارے گئے تو) مسلمانوں کی اولاد کی پرورش کون کرے گا ؟” عمرو نے کہا : "ہم ان سے مل کر صلح کے لیے بات چیت کریں گے ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ایک بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : "میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا(بخاری۔ کتاب الفتن۔ حدیث 6692،چشتی)
اس سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کے امت کے لیئے خلوص کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اپنی انا او روقار کے لیئے جان دینے والے تو بہت ملتے ہیں لیکن اپنے دین اور امت کی بہتری کے لیے اپنی انا کو قربان کرنے والے کم ہی ملتے ہیں ۔ حضرت حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی ایسی ہے کہ مسلمانوں کو تا قیامت اس پر خوشی محسوس کرنی چاہیے اور آپ کے اسوہ حسنہ سے سبق سیکھنا چاہیے لیکن چونکہ یہ باغی تحریک کے مفاد کے خلاف تھی، اس وجہ سے انہوں نے اس قسم کی روایتیں مشہور کیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ، معاذ اللہ کمزور آدمی تھے اور انہوں نے دب کر صلح کی تھی۔ اوپر صحیح بخاری کی روایت سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت حسن کس درجے میں طاقتور تھے ۔ اس روایت میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جیسے انتہائی تجربہ کار سپہ سالار کی رائے نقل ہو ئی ہے کہ حضرت حسن کے ساتھ بڑی فوج موجود تھی اور اس کے مورال کا عالم یہ تھا کہ وہ فتح کے بغیر پیچھے ہٹنے والے نہ تھے۔ فو ج کے سالار قیس بن سعد رضی اللہ عنہما جیسے ماہر سیاست اور جنگجو کر رہے تھے۔ طبری کی روایت میں اس فوج کے لیے "پہاڑ جیسی افواج” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی کہا جائے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے دب کر صلح کی تو اسے تعصب کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ۔
حضرت معاویہ نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس، قیس بن سعد اور زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم سے بھی صلح کر لی ۔ آپ جنگ سے اس درجے میں بچنا چاہتے تھے کہ کسی طور پر بھی اسے پسند نہ فرماتے تھے ۔ طبری کی روایت ہے : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد کے پاس قاصد روانہ کیا کہ ان کو خوف خدا دلائے اور پوچھے کہ کس کے حکم سے آپ لوگ لڑنے کو تیار ہیں۔ جن کے تابع حکم تو آپ لوگ تھے، انہوں نے تو میری بیعت کر لی ہے۔ قیس نے معاویہ سے دب جانا گوارا نہ کیا۔ معاویہ نے ایک کاغذ پر مہر لگا کر انہیں بھیج دیا کہ جو آپ کا جی چاہے، اس کاغذ پر لکھ لیجیے، مجھے سب منظور ہے۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا : "قیس کے ساتھ رعایت نہیں کرنا چاہیے۔” معاویہ نے کہا : "ہوش کیجیے! اتنے لوگوں کو ہم اس وقت تک قتل نہیں کر سکتے جب تک کہ اہل شام میں سے بھی اتنے ہی لوگ نہ مارے جائیں اور جن کے بعد زندگی بے لطف ہے ۔ واللہ! جب تک کچھ بھی چارہ کار ممکن ہے ، میں قیس سے نہ لڑوں گا ۔ جب حضرت معاویہ نے وہ مہر شدہ کاغذ بھیجا تو قیس نے اپنے لیے اور حضرت علی کے گروہ کے لیے، امان طلب کی۔ یہ امان اس معاملے میں تھی جو قتل ان کے ہاتھوں ہوئے یا جو مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا (اس کا ان سے انتقام نہ لیا جائے گا۔) اس عہد نامہ میں انہوں نے حضرت معاویہ سے مال کی مطلق خواہش نہ کی اور حضرت معاویہ نے ان کی ہر شرط کو منظور کر لیا۔ ان کے سب ساتھی حضرت معاویہ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہو گئے ۔ اس فتنہ کے زمانے میں پانچ افراد بڑے صائب الرائے اور اہل سیاست میں شمار ہوتے تھے۔ یہ معاویہ بن ابی سفیان، عمرو بن عاص، مغیرہ بن شعبہ، قیس بن سعد اور مہاجرین میں عبداللہ بن بدیل خزاعی رضی اللہ عنہم تھے۔ ان میں قیس اور ابن بدیل ، علی کے ساتھ تھے اور مغیرہ و عمرو ، معاویہ کے ساتھ تھے ۔ ( طبری۔ 4/1-27،چشتی)
کیا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اتحاد کی مخالفت کی ؟
باغی راویوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اس اتحا دکا مخالف ثابت کیا جائے تاکہ ان کی باغیانہ سرگرمیوں کو جواز مل سکے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جیسی ہستی کے بارے میں یہ بات انتہائی بدگمانی پر مبنی ہے کہ آپ مسلمانوں میں نہایت ہی مبارک اتحاد ہوتا دیکھ کر دوبارہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائیں ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے پورے دور میں جو طرز عمل رکھا ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی دل و جان سے قدر کرتے تھے ۔ اس کا اندازہ الاخبار الطوال کی اس روایت سے ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ ’’الاخبار الطوال‘‘کسی نامعلوم شیعہ مصنف کی کتاب ہے اور غلط طور پر ابو حنیفہ الدینوری سے منسوب ہے : (صلح کے بعد) حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ملاقات سب سے پہلے حجر بن عدی سے ہوئی ۔ اس نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو ان کے اس فعل (صلح) پر شرم دلائی اور دعوت دی کہ وہ (حضرت معاویہ سے) دوبارہ جنگ شروع کریں اور کہا : "اے رسول اللہ کے بیٹے! کاش کہ میں یہ واقعہ دیکھنے سے پہلے مرجاتا ۔ آپ نے ہمیں انصاف سے نکال کر ظلم میں مبتلا کر دیا۔ ہم جس حق پر قائم تھے، ہم نے وہ چھوڑ دیا اور جس باطل سے بھاگ رہے تھے، اس میں جا گھسے۔ ہم نے خود ذلت اختیار کر لی اور اس پستی کو قبول کر لیا جو ہمارے لائق نہ تھی ۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو حجر بن عدی کی یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے فرمایا : ’’میں دیکھتا ہوں کہ لوگ صلح کی طرف مائل ہیں اور جنگ سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کیوں اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میں لوگوں پر وہ چیز مسلط کروں جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔ میں نے خاص طور پر اپنے شیعوں کی بقا کے لیے یہ صلح کی ہے۔ میری رائے کہ جنگوں کے اس معاملے کو مرتے دم تک ملتوی کر دیا جائے۔ یقیناً اللہ ہر روز نئی شان میں ہوتا ہے ۔ اب حجر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، ان کے ساتھ عبیدہ بن عمرو بھی تھے ۔ یہ دونوں کہنے لگے: "ابو عبداللہ! آپ نے عزت کے بدلے ذلت خرید لی۔ زیادہ کو چھوڑ کر کم کو قبول کر لیا ۔ آج ہماری بات مان لیجیے، پھر عمر بھر نہ مانیے گا ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی صلح پر چھوڑ دیجیئے اور کوفہ وغیرہ کے باشندوں میں سے اپنے شیعہ کو جمع کر لیجیئے ۔ یہ معاملہ میرے اور میرے ساتھیوں کے سپر د کر دیجیئے ۔ ہند کے بیٹے (معاویہ) کو ہمارا علم اس وقت ہو گا جب ہم تلواروں کے ذریعے اس کے خلاف جنگ کر رہے ہوں گے ۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : "ہم بیعت کر چکے اور معاہدہ کر چکے ۔ اب اسے توڑنے کا کوئی راستہ نہیں۔” (الاخبار الطوال۔ ص 233-234،چشتی) ۔ اسی روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی صلح چاہتے تھے۔ بعد میں بھی پورے بیس برس ان کے تعلقات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہت اچھے رہے ۔
(1) جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193،چشتی)
(2) حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)
(3) اہل تشیع کے بڑے عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : معاویہ دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے دس دس لاکھ درہم بطور عطیہ دیئے ۔ ان کا بیٹا یزید پہلا آدمی تھا جس نے ان عطیات کو دوگنا کیا ۔ حضرت علی کے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو ہر سال دس دس لاکھ درہم دیئے جاتے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کو بھی دیئے جاتے ۔ (ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ)
(4) جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477،چشتی)
(5) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس سے انکار نہیں ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے۔( ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر)
(6) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ وہ قیصر روم کو خوفزدہ رکھنے کے لیے ہر سال دو مہمات ترکی کی جانب روانہ کرتے تھے ۔ یہ سردی اور گرمی کی مہمات کہلاتی تھیں اور طبری نے ہر سال کے باب میں ان کی تفصیل بیان کی ہے ۔ آپ نے ایک مہم قیصر کے دار الحکومت قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی جانب روانہ کی ۔ اس لشکر میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477) ۔ بزرگ صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی اسی لشکر کا حصہ تھے اور ان کی وفات قسطنطنیہ ہی میں ہوئی جہاں ان کی قبر آج تک موجود ہے ۔ اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دل و جان سے جائز حکمران تصور نہ کرتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ ہر سال ان کے مہمان بنتے اور ان کے دیے گئے تحفوں کو قبول کرتے ۔
یہاں ہم اس روایت کا جائزہ پیش کریں گے جو طبری نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق نقل کی ہے : قال زياد بن عبد الله، عن عوانة؛ وذكر نحو حديث المسروقي، عن عثمان بن عبد الرحمن هذا، وزاد فيه : حسن نے حسین اور عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہم) سے ذکر کیا کہ میں معاویہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ لکھ چکا ہوں اور ان کی دی گئی امان کو تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ کہنے لگے : ’’میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ معاویہ کی بات کی تصدیق اور علی کی بات کی تکذیب نہ کیجیے ۔‘‘ حسن نے جواب دیا : ’’خاموش رہیئے ، میں آپ سے بہتر اس بات کو جانتا ہوں ۔‘‘( طبری۔ 4/1-25)
سند کو دیکھیئے تو اس میں عوانہ کلبی (d. 147/765)موجود ہیں جو ہشام کلبی کے استاذ ہیں ۔ دوسرے صاحب زیاد بن عبداللہ (d. 183/799) ہیں جو کہ ضعیف تھے۔ تیسرے صاحب عثمان بن عبد الرحمن الحرانی ہیں (d. 203/819) جو کہ خود تو اگرچہ سچے آدمی ہیں مگر ضعیف لوگوں سے بکثرت روایتیں قبول کر لیتے ہیں ۔ ( ذہبی۔ سیر الاعلام النبلا۔ شخصیت نمبر 2143, 3714, 4372 )۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا راوی نہیں ہے جو حضرت امام حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے اتحاد (41/662) کا عینی شاہد ہو بلکہ یہ سب سو سال بعد کے لوگ ہیں ۔ اس وجہ سے غالب امکان یہی ہے کہ سند کے نامعلوم راویوں میں سے کوئی باغی راوی موجود ہے جس نے اپنی بغاوت کو جسٹی فائی کرنے کے لیئے اپنے الفاظ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔
کیا حضرت معاویہ رضی اللہ نے معاہدے کی شرائط پوری نہ کیں ؟
حضرت امام حسن و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کی صلح کے معاہدے کو بیان کرتے ہوئے طبری نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق حضرت معاویہ رضٰ اللہ عنہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاہدے کی شرائط کو پورا نہ کیا ۔ روایت کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو ایک سادہ کاغذ پر دستخط کر کے بھجوا دیا اور کہا کہ آپ جو جی چاہے ، لکھ لیجیے ۔ دوسری طرف حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپنی شرائط پہلے ہی لکھ کر انہیں بھجوا چکے تھے ۔ جب انہیں سادہ کاغذ ملا ، تو انہوں نے اس پر مزید شرائط لکھ کر اپنے پاس رکھ لیں اور بعد میں ان کا مطالبہ کیا لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان بعد میں لکھی گئی شرائط کو پورا نہیں کیا ۔ اگر ایسا ہوا بھی ہو تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ انہی شرائط کو پورا کرنے کے پابند تھے جو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے انہیں بھجوا دی تھیں اور جن پر فریقین کا معاہدہ ہوا تھا ۔ تاہم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم ، تدبر ، مروت اور کشادہ دلی کو مدنظر رکھا جائے تو یہ واقعہ بھی بے سروپا نظر آتا ہے ۔
یہ واقعہ جس سند سے روایت ہوا ہے ، سند یہ ہے : حدثني عبد الله بن أحمد المروزي، قال: أخبرني أبي، قال: حدثنا سليمان، قال: حدثني عبد الله، عن يونس، عن الزهري ۔ یہ سند ابن شہاب الزہری (58-124/58-124) سے شروع ہوتی ہے جو اس واقعہ کے سترہ برس بعد پیدا ہوئے ۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے کس شخص سے یہ بات سنی ۔ عین ممکن ہے کہ وہ نامعلوم شخص باغی تحریک کا رکن رہا ہو ۔ پھر زہری سے اس روایت کو یونس بن یزید ایلی بیان کرتے ہیں جو کہ ناقابل اعتماد ہیں اور زہری سے ایسی باتیں روایت کرتے ہیں جو اور کوئی نہیں کرتا ہے۔
باغیوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے انتقام کیسے لیا ؟
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے اتحاد کر کے چونکہ باغی تحریک کی لٹیا ہی ڈبو دی تھی ، اس وجہ سے ان کے دل میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے لیئے بہت بغض تھا ۔ اس موقع پر انہوں نے آپ کو ’’یا مذل المومنین‘‘ یعنی اے مومنین کو ذلیل کرنے والے کہہ کر پکارا ۔ بعد میں ان کی طرح طرح سے کردار کشی کی گئی اور انہیں معاذ اللہ راسپوٹین جیسا کردار ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ کہا گیا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے سو سے زائد شادیاں کیں ۔ کسی خاتون سے شادی کرتے اور چند دن بعد اسے طلاق دے دیتے اور پھر کسی اور سے نکاح کر لیتے ۔ یہ ایسی گھناؤنی تہمت ہے جسے قرآن مجید کے حکم کے مطابق سنتے ہی مسترد کر دیا جانا چاہیے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : لَوْلا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْراً وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ . ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب انہوں نے یہ بات سنی تھی، تو مومن مرد و عورت اپنے دل میں اچھا گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو کھلی تہمت ہے۔ (النور 24:12)
افسوس کہ روایت پرستی کے سبب بعض لوگ اس تہمت پر یقین کرتے ہیں، اس وجہ سے مناسب ہو گا کہ ان روایات کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے کثیر النکاح ہونے سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں، وہ سب انہی واقدی، ہشام کلبی اور ابن جعدبہ سے مروی ہیں۔( مزید تحقیق کے لیے دیکھیے: علی محمد محمد الصلابی۔ امیر المومنین الحسن بن علی بن ابی طالب: شخصیتہ و عصرہ۔ ص 27-28۔ قاہرہ: دار التوزیع) ۔ یہ روایات بھی حدیث یا تاریخ کی کسی مستند کتاب میں نہیں بلکہ ابن ابی الحدید ، ابو طالب مکی وغیرہ نے نقل کی ہیں۔ عرب عالم ڈاکٹر صلابی نے نہایت تفصیل کے ساتھ ان روایات کا تجزیہ کر کے ان کا ضعف بیان کیا ہے۔ یہاں ہم یہ اسناد درج کر رہے ہیں : روى المدائني عن أبن جعدبة عن ابن أبي مليكة ، عن محمد بن عمر (الواقدي) أنبأنا عبد الرحمن بن أبي الموال ،م عن محمد بن عمر حدثنا عبد الله بن جعفر، عن عبد الله بن حسن قال ، حدثني عباس بن هشام الكلبي عن أبيه عن جده عن أبي صالح
آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ روایتیں بیان کرنے والے کون لوگ ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی کردار کشی کی ، ویسے ہی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی کردار کشی میں بھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔ اگر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے سو سے زائد شادیاں کی ہوتیں تو ان کی اولاد کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہونی چاہیئے تھی جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ چند دن کے تعلق میں بھی حمل ٹھہر ہی جاتا ہے ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرات امامین حسنین رضی اللہ عنہما سے سلوک ، اس معاملے میں باغی راویوں نے کوئی ایسی روایت وضع نہیں کی ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کبھی برا سلوک کیا ہو ۔ اس کے برعکس تاریخی روایات حضرت امام حسن ، حضرت امام حسین اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات کے روشن رخ سے پر ہیں ۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امام حسین ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے ۔ ایک ہی دن میں حضرت معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193) ۔ ابو مخنف لکھتے ہیں: معاویہ ہر سال امام حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ ( ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر ، چشتی)
کیا یہ رقم سیاسی رشوت تھی ؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی رقم بطور عطیہ کیوں دی جاتی تھی ؟ بعض ناقدین اسے "سیاسی رشوت” قرار دیتے ہیں ۔ ہم اللہ تعالی سے اس بات کی پناہ مانگتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر سیاسی رشوت دینے اور حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہم پر سیاسی رشوت لینے کی تہمت لگائی جائے ۔
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ عرب معاشرے میں خاندان کے سائز کی اہمیت غیر معمولی تھی اور اسی سے سماجی رتبے کا تعین ہوتا تھا ۔ بچوں کی شادیاں جلد ہو جاتیں جس کی وجہ سے ایک ایک شخص کے پندرہ بیس بچے ہونا معمولی بات ہوتی تھی۔ 30-35 برس کی عمر میں انسان دادا اور نانا بن جاتا تھا۔ عربوں کی جوانی کی عمر بھی طویل ہوتی تھی ۔ یہ صورتحال عام تھی کہ 70-75 برس کی عمر کے لوگ جسمانی اعتبار سے اتنے فٹ ہوتے تھے کہ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر دور دراز سفر کر کے جنگوں میں قیادت کرتے ۔ ان کے بیٹے پچاس کے پیٹے میں ہوتے، پوتے تیس کے اور پڑپوتے ٹین ایجر ہونے کے دوران ہی صاحب اولاد ہوتے تھے۔ اس طرح سے ایک شخص ہی کی فیملی میں دو اڑھائی سو افراد معمول کی بات تھی۔خاندان صرف انہی افراد تک محدود نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ ڈھیروں کی تعداد میں غلام اور لونڈیاں بھی ہوتے جن کے ساتھ غلاموں والا نہیں بلکہ فیملی ممبر کا سا سلوک ہوتا۔ انہی غلاموں کو جب آزاد کر دیا جاتا تو ان کا سماجی رتبہ بلند کرنے کے لیے انہیں خاندان کا باقاعدہ حصہ قرار دے دیا جاتا۔ یہ لوگ "موالی (واحد مولی)” کہلاتے تھے۔ اس خاندان کے علاوہ معاشرے کے غرباء کی کفالت بھی انہی خاندانی سربراہوں کے ذمہ ہوتی تھی۔ طبقات ابن سعد میں ہر ہر خاندان کے مشہور لوگوں اور ان کے موالی کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔
اتنے بڑے خاندان اور دیگر غرباء کی کفالت کے لیے ظاہر ہے کہ بہت بڑی رقم کی ضرورت پڑتی ہو گی۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ سب لوگ فارغ بیٹھ کر اپنے خاندان کے سربراہ پر بوجھ بنتے تھے بلکہ یہ سب اپنی خاندانی جائیداد پر کام کرنے کے علاوہ تجارت کیا کرتے تھے۔ قومی ضروریات جیسے جنگ وغیرہ کی صورت میں خاندان کے سربراہ کا فرض تھا کہ وہ اپنے خاندان کے تندرست لوگوں کو لے کر سرکاری فوج کا حصہ بنے۔ خلفاء راشدین نے دولت کی تقسیم کا طریقہ یہ نکالا تھا کہ سرکاری آمدنی کو خاندان کے سربراہ کو دے دیا جاتا اور وہ پھر اسے اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کرتا۔ اس تقسیم میں اگر کسی کو شکایت ہوتی تو وہ براہ راست گورنر یا خلیفہ کو شکایت کر سکتا تھا۔ اس کے لیے ہر خاندان کے سربراہ کے پاس رجسٹر ہوتے تھے جن میں اہل خاندان کا اندراج ہوتا تھا۔ انہی رجسٹروں کی مدد سے ’’علم الانساب‘‘ کی کتابیں لکھی گئی ہیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی تقسیم دولت کے اس نظام کو جاری رکھا۔ آپ کے دور میں چونکہ مسلمانوں کی حکومت اس وقت کی معلوم دنیا کے ساٹھ فیصد رقبے پر پھیل گئی تھی، اس وجہ سے یہ دولت بھی بہت زیادہ ہوتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس دولت کو اکٹھا کرنے میں کسی پر ظلم کیا جاتا تھا۔ اس آمدنی کے بڑے ذرائع دو تھے: جب مسلم افواج نے قیصر و کسری اور دیگر بادشاہوں کے علاقے فتح کیے تو ان لوگوں نے جو دولت کے انبار لگا رکھے تھے، وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ یہ ان ممالک کے سرکاری خزانے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان ممالک کی سرکاری زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں۔ مسلمانوں نے ان ممالک کے باشندوں سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ زمینوں پر کام کریں اور پیداوار کا نصف یا تہائی حصہ بطور خراج سرکاری خزانے میں داخل کریں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ افغانستان سے لے کر مراکش تک کی زمینوں کی آمدنی کتنی ہو گی۔ ہر علاقے کی آمدنی کو اسی علاقے کے لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا اور اس کا ایک حصہ مرکز کو بھیجا جاتا۔ پھر یہی آمدنی مرکز کے مسلمانوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔
حضرات امامین حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے بارے میں تو یہ بات معلوم و معروف ہے کہ انہیں جو عطیات ملتے، اس میں سے بہت کم وہ اپنی ذات پر خرچ کرتے اور زیادہ تر رقم عام لوگوں کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے ۔ ان حضرات نے سیاسی معاملات سے کنارہ کشی کر کے خود کو لوگوں کی دینی تربیت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان علمی خدمات کے انجام دینے کے ساتھ ساتھ جب ضرورت پڑتی تو یہ سیاسی میدان میں بھی اتر آتے۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک بڑی مہم تیار کی جس کا مقصد قیصر روم کے دار الحکومت "قسطنطنیہ” کو فتح کرنا تھا۔ اس لشکر میں حضرت حسین ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر کے ساتھ ساتھ بزرگ صحابی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے ۔ اگرچہ قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا لیکن اس مہم سے قیصر روم پر مسلمانوں کا زبردست رعب بیٹھ گیا ۔ دوران محاصرہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ان کی وصیت کے مطابق قسطنطنیہ کی فصیل کے باہر دفن کر دیا ۔ یہ مزار آج تک استنبول میں موجود ہے ۔
محترم قارئین : اس تفصیل کو مدنظر رکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ تمام صحابہ یک جان کئی قالب تھے ۔ ان میں کوئی بغض نہیں پایا جاتا تھا اور سب أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل) کی تصویر تھے۔ غالی راویوں نے بعد میں اپنے سیاسی مقاصد کے لیئے داستانیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دیں جس سے یہ لگتا ہے کہ حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما نے بس مجبوراً حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی ورنہ معاذ اللہ ان کے دل ایک دوسرے کے لیئے بغض اور کینہ سے بھرے پڑے تھے ۔ یہ تصویر ہرگز حضرات امامین حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے شایان شان نہیں ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment