امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بغیر سمجھے باغی کہہ کر گستاخی کرنے والو کے نام
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اگر وہ مستحق لعنت ہوتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ صلح نہ کرتے اس لیئے آپ رضی اللہ عنہ پر لعنت ملامت جائز نہیں ۔ (تمہید سالمی صفحہ 372)
محترم قارئین : آج کل بعض منہاج القرآن والے رافضیوں کی بنائی ہوئی پوسٹ تمہید عبد الشکور سالمی رحمۃ اللہ علیہ کا آدھا حوالہ دے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی (بغیر مکمل تعریف پڑھے اسے چھپا لیتے ہیں) کہہ رہے ہیں اور لعنت ملامت کر رہے ہیں جبکہ امام عبد الشکور سالمی رحمۃ اللہ علیہ نے مکمل بحث کی اسباب بغاوت کی تفصیل لکھی اس کا جواب دیا یہ لوگ سب ہضم کر جاتے ہیں آدھی عبارت کا حوالہ دیتے جو امام سالمی رحمۃ اللہ علیہ نے آخری جواب دیا اس کا اصل اسکن حاضر ہے اب جس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ صلح کر لیں یہ لوگ حبِ مولا علی رضی عنہ کی آڑ میں توہین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں کر رہے بلکہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی توہین کر رہے ہیں اس لیئے کہ اگر حضرت میر معاویہ رضی اللہ عنہ مستحق لعنت ہوتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کبھی صلح نہ کرتے یہی بات ہم سمجھا رہے ہیں اور ہمارا مؤقف واضح ہے بزبان امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ :
اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں
اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار
مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار
جب حضرت مولا علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما میں صلح ہو گئی
محترم قارئین : بعض شر پسند لوگ حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والے اختلافات کو لے کر انتہائی بیہودہ گھٹیا زبان استعمال کرتے ہیں آیئے ایسے شرپسند لوگوں کے جواب میں ہم فرامین حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ پڑھتے ہیں اور ان شرپسند فتنہ بازوں کو کہتے ہیں کہ کیا تم لوگ حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ سے بڑے مفکر و عالم ہو ؟ کان کھول کر سن لو تم لوگ حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہو کہ تمہاری گھٹیا باتوں کو اہمیت دی جائے یا مان جائے ہمارے لیئے فرامین حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ کافی ہیں :
حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگو! معاویہ کی گورنری کو ناپسند نہ کرو۔ واللہ! اگر تم نے انہیں کھو دیا تو تم ضرور دیکھو گے کہ سر ، شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گر رہے ہوں گے جیسا کہ حنظل کا پھل اپنے پودے سے گرتا ہے ۔ (ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ کتاب الجمل، باب صفین۔ جلد 14)( 38850۔ ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 12/40)
حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : زید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ کے درمیان صلح ہو گئی تو علی (رضی اللہ عنہ) اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو معاف کر دیا جائے گا۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139،چشتی)
اہل تشیع کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ایک مراسلہ (Circular) نقل کیا گیا ہے جو آپ نے جنگ صفین کے بارے میں شہروں میں بھیجا۔ اس میں لکھا ہے : حضرت علی علیہ السلام کا خط، جو آپ نے شہروں کی جانب لکھا، اس میں آپ نے اپنے اور اہل صفین کے درمیان ہونے والے واقعے کو بیان فرمایا :
ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم اہل شام کے ساتھ ایک میدان میں اکٹھے ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کے معاملے میں نہ ہم ان سے بڑھ کر تھے اور نہ وہ ہم سے بڑھ کر۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔ ہم نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس کا وقتی علاج یہ کیا جائے کہ آتش جنگ کو خاموش کر دیا جائے اور لوگوں کو جذبات کو پرسکون ہو لینے دیا جائے۔ اس کے بعد جب حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور حالات سازگار ہو جائیں گے تو ہم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ حق (یعنی قصاص) کو اس کے مقام پر رکھ لیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کا علاج صرف جنگ ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ نے اپنے پاؤں پھیلا دیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ شعلے بھڑک اٹھے اور مستقل ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ جنگ نے دونوں فریقوں کو دانت سے کاٹنا شروع کر دیا ہے اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پر آمادہ ہو گئے اور میں نے بھی ان کی بات کو مان لیا اور تیزی سے بڑھ کر ان کے مطالبہ صلح کو قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ان پر حجت واضح ہو گئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہو گیا۔ اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا تو گویا اپنے آپ کو ہلاکت سے نکال لے گا ورنہ اسی گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ گردش ایام اسی کے سر پر منڈلا رہی ہو گی ۔ (سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58،چشتی)
یہ تحریر وہ خط ہے جو نہج البلاغہ کے مولف شریف رضی کے مطابق مختلف شہروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بھیجا گیا تاکہ اس جنگ سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر کو واضح کیا جا سکے ۔ انڈر لائن الفاظ سے واضح ہے کہ آپ ، اہل شام کو عین مسلمان سمجھتے تھے اور ہر حال میں صلح چاہتے تھے ۔ اس سے ابو مخنف کی ان روایات کی بھی تردید ہو جاتی ہے جن کے مطابق حضرت علی جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کے مجبور کر دینے پر وہ بادل نخواستہ جنگ بندی کے لیئے تیار ہوئے تھے ۔
فرمان مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں ان سے خطاء اجتہادی ہوئی ہم سب ساتھ ہونگے ۔ (ازالۃُ الخفاء جلد 4 صفحہ 522)
اے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہونے کے دعویدارو اے خود کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا محب کہنے والو اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والو حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں اپنا بھائی فرما رہے ہیں کیسے بد بخت ہو تم جنہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اپنا بھائی کہیں تم انہیں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہو ان سے بغض رکھتے ہو ارے نہیں نہیں بلکہ تم لوگ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو جھٹلاتے اور انہیں کی توہین کرتے ہو کچھ سوچو کیا تم لوگ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم و محقق ہو ؟ اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت اور عقل سلیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment