Wednesday 24 April 2019

کیا حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اہل بیت اطہاررضی اللہ عنہم کےدشمن تھے؟

0 comments

کیا حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اہل بیت اطہاررضی اللہ عنہم کےدشمن تھے؟

محترم قارئین : اس سوال کا جواب مسلک اہل سنت کی سینکڑوں کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اہل بیت سے سچی محبت کرتے تھے لیکن اس کا جواب ہم شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں سے دیتے ہیں :

شیعہ مولوی ملا باقر مجلسی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ وصال کے وقت یزید کو یہ وصیت فرماگئے کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ پس ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بدن کے ٹکڑے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گوشت و خون سے انہوں نے پرورش پائی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ عراق والے ان کو اپنی طرف بلائیں گے اور ان کی مدد نہ کریں گے ۔ تنہا چھوڑ دیں گے اگر ان پر قابو پالے تو ان کے حقوق کو پہچاننا ‘ ان کا مرتبہ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اس کو یاد رکھنا ‘ خبردار ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا ۔ (جلاء العیون جلد دوم صفحہ نمبر 421,422)

ایک اور شیعہ عالم ناسخ التواریخ لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے مزید کو یہ وصیت فرمائی : کہ اے بیٹا! ہوس نہ کرنا اور خبردار جب ﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو تیری گردن میں حسین بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کا خون نہ ہو ۔ ورنہ کبھی آسائش نہ دیکھے گا اور ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا ۔

محترم قارئین : غور کیجئے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ ‘ یزید کو یہ وصیت کر رہے ہیں کہ ان کی تعظیم کرنا بوقت مصیبت ان کی مدد کرنا ۔ اب اگر یزید پلید اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرے تو اس میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کا کیا قصور ؟

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یزید پلید کو کافر لکھا ہے اور اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید پلید ‘ شرابی ‘ ظالم اور امام حسین رضی ﷲ عنہ کے خون کا ذمہ دار ہے ‘ لیکن اس کے بدلے میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بدنام کرنا یہ کون سی دیانت ہے ؟

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں

ایک شخص نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس بارے میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن حضرت ابی طالب سے پوچھ لیجیئے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں ۔ اس نے کہا : امیر المومنین آپ کی رائے ، میرے نزدیک علی (رضی اللہ عنہ) کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے ۔ کیا آپ ان صاحب (حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا تھا : علی (رضی اللہ عنہ) آپ میرے لیئے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسی کے نزدیک ہارون (علیہما الصّلوۃ والسّلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170،چشتی)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار حضرت عقیل رضی اللہ عنہ ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جی کھول کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔ (ابن عساکر۔ 42/416)

جب خارجیوں نے حضرت علی و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے قتل کا منصوبہ بنایا

خارج نے حضرت مولا علی ، حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : "میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ " حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "بیان کرو ۔" کہنے لگا : " آج میرے بھائی نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا ہو گا ۔" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "کاش تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-357،چشتی)

جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)

اہل تشیع کے بڑے عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : معاویہ دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے دس دس لاکھ درہم بطور عطیہ دیئے ۔ ان کا بیٹا یزید پہلا آدمی تھا جس نے ان عطیات کو دوگنا کیا ۔ حضرت علی کے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو ہر سال دس دس لاکھ درہم دیئے جاتے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کو بھی دیئے جاتے ۔ (ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ)

جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس سے انکار نہیں ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ ( ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر)

محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار

مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار

جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 قدیم ایڈیشن)،(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔