Sunday, 21 April 2019

ام المومنین حضرت سیّدتنا ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ام المومنین حضرت سیّدتنا ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

محترم قارئین : ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اصل نام”رملہ“ تھا یہ سردارمکہ حضرت ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف کی بیٹی اور حضرت معاویہ کی بہن تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی والدہ کانام صفیہ بنت ابوالعاص بن امیہ بن عبدشمس ہے ۔ جوامیرالمومنین سیدناحضرت عثمان بن عفان بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی تھیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بعثت سے 17سال پہلے پیداہوئیں۔سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااوائل اسلام میں ایمان لے آئیں تھیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی پہلی شادی عبیداللہ بن جحش کے ساتھ ہوئی تھی۔عبیداللہ بن حجش حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حجش الہندی کابھائی تھا۔عبیداللہ بن حجش آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے ساتھ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے۔وہاں پران کی ایک بیٹی پیداہوئی۔جس کا نام”حبیبہ تھا“اسی سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ”ام حبیبہ“ہوئی ۔

ابن سعدنے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے حبشہ میں ایک رات خواب دیکھاکہ ان کے شوہرعبیداللہ بن حجش کی صورت اچانک بہت ہی بدنمااوربدشکل ہوگئی وہ اس خواب سے زیادہ گھبرائیں۔جب صبح ہوئی توانہوں نے اچانک یہ دیکھاکہ ان کے شوہرعبیداللہ بن حجش نے اسلام سے مرتدہوکرنصرانی دین قبول کرلیاہے۔سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے شوہرکواپناخواب سناکرڈرایااوراسلام کی طرف بلایامگراس بدنصیب نے اس پرکان نہیں دھرااورمرتدہونے کی حالت میں مرگیا۔ مگرسیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسلام پر ثابت قدم رہیں۔ (طبقات ابن سعد،مدارج النبوۃ،مشکوٰۃ شریف،ازواج الرسول امہات المومنین)

جب سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوان کی حالت معلوم ہوئی توقلب نازک پربے حدصدمہ گزرااورآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لئے حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حبشہ کے بادشاہ اصحمہ جن کا لقب نجاشی تھا کے پاس یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے نکاح کا پیغام دیں۔ چنانچہ نجاشی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا یہ حکم آپ کی اپنی ایک لونڈی ”ابرہہ“ کے ذریعہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں بھیجا”ابرہہ“ نے ان سے کہا کہ مجھے بادشاہ نے ”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا“کے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا یہ حکم ملا ہے کہ آپ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا نکاح کر دوں۔سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ پیغام بطیب خاطر قبول کیا اور فوراً ایک آدمی کو حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج کر ان کو اپنا وکیل مقرر کیا جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ اور ساتھ ہی ابرہہ کو یہ خوشخبری سنانے کے عوض دو کپڑے اور چاندی کی ایک انگوٹھی عطا کی پھر جب شام ہوئی تو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ان تمام مسلمانوں کو جو اس وقت حبشہ میں موجود تھے جمع ہونے کا حکم دیا جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نجاشی نے یہ خطبہ پڑھا۔
اَلْحَمْدُللّٰہِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ السَّلَامِ الْمُءْومن الْمُھَیْمِن الْعَزِیْزالَْجَبَّار اَشْھُدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہ‘وَرَسُوْلُہ‘اَرْسَلَہ‘ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِ لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ اَمَّابَعْدفَقَدْاَجَبْتَ اِلٰی مَادَعٰی اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْاَصْدَقْتُھَااَرْبَعِمَاءَۃِ دِیْنَارًاذَھَبًا۔۔۔۔۔پھر یہ الفاظ کہے بعد ازاں میں نے اس چیز کو قبول کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا ہے اور میں نے چار سو دینا رمہر مقرر کیا اس کے بعد انہوں نے وہ چار سو دینار لوگوں کے سامنے پیش کر دیئے اس کے بعد حضرت خالد بن سعیدبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ خطبہ پڑھا”اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اَحْمَدُہ‘ وَاَسْتَعِیْنُہ‘ وَاََسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَآ شَرِیْکَ لَہ‘ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدہ‘ وَرَسُوْلُہ‘ اَرْسَلَہ‘بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِ لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ اَمَّابَعْدُفَقَدْاَجَبْتَ اِلٰی مَادَعٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَزَوَّجْتُہ‘ اُمِّ حَبِیْبَہ بِنْتِ اَبِیْ سُفْیَانَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ لِرَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔۔۔۔۔۔۔پھر یہ الفاظ کہے بعد ازاں میں نے اس چیز کو قبول کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا ہے اور میں نے ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کر دیا اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نکاح مبارک کرے۔ اس ایجاب وقبول کے بعد مہر کے وہ چار سو دینار حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دیئے گئے جنہیں انہوں نے رکھ لیا پھر جب لوگوں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو نجاشی نے کہا کہ ابھی آپ لوگ بیٹھے رہیں کیونکہ نکاح کے وقت کھانا کھلانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے چنانچہ انہوں نے کھانا منگوایا اور سب لوگ کھانا کھا کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔(کذافی المواہب،مدارج النبوۃ،جلددوم)

نجاشی نے نکاح کے بعدسیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوشرحبیل ابن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔اسطرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے حرم نبوی میں داخل ہوکر”ام المومنین“کامعززلقب پایا۔یہ سن ۶ھجری کا واقعہ ہے۔اس وقت ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی عمر36سال اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی عمرمبارک59سال تھی۔(مدارج النبوۃ،جلددوم،باب دوم،درذکرامہات المومنین ازوازج مطہرات،مشکوٰۃ شریف،چشتی)

ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ وہ پہلے عبیداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں پھر جب ملک حبشہ میں عبیداللہ کا انتقال ہو گیا تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ کر دیا اور نجاشی نے سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی طرف سے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا مہر چار ہار مقرر کیا ایک اور روایت میں چار ہزار درہم کے الفاظ ہیں۔امام زہری بیان کرتے ہیں کہ نجاشی نے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ چار ہزار درہم حق مہر پر کی اور اس کی خبر بذریعہ خط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اسے قبول فرما لیا۔“ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔(سنن ابوداؤد،کتاب النکاح، نسائی شریف،مشکوۃ شریف، جلد سوم،باب مہر کا بیان، حدیث 410)

اس وقت ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے والد ابوسفیان مشرک تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے پھر بعد میں انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوا جس پر سورہ ”انا فتحنا لک فتحا مبینا“ ناطق ہے۔ لشکر اسلام مدینہ منورہ سے روانہ ہوا اس لشکر کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس سے قبل اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ عظیم الشان لشکر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح بڑھا چلا جارہا تھا جس جگہ پڑاؤ ڈالتا تھا تمام سطح زمین روپوش ہوجاتی تھی۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ دل سے چاہتے تھے کہ ابوسفیان دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے۔لہذاانہوں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں عرض کی۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!ابوسفیان ایساشخص ہے جوسرداری اورسربلندی پسندکرتاہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اس کی کمزوری کالحاظ فرمائیں۔چچاکی بات سن کرحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا”جوشخص ابوسفیان کے گھرمیں داخل ہوگیا۔اسے امان دی جائے گی اورجوشخص اپنے گھرمیں داخل ہوکردروازہ بندکرلے گااس کے لئے بھی امان ہے۔جوکعبہ میں داخل ہوگاوہ بھی مامون ہے“۔

ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جب باپ کے قبول اسلام کا علم ہوا تو بڑی مسرت ہوئی کیونکہ وہ جانتی تھیں ابوسفیان مخالفت اسلام میں کس قدر شدید تھے۔ حضرت ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ایمان لائے اور عفو نبوی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے مناظر کا مشاہدہ کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی عظمت کے دل سے قائل ہوگئے اور اپنے قلبی تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار فرمایا”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم! آج سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی ذات مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا دین میری نگاہ میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا لیکن آج آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی شخصیت اور آپ کی تعلیمات میرے نزدیک سب سے زیادہ محترم اور محبوب ہیں“۔حضرت ابو سفیان بن حرب جو مولفۃ القلوب میں سے تھے آگئے اور عرض کی”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آج آپ تمام قریش سے زیادہ تونگر ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے سنا تو تبسم فرمایا تو حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے”اس میں سے کچھ مجھے عطا فرمایئے“۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ ان کو انعام میں دو اس پر حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کی”میرے بیٹے یزید کو بھی حصہ عنایت فرمایئے“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ”چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ اور دے دو“۔حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر عرض گزار ہوئے”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میرے دوسرے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی حصہ دیجئے“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا ”چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دے دو“۔اس پر حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا”میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قربان ہوں، اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زمانہ جنگ میں بھی کریم ہیں اور زمانہ امن میں بھی بہت کریم ہیں“۔(یہ واقعہ نوازرومانی کی تصنیف ازواج الرسول امہات المومنین سے لیاگیاہے)

ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجب حریم نبوت میں داخل ہوئیں تواس زمانہ میں ان کے والدابوسفیان حالت شرک میں تھے اوررحمت عالم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے برسرپیکارتھے انکوبیٹی کے نکاح کی خبرپہنچی تواپنے جذبات اوراحساسات کااظہاران الفاظ میں کیا۔”وہ جوان مردہیں،ان کی ناک نہیں کاٹی جاسکتی“۔یعنی محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم بلندنام والے عزت دارہیں ہم ان کوذلیل نہیں کرسکتے۔ادھرہم ان سے لڑرہے ہیں اورہماری بیٹی ان کے نکاح میں چلی گئی ہے۔گویااپنی شکست کوتسلیم کرلیا۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاادب،بستررسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی حرمت۔ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابہت پاکیزہ ذات حمیدہ صفات کی جامع اورنہایت ہی بلندہمت اورسخی طبیعت کی مالک تھیں سخاوت وشجاعت دین داری اورامانت ودیانت کے ساتھ بہت ہی قوی الایمان تھیں۔سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے نکاح میں آنے کے بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت کواپنی سعادت سمجھتی تھیں۔فتح مکہ سے قبل ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے والدابوسفیان جوابھی ایمان سے مشرف نہ ہوئے تھے صلح حدیبیہ کی تجدیدکے لئے مدینہ منورہ آئے توانہوں نے سب سے پہلے اپنی بیٹی کے گھرجانے کاقصدکیا۔چنانچہ ابوسفیان آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکہ حجرہ اقدس میں آتے ہیں۔جہاں پرسرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کابسترلگاہواہے۔ابوسفیان اس بسترپربیٹھناچاہتے ہیں توان ہی کی بیٹی سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے باپ کی ذرابھی پرواہ نہیں کی اورجلدی سے بسترکوکھینچ کرکہاکہ یہ بسترنبوت ہے میں کبھی یہ گوارانہیں کرسکتی کہ ایک ناپاک مشرک اس پاک بسترپربیٹھے۔۔ابوسفیان باپ ہوکرحیران وپریشان ہوگیاکہ عرب کامہمان نوازمعاشرہ جس میں مہمان کے لئے جانیں تک قربان کردی جاتی ہیں یہاں بیٹی اپنے باپ کے ساتھ ایسی انہونی حرکت کیسے کرنے لگی؟ابوسفیان نے وجہ پوچھی توام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جواب میں فرمایاکہ بے شک آپ میرے والدماجدہونے کے ناطے قابل احترام ہیں۔لیکن یہ بسترکوئی عام بسترنہیں۔بلکہ اس پاک ہستی کاہے جس کے صدقے زمین کوبھی پاکی نصیب ہوئی ہے۔اے اباجان!آپ نے اسلام قبول نہیں کیاہے اس لئے تم ایک نجس اورمشرک انسان ہو۔میں سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے بسترکوآپ کے بیٹھنے کی وجہ سے ناپاک نہیں کرسکتی اس لئے آپ کوزمین پرہی بیٹھناہوگا۔علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کیاخوب ہی کہا۔

کی محمدﷺسے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں۔

ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے قیامت تک آنیوالی نسل انسانی کویہ پیغام دے دیاکہ!اگراس حجرہ اقدس میں آنیوالامہمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاوفادارنہیں توگھرمیں آیاہواباپ بھی قابل احترام نہیں ۔ کسی شاعرنے کیاخوب کہا،
دنیامیں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کومانتاہوں مگرمصطفیﷺکے بعد

امام زہری بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان بن حرب مدینہ آیا تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں بھی حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم مکہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ ابوسفیان نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں توسیع کے لئے گزارش کی لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکار فرما دیا، پس وہ کھڑا ہوا اور اپنی بیٹی کے پاس چلا گیا لیکن جب وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے بستر پر بیٹھنے کے لئے بڑھا تو ام المومنین سیدہ امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بیٹھنے سے پہلے ہی وہ بستر لپیٹ دیا۔ اس نے کہا، اے میری بیٹی! کیا تو اس بستر کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرتی ہے یا میری وجہ سے اس بستر سے؟ انہوں نے کہا یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا بستر ہے اور تم ایک نجس اور مشرک انسان ہو (یہ سن کر) اس نے کہا، اے میری بیٹی! البتہ میرے بعد تم شر میں مبتلا ہو گئی ہو۔“ اس حدیث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔(طبقات ابن سعد،جلد 8ص 100)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاعبادت گزارخاتون تھیں۔ہروقت ذکرالٰہی میں مشغول رہتیں۔فرائض وواجبات کی ادائیگی کے توکیاکہنے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانفلی عبادات بھی بہت زیادہ کرتیں۔ایک بارآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”جوشخص 12رکعات نفل روزانہ پڑھے گااس کے لئے جنت میں گھربنایاجائے گا۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے یہ سناتواس وقت سے لیکرآخرعمرتک کبھی بھی ان کاناغہ نہیں کیا۔ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جو مسلمان بندہ ہر روز اللہ تعالیٰ (کی رضا)کے لئے بارہ رکعات نفل پڑھے گا اس کے لئے ان کے بدلہ میں جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس دن کے بعد کبھی بھی یہ بارہ رکعات ترک نہیں کیں۔“ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کتب معتبرہ میں پینسٹھ65احادیث مبارکہ مروی ہیں۔ان میں سے دومتفق علیہ ہیں۔ایک تنہامسلم میں ہے باقی دیگرکتابوں میں مروی ہیں۔(مدارج النبوۃ،جلددوم)

سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاپاکیزہ ذات،حمیدہ صفات،جواداورعالی ہمت تھیں۔اہل سیرکہتے ہیں کہ جب ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی وفات کاوقت قریب آیاتوانہوں نے ام المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ اورام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے کہاکہ مجھے ان امورمیں معاف کردوجوایک شوہرکی بیویوں کے درمیان ہوجاتے ہیں اوراس نوع سے جوکچھ میری جانب سے تمہارے متعلق واقع ہواہواسے معاف کردو۔انہوں نے کہاکہ حق تعالیٰ آپ کوبخشے اورمعاف کرے ہم بھی معاف کرتے ہیں۔ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہااللہ تعالیٰ تمہیں خوش رکھے تم نے مجھے خوش کردیا۔(مدارج النبوۃ،جلددوم)

وصال!
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاک اوصال مدینہ طیبہ میں 14 شعبان المعظم مشہور قول کے مطابق 44 ھجری میں ہوا۔اورجنت البقیع میں ازاوج مطہرات کے خطیرہ میں مدفون ہیں۔(زرقانی،جلد۳،ص242تا245،مدارج النبوۃ، جلد2 صفحہ481,482،چشتی)ایک قول کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاوصال شام میں ہوا۔(مدارج النبوۃ،جلددوم)

ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاایک باوقارسردارمکہ کی لخت جگر تھیں ۔ شہزادی تھیں حسن وجمال میں اپنی مثال آپ تھیں۔سردارمکہ کی شہزادی ہوکر اپنے آرام وسکون،عزت واقتدار،شوکت وحشمت سمیت سب کچھ اسلام پرقربان کرڈالا۔ایمان کومضبوطی سے تھامے رکھ کرتاریخ اسلام کاایک لازوال کرداربن گئیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے صبرواستقلال کی ایک روشن مثال سے تاریخ کے ورق جگمگااُٹھے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ انسان کودنیامیں جتنی بھی نعمتیں ملی ہیں ان میں سب سے مقدم اورقیمتی نعمت ایمان ہے کیونکہ جسے ایمان کی نعمت مل جائے گویااُسے ساری کائنات کی نعمتیں مل گئیں۔سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی عزت وناموس اوردین اسلام کی سربلندی کی خاطراپناتن من دھن سب کچھ قربان کردیناچاہیے۔کیونکہ دنیاکی نعمتیں،عزتیں اورجوکچھ بھی ہمیں ملاہے صدقہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاہے ۔ اس لئے عشق ِ سرکارصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی اک شمع جلالودل میں بعدمرنے کی لحدمیں بھی اُجالاہوگا۔

محترم قارئین : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی ذات مبارکہ ہمارے ایمان کامرکزمحوراورحقیقی اساس ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی ذات گرامیِ وجہ تخلیق کائنات اوردین کی اساس ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام علہیم السّلام کی تعظیم وتوقیربجالاناہرمسلمان پرفرض ہے۔ دین اسلام میں منصب رسالت کومرکزی حیثیت حاصل ہے۔ منصب رسالت کی یہی مرکزیت اس امرکی متقاضی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی ذات گرامی ہر مسلمان کے لئے تمام محبتوں اورالفتوں کامرکزومحورقرارپائے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی محبت کے بغیرہماراایمان نامکمل ہے۔امتِ مسلمہ کی بقاء وسلامتی اورترقی کارازہی اسی امرپرمنحصر ہے ۔

آج کے پُرفتن دورمیں ایک بہت بڑی سازش کے تحت یہودونصاری جوازل سے دین ِ اسلام اورمسلمانوں کے دشمن آرہے ہیں۔مسلمانوں کے جذبات ایمانی کوڈھیرکرنے اورامت مسلمہ کے دلوں سے روح ِ محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کونکالنے کی کوششیں کررہے ہیں۔کیونکہ دشمنانِ اسلام پریہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ اگرمسلمانوں کوشکست دینی ہے توان کے دلوں سے روحِ محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم (العیاذباللہ) کونکالناہوگا ۔ کیونکہ مسلمانوں کو یہی نسبت رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے محبت کی قوت ان کوکسی میدان میں گرنے اورمرنے نہیں دیتی ۔ اب امت مسلمہ کومتحد ہوکریہودونصاری کے ناپاک عزائم کوخاک میں ملانا ہوگا اورعزت وناموس مصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاہرصورت دفاع کرنے کے لئے اپنا تن من دھن قربان کرناہوگا ۔ )طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...