کسی کا مذاق اڑانا ، نام بگاڑنا اور برے القابات سے پکارنا حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : کسی کی تحقیر کرنے اور اذیت پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ایسے لقب سے منسوب کیا جائے جس سے اسے تکلیف یا اذیت پہنچے۔ مثال کے طور پر کسی کو لنگڑا یا لولا کہہ کر اسے دکھ پہنچایا جائے ۔ اس روئیے سے تعلقات متاثر ہوتے اور تلخی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اگر مخاطب کمزور ہو تو نتیجہ اس کی دل آزاری اور نفسیاتی اذیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ دوسری جانب اگر مخاطب طاقتور ہو تو وہ بھی اسی قسم کے القابات سے بولنے والے کو نوازتا ہے اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی بنا پر مہذب معاشروں میں اس قسم کا رویہ قابلِ مذمت ہوتا ہے ۔ اس اخلاقی قباحت کی بنا پر اس روئیے کی قرآن و حدیث میں سختی سے مذمت کی گئی ہے ۔ برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ۔ کسی کا نام بگاڑنا یعنی ایسے نام سے پکارنا جو اسے بُرا لگتا ہو مثلاً لمبُو ، کالُو ، موٹُو وغیرہ کہنا گناہ ہے ۔ کسی مسلمان کو بُرے لقب سے پکارنا قرآن مجید کی آیت کی رو سے حرام اور سخت گناہ ہے ۔ بلا وجہ شرعی کسی بھی شخص کو بُرا بھلا کہنا جو اس کے دل شکنی کا باعث بنے حرام ہے ۔ اللہ عزوجل نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے قرآنِ کریم میں ہے : وَ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ ۔ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 11)
اس آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے ۔ لہٰذا دوسروں کا نام بگاڑنے سے بچئے! اور جو بگاڑتا ہے اسے نرمی سے منع کیجیے ۔ نقلیں اتارنا : کسی کے چلنے ، بات کرنےیا پھر ہاتھ وغیرہ ہلانے کا طریقہ دیکھ کر بعض بچےاس کے سامنے اس کی نقل اتارتے ہیں جس سے سامنے والے کا دل دُکھتا اور اسے اذِیّت ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے مسلمان کو تکلیف دی گویا اس نے مجھے تکلیف دی او رجس نے مجھے تکلیف دی گویا اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کوتکلیف دی ۔ (معجمِ اوسط،ج2،ص386 ،حدیث: 3607)
لہٰذا دوسروں کی نقلیں اتارنے سے بچیے ۔ دوسروں سے مانگ کر چیز کھانا : بعض بچوں میں ایک بری عادت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے مانگ کر چیزیں کھاتے ہیں جو کہ اچھی عادت نہیں ہے اس سے ان کا وقار (Image) بھی خراب ہوتا ہے اور اس بری عادت کی وجہ سے دوسرے بچے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا بھی پسند نہیں کرتے ۔ ایسے بچوں کو چاہیے کہ کھانے کی چیزیں اپنے گھر سے لے کر جائیں اور دوسروں سے مانگ کرمت کھائیں ۔
برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے : مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا ۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو ۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121،چشتی)
تفسیر الطبرى میں ہے کہ " و الذی هو أولى الأقوال فی تأويل ذلك عندی بالصواب أن يقال : إن الله تعالى ذكره نهى المؤمنين أن يتنابزوا بالألقاب و التنابز بالألقاب : هو دعاء المرء صاحبه بما يكرهه من اسم أو صفة ، و عمّ الله بنهية ذلك ، و لم يخصص به بعض الألقاب دون بعض ، فغير جائز لأحد من المسلمين أن ينبز أخاه باسم يكرهه ، أو صفة يكرهها و إذا كان ذلك كذلك صحت الأقوال التی قالها أهل التأويل فی ذلك التی ذكرناها كلها ، و لم يكن بعض ذلك أولى بالصواب من بعض ، لأن كلّ ذلك مما نهى الله المسلمين أن ينبز بعضهم بعضًا " اھ ۔ (تفسیر طبری ج 22 ص 302 )
فتاوی رضویہ میں ہے کہ : کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو اسے ایذاء پہنچے شرعاً ناجائز و حرام ہے اگرچہ بار فی نفسہ سچی ہو " فان كل حق صدق و ليس كل صدق حقا " اھ یعنی ہر حق سچ ہے مگر ہر سچ حق نہیں ۔ ابن السنی عمیر بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من دعا رجلا بغير اسمه لعنته الملائكة فی التيسير أی بلقب يكرها لا بنحو يا عبد الله " اھ یعنی جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں تیسیر میں ہے یعنی کسی بد لقب سے جو اسے برا لگے نہ کہ اے بندہ خدا وغیرہ سے " اھ ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر جلد 2 صفحہ 416 : مکتبہ امام شافعی ریاض،چشتی)
طبرانی معجم اوسط میں بسند حسن انس رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من أذا مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذای الله " اھ یعنی جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی " اھ ۔ (المعجم الاوسط جلد 4 صفحہ 373 رقم حدیث نمبر 3632 مکتبہ المعارف ریاض)
بحر الرائق و در مختار میں ہے کہ : فى القنية : قال ليهودى او مجوسى يا كافر ياثم ان شق عليه و مقتضاه ان يعزر لارتكابه الاثم " اھ ، یعنی جس نے کسی ذمی یہودی یا مجوسی سے کہا اے کافر اور یہ بات اسے گراں گزری تو کہنے والا گہنگار ہوگا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے تعزیر کی جائے گی " اھ ۔ (در مختار جلد 1 صفحہ 329 کتاب الحدود باب التعزیر مطبوعہ مجتبائی دہلی بحوالہ فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 204 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9)
برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد سوم حدیث نمبر 977)
برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 440،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9)
برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں ہے : جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد سوم حدیث نمبر 977)
برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 440،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضرت ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہ عَنْہُ اونچا سنتے تھے ، جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ انہیں آگے بٹھاتے اور اُن کےلیے جگہ خالی کردیتے تاکہ وہ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب حاضر رہ کر کلام مبارک سن سکیں ۔ایک روز انہیں حاضری میں دیر ہوگئی اور جب مجلس شریف خوب بھر گئی اس وقت آپ تشریف لائے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں جگہ نہ پاتا تو جہاں ہوتا وہیں کھڑا رہتا ۔ لیکن حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ آئے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب بیٹھنے کےلیے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے یہ کہتے چلے کہ ’’جگہ دو جگہ‘‘ یہاں تک کہ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ اُن کے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان میں صرف ایک شخص رہ گیا ، انہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو، اس نے کہا : تمہیں جگہ مل گئی ہے اس لیے بیٹھ جاٶ ۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ غصّہ میں آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئے ۔ جب دن خوب روشن ہوا تو حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کا جسم دبا کر کہا : کون ؟ اس نے کہا : میں فلاں شخص ہوں ۔ حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی ماں کا نام لے کر کہا: فلانی کا لڑکا ۔ اس پر اس شخص نے شرم سے سرجھکالیا کیونکہ اس زمانے میں ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا ، اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔
حضر ت ضحاک رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت بنی تمیم کے ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت عمار ، حضرت خباب ، حضرت بلال ، حضرت صہیب ، حضرت سلمان اور حضرت سالم وغیرہ غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کی غُربَت دیکھ کر ان کا مذاق اُڑایا کرتے تھے ۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مرد مَردوں سے نہ ہنسیں ، یعنی مال دار غریبوں کا ، بلند نسب والے دوسرے نسب والوں کا،تندرست اپاہج کا اور آنکھ والے اس کا مذاق نہ اُڑائیں جس کی آنکھ میں عیب ہو ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے صدق اور اخلاص میں بہتر ہوں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۶۹،چشتی)
آیت کے دوسرے شانِ نزول سے معلوم ہو اکہ اگر کسی شخص میں فقر، محتاجی اور غریبی کے آثار نظر آئیں تو ان کی بنا پرا س کا مذاق نہ اڑایا جائے ، ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے کے مقابلے میں دینداری کے لحاظ سے کہیں بہتر ہو ۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ، ان کے پاس دو پُرانی چادریں ہوتی ہیں اور انہیں کوئی پناہ نہیں دیتا (لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا رتبہ ومقام یہ ہوتا ہے کہ) اگروہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں (کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ (وہ کام کر کے) ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب مناقب البراء بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ، ۵ / ۴۵۹، الحدیث: ۳۸۸۰)
حضر ت حارث بن وہب خزاعی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں جنتی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ یہ ہر وہ شخص ہے جو کمزور اور (لوگوں کی نگاہوں میں) گرا ہوا ہے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی قسم سچی کر دے گا ۔ (جامع ترمذی کتاب صفۃ جہنّم ، ۱۳-باب، ۴ / ۲۷۲، الحدیث: ۲۶۱۴،چشتی)
وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ : اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں ۔
شانِ نزول : آیت ِمبارکہ کے اس حصے کے نزول سے متعلق دو رِوایات درج ذیل ہیں : ⬇
حضر ت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ عَنْہُنَّ کے متعلق نازل ہوئی ہے ، انہوں نے حضرت ِاُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کو چھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا ۔
حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنت حُیَی رَضِیَ اللہ عَنْہَا کے حق میں اس وقت نازل ہوا جب انہیں حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک زوجۂ مُطَہَّرہ نے یہودی کی بیٹی کہا ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۶۹)
اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : اُمُّ المومنین حضرت صفیہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کو معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے انہیں یہودی کی لڑکی کہا ہے ، (اس پر انہیں رنج ہوا اور) آپ رونے لگیں ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں روتا ہوا پایا تو ارشاد فرمایا ’’ تم کیوں رو رہی ہو ؟ عرض کی : حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے مجھے یہودی کی لڑکی کہا ہے ۔ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’ تم نبی زادی ہو ، تیرے چچا نبی ہیں اور نبی کی بیوی ہو ، تو تم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے فرمایا ’’ اے حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النّبی، ۵ / ۴۷۴، الحدیث: ۳۹۲۰)
آیتِ مبارکہ میں عورتوں کا جداگانہ ذکر اس لیے کیا گیا کہ عورتوں میں ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اور اپنے آپ کو بڑاجاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے ،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (عورتوں کی ایک دوسرے سے) جائز ہنسی جس میں نہ فحش ہو نہ ایذائے مُسلم ، نہ بڑوں کی بے ادبی ، نہ چھوٹوں سے بد لحاظی ، نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع ، نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں سے جائز ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۱۹۴)
مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کےلیے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ ۱۷۳،چشتی)
کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو ، نہ اس کا مذاق اڑاٶ ، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو ۔ (جامع ترمذی کتاب البرّ والصّلۃ باب ما جاء فی المرائ ، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۲)
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا : میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی الغیبۃ ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۵)
حضرت امام حسن رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ، پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا : آؤ یہاں آؤ ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا ، اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکار پڑے گی تو وہ نا امیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا ۔ (اس طرح وہ جنت میں داخل ہو نے سے محروم رہے گا) ۔ (موسوعۃ ابن ابی دنیا، الصّمت وآداب اللّسان، باب ما نہی عنہ العباد ان یسخر... الخ، ۷ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۸۷،چشتی)
حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کسی کو ذلیل کرنے کےلیے اور اس کی تحقیر کرنے کےلیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ،کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے ، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسْخُر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے ، مگر وہ اپنی غُربَت اور مُفلسی کی وجہ سے مالداروں کے سامنے دَم نہیں مار سکتے ۔ ان مالداروں کو ہوش میں آ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان کَرتُوتوں سے توبہ کر کے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزاوار بنیں گے اور دنیا میں ان غریبوں کے آنسو قہرِ خداوندی کا سیلاب بن کر ان مالداروں کے محلات کو خَس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ ۱۷۵-۱۷۶)
یاد رہے کہ کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اسے اَذِیَّت پہنچے البتہ ایسا مذاق جوا سے خوش کر دے ، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں ،جائز ہے، بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے ، اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنتِ مُسْتحبہ ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۶ صفحہ ۴۹۳-۴۹۴،چشتی)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو ، کسی کے دل کو اَذِیَّت نہ پہنچاؤ ، حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو تمہارے لیے بھی کوئی حرج نہیں لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے ۔ (احیاء علوم الدین کتاب آفات اللّسان الآفۃ العاشرۃ المزاح جلد ۳ صفحہ ۱۵۹)
مزید فرماتے ہیں : وہ مزاح ممنوع ہے جو حد سے زیادہ کیا جائے اور ہمیشہ اسی میں مصروف رہا جائے اور جہاں تک ہمیشہ مزاح کرنے کا تعلق ہے تو اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ کھیل کود اور غیر سنجیدگی ہے ، کھیل اگرچہ (بعض صورتوں میں) جائز ہے لیکن ہمیشہ اسی کام میں لگ جانا مذموم ہے اور حد سے زیادہ مزاح کرنے میں خرابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہوجاتا ہے ، بعض اوقات دل میں بغض پیدا ہو جاتا ہے اور ہَیبَت و وقار ختم ہو جاتا ہے ، لہٰذا جو مزاح ان اُمور سے خالی ہو وہ قابلِ مذمت نہیں ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک میں بھی مزاح کرتا ہوں اور میں (خوش طبعی میں) سچی بات ہی کہتا ہوں ۔ (معجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد جلد ۱ صفحہ ۲۸۳ الحدیث : ۹۹۵)
لیکن یہ بات تو آپ کے ساتھ خاص تھی کہ مزاح بھی فرماتے اور جھوٹ بھی نہ ہوتا لیکن جہاں تک دوسرے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ مزاح اسی لیے کرتے ہیں کہ لوگوں کو ہنسائیں خواہ جس طرح بھی ہو ، اور (اس کی وعید بیان کرتے ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ایک شخص کوئی بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہم مجلس لوگوں کو ہنساتا ہے ، اس کی وجہ سے ثُرَیّا ستارے سے بھی زیادہ دور تک جہنم میں گرتا ہے ۔ (مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، ۳ / ۳۶۶ ، الحدیث : ۹۲۳۱،چشتی)(احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوش طبعی
حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ اللہ عَنْہَا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : میرے شوہر آپ کو بلا رہے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ’’ کون ، وہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے ؟ عرض کی : اللہ تعالیٰ کی قسم ! ان کی آنکھ میں سفیدی نہیں ہے ۔ ارشاد فرمایا ’’ کیوں نہیں ، بے شک اس کی آنکھ میں سفیدی ہے ۔ عرض کی : اللہ تعالیٰ کی قسم ! ایسا نہیں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیاکوئی ایسا ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو (آپ نے اس سے وہ سفیدی مراد لی تھی جو آنکھ کے سیاہ حلقے کے ارد گرد ہوتی ہے) ۔ (سبل الہدی والرشاد، جماع ابواب صفاتہ المعنویۃ الباب الثانی والعشرون فی مزاحہ... الخ، ۷ / ۱۱۴)
حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں گھلے ملے رہتے ، حتّٰی کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے ’’ ابو عمیر ! چڑیا کا کیا ہوا ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب الانبساط الی الناس، ۴ / ۱۳۴، الحدیث: ۶۱۲۹)
حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک شخض نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سواری مانگی تو ارشاد فرمایا ’’ ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے ۔ اس نے عرض کی : میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’ اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنم دیتی ہے ۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی المزاح، ۳ / ۳۹۹، الحدیث: ۱۹۹۹،چشتی)
حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا : جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہ جائے گی ۔ انہوں نے (پریشان ہو کر) عرض کی : تو پھر ان کا کیا بنے گا ؟ (حالانکہ) وہ عورت قرآن پڑھاکرتی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ : اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا ۔ (سورہ واقعہ:۳۵،۳۶)
ترجمہ : بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا ۔ تو ہم نے انہیں کنواریاں بنایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المزاح، الفصل الثانی، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۴۸۸۸)
وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ : اورآپس میں کسی کوطعنہ نہ دو ۔ یعنی قول یا اشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگاٶ کیونکہ مومن ایک جان کی طرح ہے جب کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجائے گا ۔ (تفسیر روح المعانی، الحجرات الآیۃ : ۱۱ ، ۱۳ / ۴۲۴)
طعنہ دینے کی مذمت
حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہت لعن طعن کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہ ہوں گے نہ شفیع ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب النّہی عن لعن الدّواب وغیرہا، ص۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت کرنے والا ، نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے ۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی اللّعنۃ، ۳ / ۳۹۳، الحدیث: ۱۹۸۴)
وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ : اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ۔ برے نام رکھنے سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے تین قول درج ذیل ہیں : ⬇
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا نے فرمایا ’’ ایک دوسرے کے برے نام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کرلی ہو تو اسے توبہ کے بعد اس برائی سے عار دلا ئی جائے ۔ یہاں آیت میں اس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔ حدیث ِپاک میں اس عمل کی وعید بھی بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضر ت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنے بھائی کواس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا تووہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گاجب تک کہ وہ اس گناہ کا اِرتکاب نہ کر لے ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ...الخ، ۵۳-باب، ۴ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۵۱۳،چشتی)
بعض علماء نے فرمایا ’’ برے نام رکھنے سے مراد کسی مسلمان کو کتا ،یا گدھا، یا سور کہنا ہے ۔
بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ اَلقاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو (لیکن تعریف کے القاب جو سچے ہوں ممنوع نہیں ، جیسے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا لقب عتیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا فاروق اور حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا ذوالنُّورَین اور حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا ابوتُراب اور حضرت خالد رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا سَیْفُ اللہ تھا) اور جو اَلقاب گویا کہ نام بن گئے اور اَلقاب والے کو ناگوار نہیں وہ القاب بھی ممنوع نہیں ، جیسے اَعمَش اور اَعرَج وغیرہ ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۷۰)
بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ : مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے ۔ ارشاد فرمایا : مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے تو اے مسلمانو ، کسی مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر اپنے آپ کو فاسق نہ کہلاؤ اور جو لوگ ان تمام افعال سے توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۷۰)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ ‘‘ اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے
(1) ۔ مسلمانوں کی کوئی قوم ذلیل نہیں ،ہر مومن عزت والا ہے ۔
(2) ۔ عظمت کا دار و مدار محض نسب پر نہیں تقویٰ و پرہیز گاری پر ہے ۔
(3) ۔ مسلمان بھائی کو نسبی طعنہ دینا حرام اور مشرکوں کا طریقہ ہے آج کل یہ بیماری مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی ہے۔ نسبی طعنہ کی بیماری عورتوں میں زیادہ ہے ، انہیں اس آیت سے سبق لینا چاہیے نہ معلوم بارگاہِ الٰہی میں کون کس سے بہتر ہو ۔
بہت سے لوگ زیادہ تر اپنے دوستوں کو برے ناموں سے پکارتے ہے ، اور یقیناً ایسا کرنے سے ہر کسی کا دل دکھتا ہے اپ خود اپنے ساتھ سوچو اگر کوئی آپ کو آپ کے نام کے علاوہ کسی اور نام سے پکارتے ہے تو اپ خود کیسے react کرتے ہیں ، ہر کسی کو برا لگتا ہے ۔ تو ہمیں چاہیے کہ ایسا نہ کرے اور اگر اب تک کرتے آرہے ہیں تو ان دوستوں سے معافی مانگے کیونکہ یہ ایک گنا ہے اور آئندہ سے لوگو کو اچھے اچھے القابات اور ناموں سے پکارے ۔
اللہ ہم کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment