کسی کا مذاق اڑانا ، نام بگاڑنا اور برے القابات سے پکارنا حصّہ دوم
افسوس ! آج کل یہ بَلا بھی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے ، آدمی کا اَصْل نام بہت اچھا ہوتا ہے ، پھر لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کو بُرے ناموں سے پُکارتے ہیں ۔ جس کا جو نام ہو ، اس کو اُسی نام سے پُکارنا چاہیے ، اپنی طرف سے کسی کا اُلٹا نام مثلاً لمبو ، ٹھنگو وغیرہ نہ رکھا جائے ، عموماً اس طرح کے ناموں سے سامنے والی کی دِل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چِڑتا بھی ہے ، اس کے باوُجُود پُکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کےلیے اسی الٹے نام سے پُکارتا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : کسی مسلمان بلکہ کافِر ذِمّی کو بھی شرعی حاجت کے بغیر ایسے الفاظ سے پُکارنا جس سے اس کی دِل شکنی ہو ، اُسے ایذا پہنچے ، شرعاً ناجائِز و حرام ہے ، اگرچہ بات فِیْ نَفْسِہٖ سچی ہو ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 204)
مثلاً کسی کا رنگ واقعی کالا ہے ، اس کے باوُجُود اسے کالو کہہ کر پُکارنے سے اس کی دِل آزاری ہوتی ہے تو اسے یُوں پُکارنا ناجائِز و حرام ہی رہے گا ۔
حضرت عُمیر بن سعد رَضِیَ اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی کو اس کے نام کے عِلاوہ نام (یعنی بُرے لقب سے) بُلایا ، اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں ۔ (جامع صغیر صفحہ 525 حدیث نمبر 8666)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدتَرین جھوٹ ہے ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، صفحہ:994، حدیث:2563،چشتی)
(1) : جس کے بارے میں بدگمانی کی، اگر اس کے سامنے اس کا اظہار بھی کر دیا تو اس کی دِل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دِل آزاری حرام ہے ۔ (2) : اگر مسلمان کے سامنے اس کے متعلق بدگمانی کا اظہار نہ کیا ، بلکہ اس کی پیٹھ پیچھے کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا بھی حرام ہے ۔ (3) : بدگمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ سامنے والے کےعیب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیب تلاش کرنا بھی گُنَاہ ہے ۔ (4) : بدگمانی کی ہلاکت میں سے یہ بھی ہے کہ بدگمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک باطنی امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ (5) : بدگمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دُشمنی پیدا ہو جاتی ہے ، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتی ہیں ، شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے ، بدگمانی کی وجہ سے بات بات پر آپس میں لڑائی رہنے لگتی ہے اور بالآخر بعض دفعہ طلاق کی نوبت بھی آجاتی ہے ۔ بدگمانی کی وجہ سے بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اُجڑ کر رہ جاتا ہے ۔ (6) : دوسروں کےلیے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کےلیے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ 86 فیصد بڑھ جاتا ہے ۔
ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے ، اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعاً ناجائز ہے ۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں ۔ ان میں ایک مذاق اڑانا ہے ۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے ۔ اس تضحیک آمیز رویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکلتے ہیں ۔ چنانچہ باہمی کدورتیں ، رنجشیں ، لڑائی جھگڑا ، انتقامی سوچ ، بد گمانی ، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص اللہ عزوجل کی رحمت سے محروم ہو کر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ہے ۔ اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہو جاتا ہے ۔
اسلام نے مسلمانوں کوایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے ، عیب جوئی کرنے ، طعنہ دینے اور برے القاب سے پکارنے سے منع کیا ہے ۔ یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے خصوصی احکامات سورة الحجرات میں واضح طور پر بیان فرمائے ہیں ۔ اے ایمان والو ! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو ، ایمان کے بعد فاسق کہلانا برا نام ہے اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر11)
مذاق اڑانے کا مفہوم
امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : تمسخر کرنے یا مذاق اڑانے کے معنی ہیں کہ اہانت و تحقیر کے ارادے سے کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے ۔ (احیاءالعلوم جلد 3 صفحہ 207)
مذاق کسی متعین فرد یا گروہ کے متعلق کیا جا رہا ہو یعنی یہ مخصوص ہو اور عام نہ ہو ۔ اگر مذاق کرنے والے کا مقصد کسی مخصوص شخص یا قوم کی توہین کرنا یا اسے کمتر ثابت کرنا یا اسے بدنام کرنا ہو یا پھر یہ مذاق اس متعلقہ شخص کو برا لگے ۔ ان دو میں سے کوئی ایک بات بھی پوری ہو رہی ہو تو بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا ۔
مذاق اڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کےلیے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاءرسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ 173)
تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے ۔ اسی لیے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہو گی ۔ (صحیح بخاری / 440)
مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کار فرما ہے اور تکبر کے متعلق قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے ۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ (صحیح مسلم ، 266)
مذاق اڑانے کا نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری اور ایذا رسانی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اس ایذا رسانی کی مذمت ان الفاظ میں کی گئی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان تکلیف نہ اٹھائیں ۔ (صحیح بخاری : 10)
امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (سنن ابی داﺅد، کتاب الادب، حدیث :4875،چشتی)
حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کسی کو ذلیل کرنے کےلئے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، نقل اتارنا ، طعنہ مارنا ، عار دلانا ، اس پر ہنسنا یا اس کو برے برے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عرفی شرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں ۔ محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسخر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ، کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسخر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزا وار بنیں گے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ 175 ، 176)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی برے کام کو چھوڑ کر اس سے توبہ کر چکا ہو اور حق کی طرف رجوع کر چکا ہو ، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے پچھلے کاموں پر عار دلانے سے منع فرمایا ۔ (تفسیر جامع البیان،ج26 ،ص 172)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو اس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا (امام احمد علیہ الرحمہ نے کہا : اس سے مراد ایسا گناہ ہے جس سے وہ توبہ کر چکا ہو) تو وہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے ۔ (سنن ترمذی : 2505)
قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے : اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو ، بیشک بعض گمان گناہ ہیں اور نہ تم (کسی کے متعلق) تجسس کرو، اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو ، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ، سو تم اس کو ناپسند کرو گے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے ، بے حد رحم فرمانے والا ہے ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 12)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم گمان کرنے سے بچو کیونکہ گمان کرنا سب سے جھوٹی بات ہے اور تجسس نہ کرو اور (کسی کے حالات جاننے کےلیے) تفتیش نہ کرو اور کسی سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور نہ کسی سے بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ۔ ایک روایت میں ہے : اور کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی کو چھوڑ رکھے ۔ (صحیح بخاری : 6065)
بعض علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت میں اور مذکور الصدر حدیث میں گمان کی ممانعت سے مراد بدگمانی سے منع کرنا ہے اور کسی پر تہمت لگانے سے منع کرنا ہے۔ مثلاً کوئی شخص بغیر کسی قوی دلیل کے اور بغیر کسی سبب موجب کے یہ گمان کرے کہ وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتا ہے۔ یعنی ایسے ہی کسی کے دل میں خیال آ جائے کہ فلاں شخص فلاں برا کام کرتا ہے تو یہ بدگمانی ہے۔
نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اور تجسس نہ کرو یعنی کسی مسلمان کے عیوب اور اس کی کوتاہیوں کو تلاش نہ کرو ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کے ظاہر حال پر عمل کرو اور اس کے عیوب کو تلاش نہ کرو اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے جس مسلمان کے عیوب پر پردہ رکھا ہوا ہے اس کے پردہ کو چاک نہ کرو۔ حدیث میں ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم لوگوں کے عیوب تلاش کروگے تو تم ان کو خراب کردو گے ۔ (سنن ابو داؤد : 4888)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کے عیب پردہ رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری : 2442،چشتی)(صحیح مسلم : 695)
عام لوگوں کےلیے لوگوں کے احوال کو تلاش کرنا ممنوع ہے لیکن حکومت داخلی اور خارجی معاملات کی حفاظت کےلیے جاسوسی کا محکمہ قائم کرے تو یہ جائز ہے ۔
ملک کے داخلی معاملات کی اصلاح کےلیے جاسوس مقررکرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ، حضرت زبیر کو اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور فرمایا تم روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک باغ) میں جاؤ ، وہاں ایک مسافرہ ہو گی ، اس کے پاس ایک خط ہو گا وہ اس سے لے کر قبضہ میں کر لو ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے گئے ، ہم نے اس سے کہا کہ خط نکالو ، پہلے اس نے انکار کیا مگر ہمارے ڈرانے پر اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکالا ، ہم اس خط کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے ۔ (صحیح بخاری: 3007،صحیح مسلم:2494)
علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ اگر مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس پر تعزیر لگائی جائے گی ، اگر اس کا عذر صحیح ہو تو اس کو معاف کر دیا جائے گا ، اگر کافر مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا ۔ (عمدة القاری جلد 14 صفحہ 356)
دشمن ملک کی طرف جاسوس روانہ کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وسلم نے 10 جاسوس روانہ کیے اور حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کوان کا امیر بنایا ۔ (صحیح بخاری، حدیث 3989،چشتی)(صحیح مسلم،حدیث 1776)
حدثنا عبد الله بن إسحاق الجوهري البصري، حدثنا ابو زيد صاحب الهروي، عن شعبة، عن داود بن ابي هند، قال: سمعت الشعبي يحدث، عن ابي جبيرة بن الضحاك، قال: كان الرجل منا يكون له الاسمين والثلاثة فيدعى ببعضها، فعسى ان يكره، قال: فنزلت هذه الآية: ولا تنابزوا بالالقاب سورة الحجرات آية 11 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ابو جبيرة هو اخو ثابت بن الضحاك بن خليفة انصاري، وابو زيد سعيد بن الربيع صاحب الهروي بصري ثقة ۔
ترجمہ : ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہوا کرتے تھے ، ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکارا جاتا تھا ، اور بعض نام سے پکارنا اسے برا لگتا تھا ، اس پر یہ آیت «ولا تنابزوا بالألقاب» لوگوں کو برے القاب (برے ناموں) سے نہ پکارو ۔ (الحجرات: ۱۱) ، نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ابوجبیرہ ، یہ ثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری کے بھائی ہیں، اور ابوزید سعید بن الربیع صاحب الہروی بصرہ کے رہنے والے ثقہ (معتبر) شخص ہیں ۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر 3268 كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب وَمِنْ سُورَةِ الْحُجُرَات)(سنن ابی داود/ الأدب 71 حدیث 4962)
جامع الترمذي 3268 أبو جبيرة بن الضحاك يدعى ببعضها فعسى أن يكره نزلت هذه الآية ولا تنابزوا بالألقاب ۔
سنن أبي داود 4962 أبو جبيرة بن الضحاك يا فلان فيقولون مه يا رسول الله إنه يغضب من هذا الاسم أنزلت هذه الآية ولا تنابزوا بالألقاب ۔
سنن ابن ماجه 3741 أبو جبيرة بن الضحاك دعاهم ببعض تلك الأسماء فيقال يا رسول الله إنه يغضب من هذا نزلت ولا تنابزوا بالألقاب ۔
ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو ، تین تین نام تھے ، بسا اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے ، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے ، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : «ولا تنابزوا بالألقاب» ” کسی کو برے القاب سے نہ پکارو ۔ (سنن ابن ماجه/كتاب الأدب حدیث : 3741،چشتی)
کسی کو ایسے نام یا لقب سے نہیں پکارنا چاہیے جو اسے نا گوار ہو ۔ مسلمان کو دوسرے مسلمان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور بلا وجہ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کے جذبات مجروح ہوں ۔ معلوم ہوا ہے کہ برے برے لقب یا نام رکھنا حرام اور ناجائز ہے ۔ برے القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسےلقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو ناحق تکلیف پہنچے یا کوئی ایسا نام یا لقب استعمال کرنا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی ہو ۔ برے لقب سے موسوم کرنے کےلیے درج ذیل میں سے کسی ایک شرط کا پورا ہونا لازمی ہے : لقب کو کسی شخص کو اذیت دینے کی نیت سے موسوم کرنا یا کسی کو اس لقب سے ناحق اذیت ہو یا لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزوں ہو ۔ کسی نام سے منسوب کرنے کی تین شرائط میں سے کوئی ایک بھی پوری ہو جائے تو یہ گناہ سرزد ہو جائے گا ۔
پہلی شرط یہ ہے کہ کسی کو نام سے منسوب کیا جائے اور اس کا مقصد اس شخص کی تحقیر و تذلیل کرکے اس کو اذیت دینا ہو ۔ مثال کے طور پر بکر نے زید کو اس کی پست قامتی کا احساس دلانے کےلیے اور اسے اذیت پہنچانے کےلیے جملہ کہا ” اور بونے صاحب ! کہاں چل دیے ۔ یہاں بونے صاحب کہنے کا مقصد چونکہ ایذا رسانی اور تنگ کرنا ہے اس لیے یہ برے لقب سے منسوب کرنے کا عمل ہے ۔
دوسر ی شرط یہ ہے کہ لقب سے کسی کو ناحق اذیت پہنچے ۔ یعنی کہنے والے کی نیت تو اذیت پہنچانے کی نہیں تھی لیکن سننے والے کو یہ لقب جائز طور پر برا لگا ۔ مثلا زید نے بکر سے کہا او ملا جی ! کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے ؟ الیاس کا مقصد ایذا پہنچانا نہیں تھا لیکن غفار کو ملا کے نام منسوب ہونا برا لگا تو یہ بھی ممنوع ہے ۔
تیسری شرط یہ ہے لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزو ں اور غیر اخلاقی ہو ۔ مثال کے طور پر زید نے بکر سے بے تکلفی میں کہا ” او کمینے ! بات تو مکمل کرنے دے ، پھر اپنی کہنا ۔ یہ سن کر بکر ہنسنے لگا ۔ یہاں زید نے بے تکلفی میں جملہ کہا اور بکر نے بھی مائنڈ نہ کیا یعنی اوپر بیان کی گئی دونوں شرائط پوری نہیں ہو رہی ہیں لیکن کمینہ کہنا ایک غیر اخلاقی لقب ہے جس سے احتراز لازمی ہے ۔
ہر سوسائٹی میں عرفیت کا رواج ہوتا ہے یا پھر لوگوں کو اس کی کسی علامت کی بنا پر مشہور کر دیا جاتا ہے جیسے کسی کو لنگڑا ، چھوٹو ، موٹو ، کانا ، چندا ، کلو ، لمبو وغیرہ کہنا یا پپو ، گڈو ، منا ، چنا ، بے بی ، گڈی ، گڑیا ، چنی وغیرہ کے نام سے منسوب کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان ناموں سے منسوب کرنا کیسا ہے ؟
اگر ان ناموں میں کوئی اخلاقی و شرعی قباحت نہیں اور ان میں ایذا کا کوئی پہلو موجود نہیں تو اس طرح مخاطب کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے افراد جب بچپن کی حدود سے نکلتے اور پختگی کی جانب مائل ہوتے ہیں تو انہیں ان ناموں سے مخاطب ہونا اچھا نہیں لگتا ۔ خاص طور پر ایسےافراد اجنبی لوگوں کے سامنے ان ناموں کو پسند نہیں کرتے جو ان کی عرفیت سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس صورت میں انہیں ان کے اصل نام ہی سے پکارنے میں عافیت ہے بلکہ اصل نام سے مخاطب کرنے میں اس قسم کے لوگ بالعموم بڑی عزت محسوس کرتے ہیں ۔ دوسری جانب کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو عزت دینے ، اس کا رتبہ بڑھانے یا بیان کرنے یا اسے عزت و توقیر کےلیے دیے جاتے ہیں ۔ جیسے فاروق ، صدیق ، غنی ، قائد اعظم ، علامہ وغیر ۔ ان میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ۔
عام طور پر ہمارے معاشرے میں درج ذیل بنیادوں پر القاب استعمال ہوتے ہیں : ⬇
1 ۔ جسمانی بنیادوں پر القاب جیسے چھوٹو ، موٹو ، ٹھنگو ، لمبو ، کلو ، چٹا ، منا ، کبڑا ، لنگڑا ، ٹنٹا ، اندھا ، کانا وغیر کہنا ۔
2 ۔ مذہبی حوالے سے القابات جن میں منافق ، فاسق ، کافر ، بنیاد پرست ، یہودی ، نصرانی ، مشرک ، بدعتی ، وہابی وغیرہ شامل ہیں ۔
3 ۔ قومیت کی بناد پر القاب میں پناہ گیر ، مکڑ ، پینڈو ، چوپایا ، اخروٹ ، ڈھگا ، بھاٶ غیرہ مشہور ہیں ۔
4 ۔ جنسی بے راہروی کی نشاندہی کرنے والے ناموں میں حرافہ ، بدذات ، طوائف ، کال گرل ، لونڈا ، ہیجڑا ، زنخا وغیرہ ہی قابل تحریر ہیں ۔ اس ضمن میں ایک بات یہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کچھ الفاظ کے معنی زمانے کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں ۔ اس صورت میں اعتبار زمانی معنوں ہی کا ہوگا ۔ مثال کے طور پر بھڑوا در حقیقت مڈل مین کو کہتے ہیں جو کرایہ وصول کرتا ہے ۔ یہ لفظ شاید اپنی ابتدا میں اتنا معیوب نہ تھا لیکن آج یہ معیوب سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس لفظ کے استعمال کا فیصلہ آج کے معنوں کے لحاظ سے ہوگا ۔
5 ۔ کسی برے عمل سے منسوب کرنا جیسے شرابی ، زانی ، قاتل ، لٹیرا ، دہشت گرد ، چور وغیرہ ۔
6 ۔ کسی جانور سے منسوب کرنا جیسے کتا ، گدھا ، سور ، الو ، لومڑی ، بھیڑیا وغیرہ کہنا ۔
7 ۔ کسی غیر مرئی مخلوق سے منسلک کرنا جیسے شیطان ، چڑیل ، بھوت ، جن ، بدروح وغیرہ کہنا ۔
8 ۔ کسی برے روئیے سے منسوب کرنا جیسے مغرور ، بدخصلت ، لالچی ، بخیل ، ذلیل ، چمچہ ، کنجوس ، خود غرض ، فضول خرچ ، عیاش وغیرہ کہنا ۔
9 ۔ عمر کی بنیاد پر القاب بنانا جیسے کسی کو انکل ، آنٹی ، چچا ، ماموں ، ابا ، اماں ، باجی وغیرہ کہنا ۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں ۔ چنانچہ لوگوں مخاطب کرتے وقت ایسے القاب سے گریز کیا جائے جو ان کی عمر کی زیادتی کی علامت ہوں اور وہ اس سے چڑتے ہوں ۔
10 ۔ کسی کی چڑ بنالینا اور وقتاً فوقتاً اس چڑ سے اسے تنگ کرنا ۔
11 ۔ پیشے کی بنیاد پر القاب سے نوازنا جیسے کسی کو موچی ، بھنگی ، ڈنگر ڈاکٹر، ماسٹر،ہاری وغیرہ کہنا ۔
کسی کو عرف یعنی نک نیم سے پکارنا بالکل جائز نہیں ۔ برے لقب سے پکارنے کا گناہ سرزد ہونے کےلیے اوپر بیان کی گئی تینوں شرائط کا بیک وقت پورا ہونا لازمی ہے ۔ برے لقب سے مخاطب کرنے کا مقصد کسی کی عزت افزائی ہوتا ہے ۔ اگر نیت ایذا دینےکی نہ ہو اور سننے والے کو بھی لقب برا نہ لگے تو اس صورت میں کسی بھی لقب سے بلانا جائز ہے ۔ سنن ابو داؤد کی حدیث کے الفاظ ہیں ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9،چشتی)
ایک شخص بہت کالا ہے اور کلو کے لقب سے مشہور ہے ۔ اسے کوئی شخص طنز و تحقیر کی نیت سے مخاطب کرتا ہے ” ابے او کلو ! ذرا ادھر تو آ ۔ اس طرح کلو کہنا برے لقب سے مخاطب کرنا ہے کیونکہ مقصد تحقیر ہے ۔ رفعت نے منورہ کی چالاکی کو بیان کرنے کےلیے اسے لومڑی کہا ۔ یہ برے نام سے منسوب کرنے کا عمل ہے ۔ کسی خاتون نے اپنی کزن کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ” بھئی آج تو تم چاند لگ رہی ہو ۔ وہ سمجھی کہ اس نے چاند کہہ کر اس کا مذاق اڑایا ہے اور وہ برا مان گئی ۔ جبکہ اس کا چاند سے موسوم کرنا برے القاب سے پکارنے میں نہیں آتا کیونکہ نہ تو اس کی نیت تحقیر کی تھی ، نہ چاند کہنے میں کوئی برائی ہے ۔ جبکہ اس کی کزن کا برا ماننا ناحق ہے اور غلط فہمی کی وجہ سے ہے ۔ کسی نے مسلکی فرق کی بنا پر اپنے پڑوسی کو اس کی غیر موجودگی میں غلط طور پر “کافر” کہہ دیا ۔ یہ کلام غیبت بھی ہے اور اس میں برے لقب سے منسوب کرنے کا گناہ بھی شامل ہے ۔ اسکول میں بچوں نے ایک موٹے عینک والی بچی کو ” پروفیسر” کے لقب سے موسوم کر دیا جس سے وہ بچی چڑتی تھی ۔ بچی کو پروفیسر کہنا غلط لقب سے موسوم کرنے کے مترادف نہیں ہے ۔
مذکورہ بالا حصّہ اوّل اور دوم میں قرآن و احادیث کے دلائل اور آئمہ علیہم الرحمہ کی تصریحات سے واضح ہوا کہ کسی بھی مسلمان کا مذاق اڑانا ، عیب جوئی کرنا ، طعنہ زنی کرنا اور برے القاب یا ناموں سے پکارنا شرعاً حرام ہے ۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں پاکستانی سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماء کو چاہیے کہ وہ زبان و بیان کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں ۔ یہ لوگ عوام الناس کےلیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے : لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں ۔ اس لیے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماٸے ملت کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment