Monday, 7 August 2023

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور بے وفا کوفیوں کا شرمناک کردار

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور بے وفا کوفیوں کا شرمناک کردار
محترم قارئینِ کرام : دلخراش سانحہ کربلا سے قبل بھی کوفیوں کا کردار نہایت ہی شرمناک رہا تھا ۔ تاریخ اسلام جہاں ایک طرف ان وفا شعاروں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے خون جگر دے کر اسلام اور داعیان اسلام سے وفاداری نبھائی ۔ تو وہیں تاریخ اپنے دامن میں کچھ ایسے بد نما چہروں کو بھی چھپائے ہوئے ہے جن کے دامن غداری کے جُرمِ عظیم سے داغدار ہیں ۔ اسی نشیب و فراز میں اگر ”کوفی قوم“ کو تاریخِ اسلام کی سب سے غدار قوم قرار دیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو جنہوں نے ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہوئے ہر دور میں اپنے ہمدردوں اور وفاداروں کو کٹوانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے دارلخلافہ مدینہ سے کوفہ لے جانے سے ان سازشیوں کو کھل کر کھلنے کا موقع ملا ۔ بظاہر یہ سازشی حب علی کا لبادہ اوڑھے رہا کرتے تھے لیکن آپ کی ذات اطہر سے بھی الٹے سیدھے سوالات کرنا ان کا وطیرہ تھا ۔ ایک موقع پر ان لوگوں نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا ۔ مولا ! آپ سے پہلے کے خلفاء کے دور میں امن وامان تھا مگر آپ کے دور میں یہ کیوں عنقا ہے" اس گستاخانہ سوال پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان منافقوں کو منہ توڑ جواب دیا ۔ آپ نے فرمایا " اس بدامنی کی بنیادی وجہ یہ ہے کر سابقہ خلفاء رضی اللہ عنہم کے مشیر میرے جیسے لوگ تھے اور میرے مشیر آپ جیسے لوگ ہیں ۔ ان لوگوں کی ان ہی حرکتوں کے باعث حضرت علی رضی اللہ عنہ بالآخر اس طبقے سے بیزار رہنے لگے تھے ۔ جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی تو آپ اپنے والد محترم کے دور میں ان منافقوں کا بغور مشاہدہ کر چکے تھے اسی لئے آپ نے ان کو زیادہ منہ نہ لگایا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی ۔ اس صلح سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس صلح سے ان منافقوں کی سازشوں پر پانی پھر رہا تھا اس لیے اس صلح پر بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی پر اعتراض کرنے لگے ۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر خلافت میرا حق تھا تو یہ میں نے ان (معاویہ رضی اللہ عنہ) کو بخش دیا اور اگر یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا حق تھا تو یہ ان تک پہنچ گیا ۔ جن کوفیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہکو خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت تھی ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق 12000 اور دوسری روایت کے مطابق 18000 تھی لیکن جب جنگ کی نوبت آئی تو ان بے وفا اور دغا باز لوگوں میں سے کسی نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دیا اور کھڑے تماشا دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے اپنے جانثار ساتھیوں کے ہمراہ جام شہادت نوش فرمایا ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے غداری کی سزا ان کو ان ہی کے ہاتھوں قیامت تک ملتی رہے گی ۔ ان شا اللہ ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں بھی اکثریت کوفیوں کی ہی تھی ۔ اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا دارالحکومت مدینہ سے کوفہ منتقل کیا ۔ لیکن پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب ایک گروہ خوارج کی صورت میں آپ رضی اللہ عنہ کے لشکر سے جدا ہو کر آپ رضی اللہ عنہ کو موردِ الزام ٹھہرانے لگا اور جو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اپنے آپ کو شیعانِ علی کہا کرتے تھے وہ بھی علانیہ آپ رضی اللہ عنہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے لگے ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کسی بڑی جنگی کارروائی سے باز رہے ۔ نیز یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ”سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ“ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور پھر کچھ تاریخی روایات کے مطابق زہر دلوا کر شہید بھی کر دیا ۔

60 میں جب یزید لعین تخت نشین ہوا تو یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ”حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ“ کو ”18 ہزار“ خطوط لکھے اور یزید کے خلاف خروج پر آمادہ کیا ۔ اور پھر آپ رضی اللہ عنہ کے سفیر ”حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما“ کے ہاتھ پر پہلے ہی روز ”12 ہزار“ لوگوں نے بیعت بھی کر لی ۔ لیکن جب ”حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ“ نے خروج فرمایا تو غداران کوفہ عبید اللہ بن زیاد کے ساتھ مل گئے اور آخرکار میدان کربلا میں ”نواسہ رسول“ کو بھوکا پیاسا شہید کر دیا ۔

کوفیوں کی غداری فقط حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت تک محدود نہ رہی بلکہ چشمِ فلک نے غداران کوفہ ہی کی بدولت 71 ہ میں مقام جاثلیق میں ایک اور کربلا کا منظر دیکھا جب عبدالملک بن مروان ”حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ“ کی طرف سے مقرر شدہ گورنر کوفہ اور ان کے بھائی ”حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ“ کے مقابل آیا ۔ تو عین میدان جنگ میں کوفی ”حضرت مصعب رضی اللہ عنہ“ کا ساتھ چھوڑ کر عبدالملک کے ساتھ مل گئے ۔ اور ”حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما“ کے ساتھ میدان میں صرف سات آدمی رہ گئے ۔ اور بمثل کربلا مقام جاثلیق میں نواسہ رسول کی طرح نواسہ صدیق رضی اللہ عنہما بھی کوفیوں کی غدار کی بھینٹ چڑھ گئے ۔

حضرت سیدہ بی بی زینب کبریٰ رضی اللہ عنہ کا خطاب فرمایا : اما بعد ، اے اہل کوفہ ! اے غدارو ، اے مکارو ، ابےحیلہ بازو تم ہم پر گریہ کرتے ہواور خود تم نے ہم کو قتل کیا ہے ۔ ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا موقوف نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہمارا فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا اور تمہاری مثال اس عورت کی ہے جواپنے رسّہ کو مضبوط بٹتی اور پھر کھول ڈالتی ہے ۔۔۔ تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو حالانکہ خود تم ہی نے ہم کو قتل کیا ہے ۔ سچ ہے وﷲ ! لازم ہے کہ تم بہت گریہ کرو اور کم خندہ ہو ۔ تم نے عیب و عارِ ابدی خود خرید کیا ۔ اس عار کا دھبّہ کسی پانی سے تمہارے جامے سے زائل نہ ہو گا ۔ جگر گوشہ خاتم پیغمبران و سید جوانانِ بہشت کے قتل کرنے کا کس چیز سے تدارک کر سکتے ہو ! اے اہل کوفہ ! تم پر وائے ہو تم نے کن جگر گوشہ ہائے رسول کو قتل کیا اور کن باپردہ گانِ اہل بیت رسول کو بے پردہ کیا ؟ کس قدر فرزندانِ رسول کی تم نے خونریزی کی ، ان کی حرمت کو ضائع کیا ۔ تم نے ایسے بُرے کام کیے جن کی تاریکیوں سے زمین و آسمان گھر گیا ۔ (شیعہ کتب : جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۴-۵۰۳)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ۲۴۳مطبوعہ لندن،چشتی)

حضرت فاطمہ بنت امام حسین رضی اللہ عنہما نے اہل کوفہ کو لعن طعن کی ہے لکھا ہے : در و دیوار سے صدا ئے نوحہ بلند ہوئی اور کہااے دختر پاکان و معصومان ۔ خاموش رہو کہ ہمارے دلوں کو تم نے جلا دیا اور ہمارے سینہ میں آتش حسرت روشن کردی اور ہمارے دلوں کو کباب کیا ۔ (شیعہ کتاب : جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ۵۰۵)

حضرت ام کلثوم خواہر امام حسین رضی اللہ عنہما نے ہودج میں سے یہ تقریر فرمائی : اے اہل کوفہ !تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں!تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسینؓ کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کرکے مال و اسباب ان کا لوٹ لیا؟اور ان کی پردیگان عصمت و طہارت کو اسیر کیا؟وائے ہو تم پر اور *** ہو تم پر،کیا تم نہیں جانتے کہ تم نے کیا ظلم و ستم کیا ہے اور کن گناہوں کا اپنی پشت پر انبار لگایا اور کیسے خون ہائے محترم کو بہایا دخترانِ رسولِ مکرمؐ کو نالاں کیا؟ …… بعد اس کے مرثیہ سید الشہداء میں چند شعر انشاء فرمائے جس کے سننے سے اہل کوفہ نے خروش واویلا واحسرتا بلند کیا ۔ ان کی عورتوں نے بال اپنے کھول دیئے۔ خاک حسرت اپنے سر پر ڈال کے اپنے منہ پر طمانچے مارتی تھیں اور واویلا وا ثبورا کہتی تھیں اور ایسا ماتم برپا تھا کہ دیدۂ روزگار نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ (شیعہ کتب : جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ۵۰۵،۵۰۶،چشتی)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر۲ صفحہ ۲۴۶)

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا اہل کوفہ سے خطاب : میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں ! تم جانتے ہو کہ میرے پِدر کو خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی ۔ آخر کار ان سے جنگ کی اور دشمن کو ان پر مسلط کیا ۔ پس ۔۔۔۔ ہو تم پر ! تم نے اپنے پاؤں سے جہنم کی راہ اختیار کی اور بری راہ اپنے واسطے پسند کی ۔ تم لوگ کن آنکھوں سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف دیکھو گے جس روز وہ تم سے فرمائیں گے ۔ تم نے میری عزت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی ۔ کیا تم میری امت سے نہ تھے ۔ یہ سن کر پھر صدائے گریہ ہر طرف سے بلند ہوئی ۔ آپس میں ایک دوسرے سے کہتا تھا ہم لوگ ہلاک ہوئے ۔ جب صدائے فغاں کم ہوئی ، حضرت رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا اس پر رحمت کرے جو میری نصیحت قبول کرے سب نے فریاد کی کہ یا ابنِ رسول اللہ ! ہم نے آپ کا کلام سنا ۔ ہم آپ کی اطاعت کریں گے ۔۔۔۔ جو آپ سے جنگ کرے اس سے ہم جنگ کریں اور جو آپ سے صلح کرے اس سے ہم صلح کریں ۔ اگر آپ کہیئیآپ کے ستمگاروں سے آپ کا طلبِ خون کریں ۔ حضرت رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ ہیہات ہیہات !! اے غدّارو ! اے مکّارو ! اب پھر دوبارہ میں تمہارے فریب میں نہ آؤں گا اور تمہارے جھوٹ کو یقین نہ جانوں گا۔ تم چاہتے ہو مجھ سے بھی وہ سلوک کرو جو میرے بزرگوں سے کیا ۔ بحق خداوند آسمانہائے دوّار!میں تمہارے قول و قرار پر اعتماد نہیں کرتا اور کیونکر تمہارے دروغ بے فروغ کو یقین کروں ، حالانکہ ہمارے زخم ہائے دل ہنوز تازہ ہیں ، میرے پدر اور ان کے اہل بیت کل کے روز تمہارے مکر سے قتل ہوئے اور ہنوز مصیبت حضرت رسول و پدر و برادر و عزیزو اقرباء میں نہیں بھولا اور اب تک ان مصیبتوں کی تلخی میری زبان پر ہے اور میرے سینے میں ان محبتوں کی آگ بھڑک رہی ہے ۔ (شیعہ کتاب جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ۵۰۶،۵۰۷،چشتی)

ایک دوسری روایت میں ہے : فَقَالَ عَلِیُّ ابْنُ حُسَیْنِ بِصَوْتٍ ضَعِیْفٍءَ تَنُوْحُوْنَ وَ تَبْکُوْنَ لِاَجْلِنَا فَمَنْ قَتَلَنَا ۔ سیّد سجاد بآواز ضعیف فرمود،ہاں اے مردم بر ما گریند و برما نوحہ مے کنند۔پس کشندۂ ما کیست ؟ مارا کہ کشت و کہ اسیر کرد ۔ کہ امام زین العابدین نے کمزور آواز سے کہا تم ہم پر نوحہ و ماتم کرتے اور روتے ہو ۔ تو پھر ہم کو قتل کس نے کیا ہے تمہی نے تو کیا ہے ۔ (شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۲۴۳)

حضرت اُم کلثوم نے اہل کوفہ کی عورتوں کے رونے پر محمل پر سے کہا ۔ اے زنانِ کوفہ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا ہم اہلِ بیت کو اسیر کیا ہے پھر تم کیوں روتی ہو ؟ خداوند عالم بروز قیامت ہمارا تمہارا حاکم ہے ۔ (شیعہ کتب :جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحہ ۵۰۷)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ۲۴۸،چشتی)

یوں ہی 122 ہجری میں جب ہشام بن عبدالملک کی طرف سے یوسف ثقفی کوفہ کا گورنر تھا تو کوفہ میں ”15 ہزار“ لوگوں نے ”حضرت امام زید بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہم“ کے ہاتھ پر بیعت کی اور گورنر کوفہ کے خلاف خروج پر آمادہ کیا لیکن جب میدان کارزار میں تلوار چلانے اور مردانگی دکھانے کا وقت آیا تو بیعت فسخ کر کے گھروں کو چل دیے اور حضرت امام زید بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ میدانِ جنگ میں صرف 122 آدمی رہ گئے حضرت امام زید بن علی رضی اللہ عنہما کوفہ میں ایک ایک شخص کے گھر تک گئے اور اپنا کیا ہوا عہد و پیمان یاد دلایا لیکن کوفی جو کہ پہلے ہی ”کوفی لا یوفی“ مشہور تھے کسی نے جواب تک نہ دیا اور زید بن علی نے اسی وقت سے ان غداران کو ”رافضی“ کا خطاب دیا ۔ اور میدان جنگ میں جامِ شہادت نوش کر لیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ کوفہ سے اٹھنے والے غداران کا یہ گروہ ہمیشہ اسلام کےلیے آستین کا سانپ بنا رہا ۔ تاریخ شاہد ہے میدانِ کارزار میں معتصم باللہ کو تن تنہا چھوڑنے والا ابن علقمی ہو ۔ یا انگریز کے مقابلے میں سلطان سراج الدولہ سے غداری کا ارتکاب کرنے والا میر صادق ، ٹیپو سلطان کو میدان جہاد میں اکیلے چھوڑنے والا میر جعفر ہو یا مشرقی پاکستان کو پیچنے والا جنرل یحییٰ ۔ سب ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے والے بھیڑیے ہیں جو ہمیشہ ہی اپنے خونخوار دانتوں سے اسلام کے سینے کو چاک کرنے میں ملوث رہے ۔

داعیانِ اسلام کےلیے مقام فکر ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں ۔ اور ان تمام خونخوار درندہ نما انسانوں سے ہوشیار رہیں جو کسی بھی لمحے اسلام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے منزل کی طرف گامزن رہیں۔ جب متحد ہو کر ہمارے قدم منزل کی جانب اٹھیں گے تو وہ وقت دور نہیں جب منزل ہماری قدم بوسی سے باریاب ہو گی ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...