محبّتِ وطن قرآن و حدیث کی روشنی میں
محبتِ وطن قرآن کی روشنی میں : ⬇
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں : يٰـقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ کَتَبَ اﷲُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ ۔ (المائدة، 5: 21)
ترجمہ : اے قوم اس پاک زمین میں داخل ہو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے اور پیچھے نہ پلٹو کہ نقصان پر پلٹو گے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ۔ (إبراهيم، 14: 35)
ترجمہ : اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی اے میرے رب اس شہر کو امان والا کردے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کے پوجنے سے بچا ۔
اپنی اولاد کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنے کا مقصد بھی اپنے محبوب شہر کی آبادکاری تھا ۔ انہوں نے بارگاهِ اِلٰہ میں عرض کیا : رَبَّنَآ اِنِّيْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْيُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّيُمْ يَشْکُرُوْنَ ۔ (إبراهيم، 14: 37)
ترجمہ : اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے کچھ دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شاید وہ احسان مانیں ۔
سورہ توبہ کی درج ذیل آیت میں مَسٰکِن سے مراد مکانات بھی ہیں اور وطن بھی ہے : قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ ﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِيَ ﷲُ بِاَمْرِهِط وَﷲُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ۔ (التوبة، 9: 24)
ترجمہ : تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیاد ہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں محبتِ وطن کی نفی نہیں فرمائی صرف وطن کی محبت کو اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد پر ترجیح دینے سے منع فرمایا ہے ۔ لہٰذا اِس آیت سے بھی وطن سے محبت کا شرعی جواز ملتا ہے۔اس آیت مبارکہ میں چھ طرح کی دنیاوی محبتوں کا بیان ہے: (1) اولاد کی والدین سے محبت (2) والدین کی اولاد سے محبت (3) بیوی کی محبت (4) رشتہ داروں کی محبت (5) نوکری، کاروبار اور تجارت کی محبت (6) گھروں اور وطن کی محبت ۔ اگر یہ ساری محبتیں مل کر یعنی ان محبتوں کا total aggregate اور سب شدتیں مل کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد کی محبت سے بڑھ جائیں ، اللہ کے دین کی محبت سے بڑھ جائیں تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ایک categorical declaration ہے۔ لیکن اگر یہ تمام دنیاوی محبتیں اپنی limit میں ہیں اور غالب محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی ہے تو یہ ساری محبتیں بھی اُسی لافانی محبت کے تابع ہوجاتی ہیں ۔
اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں وطن سے ناحق نکالے جانے والوں کو دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے : اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُ ۔ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًاؕ-وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ۔ (الحج، 22: 39-40)
ترجمہ : پروانگی عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ اُن کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے ۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسا اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے ۔
اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل جب اپنی کرتوتوں کے باعث ذلت و غلامی کے طوق پہنے بے وطن ہوئے تو ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے نبی یوشع یا شمعون یا سموئیل علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے کوئی حاکم یا کمانڈر مقرر کر دیں جس کے ماتحت ہو کے ہم اپنے دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنا وطن آزاد کروائیں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم پر جہاد فرض کردیا جائے اور تم نہ لڑو؟ اِس پر وہ کہنے لگے : اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰىۘ-اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-قَالَ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْاؕ-قَالُوْا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآىٕنَاؕ-فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ ۔ (البقرة، 2: 246)
ترجمہ : اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو جو موسٰی کے بعد ہوا جب اپنے ایک پیغمبر سے بولے ہمارے لیے کھڑا کردو ایک بادشاہ کہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں ، نبی نے فرمایا کیا تمہارے انداز ایسے ہیں کہ تم پر جہاد فرض کیا جائے تو پھر نہ کرو بولے ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم نکالے گئے ہیں اپنے وطن اور اپنی اولاد سے تو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا منہ پھیر گئے مگر ان میں کے تھوڑے اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو ۔
مذکورہ بالا آیت میں وطن اور اولاد کی جدائی کروانے والوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے ۔
اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن ملنے پر شکر بجا لانے کی ترغیب دلائی ہے : وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَيَّدَکُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ (الأنفال، 8: 26)
ترجمہ : اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ملک میں دبے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لے جائیں تو اس نے تمہیں جگہ دی اور اپنی مدد سے زور دیا اور ستھری چیزیں تمہیں روزی دیں کہ کہیں تم احسان مانو ۔
درج بالا میں مذکور سات آیاتِ قرآنیہ سے وطن کے ساتھ محبت کرنے، وطن کی خاطر ہجرت کرنے اور وطن کی خاطر قربان ہونے کا شرعی جواز ثابت ہوتا ہے ۔
محبتِ وطن احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
احادیث مبارکہ میں بھی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں ، جن سے محبتِ وطن کی مشروعیت اور جواز کی مزید وضاحت ہوتی ہے ۔ حدیث ، تفسیر ، سیرت اور تاریخ کی تقریبا ہر کتاب میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ۔ ورقہ بن نوفل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر تین باتیں عرض کیں : آپ کی تکذیب کی جائے گی یعنی آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی ، آپ کو اذیت دی جائے گی اور آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا ۔ اِس طرح ورقہ بن نوفل نے بتایا کہ اعلانِ نبوت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
امام سہیلی علیہ الرحمہ نے الروض الأنف میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے : حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی الله عليه وآله وسلم وَطْنَهُ (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنے وطن کےلیے محبت) ۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خاموشی فرمائی ۔ ثانیاً جب اس نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ نہ کہا ۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فورا فرمایا : أَوَ مُخْرِجِيَّ ؟ کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں : فَفِيْ هٰذَا دَلِيْلٌ عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَی النَّفْسِ ۔ اِس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کتنی شاق تھی ۔ (الروض الأنف للسهيلی، 1: 413-414)(طرح التثريب فی شرح التقريب للعراقی، 4: 185،چشتی)
اور وطن بھی وہ متبرک مقام کہ اللہ تعالیٰ کا حرم اور اس کا گھر پڑوس ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محترم والد حضرت اسماعیل علیہ السلام کا شہر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلی دونوں باتوں پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں فرمایا لیکن جب وطن سے نکالے جانے کا تذکرہ آیا تو فوراً فرمایا کہ کیا میرے دشمن مجھے یہاں سے نکال دیں گے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سوال بھی بہت بلیغ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے الف اِستفہامیہ کے بعد واؤؔ کو ذکر فرمایا اور پھر نکالے جانے کو مختص فرمایا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واؤؔ سابقہ کلام کو ردّ کرنے کےلیے آتی ہے اور مخاطب کو یہ شعور دلاتی ہے کہ یہ اِستفہام اِنکار کی جہت سے ہے یا اِس وجہ سے ہے کہ اُسے دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گویا اپنے وطن سے نکالے جانے کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سب سے زیادہ شاق گزری تھی ۔ امام زین الدین العراقی علیہ الرحمہ نے بھی یہ سارا واقعہ اپنی کتاب ’طرح التثریب فی شرح التقریب جلد 4 صفحہ 185‘ میں بیان کرتے ہوئے وطن سے محبت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا : مَا أَطْيَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَيَّ ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُوْنِي مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَيْرَکِ ۔ (سنن الترمذی، 5: 723، رقم: 3926،چشتی)(صحيح ابن حبان، 9: 23، رقم: 3709)(المعجم الکبير للطبرانی، 10: 270، رقم: 10633)
ترجمہ : تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے ! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا ۔
یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صراحتاً اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے ۔
اِسی طرح سفر سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کےلیے جلدی فرماتے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ ، فَنَظَرَ إِلٰی جُدُرَاتِ الْمَدِيْنَةِ ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهِ ، وَإِنْ کَانَ عَلٰی دَابَّةٍ ، حَرَّکَهَا مِنْ حُبِّهَا ۔ (صحيح البخاري، 2: 666، رقم: 1787، مسند أحمد بن حنبل، 3: 159، رقم: 12644،چشتی)(سنن الترمذي، 5: 499، رقم: 3441)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے ، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے ۔
اِس حدیثِ مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے سواری کی رفتار تیز کر دیتے تھے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے : وَفِی الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلٰی فَضْلِ الْمَدِينَةِ، وَعَلٰی مَشْرُوعِيَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِيْنِ إِلَيْهِ ۔ (فتح الباری، 3: 621)
ترجمہ : یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت ، وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کےلیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کرتا رہوں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اُحد پہاڑ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ، یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا : اللّٰهُمَّ ! إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا کَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَکَّةَ ۔ اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا ۔ (صحيح البخاري، 3: 1058، رقم: 2732،چشتی)(صحيح مسلم، 2: 993، رقم: 1365)
ترجمہ : اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا ۔ اے اللہ ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مُدّ میں برکت عطا فرما ۔
یہ اور اس جیسی متعدد احادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے وطن مدینہ منورہ کی خیرو برکت کےلیے دعا کرتے جو اپنے وطن سے محبت کی واضح دلیل ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے : اے اللہ ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما ۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما ۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما ۔ اور مزید عرض کرتے : اللّٰهُمَّّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُکَ، وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ ۔ (صحيح مسلم، 2: 1000، رقم: 1373)
ترجمہ : اے اللہ ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے ، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کےلیے دعا کی تھی ۔ میں ان کی دعاٶں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کےلیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما) ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی چھوٹے بچے کو بلا کر وہ پھل دے دیتے ۔
وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ وطن کی مٹی بزرگوں کے لعاب اور رب تعالیٰ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں : انَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُولُ لِلْمَرِيضِ : بِسْمِ ﷲِ تُرْبَهُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفٰی سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا ۔ (صحيح البخاري، 5: 2168، رقم: 5413،چشتی)(صحيح مسلم، 4: 1724، رقم: 2194)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مریض سے فرمایا کرتے تھے : اللہ کے نام سے شروع ، ہماری زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو ، ہمارے رب کے حکم سے شفا دیتی ہے ۔
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کہ مکہ کے حالات کیسے ہیں؟ جواب میں اُس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ آنسؤوں سے تر ہو گئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لَا تُشَوِّقْنَا يَا فُلَانُ ۔ اے فلاں ! ہمارا اِشتیاق نہ بڑھا ۔ جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُسے فرمایا:دَعِ الْقُلُوْبَ تَقِرُّ ۔ (شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 288،چشتی)(السيرة الحلبية، 2: 283) ۔ دلوں کو اِستقرار پکڑنے دو (یعنی اِنہیں دوبارہ مکہ کی یاد دلا کر مضطرب نہ کرو) ۔
اِزالۂ اِشکال
وطن سے محبت کے حوالے سے ایک اِشکال کا اِزالہ بھی اَز حد ضروری ہے ۔ اِس ضمن میں بالعموم ایک روایت quote کی جاتی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں : حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ . وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے ۔
حالانکہ یہ حدیثِ نبوی نہیں ہے بلکہ من گھڑت (موضوع) روایت ہے ۔
امام صغانی نے اسے ’الموضوعات صفحہ 53 ، رقم : 81) میں درج کیا ہے ۔
امام سخاوی نے ’المقاصد الحسنۃ صفحہ 297) میں لکھا ہے : لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ، وَمَعْنَاهُ صَحِيْحٌ ۔ میں نے اس پر کوئی اطلاع نہیں پائی اگرچہ معناً یہ کلام درست ہے (کہ وطن سے محبت رکھنا جائز ہے)۔
ملا علی القاری نے ’المصنوع صفحہ91، رقم:106 ‘ میں لکھا ہے کہ حفاظِ حدیث کے ہاں اِس قول کی کوئی اَصل نہیں ہے ۔
ملا علی القاری نے ہی اپنی دوسری کتاب ’الأسرار المرفوعۃ في أخبار الموضوعۃ (ص:180، رقم:164)‘ میں لکھا ہے : قَالَ الزَّرْکَشِيُّ: لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ ۔ امام زرکشی کہتے ہیں : میں نے اِس پر کوئی اِطلاع نہیں پائی ہے ۔
وَقَالَ السَّيِّدُ مُعِيْنُ الدِّيْنِ الصَّفَوِيُّ: لَيْسَ بِثَابِتٍ ۔ سید معین الدین صفوی کہتے ہیں: یہ ثابت نہیں ہے (یعنی بے بنیاد ہے) ۔
وَقِيْلَ : إِنَّهُ مِنْ کَلَامِ بَعْضِ السَّلَفِ ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سلف صالحین میں سے بعضوں کا قول ہے ۔
اِسی لیے ملا علی القاری نے لکھا ہے : إِنَّ حُُبُّ الْوَطَنِ لَا يُنَافِيَ الْإِيْمَانَ ۔ (الأسرار المرفوعة في أخبار الموضوعة:181، رقم:164،چشتی) ۔ وطن سے محبت ایمان کی نفی نہیں کرتی (یعنی اپنے وطن کے ساتھ محبت رکھنے سے بندہ دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوجاتا) ۔
علامہ زرقانی ’الموطا‘ کی شرح میں لکھتے ہیں : وَأَخْرَجَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : أَصَابَتِ الْحُمَّی الصَّحَابَةَ حَتّٰی جَهِدُوا مَرَضًا ۔
ترجمہ : ابن اِسحاق نے الزہری سے روایت کی ہے ، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ بخار نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دبوچ لیا یہاں تک کہ وہ بیماری کے سبب بہت لاغر ہو گئے ۔
اس قول کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ زرقانی رقم طراز ہیں : قَالَ السُّهَيْلِيُّ : وَفِي هٰذَا الْخَبَرِ وَمَا ذُکِرَ مِنْ حَنِينِهِمْ إِلٰی مَکَّةَ مَا جُبِلَتْ عَلَيْهِ النُّفُوسُ مِنْ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِينِ إِلَيْهِ ۔ (شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 287-288،چشتی)
ترجمہ : امام سہیلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اِس بیان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکہ مکرمہ سے والہانہ محبت اور اشتیاق کی خبر ہے کہ وطن کی محبت اور اس کی جانب اِشتیاق اِنسانی طبائع اور فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے (اور اِسی جدائی کے سبب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیمار ہوئے تھے) ۔
قرآن حکیم کی سب سے معروف اور مسنتد لغت یعنی المفرادت کے مصنف امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’محاضرات الأدباء (2:652)‘ میں وطن کی محبت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے ۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : لَولَا حُبُّ الْوَطَنِ لَخَرَبَتْ بِلَادُ السُّوْء ۔ وَقِيْلَ : بِحُبِّ الْأَوْطَانِ عِمَارَةُ الْبُلْدَانِ ۔
ترجمہ : اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک تباہ و برباد ہو جاتے (کہ لوگ انہیں چھوڑ کر دیگر اچھے ممالک میں جا بستے ، اور نتیجتاً وہ ممالک ویرانیوں کی تصویر بن جاتے) ۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اپنے وطنوں کی محبت سے ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی ہوتی ہے ۔
اس کے بعد امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ایک شخص نے اپنا رزق کم ہونے کی شکایت کی تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے فرمایا : لَوْ قَنَعَ النَّاسُ بِأَرْزَاقِهِمْ قُنُوْعَيُمْ بِأَوْطَانِهِمْ ۔ کاش ! لوگ اپنے رِزق پر بھی ایسے ہی قانع ہوتے جیسے اپنے اَوطان (یعنی آبائی ملکوں) پر قناعت اختیار کیے رکھتے ہیں ۔
اِسی طرح جب ایک دیہاتی شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح دیہات کی سخت کوش اور جفاکشی و رِزق کی تنگی والی زندگی پر صبر کرلیتے ہیں تو اس نے جواب دیا : لَولَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی أَقْنَعَ بَعْضَ الْعِبَادِ بِشَرِّ الْبِلَادِ ، مَا وَسِعَ خَيْرُ الْبِلَادِ جَمِيْعَ الْعِبَادِ ۔ اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو پسماندہ مقامات پر قائل نہ فرمائے تو ترقی یافتہ مقامات تمام لوگوں کےلیے تنگ پڑ جائیں ۔
یعنی اگر سارے مقامی باشندے اپنے آبائی علاقوں کی پسماندگی و جہالت اور غربت و محرومیوں کے باعث ترقی یافتہ علاقوں کی طرف ہجرت کرتے رہیں تو ایک وقت آئے گا کہ ترقی یافتہ علاقے بھی گوناگوں مسائل کا شکار ہو جائیں گے اور اپنے رہائشیوں کےلیے تنگ پڑ جائیں گے ۔
اِس کے بعد امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ نے فَضْلُ مَحَبَّۃِ الْوَطَنِ (وطن سے محبت کی فضیلت) کے عنوان سے ایک الگ فصل قائم کرتے ہوئے لکھا ہے : حُبُّ الْوَطَنِ مِنْ طِيْبِ الْمَوْلِدِ ۔ وطن کی محبت اچھی فطرت و جبلت کی نشانی ہے ۔
مراد یہ ہے کہ عمدہ فطرت والے لوگ ہی اپنے وطن سے محبت کرتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے وطن کی نیک نامی اور اَقوامِ عالم میں عروج و ترقی کا باعث بنتے ہیں نہ کہ ملک کےلیے بدنامی خرید کر اس پر دھبہ لگاتے ہیں ۔
ابو عمرو بن العلاء علیہ الرحمہ نے کہا ہے : مِمَّا يَدُلُّ عَلٰی کَرَمِ الرَّجُلِ وَطِيْبِ غَرِيْزَتِهِ حَنِيْنُهُ إِلٰی أَوْطَانِهِ وَحُبُّهُ مُتَقَدِّمِي إِخْوَانِهِ وَبُکَاؤُهُ عَلٰی مَا مَضٰی مِنْ زَمَانِهِ ۔ (محاضرات الأدباء للراغب الأصفهانی، 2: 652)
ترجمہ : آدمی کے معزز ہونے اور اس کی جبلت کے پاکیزہ ہونے پر جو شے دلالت کرتی ہے وہ اس کا اپنے وطن کےلیے مشتاق ہونا اور اپنے دیرینہ تعلق داروں (یعنی اعزاء و اقربا ، رفقاء و دوست احباب اور پڑوسی وغیرہ) سے محبت کرنا اور اپنے سابقہ زمانے (کے گناہوں اور معصیات) پر آہ زاری کرنا (اور ان کی مغفرت طلب کرنا) ہے ۔
اِسی لیے بعض فلاسفہ کا کہنا ہے : فِطْرَةُ الرَّجُلِ مَعْجُوْنَةٌ بِحُبِّ الْوَطَنِ ۔
(محاضرات الأدباء للراغب الأصفهانی، 2: 652) ۔ فطرتِ اِنسان کو وطن کی محبت سے گوندھا گیا ہے (یعنی وطن کی محبت انسانی خمیر میں رکھ دی گئی ہے) ۔
ابن خبیر الاشبیلی (م502ھ) نے ’الفھرسۃ (ص:343، رقم:1006)‘ میں لکھا ہے کہ دوسری تیسری صدی ہجری کے معروف امام ابو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ علیہم الرحمہ (159-255ھ) نے وطن کی محبت پر ایک مکمل رسالہ لکھا ہے ، جس کا نام ہے : کتاب حب الوطن۔ ابن خبیر الاشبیلی (م502ھ) نے ’الفھرسۃ (ص:343، رقم:1006)‘ میں اس رسالے کی پوری سند کو بیان کیا ہے۔ 1982ھ میں یہ رسالہ لبنان کے دار الکتاب العربی سے الحنین إلی الأوطان کے عنوان سے طبع ہوچکا ہے۔ گویا مسلم محققین اوائل اِسلام سے ہی وطن سے محبت کے موضوع پر لکھتے آرہے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی سفر سے آتے تو مدینہ شریف کی اونچی منزلیں دیکھ کر خوش ہوتے اور اونٹنی تیزی سے اس کی طرف دوڑا دیتے تھے ، اور اگر کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اس کو حرکت دیتے ۔ (حوالہ اوپر گذر چکا ہے)
علامہ بدر الدین عینی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : یہ حدیث شریف مدینہ منورہ کی فضیلت اور وطن سے محبت اور اس کے اشتیاق کی مشروعیت پر بڑی واضح دلیل ہے ۔
حدثنا سعید بن ابی مریم قال أخبرنا محمد بن جعفر قال أخبرنی حمید أنہ سمع أنسا رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقول : کان رسول اللہ اذا قدم من سفر فأبصر درجات المدینۃ أوضع ناقتہ و ان کانت دابۃ حرکھا۔قال الحافظان العینی والعسقلانی : وفیہ دلالۃ علی فضل المدینۃ وعلی مشروعیۃ حب الوطن والحنۃ الیہ ۔ (عمدۃ القاری للعینی،وفتح الباری باب من اسرع ناقتہ اذا بلغ المدینۃ)
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے نکلے اور مکان جحفہ پہونچے تو آپ کو مکہ شریف کی جانب رغبت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی ’’ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد ۔ (بیشک جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمھیں پھیر جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو ۔ یعنی مکہ کی طرف)
حدثنا ابی حدثنا ابن ابی عمیرقال : قال سفیان فسمعناہ عن مقاتل منذ سبعین سنۃ عن الضحاک قال : لما خرج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من مکۃ فبلغ الجحفۃ اشتاق الی مکۃ ، فانزل اللہ تبارک و تعالیٰ علیہ القرآن (رادک الی معاد) الی مکۃ ۔ ( تفسیر ابن ابی حاتم، قولہ تعالیٰ: رادک الی معاد، ج ۹سورۃ القصص،چشتی)
ابن شھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اصیل غفاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر حجاب فرض ہونے سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے توآپ نے اصیل غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا مکہ کو کیسا پایا تو آپ نے بعض اوصاف بیان فرماۓ ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آئے اور آپ نے بھی پوچھا کہ مکہ کو تم نے کیسا پایا تو آپ نے کچھ اوصاف بیان کیے توآپ دل برداشتہ ہوئے اور فرمایا : اصیل بس کرو ہمیں مکہ شریف کے اوصاف بیان کر کے غمزدہ نہ کرو ۔
عن ابن شھاب قال قدم أصیل الغفاری قبل ان یضرب الحجاب علی أزواج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدخل علی عائشۃ رضی اللہ عنہا ، فقالت لہ : یا أصیل کیف عھدت مکۃ قال: قدأخصب جنابھا ، وابیضت بطحائہا قالت : أقم حتی یا تیک النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فلم یلبث أن دخل النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فقال لہ یاأصیل کیف عھدت مکۃ قال: واللہ عھدتھا قد أخصب جنابھا وابیضت بطحا ؤھا و أغدق اذ خرھا وأسلت ثمامھا و أمش سلمھا فقال : حسبک یاأصیل لا تحزنا ۔(أخبار مکۃ وما جاء فیھا من الآثار لابی الولید محمد بن عبد اللہ الازرقی ، تذکر النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و أصحابہ مکۃ،ج۲ص۱۵۵، دار الاندلس بیروت،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ہجرت فرماکر مکہ مکرمہ سے جانے لگے تو فرمایا کرتے تھے : اے مکہ توخدا کا شہر ہے تومجھے کس قدر محبوب ہے ، اے کاش تیرے باشندے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھ کو نہ چھوڑتا ۔ (جمع الفوائد:۱/۱۹۵)
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ کو وطن بنا لیا تو دعا میں فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ہمارے اندر مدینے کی اتنی محبت پیدا کر دے جتنی تونے مکہ کی محبت دی ہے ، مدینے کی آب وہوا درست فرما دے اور ہمارے لیے مدینے کے صاع اور مد (ناپنے کے پیمانے) میں برکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو (حجفہ مقام) کی طرف منتقل فرمادے ۔ (بخاری شریف:۱/۵۵۸،چشتی)
اس حدیث شریف سے وطن عزیز کی محبت کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے نیز اس کی اقتصادی ترقی اور آب و ہوا کی درستگی اور صحت و عافیت کی بحالی کی شدید رغبت بھی ظاہر ہوئی ہے ، اس لیے وطن کی محبت فطری تقاضابھی ہے اور شرعی بھی ۔
قرآن و حدیث اور تاریخِ اِسلام کے درج بالا صریح دلائل سے معلوم ہوا کہ وطن سے محبت ایک مشروع اور جائز عمل ہے کیونکہ یہ ایک فطری اور لازم امر ہے ۔
وطن سے محبت کے بغیر کوئی قوم آزادانہ طور پر عزت و وقار کی زندگی گزار سکتی ہے نہ اپنے وطن کو دشمن قوتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔ جس قوم کے دل میں وطن کی محبت نہیں رہتی پھر اُس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور وہ قوم اور ملک پارہ پارہ ہو جاتا ہے ۔ وطن سے محبت ہرگز خلافِ اِسلام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ملتِ واحدہ کے تصور کے منافی ہے ، کیونکہ ملتِ واحدہ کا تصور سرحدوں کا پابند نہیں ہے بلکہ یہ اَفکار و خیالات کی یک جہتی اور اِتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔ مصورِ پاکستان علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا ہے : ⬇
جہانِ تازہ کی اَفکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ہمیں اپنے وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے ۔ وطن سے محبت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمارے گفتار اور کردار میں بھی اس کی جھلک نظر آنی چاہیے ۔ ہمیں ایسے عناصر کی بھی شناخت اور سرکوبی کے اقدامات کرنے چاہییں جو وطنِ عزیز کی بدنامی اور زوال کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے حکمرانوں سے بھی چھٹکارے کےلیے جد و جہد کرنی چاہیے جو وطنِ عزیز کو لوٹنے کے درپے ہیں اور آئے روز اس کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے حکمرانوں سے نجات دلانے کی سرگرمِ عمل ہونا چاہیے جو اپنے وطن سے زیادہ دوسروں کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور وطنِ عزیز کی سلامتی کے درپے رہتے ہیں ۔ معاشرے کے اَمن کو غارت کرنے والے عناصر کو ناسور سمجھ کر کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اپنا بھر پور قومی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ وطن کا وقار ، تحفظ ، سلامتی اور بقا اِسی میں ہے کہ لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوں ۔ وطن کی ترقی اور خوش حالی اسی میں ہے کہ ہمیشہ ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے اور ہر سطح پر ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی کا قلع قمع کیا جائے ۔ معاشرے میں امن و امان کا راج ہو ۔ ہر طرح کی ظلم و زیادتی سے خود کو بچائیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں ۔ اللہ عزوجل اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ و طفیل ہمارے وطن کو تا قیامت سلامتی عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment